پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل ساتواں افسانہ “نئی بیوی”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
نئی بیوی
منشی پریم چند
(1)
ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتارہتا ہے۔اس نئے خون پر زندگی قائم ہے۔ دنیا کے قدیم نظام میں ،یہ نیا پن اس کے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں، تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے اور یہ سوسال کی بڑھیا آج بھی نئی دلہن بنی ہوئی ہے۔
جب سے لالہ ڈنکامل نے نئی شادی کی ہے ان کی جوانی از سرنوعود کر آئی ہے۔ جب پہلی بیوی بقید ِحیات تھی وہ بہت کم گھر رہتے تھے ۔ صبح سے دس گیارہ بجے تک تو پوجا پاٹ ہی کرتے رہتے تھے۔ پھر کھانا کھا کر دکان چلے جاتے ۔ وہاں سے ایک بجے رات کولوٹتے اور تھکے ماندے سوجاتے۔ اگر لیلا کبھی کہتی کہ ذرا اور سویرے آجایا کرو تو بگڑ جاتے؛” تمہارے لیے کیا دکان بند کر دوں یا روزگار چھوڑ دوں۔ یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ ایک لوٹا جل چڑھا کر لکشمی کو خوش کر لیا جائے۔ آج کل لکشمی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑ نا پڑتا ہے، تب بھی ان کا منہ سیدھا نہیں ہوتا۔‘‘لیلا بیچاری خاموش ہو جاتی۔
ابھی چھ مہینے کی بات ہے ۔ لیلا کو زور کا بخار تھا۔ لالہ جی دکان پر چلنے لگے تو لیلا نے ڈرتے ڈرتے کہا:” دیکھو میری طبیعت اچھی نہیں ہے۔ ذراسویر ے آ جانا۔”
لالہ جی نے پگڑی اتار کر کھونٹی پر لٹکا دی اور بولے: ”اگر میرے بیٹھے رہنے سے تمھارا جی اچھا ہو جائے تو میں دکان نہ جاؤں گا۔”
لیلا رنجیدہ ہوکر بولی: میں یہ کب کہتی ہوں کہ تم دکان نہ جاؤ۔ میں تو ذرا سویر ے آ جانے کو کہتی ہوں۔“
تو کیا میں دکان پر بیٹھ کر موج کرتا ہوں؟”
لیلا کچھ نہ بولی ۔شوہر کی یہ بے اعتنائی اس کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی ۔ادھر کئی دن سے اس کو دلدوز تجر بہ ہور ہا تھا کہ اس گھر میں اس کی قدر نہیں ہے ۔ اگر اس کی جوانی ڈھل چکی تھی تو اس کا کیا قصور تھا۔ کس کی جوانی ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔ لازم تو یہ تھا کہ پچیس سال کی رفاقت اب ایک گہرے روحانی تعلق میں تبدیل ہو جاتی ، جو ظاہر سے بے نیاز رہتی ہے، جو عیب میں بھی حسن دیکھنے لگتی ہے ، جو پکے پھل کی طرح زیادہ شیر یں ، زیاد ہ خوشنما ہو جاتی ہے۔ لیکن لالہ جی کا تاجر دل ہر ایک چیز کو تجارت کے تراز و پر تولتا تھا ۔ بوڑھی گائے جب نہ دودھ دے سکتی ہو نہ بچے تو اس کے لیے گئوشالہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ۔ ان کے خیال میں لیلا کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ گھر کی مالکن بنی رہے ۔ آرام سے کھائے پیے اور پڑی رہے ۔اسے اختیار ہے چاہے جتنے زیور بنوائے، چاہے جتنی خیرات اور پوجا کرے۔ روزے رکھے صرف ان سے دور رہے ۔فطرت انسانی کی نیرنگیوں کا ایک کرشمہ ہی تھا کہ لالہ جی جس دلجوئی اور حظ سے لیلا کومحروم رکھنا چاہتے تھے خوداس کے لیے ابلہانہ سرگرمی سے متلاشی رہتے تھے ۔ لیلا چالیس کی ہو کر بوڑھی سمجھ لی گئی تھی مگر وہ پینتالیس سال کے ہو کر ابھی جوان تھے۔ جوانی کے ولولوں اور مسرتوں سے بے نیاز لیلا سے اب انھیں ایک طرح کی کراہت ہوتی تھی اور وہ غریب جب اپنی خامیوں کے حسرت ناک احساس کی وجہ سے فطری بے رحمیوں کے ازالے کے لیے رنگ وروغن کی آڑ لیتی تو وہ اس کی بوالہوسی اور بھی منتفر ہو جاتے ۔ چہ خوش ! سات لڑکوں کی تو ماں بن گئی ، بال کھچڑی ہو گئے اور چہرہ دھلے ہوئے فلالین کی طرح پرشکن ہو گیا ،مگر آپ کو ابھی مہاور اور سیندور مہندی اور ابٹن کی ہوس باقی ہے ۔عورتوں کی بھی کیا فطرت ہے! نہ جانے کیوں آرائش پر اس قدر جان دیتی ہیں ۔ پوچھو اب تمھیں اور کیا چاہیے؟ کیوں نہیں دل کو سمجھالیتیں کہ جوانی رخصت ہوگئی اور ان تدبیروں سے اسے واپس نہیں بلایا جاسکتا۔ لیکن وہ خود جوانی کا خواب دیکھتے رہتے تھے۔ طبیعت جوانی سے سیر نہ ہوتی ۔ جاڑوں میں کشتوں اور معجونوں کا استعمال کر تے رہتے تھے ۔ ہفتہ میں دوبار خضاب لگاتے اور کسی ڈاکٹر سے بندر کے غدودوں کے متعلق خط و کتابت کر رہے تھے ۔
لیلا نے انھیں شش و پنج کی حالت میں کھڑاد یکھ کر مایوسانہ انداز سے کہا:
” کچھ بتلا سکتے ہو، کتنے بجے آؤ گے؟‘‘
لالہ جی نے ملائم لہجے میں کہا: ”تمھاری طبیعت آج کیسی ہے؟‘‘
