سعادت حسن منٹو کا افسانہ : گولی کا خلاصہ
افسانہ “گولی” سعادت حسن منٹو کا افسانوی مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل دوسرا افسانہ ہے، جو 23جولائی 1950ءکو لکھا گیا۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے “شفقت دوپہرکو دفتر سے آیا تو گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ عورتیں تھیں جو بڑے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ “۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے “شفقت نے ایسا محسوس کیا کہ اسے زبردست گولی لگی ہے اور وہ مرکر اپنی بیوی کی آغوش میں دفن ہو گیا ہے۔ “۔
نچوڑ
سعادت حسن منٹو نے اس افسانے میں عورت کی نفسیات کی جانب اشارہ کیا ہےکہ خاص طور پربرصغیرکی ایک عورت معذور کے تئیں ہر طرح کے دلی جذبات رکھ سکتی ہے، لیکن اس کو اپنا سوت نہیں بنا سکتی۔اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم کسی کے تئیں جذبہ تو رکھ سکتے ہیں لیکن جب قربانی دینے کی بات آتی ہے یا اپنے حقوق سے دستبردار ہونا ہوتا ہے تو سارے جذبات مدھم پڑ جاتے ہیں۔
خلاصہ
اس افسانے میں شفقت اور عائشہ میاں بیوی ہیں، ایک دن شفقت گھر آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں معلوم کرتا ہے تو عائشہ بتاتی ہے کہ شفقت کے والد کے دوست عزیزچچا جو افریقہ میں رہتے ہیں ان کی اہلیہ اور ان کی دو بیٹیاں طلعت اور نِگہت رشتہ کی تلاش میں آئے ہیں اور بڑے کمرے میں بیٹھے ہیں۔
چچی کے بلانے پر شفقت جاتا ہے تو طلعت افریقہ کے پھل کی اچھائی اور ہندوستان کے پھل کی برائی بیان کی اورشفقت یہ کہتے ہوئے ہندوستان کی آبروبچانا چاہی” جی نہیں، بڑے اچھے پھل ملتے ہیں، بشرطیکہ موسم ہو۔” لیکن طلعت کہاں خاموش رہنے والی تھی اور طلعت کی امی نے بھی اس کی تائید کی اس کے بعد باتونی طلعت اپنی خودسرائی میں لگی ہوئی تھی لیکن نِگہت خاموش اور سنجیدہ بیٹھی ہوئی تھی، شفقت نے اس کو چھیڑا کہ آپ کو دلچسپی نہیں ہے؟ آپ اتنی خاموش کیوں ہیں ؟ تو نِگہت نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، میں دلچسپی سے آپ لوگوں کی گفتگو سن رہی تھی ، پھر شفقت نے نگہت کو مخاطب کرکے کہاکہ چلیں میں آپ کو البم دیکھاتا ہوں، لیکن عائشہ اس کے ہاتھ کو دبائی اور آنکھ سے اشارہ کی لیکن وہ سمجھا نہیں اور طلعت اس کے ساتھ البم دیکھنے چلی گئی وہ اس کو دکھا رہاتھا اور اس کا ذہن عائشہ کے اشارے پر تھا۔ طلعت البم دیکھ کر بولی کہ باجی کو تصویریں جمع کرنے کا بہت شوق ہےاوروہ البم لے کر نِگہت کے پاس پہنچی، شفقت آیا تو دیکھا کہ بہت لگن سے تصویریں دیکھ رہی تھی اور دیکھنے کے بعد طلعت نے شکریہ ادا کیا۔
رخصت کے وقت عزیز کی بیوی نے شفقت کو دعا دی اورعائشہ سے گلے ملی، اور طلعت کے ساتھ مل کر نگہت کو اٹھائےتب شفقت پر ظاہر ہوا کہ نِگہت کے جسم کا نصف حصہ مفلوج ہےوہ اپنے برتاؤ پرنادم تھا، اس کے بارے میں سوچتا رہا پھر دوستوں کے ساتھ تاش میں لگ کر سب بھول گیا پھرشام میں عائشہ سے اس پر گفتگو کہ تو عائشہ نے بھی ہمدردی کااظہار کیا۔ شفقت نے کہاکہ اس کو کون اپنائے گا پوری زندگی ایسے ہی رہنا پڑے گا عائشہ نے کہاہاں مرد وں کے دل میں رحم کہاں؟
