پریم چند کا افسانہ : بدنصیب ماں
افسانہ “بدنصیب ماں” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل تیسرا افسانہ ہے۔ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے آپ سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے”پنڈت اجودھیا ناتھ کا انتقال ہوا تو سب نے کہا :”ایشور آدمی کو ایسی ہی موت دے۔
“اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے”اس کے تو کئی لڑکے بڑے بڑے ہیں اور سب کماتے ہیں”۔”ہاں سب ہے بھائی،مگر تقدیر بھی تو کوئی چیز ہے۔
اس افسانے میں کل پانچ ابواب ہیں۔
نچوڑ
اس افسانے میں پریم چند نے ایک عورت کی لاچاری، مجبوری وبےبسی کوموضوع بناکراس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھایاہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد، اس کے سگے بیٹوں کا سلوک اس کے ساتھ کس طرح بدل جاتا ہے، وہ اس کی تمام چیزوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ متی گھر کی مالکن سے نوکرانی بن جاتی ہے۔ اس افسانے میں اس کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے کہ دولت کی ہوس میں اولاد ماں کے ساتھ کس قدر ذلّت آمیز سلوک روا رکھتی ہے۔
خلاصہ
اس افسانے کا مرکزی کردار پھول متی ہے، جو اپنے پتی “پنڈت اجودھیاناتھ “کی وفات کے بعد خود کو بالکل تنہا محسوس کرتی ہے۔ ان کے پانچ بچے ہیں. جن میں ایک لڑکی اور چار لڑکے ہیں۔ بڑا بیٹا کامتا ناتھ جو دفتر میں پچاس روپئے تنخواہ پر کام کرتا ہے۔ دوسرا لڑکا اُما ناتھ ڈاکٹری پاس کرکے مطب کھولنے کی فکر میں ہے، تیسرا لڑکا دیا ناتھ جو بی۔اے فیل ،اخبار میں مضامین لکھ کر اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ اورچوتھا سب سےچھوٹا لڑکا سیتا ناتھ بی۔اے پاس کرکے ایم۔اے کی تیاری میں مصروف ہے۔ شوہر کے مرنے کے بعد پھول متی کی حیثیت اس گھر میں کم ہونے لگتی ہے۔ اس بات کا اندازہ پہلی دفعہ پھول متی کو اپنے شوہر کی میت کے تیرہویں کے موقع پر ہوا۔ جیسا کہ اس مکالمے سے ظاہر ہوتا ہے۔
“پھول متی تیز ہوکر بولی:”کس کی رائے سے آٹا کم کیا گیا؟
“ہم لوگوں کی رائے سے”
“تو میری رائے کوئی چیز نہیں ہے؟”
“ہے کیوں نہیں۔لیکن اپنا نفع نقصان تو ہم بھی سمجھتے ہیں۔”
تیرہویں کی دعوت کے موقع پر مہمان کے کھانے میں چوہیاں نکل آئی،لیکن کامناتھ اسے اتفاق کہہ کرجان چھڑا لیتا ہے۔ اور پھول متی بے بس آنسوں کا گھونٹ پی کررہ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ کسی نہ کسی بہانے سے ماں کی سبھی چیزوں زیور، روپیے پیسے پراپنا حق جتانےلگتے ہیں۔اجودھیاناتھ مرتے وقت بیس ہزار نقد چھوڑکرمرتا ہے جس کی ہوس میں سارے بھائی اپنی سگی بہن کُمد کا رشتہ جو مراری لال کے لڑکے سے پانچ ہزارمیں طے ہوا تھا اس سے رشتہ توڑ کربہن کی شادی ایک عمر رسیدہ شخص پنڈت دین دیال سے کردیتے ہیں جس کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ تھی۔ ماں اس رشتے سے بالکل بھی خوش نہ تھی لیکن بیٹوں کے آگے مجبور ہوکررہ گئ۔ جب مسئلہ زمین جائیداد کے بٹوارہ کا آتا ہے تو ماں چاہتی ہے کہ جائیداد میں بیٹی کوبھی حصہ ملے،اور چاروں بیٹے اس بات کو ماننے کے لئے قطعی تیار نہیں تھے۔ یہاں تک کہ ماں کو بے دخل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ قانون کا پاٹ پڑھاتے ہیں،تبھی ماں کہتی ہے”واہ رے اندھیر!،میں نے ہی درخت لگایا اورمیں ہی اس کا پتّا نہیں توڑ سکتی۔میں نے گھر بنوایا میں ہی اس میں نہیں رہ سکتی۔ اگر یہی قانون ہے تو اس میں آگ لگ جائے ۔اگر میں جانتی کہ میری یہ درگت ہونے والی ہے۔توساری جائیداد اپنے نام کرالیتی”۔