لیلا کیا جواب دے؟ اگر کہتی ہے بہت خراب ہے تو شاید یہ حضرت یہیں بیٹھ جائیں اور اسے جلی کٹی سنا کر اپنے دل کا بخار نکالیں ۔ اگر کہتی ہے اچّھی ہوں تو شاید بے فکر ہو کر دو بجے رات کی خبر لائیں ۔ ڈرتے ڈرتے بولی:’’ اب تک تو اچھی تھی لیکن اب کچھ بھاری ہورہی ہے۔ لیکن تم جاؤ، دکان پر لوگ تمھارے منتظر ہوں گے مگر ایشور کے لیے ایک دو نہ بجا دینا لڑ کے سو جاتے ہیں، مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا،طبیعت گھبراتی ہے ۔“
سیٹھ جی نے لہجے میں محبت کی چاشنی دے کر کہا: ’’بارہ بجے تک آ جاؤں گا ضرور !‘‘ لیلا کا چہرہ اتر گیا: ’دس بجے نہیں آ سکتے ؟‘‘
ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے کسی طرح نہیں ‘‘
’’ ساڑھے دس بجے بھی نہیں؟‘‘
’’اچھا گیارہ بجے ‘‘
گیارہ پر مصالحت ہوگئی ۔ لالہ جی وعدہ کر کے چلے گئے لیکن شام کو ایک دوست نے مجرا سننے کی دعوت دی ۔اب بچارے اس دعوت کو کیسے رد کر تے ۔ جب ایک آدمی آپ کو خاطر سے بلا تا ہے تو یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اس کی دعوت نا منظور کر د یں ۔ وہ آپ سے کچھ مانگتا نہیں ، آپ سے کسی طرح کی رعایت کا خواستگار نہیں محض دوستانہ بے تکلفی سے آپ کو اپنی بزم میں شرکت کی دعوت دیتا ہے ۔ آپ پر اس کی دعوت قبول کرنا ضروری ہو جا تا ہے۔ گھر کے جنجال سے کسے فرصت ہے ۔ ایک نہ ایک کام تو روز لگاہی رہتا ہے۔ کبھی کوئی بیمار ہے، کبھی مہمان آئے ہیں ، کبھی پوجا ہے، کبھی کچھ کبھی کچھ۔ اگر آدمی یہ سوچے کہ گھر سے بے فکر ہوکر جائیں گے تو اسے سارے دوستانہ مراسم منقطع کر لینے پڑیں گے ۔اسے شاید ہی گھر سے کبھی فراغت نصیب ہو۔ لالہ جی مجرا سننے چلے گئے تو دو بجے لوٹے ۔ آتے ہی اپنے گھر کی گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دیں ۔لیکن ایک گھنٹہ سے زیادہ کی گنجایش کسی طرح نہ نکال سکے۔ دوکو ایک تو کہہ سکتے ہیں ۔ گھڑی کی تیزی کے سرالزام رکھا جا تا ہے لیکن دوکو بارہ نہیں کہہ سکتے۔ چپکے سے آ کر نوکر کو جگایا ، کھانا کھا کر آئےتھے۔ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ رہے ۔لیلا ان کی راہ دیکھتی ، ہرلمحہ درد اور بے چینی کی بڑھتی ہوئی شدت کا احساس کرتی نہ جانے کب سوگئی تھی اسے جگانا سوئے فتنہ کو جگانا تھا۔
غریب لیلا اس بیماری سے جانبر نہ ہوسکی۔ لالہ جی کو اس کی وفات کا بے حد روحانی صدمہ ہوا۔ دوستوں نے تعزیت کے تار بھیجے ۔ کئی دن تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ ایک روزانہ اخبار نے مرنے والے کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اس کی دماغی اور اخلاقی خوبیوں کی مبالغہ آمیز تصویر کھینچی۔ لالہ جی نے ان سب ہمدردوں کا دلی شکر ادا کیا اوران کے خلوص و وفاداری کا اظہار جنت نصیب لیلا کے نام سے لڑکیوں کے لیے پانچ وظیفے قائم کرنے کی صورت میں نمودار ہوا۔ وہ نہیں مریں صاحب میں مر گیا۔ زندگی کی شمع ہدایت گل ہوگئی ۔اب تو جینا اور رونا ہے ۔ میں تو ایک حقیر انسان تھا، نہ جانے کس کار خیر کے صلے میں مجھے یہ نعمت بارگاہ ایزدی سے عطا ہوئی تھی ۔ میں تو اس کی پرستش کرنے کے قابل بھی نہ تھا وغیرہ ۔
چھ مہینے کی عزلت اور نفس کشی کے بعد لالہ ڈنکامل نے دوستوں کے اصرار سے دوسری شادی کرلی۔ آخر غریب کیا کرتے۔ زندگی میں ایک رفیق کی ضرورت تو تھی ہی اور اس عمر میں رفیق کی ضرورت اور زیادہ ہوگئی تھی۔ لکڑی کی ضرورت تو جبھی ہوتی ہے جب پانو میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہتی ۔
(2)
جب سے نئی بیوی آئی ہے لالہ جی کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب ہو گیا ہے ۔ دکان سے اب انھیں اس قدر انہماک نہیں ہے ۔ متواتر ہفتوں نہ جانے سے بھی ان کے کاروبار میں کوئی ہرج واقع نہ ہوتا۔ زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت جوان میں روز بروز مضمحل ہوتی جاتی تھی اب یہ ترشح پا کر پھر سر سبز ہوگئی ہے۔ اس میں نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں ۔ موٹر نیا آ گیا ہے، کمرے نئے فرنیچر سے آراستہ کر دیے گئے ہیں ۔ نوکروں کی تعداد میں معقول اضافہ ہو گیا ہے۔ ریڈیوبھی لگادیا گیا ہے ۔ لالہ جی کی بوڑھی جوانی ، جوانوں سے زیادہ پر جوش اور ولولہ انگیز ہورہی ہے ۔اسی طرح جیسے بجلی کی روشنی چاند کی روشنی سے زیادہ شفاف اور نظر فریب ہوتی ہے ۔ لالہ جی کوان کے احباب ان کی اس جواں طبعی پر مبارک باد دیتے ہیں تو وہ تفاخر کے انداز سے کہتے ہیں:” بھئی ہم تو ہمیشہ جوان رہے اور ہمیشہ جوان رہیں گے۔ بڑھاپا میرے پاس آئے تو اس کے منہ پر سیاہی لگا کر گدھے پر الٹا سوار کر کے شہر بدر کر دوں۔ جوانی اور بڑھاپے کولوگ نہ جانے عمر سے کیوں منسوب کرتے ہیں ۔ جوانی کا عمر سے اتناہی تعلق ہے جتنا مذہب کا اخلاق سے، روپے کا ایمان داری سے حسن کا آرائش سے ۔ آج کل کے جوانوں کو آپ جوان کہتے ہیں ، ارے صاحب! میں ان کی ایک ہزار جوانیوں کو اپنی جوانی کے ایک گھنٹہ سے نہ تبدیل کروں ۔ معلوم ہوتا ہے زندگی میں کوئی دل چسپی ہی نہیں، کوئی شوق ہی نہیں ، زندگی کیا ہے گلے میں پڑا ہوا ڈھول ہے ۔” یہی الفاظ وہ کچھ ضروری ترمیم کے بعد آشا دیوی کے لوح دل پر نقش کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ہمیشہ سنیما تھیٹر، سیر دریا کے لیے اصرار کرتے رہتے ہیں ،لیکن آشا نہ جانے کیوں ان دلچسپیوں سے ذرا بھی متاثر نہیں۔ وہ جاتی تو ہے مگر بہت اصرار کے بعد ۔
ایک دن لالہ جی نے آ کر کہا:’’ چلو آج بجرے پر دریا کی سیر کرآ ئیں ‘‘
بارش کے دن تھے، دریا چڑھا ہوا تھا۔ ابر کی قطاریں بین الاقوامی فوجوں کی سی رنگ برنگ وردیاں پہنے آسمان پر قواعد کر رہی تھیں ۔ سڑک پر لوگ ملار اور بارہ ماسے گاتے چلے جار ہےتھے۔ باغوں میں جھولے پڑ گئے تھے۔
آشا نے بے دلی سے کہا:’’ میرا تو جی نہیں چاہتا۔‘‘
لالہ جی نے تادیب آمیز اصرار سے کہا: ’’تمہاری کیسی طبیعت ہے جو سیر وتفریح کی جانب مائل نہیں ہوتی ۔“
“آپ جائیں ، مجھے اور کئی کام کرنے ہیں ۔
” کام کرنے کو ایشور نے آدمی دیدیئے ہیں تمھیں کام کر نے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
” مہراج اچھا سالن نہیں پکا تا۔ آپ کھانے بیٹھیں گے تو یوں ہی اٹھ جائیں گے ۔ آشا اپنی فرصت کا بیشتر حصہ لالہ جی کے لیے انواع واقسام کے کھانے پکانے میں صرف کرتی تھی۔ کسی سے سن رکھا تھا کہ ایک خاص عمر کے بعد مردوں کی زندگی کی خاص دلچسپی لذت زبان رہ جاتی ہے ۔ لالہ جی کے دل کی کلی کھل گئی ۔آشا کوان سے کس قدرمحبت ہے کہ وہ سیر کو ان کی خدمت پر قربان کر رہی ہے ۔ ایک لیلا تھی کہ کہیں جاؤں پیچھے چلنے کو تیار، پیچھا چھڑانا مشکل ہو جا تا تھا۔ بہانے کرنے پڑتے تھے۔خواہ مخواہ سر پر سوار ہو جاتی تھی اور سارا مزہ کرکرا کر دیتی تھی ۔ بولے؛” تمہاری بھی عجیب طبیعت ہے۔اگر ایک دن سالن بے مزہ ہی رہا تو ایسا کیا طوفان آ جائےگا ! تم اس طرح میرے رئیسانہ چونچلوں کا لحاظ کرتی رہوگی تو مجھے بالکل آرام طلب بنا دوگی۔ اگر تم نہ چلو گی تو میں بھی نہ جاؤں گا ۔‘‘
آشانے جیسے گلے سے پھندا چھڑاتے ہوئے کہا:’’ آپ بھی تو مجھے ادھر ادھر گھما کر میرا مزاج بگاڑے دیتے ہیں ۔ یہ عادت پڑ جائے گی تو گھر کے دھندے کون کرے گا؟‘‘
لالہ جی نے فیاضانہ لہجے میں کہا: ” مجھے گھر کے دھندوں کی ذرہ برابر پروانہیں ہے ، بال کی نوک برابر بھی نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہا را مزاج نہ بگڑے اور تم اس گھر کی چکی سے دور رہو ۔ اور تم مجھے بار بار آپ کیوں کہتی ہو؟ میں چاہتا ہوں تم مجھے’’ تم‘‘ کہو، محبت کی گالیاں دو، غصے کی صلواتیں سناؤ لیکن تم مجھے’’ آپ‘‘ کہہ کر جیسے دیوتا کے سنگھاسن پر بیٹھا دیتی ہو۔ میں اپنے گھر میں دیوتا نہیں ،شریر چھوکرا بن کر رہنا چاہتا ہوں ۔
آشا نے مسکرانے کی کوشش کر کے کہا:”اے نوج! بھلا میں آپ کو’’ تم‘‘ کہوں گی تم برابر والوں کو کہا جا تا ہے یا بڑوں کو؟
منیم جی نے ایک لاکھ کے گھاٹے کی پر ملال خبر سنائی ہوتی تب بھی لالہ جی کو شاید اتنا صدمہ نہ ہوتا ، جتنا آشا کے ان بھولے بھالے الفاظ سے ہوا۔ ان کا سارا جوش ، ساراولولہ ٹھنڈا پڑ گیا جیسے برف کی طرح منجمد ہو گیا۔ سر پر بانکی رکھی ہوئی رنگین پھول دارٹوپی ، گلے میں پڑی ہوئی جو گئے رنگ کی ریشمی چادر، وہ تن زیب کا بیل دار کرتا جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے، یہ سارا ٹھاٹ جیسے مضحکہ خیز معلوم ہونے لگا، جیسے سارا نشہ کسی منتر سے اتر گیا ہو۔
دل شکستہ ہوکر بولے تو تمھیں چلنا ہے یا نہیں؟‘‘
’’میرا جی نہیں چاہتا۔‘‘
’’تو میں بھی نہ جاؤں؟‘‘
” میں آپ کو کب منع کرتی ہوں ۔“
” پھر آپ کہا”
آشا نے جیسے اندر سے زور لگا کر کہا: ” تم‘‘ اور اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ ’’ہاں ، اسی طرح ’’تم‘‘ کہا کرو ۔ تو تم نہیں چل رہی ہو؟ اگر میں کہوں کہ تمھیں چلنا پڑےگا تب؟
’’ تب چلوں گی ۔ آپ کے حکم کی پابندی میرا فرض ہے!”
