پریم چند کا افسانہ : شکوہ شکایت
افسانہ “شکوہ شکایت” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل پہلا افسانہ ہے۔ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے آپ سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغازاس جملے سے ہوتا ہے:”زندگی کا بڑا حصہ تواسی گھرمیں گزرگیا مگرکبھی آرام نہ نصیب ہوا”۔ اوراس کا اختتام اس جملے سے ہوتا ہے:ِ”قدم قدم پر گمراہ ہوجانے کے اندیشے ،ہر لمحہ چواوررہزن کا خوف،بلکہ شایدآج میں ان کی برائیوں کوخوبیوں سےتبدیل کرنے پربھی تیار نہیں”۔
نچوڑ
اس افسانے میں راوی ایک خاتون ہے جو اپنے شوہر کی شکایت کر رہی ہے، سب سے پہلے اس کے غیروں پرسخاوت، اور اپنوں سے بے نیازی کا ذکرکرتی ہے۔ نکمّے دکان داروں سے سامان خریدنے، ان کے دوست سونار کی چال بازی، دوستوں کی غربت، نکمّے خدمت گار، مہتری کو کوٹ دینا، جائے ملازمت پر رواداری، اور کنبہ پروری سے بیزاری ، اولاد کی تربیت میں سستی بلکہ بگڑنے کی تعلیم اور اخیر اپنے محبت کا اظہارکرتی ہے۔
خلاصہ
کہانی کی ابتدا ہی شکایتی انداز میں ہوتی ہے، بیوی اپنے شوہر سے بیزار ہے کیوں کہ اس کا شوہرسودا ایسی دکان سے اٹھا لاتا ہے جہاں کا سامان خراب ہوتا ہے، اور دوسرے گاہک بھول کر بھی نہیں جاتے جب وہ اپنے شوہر سے اس حوالے سلسلے میں پوچھتی ہے”آخر ٹٹ پونجیوں کی دکان پر جاتے کیوں ہیں؟ کیا ان کی پرورش کا ٹھیکہ تمہیں نے لیا ہے؟”تو اس کا شوہر جواب دیتا ہے “مجھے دیکھ کر بلانے لگتے ہے”۔
اس کے بعد بیوی کہتی ہے کہ وہ ایک بار اپنے شوہر سے چھپ کر زیور بنانا چاہتی ہے لیکن معلوم ہوتے ہی اپنے ساتھ پڑھے ہوئے سنار دوست کا حوالہ دیتا ہے، اس سے زیور بنانے کوکہتا ہے۔وہ بھی راضی ہو جاتی ہےلیکن انجام یہ ہواکہ برسوں کے پیہم تقاضوں کے بعد جب چیز بن کر آئی تو روپے میں آٹھ آنے تانبا اور اتنی بدنما کہ دیکھ کر گھن آتی تھی۔
بیوی آگے کہتی ہے کہ وہ سخی اور ہمدرد اتنے ہیں کہ دوسروں کے دکھ درد دور کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں اگر دوستوں کی مدد کے لیے اپنی بیوی کے زیور گروی رکھنے پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرتے،اور ان کی رحم دلی کا عالم تو یہ ہے کہ ایک بار نوکرکے چلنے جانے پر جلدی سے ایک بانگڑو کو پکڑ لاتے ہیں اوراس نکمّے نوکر کی ایسی خوبیاں بیان کی کہ اس کو کام پررکھ لیا لیکن اس نکمّے نوکر سے کوئی کام سلیقے سے نہیں ہوتا جب ان کو اپنی بیوی کے غصےکا اندازہ ہوااور نوکر کے سر پر خطرہ کی گھنٹی بجنے کا احساس ہوا تووہ خوداپنی بیوی سے چھپ کر سارا کام نفاست سے کردیا کرتے تاکہ بیوی خوش بھی ہوجائے اور نوکر کو ملازمت سے سبکدوش بھی نہ ہونا پڑے، لیکن آخری بیوی ایک دن ان کو کام کرتے دیکھ کر نوکر کی چھٹی کردیتی ہے۔
پھر بیوی مہترکے کپڑے کا سوال کرنے اور شوہر کے اپنے کوٹ دینے کے بارے میں بیان کرتی ہے کہ سردی کا موسم ہونے اور کپڑا نہ ہونے کے باوجود مہترکو اپنے کوٹ اتار کردیا میں بہت غصہ کی لیکن کچھ بھی نہ بنااور خود سردی جھیلتے رہے بالآخرکوٹ سلاکر دی۔
اس کے بعد بیوی بیان کرتی ہے کہ جناب جائے ملازمت پر جی حضوری کرنے ، افسروں کو سلام کرنے اور میل جول بنانے سے بھی رہے ، جس کے نتیجہ میں اس کو خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے۔