ایک سال گذرنے کے بعد ایک روز پھول متی اپنا کمرہ جو گھرمیں سب کمروں سے زیادہ وسیع اور ہوا دار تھا ،اس نے بڑی بہو کے لئے خالی کردیا اور خود ایک بھکارن کی طرح زندگی بسر کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہے۔ بس چوپایوں کی طرح کام کرنا اور کھانا یہی اس کی زندگی کے دو کام تھے۔ساون کی جھڑی لگی ہوئی تھی ملیریا پھیل رہا تھا،مہری اور کمہارن بیمار پڑ گئے تھے۔پھول متی گھر کا سارا کام کرتی اورساتھ ہی بڑے بیٹے کامتا ناتھ کے لئے گنگاجل بھی لاتی،ایک روزگنگا بڑھی ہوئی تھی،معلوم ہوتا تھا سمندر ہے،پھول متی کلسا لئے سیڑھیاں اترتی ہے کہ اچانک پاؤں کے پھسلنے سے بےقابو ہوکر گنگا میں ڈوب جاتی ہے ۔
افسانے کے کردار
کامتاناتھ (بڑا بیٹا) | پھول متی (ماں) | پنڈت اجودھیا ناتھ(باپ ) |
سیتا ناتھ(چوتھا اور سب سے چھوٹا) | دیاناتھ(تیسرا) | اماناتھ(دوسرا) |
مراری لال | پنڈت دین دیال | (بیٹی) کمد/ کملا |
اقتباسات
’’ایشورآ دمی کوایسی ہی موت دے ۔‘‘ چار جوان لڑ کے یادگار چھوڑے اور ایک لڑکی ۔ اثاثہ بھی کافی ۔ پختہ مکان ، دو باغ کئی ہزار کے زیور اور میں ہزار نقد ۔
کسی میں وہ لا ابالیاں نہ تھیں، نہ فضول خرچیاں ، نہ کم اندیشیاں جو والدین کو جلاتی ہیں اور خاندان کو تباہ کرتی ہیں ۔
اپنا نفع نقصان ۔ میں اپنا‘‘ کیا بلا ہے؟ اس کا وجود کب سے ہوا؟
گھر میں برف نہ تھی۔آدمی بازار دوڑا گیا۔ بازار میں اتنی رات گئے برف کہاں ، آدمی نا کام لوٹ آیا۔ مہمانوں کو وہی نل کا گرم پانی پینا پڑا۔
چھی! اس پھوہرین کی بھی کوئی حد ہے ۔ سارے مہمان اٹھے جار ہے ہیں ۔ نہ اٹھیں تو کیا کر یں ۔ آنکھوں سے دیکھ کر مکھی کون نکلے گا۔
لڑ کی قسمت والی ہوتو غریب گھر میں بھی رہ سکتی ہے ۔ بدنصیب ہو تو راجا کے گھر میں روتی رہے گی ۔ یہ تو نصیبوں کا کھیل ہے ۔
مجھے دھوکے کی چال مناسب نہیں معلوم ہوتی ۔ جس پر ہمارا حق ہے اس کے لیے ہم لڑ سکتے ہیں ۔ جس پر ہماراحق نہیں اس کے لیے ہم دھوکا دھڑی نہیں کر سکتے ۔“
تمھاراقانون بھاڑ میں جائے۔ ایسے قانون میں آگ لگے۔ میں ایسے لچر قانون کو نہیں مانتی۔ یہ قانون ہے کہ گلے پر چھری پھیرنا ہے ۔
قانون کا فولادی زرہ ان کی حفاظت کر رہا تھا۔ اس کچے لوہے کا ان پر کیا اثر ہوتا ۔
جن لڑکوں کو اس نے خونِ جگر پلا پلا کر پالا ،جن پر اسے اتناغر ورتھاوہی آج اسے یوں آنکھیں دکھا رہے ہیں ۔ واہ رے زمانے کی خوبی! اب اس گھر میں رہنا اسے عذاب معلوم ہوتا تھا۔ جہاں اس کی کچھ قدر نہیں ، کچھ گنتی نہیں ، وہاں لاوارثوں کی طرح پڑی روٹیاں کھائے۔ یہ اس کی خوددارطبیعت کے لیے حد درجہ گراں تھا مگر چارہ ہی کیا تھا۔
اس کے چہرے پر جو ایک خودداری کی جھلک نمایاں تھی اس کی جگہ ایک حسرت ناک بے بسی چھائی ہوئی نظر آتی تھی ۔ جہاں بجلی جلتی تھی وہاں اب تیل کا چراغ ٹمٹمار ہا تھا۔ جس کے بجھانے کے لیے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا کافی تھا۔
شریف خاندان کی لڑکی گھر والوں کی رضا میں راضی تھی ۔ تقدیر میں آرام لکھا ہوگا آرام کرے گی تکلیف لکھی ہوگی تکلیف اٹھائے گی ۔ گھر والوں نے جس سے شادی کر دی اس میں ہزار عیب ہوں تو یہی اس کا معبود ، اس کا مالک ۔ انحراف اس کے وہم و گمان سے باہر تھا ۔
اس کی زندگی میں کسی قسم کی ویسی کوئی آرزو کوئی فکر نہ تھی ۔ بس چوپایوں کی طرح کام کرنا اور کھانا ، یہی اس کی زندگی کے دو کام تھے ۔ جانور مارنے سے کام کرتا ہے، مگر کھا تا ہے دل سے ۔ وہ بے کہے کام کرتی تھی مگر کھاتی تھی زہر کے نوالوں کی طرح
گنگا بڑھی ہوئی تھی ۔ معلوم ہوتا تھا سمندر ہے۔افق پانی کے ساحل سے ملا ہوا تھا۔ کنارے کے درختوں کی صرف پھنگیاں پانی کے اوپر نظر آتی تھیں ۔ ’’ہاں سب میں بھائی ،مگر تقدیر بھی تو کوئی چیز ہے ۔‘‘