لالہ جی حکم نہ دے سکے فرض اور حکم جیسے الفاظ سے ان کے کانوں میں خراش سا ہونے لگا ۔کھسیائے ہو کر باہر چلے ۔اس وقت آ شاکو ان پر رحم آ گیا۔
بولی:’’ تو کب تک لوٹو گے؟‘‘
” میں نہیں جارہا ہوں ۔”
’’اچھا تو میں بھی چلتی ہوں ۔‘‘
جس طرح کوئی ضدی لڑ کا رونے کے بعد اپنی مطلوبہ چیز پا کر اسے پیروں سے ٹھکرا دیتا ہے اسی طرح لالہ جی نے رونا منہ بنا کر کہا: ”تمھارا جی نہیں چاہتا تو نہ چلو ۔ میں مجبور نہیں کرتا ۔‘‘
’’ آپ ….نہیں تم برامان جاؤ گے۔”
آشا سیر کرنے گئی لیکن امنگ سے نہیں ۔ جو معمولی ساڑی پہنے ہوئے تھی ، وہی پہنے چل کھڑی ہوئی ، نہ کوئی نفیس ساڑی نہ کوئی مرصع زیور نہ کوئی سنگار جیسے بیوہ ہو۔
ایسی ہی باتوں سے لالہ جی دل میں جھنجھلا اٹھتے تھے ۔ شادی کی تھی زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے، جھلملاتے ہوئے چراغ میں تیل ڈال کر اسے اور روشن کرنے کے لیے ۔ اگر چراغ کی روشنی تیز نہ ہوئی تو تیل ڈالنے سے کیا فائدہ؟ نہ جانے اس کی طبیعت کیوں اس قد رخشک اور افسردہ ہے جیسے کوئی اوسر کا درخت ہو، کتنا ہی پانی ڈالو اس میں ہری پتیوں کے درشن ہی نہیں ہوتے ۔ جڑاؤ زیوروں کے بھرے صندوق رکھے ہیں ۔ کہاں کہاں سے منگوائے ۔ دہلی سے کلکتے سے فرانس سے ۔ کیسی کیسی بیش قیمت ساڑیاں رکھی ہوئی ہیں ۔ایک نہیں سیکڑوں مگر صندوق میں کیڑوں کی خوراک بننے کے لیے ۔غریب خاندان کی لڑکیوں میں یہی عیب ہوتا ہے ۔ ان کی نگاہ ہمیشہ تنگ رہتی ہے ۔ نہ کھاسکیں ، نہ پہن سکیں ، نہ دے سکیں ، انھیں تو خزانہ بھی مل جائے تو یہی سوچتی رہیں گی کہ بھلا اسے خرچ کیسے کریں۔
دریا کی سیر تو ہوئی مگر کچھ لطف نہ آیا۔
(3)
کئی ماہ تک آشا کی طبیعت کو ابھارنے کی ناکام کوشش کر کے لالہ جی نے سمجھ لیا کہ یہ محرم کی پیدائش ہے۔ لیکن پھر بھی برابر مشق جاری رکھی ۔ اس بیوپار میں ایک خطیر رقم صرف کرنے کے بعد وہ اس سے زیادہ نفع اٹھانے کے تاجرانہ تقاضے کو کیسے نظر انداز کرتے ۔ دلچسپی کی نئی نئی صورتیں پیدا کی جاتیں ۔ گراموفون اگر بگڑ گیا ہے ، گا تانہیں یا آواز صاف نہیں نکالتا تو اس کی مرمت کرانی پڑے گی۔ اسے اٹھا کر رکھ دینا یہ تو حماقت ہے۔
ادھر بوڑھا مہراج بیمار ہو کر چلا گیا تھا اور اس کی جگہ اس کا سولہ سترہ سال کا لڑکا آ گیا تھا۔ کچھ عجیب مسخرا سا ، بالکل اجڈ اور دہقانی کوئی بات ہی نہ سمجھتا۔ اس کے پھلکے اقلیدس کی شکلوں سے بھی زیادہ مختلف الاشکال ہو جاتے ۔ بیچ میں موٹے ، کنارے پتلے ۔ دال بھی تو اتنی پتلی جیسے چائے اور کبھی اتنی گاڑھی جیسے دہی ۔ کبھی نمک بالکل پھیکا، کبھی اتنا تیز کہ نیبو کا نمکین اچار ۔ آشا سویرے ہی سے رسوئی میں پہنچ جاتی اور اس بدسلیقے مہراج کو کھانا پکانا سکھاتی:’’ تم کتنے نالائق آدمی ہو جگل ؟ اتنی عمر تک تم کیا گھاس کھودتے رہے یا بھاڑ جھو نکتے رہے کہ پھلکے تک نہیں بناسکتے !‘‘
جگل آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا:’’ بہو جی! ابھی میری عمر ہی کیا ہے ۔سترھواں ہی سال تو ہے ۔
آشا ہنس پڑی ’’تو کیا روٹیاں پکا نا دس بیس سال میں آتا ہے؟‘‘
آپ ایک مہینہ سکھادیں بہو جی ، پھر دیکھنا میں آپ کو کیسے پھلکے کھلا تا ہوں کہ جی خوش ہو جائے ۔ جس دن مجھے پھلکے بنانے آ جائیں گے میں آپ سے کوئی انعام لوں گا۔ سالن تو اب میں کچھ کچھ پکانے لگا ہوں نا؟‘‘
آشا حوصلہ افزا تبسّم سے بولی:’’ سالن نہیں ، وہ پکانا آتا ہے ۔ ابھی کل ہی نمک اتنا تیز تھا کہ کھایا نہ گیا۔
