پریم چند کا افسانہ : قاتل کی ماں
افسانہ “قاتل کی ماں” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل تیرہواں افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے “رات کو رامیشوری سوئی تو کیا خواب دیکھتی ہےکہ ونود نے کسی آفیسر کومارڈالا ہے اورکہیں روپوش ہو گیا ہے “۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے ” اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے نکلے اور آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں “۔
اس افسانے میں چار حصے ہیں۔
نچوڑ
اس افسانے میں ماں کی ممتا اور فرض کے درمیان کے تصادم کو پیش کیا گیا ہے ۔ رامیشوری کا اکلوتا بیٹا ونود جب سارجینٹ کا قتل کرتا ہے تو رامیشوری اسے بچانے کے بجائے اسے سزا دلوانا کا مصمم ارادہ کرلیتی ہے اور اسی ارادہ سے کچھیری جاکر گواہی بھی دیتی ہے تاکہ اس کے بیٹے کی گناہ کی سزا کسی بے گناہ کو نہ ملے۔
خلاصہ
رامیشوری اس افسانےکا مرکزی کردار ہے ۔وہ ایک رات خواب دیکھتی ہے کہ اس کا بیٹا ونود ایک انگریز افسر کا خون کرکے روپوش ہوگیا ہے۔ اور پولیس نے اس کی تلاش میں کئی بے گناہوں کو قید کر لیا ہے۔ صبح رامیشوری ونود سے اپنے خواب کا ذکر کرتی ہے جس پران دونوں کے درمیان گفتگو بھی ہوتی ہے۔اور رامیشوری بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ “میں تو چاہتی ہوں کہ تم ایسے کاموں کے نزدیک ہی نہ جاو”۔ اور ونود یہ کہتا ہوا گھر سے نکل جا تا ہے۔”میں مصیبت سے نہیں ڈرتا۔ابھی کون سا بھوگ رہی ہو جو مصیبتوں سے ڈریں۔” اورآخرکاررامیشوری کا خواب بھی سچا ثابت ہوجاتا ہے۔ اس مقام پر افسانے میں رامیشوری کے اندر کی ممتا اور انصاف کے درمیان قلبی تصادم دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنےخونی بیٹے کو جو کہ چھپ کر اس سے ملنے آتا ہے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا مشورہ بھی دیتی ہے۔ لیکن وہ غصہ ہو کر چلا جا تا ہے رامیشوری سات دن اپنی ممتا اور فرض کے درمیان قلبی کشمکش کا شکار رہتی ہے اور آخر کا ر آٹھویں دن ماں کی ممتا کو دل میں دفن کر کے فرض ادا کرنے کا عظم لے کر کچھیری پہنچتی ہے۔ جہاں سارجینٹ کے خون کے الزام میں نو دس نوجوانوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر پیش کیا گیا ۔ اور رامیشوری نے کچھیری میں جج کے سامنے اپنے بیٹے کے گناہ کا اقرار کیا کہ اس کے بیٹے نے ہی سارجینٹ کا قتل کیا ہے ۔ رامیشوری چاہتی تھی کہ بے گناہ سزا سے بچ جائے ۔ لیکن عین وقت بھیڑ سے ایک نوجوان لڑکا نکلتا ہے اور وہ رامیشوری کےسینے میں خنجر اتار دیتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں اس کا سپوت ونود تھا۔
افسانے کے کردار
رامیشوری
ونود
اہم نکات
ونود نے چھاونی میں آفسر کو گولی سے نشانہ لگا کر مار دیا تھا۔
ونود نے پولیس سارجینٹ کو ماردیا تھا۔
سارجینٹ کے قتل کے الزام میں نو دس بے گناہوں کو گرفتار کیا گیا تھا ۔
اہم اقتباسات
” میں اسے بچنا نہیں کہتی ۔ مجرم تو منہ چھپا کر بھاگ جائے اور بے گناہوں کو سزا ملے ۔تم خونی ہو۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری کوکھ سے ایسا سپوت پیدا ہوگا ورنہ پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دیتی ۔اگر مرد ہے تو جا کر عدالت میں اپنا قصور تسلیم کر لے ورنہ ان بے گناہوں کا خون بھی تیرے سر پر ہوگا۔‘‘
جوں جوں اندھیرا ہوتا جاتا تھا اس کی جان خشک ہوتی جاتی تھی ۔ اس پر دائیں آنکھ بھی پھڑکنے لگی ۔ خیالات اور بھی خوف ناک صورت اختیار کرنے لگے۔ کوئی دیوی یا دیوتا نہ بچا جس کی اس نے منت نہ مانی ہو۔ کبھی صحن میں آ کر بیٹھ جاتی ۔کبھی دروازے پر جا کر کھڑی ہوتی ۔ اس کا دل کسی خوف زدہ طائر کی مانند بھی نشیمن میں آ بیٹھتا اور بھی شاخ پر ۔ کھانا پکانے کا خیال کسے تھا۔ بار بار یہی سوچتی: “بھگوان میں نے ایسا کیا قصور کیا ہے جس کی سزا دے رہے ہو۔ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہوتو معاف کرو۔ میں تو خود ہی مصیبت زدہ ہوں ، اب اور برداشت کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے ۔ “
”تمھارے کہنے سے میں خونی نہیں ہو جا تا ۔ اورلوگ یہی کام کرتے ہیں تو لیڈر ہو جاتے ہیں،ان کی جے کار ہوتی ہے،لوگ ان کی پوجا کرتے ہیں ۔میں نے کیا تو ہتیارا ہو گیا۔”
جو دوسروں کی ہتیا کرتے ہیں وہ تمام کے تمام ہتیارے ہیں ۔ تیری ماں ہو کر میں بھی پاپ کی حصے دار ہوگئی ۔میرے منہ پر بھی سیاہی لگ گئی ۔لیڈر وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے مرتے ہیں ۔ جو دوسروں کی حفاظت کرے وہی بہادر اورسورما ہے۔ انھیں کا جنم مبارک ہے ، انھیں کی مائیں خوش نصیب ہیں ۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو خون کر کے اپنی بڑائی کر رہا ہے ۔”
افسانہ مایئ پر تبصرہ