شفقت کو لگا کہ عائشہ کے دل میں نِگہت کےتئیں بہت ہمدردی ہےتو شفقت نے عائشہ کی تعریف کرتے ہوئے اس سے اپنی خواہش کااظہار کیاتو تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر ایک دم جیسے گولہ سا پھٹا “شفقت صاحب میں گولی مار دوں گی اُسے اگر آپ نے اس سے شادی کی !”۔
شفقت نے ایسا محسوس کیا کہ اسے زبردست گولی لگی ہے اور وہ مرکر اپنی بیوی کی آغوش میں دفن ہو گیا ہے ۔
افسانے کے کردار
شفقت
عائشہ (شفقت کی بیوی
عزیز چچا کی اہلیہ
نِگہت (عزیز چچا کی بڑی بیٹی)
طلعت (عزیز چچا کی چھوٹی بیٹی)
اہم اقتباات
” عزیز صاحب افریقہ ہی میں ہیں، لیکن ان کی بیوی اپنی لڑکی کی شادی کرنے آئی ہیں۔ کوئی اچھا بر ڈھونڈ رہی ہیں۔”
طلعت بہت باتونی تھی۔ افریقہ سے اس کو عشق تھا ۔ وہاں کی ہر چیز اس کو پسند تھی۔ بڑی جس کا نام نگہت تھا بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ اس نے گفتگو میں کوئی حصہ نہ لیا۔
ان کی شادی کو قریب قریب چھ برس ہو گئے تھے ، مگر اس دوران میں کوئی بچہ نہ ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ عائشہ میں کچھ قصور ہے جو صرف آپریشن سے دور ہو سکتا ہے
عائشہ نے بھی آہ بھری اور بڑے افسوسناک لہجے میں کہا ۔”تین برس کی ننھی منی بچی تھی کہ تپ محرقہ ہوا۔ نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔”
اہم اقتباسات
پھلوں کا ذکر چھیڑا تو چھوٹی نے کہا : “یہاں ہندوستان میں تو نہایت ہی ذلیل پھل ملتے ہیں ۔”
“جی نہیں، بڑے اچھے پھل ملتے ہیں، بشرطیکہ موسم ہو۔
”آپا ایک پھل ہے، مالٹے اور میٹھے کی طرح–– اتنا لذیذہوتا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتی ––اور رس ––ایک نچوڑئیے––یہ گلاس جو تپائی پر پڑا ہے ،لبالب بھر جائے۔ “
چچی جان اس عمر میں لڑکیوں کو خاموشی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہو۔ ۔۔۔۔۔۔”جناب آپ کو بولنا پڑے گا ۔”
اس کا چہرہ جو پہلے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی کی دھند میں لیٹا تھا۔ اب بشاش تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ تصویریں جو آرٹ کا بہترین نمونہ تھیں اس کو راحت بخش رہی ہیں ۔ اس کی آنکھوں میں اب چمکی تھی ۔
اس کے دماغ میں کھد بد ہو رہی تھی۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ کوئی بہت بڑا اسرار اس لڑکی کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس نے سوچا ، شاید کوئی نامکمل رومان ہو یا کوئی نفسیاتی حادثہ۔
سارا اسرار اس پر واضح ہو گیا تھا۔ سب سے پہلا خیال اس کے دماغ میں یہ آیا۔ “قدرت کیوں اتنی بے رحم ہے ––ایسی پیاری لڑکی اور اس کے ساتھ اس قدر ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک ––اس معصوم کا آخر گناہ کیا تھا جس کی سزا اتنی کڑی دی گئی ؟”
مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ہے کہ تم بہت بلند خیال عورت ہو۔ آج تم نے میرے اس خیال کو ثابت کر دیا ہے ––میں نے ––خدا میرے اس ارادے کو استقامت بخشے ––
*****