’’ میں جب سالن بنارہا تھا تو آپ یہاں کب تھیں؟‘‘
’’اچھا! تو جب میں یہاں بیٹھی رہوں تب تمہارا سالن لذیذ پکے گا؟‘‘
” آپ بیٹھی رہتی ہیں تو میری عقل ٹھکانے رہتی ہے ۔‘‘
’’اور میں نہیں رہتی تب؟‘‘
“تب تو آپ کے کمرے کے دروازے پر جا بیٹھتی ہے!‘‘
”تمہارے دادا آ جائیں گے تو تم چلے جاؤ گے؟‘‘
نہیں بہوجی کسی اور کام میں لگا دیجیے گا۔ مجھے موٹر چلا ناسکھوا دیجئے گا نہیں نہیں ، آپ ہٹ جائیے میں پتیلی اتارلوں گا ۔ ایسی اچھی ساڑی ہے آپ کی کہیں داغ لگ جائے تو کیا ہو؟‘‘
دور ہو، پھوہڑ تو تم ہو ہی۔ کہیں پتیلی پیر پر گر پڑے تو مہینوں جھیلو گے ‘‘
جگل افسردہ خاطر ہو گیا۔ نحیف چہرہ اور بھی خشک ہو گیا۔
آشانے مسکرا کر پوچھا: ” کیوں ! منہ کیوں لٹک گیا سرکار کا ؟
“آپ ڈانٹ دیتی ہیں بہو جی ،تو میرا دل ٹوٹ جا تا ہے ۔ سیٹھ جی کتنا ہی گھڑ کیں مجھے ذرا بھی صدمہ نہیں ہوتا۔ آپ کی نظر کڑی دیکھ کر جیسے میرا خون سرد ہو جا تا ہے ۔
آشا نے تشفی دی ”میں نے تمھیں ڈانٹا نہیں ۔ صرف اتنا ہی کہا کہ کہیں پتیلی تمہارے پاؤں پر گر پڑے تو کیا ہو؟‘‘
’’ہاتھ تو آپ کا بھی ہے ۔ کہیں آپ کے ہاتھ سے ہی چھوٹ پڑے تب؟‘‘
سیٹھ جی نے رسوئی کے دروازے پر آ کر کہا:’’ آشا ذرا یہاں آنا۔ دیکھو تمھارے لیے کتنے خوش نما گملے لایا ہوں تمہارے کمرے کے سامنے رکھے جائیں گے ۔تم وہاں دھو ئیں دھکڑ میں کیا پریشان ہوتی ہو۔ لونڈے سے کہہ دو کہ مہراج کو بلائے ، ورنہ میں کوئی دوسرا انتظام کرلوں گا۔ مہراج کی کمی نہیں ہے۔ آخر کب تک کوئی رعایت کرے۔ اس گدھے کو ذرا بھی تو تمیز نہ آئی ۔سنتا ہے جُگل، آج لکھ دے اپنے باپ کو ‘‘ چولھے پرتوا رکھا ہوا تھا، آشا روٹیاں بیل رہی تھی ، جگل توے کے لیے روٹیوں کا انتظار کر رہا تھا۔ ایسی حالت میں بھلا وہ کیسے گملے دیکھنے جاتی ؟ کہنے لگی :’’ابھی آتی ہوں ، ذرا روٹی بیل رہی ہوں۔ چھوڑ دوں گی تو جُگل ٹیڑھی میڑھی بیلے گا۔‘‘
لالہ جی نے کچھ چڑ کر کہا:’’اگر روٹیاں ٹیڑھی میڑھی بیلے گا تو نکال دیا جائے گا ‘‘
آشا ان سنی کر کے بولی:’’ دس پانچ دن میں سیکھ جائے گا۔ نکالنے کی کیا ضرورت ہے ۔ تم خواہ خواہ ضد کر تے ہو ۔‘‘
” تم چل کر بتادو گملے کہاں رکھے جائیں؟‘‘
کہتی ہوں روٹیاں بیل کر آئی جاتی ہوں “
نہیں میں کہتا ہوں تم روٹیاں مت بیلو۔ ‘‘
”تم خواہ مخواہ ضد کرتے ہو۔”
لالہ بھی سناٹے میں آگئے ۔ آشا نے کبھی اتنی بے التفاتی سے انھیں جواب نہ دیا تھا اور اس میں محض بے التفاتی نہ تھی اس میں ترشی بھی تھی ۔خفیف ہوکر چلے گئے ۔ انھیں ایسا غصہ آرہا تھا کہ ان گملوں کو تو ڑ کر پھینک دیں اور سارے پودوں کو چولھے میں ڈال دیں۔
جگل نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا: ’’ آپ چلی جائیں بہو جی! سرکار ناراض ہوں گے ۔“
“بکومت! جلدی روٹیاں سینکو نہیں نکال دیے جاؤ گے اور آج مجھ سے روپے لے کر اپنے لیے کپڑے بنوالو ۔ بھک منگوں کی سی صورت بنائے گھومتے ہو۔ اور بال کیوں اتنے بڑھا رکھے ہیں ۔ تمھیں نائی بھی نہیں جڑتا؟‘‘
کپڑے بنوالوں تو دادا کو کیا حساب دوں گا؟‘‘
’’ارے بے وقوف! میں حساب میں نہیں دینے کو کہتی ۔مجھ سے لے جانا۔ ‘‘
“آپ بنوائیں گی تو اچھے کپڑے لوں گا۔ مہین کھدر کا کرتہ، کھدر کی دھوتی ، ریشمی چادر اور اچھی سی چپل ۔‘‘
آشانے مٹھاس بھر کے تبسم سے کہا: ”اور اگر اپنے دام سے بنانا پڑے تو ؟‘‘
“تب کپڑے بنواؤں گا ہی نہیں ۔
“بڑے چالاک ہوتم۔ ‘‘
“آدمی اپنے گھر پر روکھی روٹی کھا کر سور ہتا ہے لیکن دعوت میں اچھے اچھے پکوان ہی کھاتا ہے۔”
