اپ بھرنش
اس پوسٹ میں آپ اپ بھرنش کے بارے میں پڑھیں گے جس کو ہند آریائی کا وسطیٰ ہندآریائی کا تیسرا دور کہا جاتا ہے اور مسعود حسین خان نے جدید ہند آریائی عہد کہا ہے۔
یہ دور500 ء سے 1000ء تک پر محیط ہے۔
اس عہد کو مسعود حسین خاں نے ہندآریائی کا عہدِ جدید کہاہےاور انھوں نے اس دور کو600ء سے 1000ء تک متعین کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔
” لسانیات کا یہ ایک اٹل اصول ہے کہ بول چال کی زبان جتنی تیزی سے بدلتی ہے ادب کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ چنانچہ جب پراکرتوں نے ادبی شکل اختیار کرنا شروع کی تو وہ عوام کی ڈگر سے پرے جاپڑیں اور عوام کی زبان کا دھارا آگے بڑھتا رہا۔ اسی بول چال کی زبانوں کو اس عہد کے قواعد نویسوں نے “اَپ بھرنش” (بگڑی زبان) کہا ہے۔”
اس کے معنی بھرشٹ یا مسخ شدہ کے ہیں ۔
اپ بھرنش سب سے پہلے شمال مغرب کی زبان میں ظاہر ہوتی ہے۔ کیتھ نے اپ بھرنش کو بنیادی طور سے اہیروں اور گوجروں سے متعلق کیا ہے۔ ڈاکٹر رام بلاس شرما نے بھاشا اور سماج میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اپ بھرنش شمال مغرب کی زبان ہے لیکن اس کی قواعد پورب کی ہے۔
ڈاکٹر رام بلاس شرما نے اپنی ہندی کتاب بھاشا اور سماج میں دعویٰ کیا ہے کہ اپ بھرنش بول چال کی زبان نہیں تھیں بلکہ مصنوعی زبانیں تھیں۔
مسعود حسین نے لکھا ہے:”شروع شروع میں لفظ اپ بھرنش کسی خاص زبان کے لیے استعمال نہ ہوتا تھا۔ پڑھے لکھے لوگ اَن پڑھوں کی زبان کو اَپ بھرشن” یا “اَپ بھاشا” کہا کرتے تھے۔ پتن جلی نے اپنی “مہابھاشیہ” میں اس لفظ کا ذکر ان معنوں میں کیا ہے۔”
زبان کے معنی میں اس کا پہلا استعمال بھامہ کے کاویہ النکار اور چنڈے کے پراکرت لکشٹم میں چھٹی صدی عیسوی میں ملتا ہے۔
ایک خاص زبان کے معنی میں سب سے پہلے ہیم ؔچند نے لفظ اَپ بھرنش استعمال کیا ہے۔(مقدمہ تاریخ زبان اردو)
اپ بھرنشی الفاظ پہلی بار بھرت کے ناٹیہ شاستر (300) میں ملتے ہیں۔
آٹھ سو عیسوی سے 1000ء تک دو آبہ کی شورسینی اپ بھرنش ایک طرح سے پورے شمالی ہندوستان کی ادبی زبان بن گئی تھی۔
اپ بھرنش کی تعداد کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ ذیل میں کچھ قدیم و جدید ماہرین کے خیال پیش کیے جاتے ہیں:۔
پراکرت کے بڑے عالم مارکنڈے نے اَپ بھرنش کی تین قسمیں بتائی ہیں:۔
ناگر اپ بھرنش: گجراتی اور راجستھانی کی قدیم بولیوں کی ادبی شکل
براچڈاَپ بھرنش: سندھ میں رائج
اُپ ناگر اپ بھرنش:
نواری نے ذیل کی سات اپ بھرنشیں فرض کی ہیں۔
شورسینی، پیشاچی، براچڈ، کھس، مہاراشٹری، ارد ماگدھی، ماگدھی
مسعود حسین خاں نے کہا
شورسینی، ماگدھی، اردھ ماگدھی، مہاراشٹری، شمالی مغربی ہندوستان کی اپ بھرنش (ابھی تک تاریخی دھندلکے میں ہیں۔جس میں براچڈ، کیکئی اپ بھرنش آتے ہیں۔)
اپ بھرنش کی چند خصوصیات
اس کے ذخیرہ الفاظ میں تدبھو الفاظ سب سے زیادہ ہیں، اس کے بعد دیسی اور پھر تت سم ابتدا میں تو تت سم بہت ہی کم تھے۔ بعد کی اپ بھرنش میں تت سم بھی دخل پاگئے۔ کچھ فارسی اور ترکی الفاظ بھی مسخ ہوکرآگئے۔
لفظ کے آخری مصوتے کے اختصار کا رجحان بہت بڑھ گیا۔
سنسکرت میں اسم کی حالتوں اور تعداد کی وجہ سے 24 روپ بن جاتے تھے۔ پراکرت میں 12 رہ گئے اور اپ بھرنش میں محض چھ۔
جنس محض دو
ڈ کا استعمال بڑھ گیا۔ موجودہ ہندوستانی زبان اور شورسینی اپ بھرنش کی درمیانی منزل کو بعض اوقات “اوہٹ” بھی کہا گیا ہے ۔ پندرھویں صدی کے میتھلی شاعروِدّیا پتی نے کیرتی لتا لکھی اور اپنی زبان کو اپ بھرنش نہ کہہ کر اوہٹھ ہی کہا ہے۔
Pingback: پراکرت دور Urdu Literature