آپ نظیر اکبرآبادی کی نظم “بنجارہ نامہ” پڑھیں اور اس کو سن بھی سکتے ہیں۔
نظم بنجارہ نامہ
نظیر اکبرآبادی
نظیر اکبرآبادی کی نظم “بنجارہ نامہ”مخمس کی ہئیت میں ہے یہ تیرہ بندوں پر مشتمل ہے۔
(1)
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا | قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا |
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو ئی پلا سر بھارا | کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا |
ٹک: تھوڑا سا، تھوڑی دیر کے لیے، ذرا سی دیر
ہوا: ارمان، آرزو، خواہش، تمنا، غرور تکبر، حرص
قزاق: ڈاکو، لٹیرا، راہزن، بٹ مار
قزاق اجل: موت کا فرشتہ ، ملک الموت، قابض ارواح
بدھیا: بیل(خَصی بیل)
گوئی: گائے
پلا: ٹاٹ کا بڑا تھیلا جس میں غلّہ وغیرہ رکھتے ہیں
سر بھارا: ایک وضع کا تھیلا جس کے سرے اٹکا کر پیٹھ پر لاد لیتے ہیں
ٹھاٹھ: شان و شوکت، دھوم دھام، زیب و زینت لادنا: بوجھ ڈالنا
بنجارا: خانہ بدوش ، غلّہ فروش، غلے کا سوداگر
(2)
گر تو ہے لکھّی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے | اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے |
کیا شکّر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے | کیا داکھ منقی ٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے |
لکھّی: لکھ پتی
کھیپ: کوئی مقداد جو میزان میں جمع کی جائے، خاص خاص اوقات پر اناج یا سوداگری کے مال کا لانا
گری: ناریل کا مغز
سانبھر: نمک جو سانبھر جھیل میں تیار کیا جاتا ہے کھاری: نمکین، کڑوا
داکھ: کشمش
(3)
یہ بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوئے گا | یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا |
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا | دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا |
ٹوٹا : تجارت میں نقصان
(4)
ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا/جنیا ڈیرا ڈانڈا ہے | زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے |
جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں بانڈا ہے | پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے |
ڈیرا: قیام گاہ، قرار گاہ
بھانڈا: مٹی کا برتن، اثاثہ، راز، بھید
کھانڈا: سیدھی دو رخی تلوار
بانڈا: خاک چھانتے پھرنے والا، گشت لگانے والے
نایک: سردار
ہانڈا: ہانڈی (ممکن)، ہانڈنا: آوارہ پھرنے والا مانڈا: ایک قسم کی پتلی روٹی جو میدے میں گھی ملا کر پکائی جاتی ہے
(5)
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری ڈھل جاوے گی | اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی |
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی | دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی |
گون: تھیلا
جنوائی: داماد
(6)
یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی | اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی/کھپنی |
کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی | کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چپنی |
کھپنی: نیست و نابود ہونی
چپنی: ڈھکن، ڈھکنی
(7)
یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل | اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل |
گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ | کیا چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل |
اٹاری: بالکنی، بالاخانہ
چوپار : کوٹھا۔ وہ کمرہ جس کے چار دروازے یا چاروں طرف کھڑکیاں ہوتی ہیں۔
خاصا: ایک قسم کا سوتی کپڑا جو ململ سے موٹا ہوتا ہے اور لٹھے سے پتلا ہوتا ہے نین سکھ: ایک قسم کا باریک سوتی کپڑا
(8)
کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر | جب پونجی بات میں بکھر ے گی پھر آن بنے گی جاں اوپر جب پونجی باٹ میں بکھر ے گی ہر آن بنے گی جاں اوپر |
نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر نقارے نوبت بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر | کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپّر کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر |
باٹ: راستہ ، پگڈنڈی
(9)
کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے | جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے |
کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے | کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے |
دونا: پتیلا، نیاز کی چیز جو دونوں میں لائی جاتی ہے
کناری: پتلا گوٹہ جو دو پٹوں وغیرہ کے کنارے پر عورتیں لگایا کرتی ہیں
عماری: ہاتھی کا ہودا جو اس کی پیٹھ پر بیٹھنے کے واسطے رکھتے ہیں
(10)
مغرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے | سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے |
کیا ڈبے موتی ہیروں کے کیا ڈھیر خزانے مالوں کے | کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے |
پٹا توڑ کر بھاگنا:جلدی سے بھاگنا، کافور ہونا، رفوچکر ہونا، فوراً چل دینا
بغچے : چھوٹی گٹھری، جامہ بند
تاش: ایک قسم کا زری کا کپڑا جس کا تار ریشم کا بانا بادلہ کا ہوتا ہے
مشجر: بیلداراور پھول دار کپڑا، درختوں کی شکل میں نقش کی ہوئی شے
(11)
کیا سخت مکاں بنواتا ہے کھم تیرے تن کا ہے پولا | تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا |
کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا | گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا |
کھم: کھمبا، ستون
پولا: اندر سے خالی، گھاس کا مُٹّھا
کوٹ:قلعہ کی دیوار
رَینی: چھوٹی دیوار جو قلعے کے گرد بناتے ہیں اور اس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ رکھتے ہیں
رند: دیوار قلعہ یا شہر پناہ کے دوموکھے جو غنیم پر اندر سے بندوقیں چلانے کے واسطے چھوڑ دیتے ہیں۔
رہکلہ: چھوٹی توپ
(12)
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن | ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن |
کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن | کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن |
دائی دوا: وہ لوگ جو حسب نسب میں ادنٰے ہوں اور شرافت کا دعویٰ کریں
تال: تالاب
(13)
جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا | کوئی اناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سئے اور ٹانکے گا |
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا | اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا |
آپ لوگ پڑھے نظیر اکبرآبادی کی نظم “بنجارہ نامہ” اب ساتھیوں تک پہنچائیں۔