“یہ سب میں نہیں جانتی۔ ایک گاڑھے کا کرتا بنوالو،اورایک ٹوپی ۔حجامت کے لیے دو آنے پیسے لے لو ۔‘‘
’’رہنے دیجیے، میں نہیں لیتا۔ اچھے کپڑے پہن کر نکلوں گا تو آپ کی یاد آئے گی۔” سڑیل کپڑے ہوئے تو جی جلے گا ۔‘‘
” تم بڑے خودغرض ہو ۔ مفت کے کپڑے لو گے اور اعلا در جے کے!‘‘
” جب یہاں سے جانے لگوں گا تو آپ مجھے اپنی تصویر دے دیجیے گا۔”
”میری تصویر لے کر کیا کرو گے؟‘‘
اپنی کوٹھری میں لگادوں گا اور دیکھا کروں گا۔ بس وہی ساڑی پہن کر کھنچوانا جوکل پہنی تھی اور وہی موتیوں والی مالا بھی ہو۔ مجھے ننگی ننگی صورت اچھی نہیں لگتی۔ آپ کے پاس تو بہت گہنےہوں گے۔ آپ پہنتی کیوں نہیں؟‘‘
’’تو تمھیں گہنے اچھے لگتے ہیں؟‘‘
“بہت”
لالہ جی نے پھر آ کر خفت آمیز لہجے میں کہا:” ابھی تک تمہاری روٹیاں نہیں پکیں ۔ جگل!اگر کل سے تم نے اپنے آپ اچھی روٹیاں نہ بنائیں تو میں تمھیں نکال دوں گا!‘‘
آشانے فورا ہاتھ دھوئے اور بڑی مسرت آمیز تیزی سے لالہ جی کے ساتھ جا کر گملوں کود یکھنے لگی ۔ آج اس کے چہرے پر غیر معمولی شگفتگی نظر آرہی تھی ۔ اس کے انداز گفتگو میں بھی دل آویز شیرینی تھی ۔ لالہ جی کی ساری خفت غائب ہوگئی ۔ آج اس کی باتیں زبان سے نہیں دل سے نکلتی ہوئی معلوم ہورہی تھیں ۔ بولی:’’ میں ان میں سے کوئی گملا نہ جانے دوں گی ۔سب میرے کمرے کے سامنے رکھوانا ۔سب کتنے سندر پودے ہیں ۔واہ! ان کے ہندی نام بھی بتادینا ۔‘‘
لالہ جی نے چھیڑا: سب لے کر کیا کروگی؟ دس پانچ پسند کرلو۔ باقی باہر باغیچے میں رکھوا دوں گا ۔‘‘
” جی نہیں ۔میں ایک بھی نہیں چھوڑوں گی سب یہی رکھے جائیں گے ۔”
’’ بڑی حریص ہوتم ‘‘
“حریص سہی ، میں آپ کو ایک بھی نہ دوں گی ۔‘‘
“دس پانچ تو دے دو۔اتنی محنت سے لایا ہوں ۔‘‘
“جی نہیں ۔ان میں سے ایک بھی نہ ملے گا ۔”
(4)
دوسرے دن آشانے اپنے کو زیوروں سے خوب آراستہ کیا اور فیروزی ساڑی پہن کر نکلی تو لالہ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ اب ان کی عاشقانہ دلجوئیوں کا کچھ اثر ہورہا ہے ضرور ، ورنہ ان کے بار بار تقاضا کر نے پر منت کر نے پر بھی اس نے کوئی زیور نہ پہنا تھا۔ کبھی کبھی موتیوں کا ہار گلے میں ڈال لیتی تھی ، وہ بھی بے دلی سے ۔ آج ان زیوروں سے مرصع ہوکر وہ پھولی نہیں سماتی، اتراتی جاتی ہے۔ گویا کہتی ہے دیکھو میں کتنی حسین ہوں ۔ پہلے جو کلی تھی وہ آج کھل گئی ہے ۔
لالہ صاحب پر گھڑوں کا نشہ چڑھا ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے احباب واعزہ آ کر اس سونے کی رانی کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کریں ۔ دیکھیں کہ ان کی زندگی کتنی پرلطف ہے ۔ جوانواع واقسام کے شکوک دشمنوں کے دلوں میں پیدا ہوئے تھے آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ اعتماد، رواداری اورفراست نے کتنا خلوص پیدا کر دیا ہے ۔
انھوں نے تجویز کی ’’چلو کہیں سیر کرائیں ۔ بڑی مزیدار ہوا چل رہی ہے ۔”
آشا اس وقت کیسے آسکتی ہے۔ ابھی اسے رسوئی بھی جانا ہے۔ وہاں سے کہیں بارہ ایک بجے تک فرصت ملے گی ۔ پھر گھر کے کام دھندے سر پر سوار ہو جائیں گے ۔اسے کہاں فرصت ہے ۔ پھر کل سے اس کے کلیجے میں کچھ درد بھی ہورہا ہے ۔ رہ رہ کر درد اٹھتا ہے ۔ ایسا دردبھی نہ ہوتا تھا۔رات نہ جانے کیوں درد ہونے لگا۔
