افسانہ (04) شانتی

آپ کے پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل چوتھا افسانہ “شانتی۔ آپ افسانہ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

آئیے خلاصہ پڑھیں۔

شانتی

منشی پریم چند

مرحوم دیوناتھ میرے دوستوں میں تھے۔ آج بھی جب ان کی یاد آ جاتی ہے تو وہ رنگ رلیاں آنکھوں میں پھر جاتی ہیں ۔ اور کہیں تنہائی میں جا کر ذرا دیر رولیتا ہوں ۔ میرے اور ان کے درمیان دو ڈھائی سو میل کا فاصلہ تھا۔ میں لکھنو میں تھا اور وہ دہلی میں لیکن شاید ہی کوئی ایسا مہینہ جاتا کہ ہم آپس میں نہ مل لیتے ہوں۔ وہ نہایت شریف، محبت نواز اور دوستوں پر جان دینے والے آدمی تھے، جنھوں نے اپنے پرائے میں بھی امتیاز نہیں کیا۔ دنیا کیا ہے اور یہاں شرافت ومحبت کا صلہ کیا ملتا ہے، یہ انہوں نے بھی نہ جانا اور نہ جاننے کی کوشش کی ۔ان کی زندگی میں کئی ایسے موقعے آئے جب انہیں آئندہ کے لیے ہوشیار ہو جانا چاہیے تھا۔ دوستوں نے ان کی صاف دلی سے نامناسب فائدہ اٹھایا اور کئی مرتبہ انہیں شرمندہ بھی ہونا پڑا۔ لیکن اس بھلے آدمی نے زندگی سے سبق لینے کی قسم کھائی تھی ۔ ان کے طرزعمل میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ۔ جیسے بھولا ناتھ جیے ویسے ہی بھولا ناتھ مرے۔

جس دنیا میں وہ رہتے تھے وہ نرالی دنیاتھی ، جس میں بدگمانی و چالا کی اور بغض وحسد کے لیے گنجایش نہ تھی ۔ سب اپنے تھے، کوئی غیر نہ تھا ۔ میں نے بار بار انہیں متنبہ کرنا چاہا لیکن اس کا نتیجہ امید کے خلاف برآمد ہوا۔ زندگی کے خوابوں کو پریشان کرتےہوئے ان کا دل دکھتا تھا۔ مجھے کبھی فکر ہوتی تھی کہ انہوں نے ہاتھ بند نہ کیا تو نتیجہ کیا ہوگا ؟ مصیبت یہ تھی کہ ان کی بیوی گو پابھی کچھ اس سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ۔ ہماری دیویوں میں جو ایک مآل اندیشی ہوتی ہے اور جواڑاؤ مردوں کی غیر مآل اندیشیوں کے لیے بینک کا کام کرتی ہے اس سے گو پا محروم تھی ۔ یہاں تک کہ اسے کپڑوں اور زیوروں کا بھی شوق نہ تھا۔

جب مجھے دیو ناتھ کے انتقال کی خبر ملی اور میں بھا گا ہوا دہلی گیا تو گھر میں برتن بھانڈے کے سوا اور کوئی سامان نہ تھا۔ ابھی مرحوم کی عمر ہی کیا تھی جوز یادہ فکر کرتے ۔ پورے چالیس کے بھی تو نہ ہوئے تھے۔ یوں تو لڑکپن ان کی سرشت میں داخل تھا۔لیکن اس عمر میں سب ہی لوگ بے فکر ہوتے ہیں ۔ پہلے ایک لڑ کی ہوئی تھی ، اس کے بعد دولڑکے ہوئے۔ دونوں لڑ کے تو بچپن ہی میں دغا دے گئے ۔لڑکی بچ رہی تھی۔

جس طرز معاشرت کے وہ عادی تھے، اسے دیکھتے ہوئے اس مختصر کنبے کے لیے دوسو روپے ماہوار کی ضرورت تھی۔ دو تین سال میں لڑکی کا بیاہ بھی کرنا ہوگا ۔ کیسے کیا ہوگا ۔ میری عقل کچھ کام نہ کرتی تھی ۔

اس موقع پر مجھے یہ بیش قیمت تجر بہ ہوا کہ جو لوگ خدمت خلق کرتے ہیں اور ذاتی مفاد کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں سمجھتے ان کے پس ماندوں کو آڑ دینے والوں کی بھی کمی نہیں رہتی ۔ یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے، کیوں کہ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنھوں نے زندگی میں بہتوں کے ساتھ سلوک کیے لیکن ان کے بعد ان کے بال بچوں کی کسی نے بات نہ پوچھی ۔ لیکن چاہے کچھ ہو د یوناتھ کے دوستوں نے شرافت سے کام کیا اور گو پا کی بسر اوقات کے لیے رو پیا جمع کرنے کی تجویز کی۔ ایک صاحب جو رنڈوے تھے اس سے بیاہ کر نے کو بھی تیار تھے لیکن گوپا نے بھی اس جذبے کا اظہار کیا جو ہماری دیویوں کا جوہر ہے اور تجویز کومستر دکر دیا۔ مکان بہت بڑا تھا ۔ اس کا ایک حصہ کرایے پر اٹھا دیا۔ اس طرح اس کو پچاس روپے ماہوار ملنے لگے۔ وہ اتنے ہی میں اپنا نباہ کر لے گی ، جو کچھ خرچ تھا وہ سنی کی ذات سے تھا ۔