پھر بیوی کنبہ پروری کا رخ کرتی ہےاور شوہر کے بھائی سے روپیہ مانگنے اور پیسہ نہ آنے پر خود سے کھوکھلی حجت گڑھنے کی صراحت کرتی ہے۔
اس کے بعد تربیتِ اولاد کی بات آتی ہے ، تو اس میں بھی وہی حال ہے کہ صاحب کی چار اولاد دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں، لڑکے بڑے ہی بدمعاش ہیں لیکن یہ ان کی بدمعاشی سے بھی صرف نظر کرلیتا ہیں بلکہ ان کے ساتھ مل کر گولیاں اورکنکوے بھی کھیلتے ہیں، مزیدبرآں اس کی تعلیم دیتے ہیں ، پھر ایک دن کہہ ہی بیٹھی کہ آپ ان کی تربیت کریں نہ کریں ان کو بگاڑ کیوں رہے ہیں، اس طرح بچی کی شادی میں جہیز اور رسوم پر بھی اپنے شوہر کی شکایت کرتی ہے، اپنی بیٹی کی کنیادان بھی بیوی کرتی ہے۔
لیکن ان سب کمیوں کے باوجودبھی بیوی کو اپنے شوہر سے محبت ہے اس کو کچھ یوں کہتی ہے:۔
مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں ان سے ایک دن کے لئے بھی جدا نہیں رہ سکتی۔ ان سارے عیوب کے باوجود میں انہیں پیار کرتی ہوں۔ ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں۔ مجھے خود نہیں معلوم۔ مگر کوئی چیز ہے ضرور جو مجھے ان کا غلام بنائے ہوئے ہے۔ ۔۔۔۔بلکہ شاید آج میں ان کی برائیوں کو خوبیوں سے تبدیل کرنے پر بھی تیار نہیں۔
کردار
راوی: بیوی، شوہر، سنار، بانگڑو، مہتر، بھائی ، دو بچے؛(بڑا بیٹا:منو)، دو بچیاں
اہم اقباسات
دُنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزا آتا ہے جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کئے کئے ڈالتے ہوں۔ جو گھر والوں کے لئے مرتا ہے اس کی تعریف دُنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو ان کی نگاہ میں خود غرض ہے، بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور ہے، کور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کے لئے مرتے ہیں ان کی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔
آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہے، دو بار کھو کر سیکھتا ہے، مگر یہ بھلے مانس ہزار بار کھو کر بھی نہیں سیکھتے۔
یہ انکساری نہیں ہے۔ میں تو اسے زمانہ شناسی کا فقدان کہتی ہوں۔ آخر کیوں کوئی شخص آپ سے خوش ہو۔ دُنیا میں مروت اور رواداری سے کام چلتا ہے، اگر ہم کسی سے کھنچے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم سے نہ کھنچا رہے
میں سمجھ رہی ہوں یہ تمہید ہے۔ قصیدہ اب شروع ہو گا، گریز تو بری نہیں لیکن یہاں تمہید ہی خاتمہ ہوجاتی ہے
دو چار افراد بھلے ہی ایسے بیدار مغز نکل آئیں جو جہیز لینے سے انکار کریں لیکن اس کا اثر عام حالات پر کم ہوتا ہے اور برائی بدستور قائم رہتی ہے۔ جب لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لئے بھی بیس پچیس برس کی عمر تک کنواری رہنا بدنامی کا باعث نہ سمجھا جائے گا۔ اس وقت آپ ہی آپ یہ رسم رخصت ہو جائے گی۔
اس پوسٹ میں آپ نے پڑھا پریم چند کا افسانہ : شکوہ شکایت کا خلاصہ، اگر کچھ پھی فائدہ ہوا ہے تو دوسروں تک پہنچائیں۔
بہت عمدہ بھائی جی ۔
شکریہ
بہت بہت شکریہ
بہت بہت شکریہ