سیٹھ جی ایک بات سوچ کر دل ہی دل میں پھول اٹھے ۔ وہ گولیاں رنگ لا رہی ہیں ۔ راج وید نے آخر کہا بھی تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر ان کا استعمال کیجیے۔ کیوں نہ ہو خاندانی وید ہے۔اس کا باپ مہاراجا بنارس کا معالج تھا۔ پرانے مجر ب نسخے ہیں اس کے پاس ۔
چہرے پر سراسیمگی کا رنگ بھر کر پوچھا:’’ تو رات ہی سے درد ہورہا ہے ۔تم نے مجھ سےکہانہیں ورنہ وید جی سے کوئی دوا منگوا د یتا‘‘
“میں نے سمجھا تھا کہ آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا۔ مگراب بڑھ رہا ہے ۔”
’’ کہاں درد ہورہا ہے؟ ذرادیکھوں تو کچھ آماس تو نہیں ہے؟‘‘
سیٹھ جی نے آشا کے آنچل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ آشا نے شرما کر سر جھکا لیا اور بولی:” یہی تمہاری شرارت مجھے اچھی نہیں لگتی۔ جا کر کوئی دوالادو‘‘
سیٹھ جی اپنی جوانمردی کا یہ ڈپلوما پا کر اس سے کہیں زیادہ محظوظ ہوئے جتنا شاید رائےبہادری کا خطاب پا کر ہوتے ۔ اپنے اس کارنمایاں کی داد لیے بغیر انھیں کیسے چین ہو جا تا ۔ جولوگ ان کی شادی سے متعلق شبہ آمیز سرگوشیاں کرتے تھے انھیں زک دینے کا کتنا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ پہلے پنڈت بھولا ناتھ کے گھر پہنچے اور با دل ِدردمند بولے:” میں تو بھئی سخت مصیبت میں مبتلا ہو گیا۔ کل سے ان کے سینے میں درد ہورہا ہے۔ کچھ عقل کام نہیں کرتی کہتی ہیں ایسا درد پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
بھولا ناتھ نے کچھ زیادہ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ بولے: ’ہوا لگ گئی ہوگی ، اور کیا؟‘‘
سیٹھ جی نے ان سے اختلاف کیا ’’نہیں پنڈت جی ، ہوا کا فسادنہیں ہے ۔ کوئی اندرونی شکایت ہے ۔ابھی کم سن میں نا ؟ راج وید سے کوئی دوا لیے لیتا ہوں ۔”
”میں تو سمجھتا ہوں آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا۔
“آپ بات نہیں سمجھتے ، یہی آپ میں نقص ہے ۔‘‘
“آپ کا جو خیال ہے وہ بالکل غلط ہے۔ مگر خیر دوالا کر دیجیے اور اپنے لیے بھی کوئی دوا لیتے آئے گا۔”
سیٹھ یہاں سے اٹھ کر اپنے دوست لالہ پھاگ مل کے پاس پہنچے اور ان سے بھی قریب قریب انھیں الفاظ میں پر ملال خبر کی۔ پھاگ مل بڑا شہدا تھا مسکرا کر بولا:” مجھے تو آپ کی شرارت معلوم ہوتی ہے۔”
سیٹھ جی کی باچھیں کھل گئیں: ”میں اپنا دکھ سنارہا ہوں اور تمھیں مذاق سوجھتا ہے ۔ ذرا بھی انسانیت تم میں نہیں ہے۔”
میں مذاق نہیں کر رہا ہوں ۔ بھلا اس میں مذاق کی کیا بات ہے ۔ وہ ہیں کم سن ، نازک اندام، آپ ٹھہرے آزمودہ کار،مردمیدان ۔ بس اگر یہ بات نہ نکلے تو مونچھیں منڈ واڈالوں ۔‘‘
سیٹھ جی نے متین صورت بنائی ” میں تو بھئی بڑی احتیاط کرتا ہوں تمہارے سر کی قسم!‘‘
جی رہنے دیجیے ۔ میرے سر کی قسم نہ کھائیے ۔ میرے بھی بال بچے ہیں ۔ گھر کا اکیلا آدمی ہوں کسی قاطع دوا کا استعمال کیجیے۔“
“نہیں راج وید سے کوئی دوالیے لیتا ہوں۔ ‘‘
’’اس کی دوا وید جی کے پاس نہیں۔ آپ کے پاس ہے۔”
سیٹھ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا ۔ شباب کا احساس پیدا ہوا اور اس کے ساتھ چہرے پر بھی شباب کی جھلک آ گئی ، سینہ جیسے کچھ فراخ ہو گیا۔ چلتے وقت ان کے پیر کچھ زیادہ مضبوطی سے زمین پر پڑنے لگے اور سر کی ٹوپی بھی خدا جانے کیوں کج ہوگئی۔ بشر ے سے ایک بانکپن کی شان برس رہی تھی۔ راج وید نے مردہ جانفزا سنا تو بولے : میں نے کہا تھا ذرا سوچ سمجھ کر ان گولیوں کا استعمال کیجیے گا۔ آپ نے میری ہدایت پر توجہ نہ کی ۔ ذرا مہینے دو مہینے ان کا استعمال کیجیے اور پرہیز کے ساتھ رہیے۔ پھر دیکھیے ان کا اعجاز ۔ اب گولیاں بہت کم رہی ہیں ،لوٹ مچی رہتی ہے ۔لیکن ان کا بنانا اتنا مشکل اور دقت طلب ہے کہ ایک بارختم ہو جانے پر مہینوں تیاری میں لگ جاتے ہیں ۔ ہزاروں بوٹیاں ہیں ۔ کیلاش، نیپال اور تبت سے منگانی پڑتی ہیں اور اس کا بنانا تو آپ جانتے ہیں ۔کتنالو ہے کے چنے چبانا ہے۔ آپ احتیاطاً ایک شیشی لیتے جائے ۔‘‘
(5)
جگل نے آشا کو سر سے پانو تک جگمگاتے دیکھ کر کہا بس بہو جی! آپ اسی طرح پہنے اوڑ ھے رہا کریں۔ آج میں آپ کو چولہے کے پاس نہ آنے دوں گا۔‘‘
آشا نے شرارت آمیز نظروں سے دیکھ کر کہا: کیوں، آج سختی کیوں؟ کئی دن تو تم نے منع نہیں کیا ۔‘‘
’’ آج کی بات دوسری ہے ۔‘‘
“ذرا سنوں تو کیا بات ہے۔”
“میں ڈرتا ہوں کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں۔”
“نہیں نہیں کہو ۔میں ناراض نہ ہوں گی۔”
” آج آپ بہت سندر لگ رہی ہیں ۔”
لالہ ڈ نگامل نے سیکڑوں ہی بار آشا کے حسن وانداز کی تعریف کی تھی ، مگر ان کی تعریف میں اسے تصنع کی بوآتی تھی ۔ وہ الفاظ ان کے منہ سے کچھ اس طرح لگتے تھے جیسے کوئی ہجڑ اتلوار لے کر چلے ۔ جگل کے ان الفاظ میں ایک کیفیت تھی ،ایک سرور تھا ، ایک ہیجان تھا، ایک اضطراب تھا۔
آشا کے سارے جسم میں رعشہ آ گیا۔ آنکھوں میں جیسے نشہ چھا گیا۔
”تم مجھے نظر لگا دو گے ۔اس طرح کیوں گھورتے ہو؟‘‘
’’ جب یہاں سے چلا جاؤں گا تب آپ کی بہت یادآئے گی ۔‘‘
’’روٹی بنا کر تم کیا کِیا کرتے ہو؟ دکھائی نہیں دیتے ۔“
سرکار رہتے ہیں ، اس لیے نہیں آ تا۔ پھراب تو مجھے جواب مل رہا ہے، دیکھیے بھگوان کہاں لے جاتے ہیں ۔”
آشا کا چہرہ سرخ ہو گیا:’’ کون تم کو جواب دیتا ہے؟‘‘ سرکار ہی تو کہتے ہیں تجھے نکال دوں گا۔“
’’اپنا کام کیے جاؤ۔ کوئی نہیں نکالے گا ۔اب تو تم روٹیاں بھی اچھی بنانے لگے ۔‘‘
“سرکار ہیں بڑے گسّہ در “
“دو چار دن میں ان کا مزاج ٹھیک کیے دیتی ہوں ۔”
” آپ کے ساتھ چلتے ہیں تو جیسے آپ کے باپ سے لگتے ہیں ۔”
تم بڑے بدمعاش ہو۔ خبردار، زبان سنبھال کر باتیں کرو ۔ “
مگر خفگی کا یہ پردہ اس کے دل کا راز نہ چھپا سکا۔ وہ روشنی کی طرح اس کے اندر سے باہر نکلا پڑتا تھا۔ جگل نے اسی بے باکی سے کہا:’’میری زبان کوئی بند کر لے۔ یہاں تو سب ہی کہتے ہیں ۔ میرا بیاہ کوئی پچاس سال کی بڑھیا سے کر دے تو میں گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤں ، یا خود زہر کھالوں یا اسے زہر دے کر مارڈالوں ۔ پھانسی ہی تو ہوگی ۔
آشا مصنوعی غصہ قائم نہ رکھ سکی ۔ جگل نے اس کے دل کے تاروں پر مضراب کی ایک ایسی چوٹ ماری تھی کہ اس کے بہت مضبوط کرنے پر بھی درد دل باہرنکل ہی آیا۔’قسمت بھی تو کوئی چیز ہے ۔‘‘
“ایسی قسمت جائے جہنم میں “
“تمہاری شادی کسی بڑھیا سے کروں گی ۔ دیکھ لینا۔“
“تو میں بھی زہر کھالوں گا ، دیکھ لیجیے گا۔‘‘
” کیوں؟ بڑھیا تمھیں جوان سے زیادہ پیار کرے گی ، زیادہ خدمت کرے گی تمھیں سیدھے راستے پر رکھے گی۔‘‘
“یہ سب ماں کا کام ہے۔ بیوی جس کام کے لیے ہے، اس کے لیے ہے ۔‘‘
“آخر بیوی کس کام کے لیے ہے؟‘‘
” آپ مالک ہیں نہیں تو بتلا دیتا، بیوی کس کام کے لیے ہے ۔“
موٹر کی آواز آئی۔ نہ جانے کیسے آشا کے سرکا آنچل کھسک کر کندھے پر آ گیا تھا۔ اس نے جلدی سے آنچل سر پر کھینچ لیا اور کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی “لالہ کھانا کھاکر چلے جائیں گے تم ذرا آجانا۔”
*****
Pingback: نئی بیوی : پریم چند 07 Urdu Literature