اس کے ایک ہی مہینے بعد مجھے کاروبار کے سلسلے میں غیر ملک جانا پڑا اور وہاں میرے اندازے سے کہیں زیادہ دوسال لگ گئے ۔ گو پا کے خطوط برابرآتے رہتے تھے ، جن سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ آرام سے ہے ۔ کوئی فکر کی بات نہیں ہے ۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ گو پانے مجھے غیر سمجھا اور صحیح حالت چھپاتی رہی ۔

پردیس سے لوٹ کر میں سیدھا دہلی پہنچا۔ دروازے پر پہنچتے ہی مجھے رونا آ گیا۔موت کی افسردگی سی طاری تھی ۔ جس کمرے میں دوستوں کے جمگھٹ رہتے تھے، اس کے دروازے بند تھے۔ مکڑیوں نے چاروں طرف جالے تان رکھے تھے۔ پہلی نظر میں تو شبہ ہوا کہ دیوناتھ دروازے پر کھڑے میری طرف دیکھ کر کچھ کہ رہے ہیں ۔ میں تو ہم پرست نہیں ہوں اور اجسام روحانی کا بھی قائل نہیں ،لیکن اس وقت میں ایک بار چونک ضرور پڑا۔ دل میں ایک لرزش سی محسوس ہوئی لیکن دوسری نظر میں یہ خیالی تصویر مٹ چکی تھی ۔ دروازہ کھلا ۔ گو پا کے سوا کھولنے والا ہی کون تھا ؟

میں نے اسے دیکھ کردل تھام لیا۔اسے میرے آنے کی اطلاع تھی اور اس نے میرے استقبال کے لیے نئی ساری پہن لی تھی اور شاید بال بھی گوندھ لیے تھے۔ پران دو برسوں میں وقت نے اس پر جو مظالم کیے تھے انہیں وہ کیا کرتی ؟ عورتوں کی زندگی میں یہ وہ عمر ہے جب حسن و شباب اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ جب اس میں الھڑپن ، شرم اور بےاعتنائی کی جگہ لگاوٹ، خوش ادائی اور دل آویزی کی جاتی ہے لیکن گوپا کی جوانی ختم ہوچکی تھی۔ اس کے چہرے پر چھرّیاں تھیں، بالوں میں سفیدی آگئی تھی۔

میں نے پوچھا: کیا تم بیمارتھیں گو پا؟‘‘

اس نے آنسو پی کر کہا: “نہیں تو میرے تو کبھی سر میں دردبھی نہیں ہوا۔ “

“تو تمھاری یہ کیا حالت ہے؟ بالکل بوڑھی ہوگئیں ۔“

’’ تو اب جوانی لے کر کر نا ہی کیا ہے؟ میری عمر بھی تو بتیس سے اوپر ہوگئی ۔‘‘

“یہ عمرتو زیادہ نہیں ہوتی ۔ “

’’ہاں ان کے لیے جو بہت دن جینا چاہتے ہوں ۔ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ جتنی جلد ہو سکے زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔ بس سِنّی کے بیاہ کی فکر ہے ۔اس سے چھٹی پا جاؤں ، پھر مجھے زندگی کی پروانہ ر ہے گی ۔‘‘

اب معلوم ہوا کہ جو صاحب اس مکان میں کرایہ دار تھے وہ تھوڑے دنوں بعد تبدیل ہوکر چلے گئے اور تب سے کوئی دوسرا کرایہ دار نہ آیا۔ میرے دل میں برچھی سی چبھ گئی ۔اتنے دنوں ان بے چاروں نے کس طرح بسر کی ۔ یہ خیال ہی درد ناک تھا۔

میں نے متاسف ہو کر کہا:’’لیکن تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟ کیا میں بالکل غیر ہوں؟‘‘ گو پانے شرمندہ ہوکر کہا: نہیں نہیں ، یہ بات نہیں ہے تمہیں غیر سمجھوں گی تو اپنا کسے سمجھوں گی؟ میں نے سوچا پردیس میں تم خوداپنے جھمیلے میں پڑے ہوئے تمھیں کیا سناؤں؟ کسی نہ کسی طرح دن کٹ ہی گئے ۔ گھر میں اور کچھ نہ تھا تو تھوڑے سے گہنے تھے ہی ۔اب سنیتا کے بیاہ کی فکر ہے۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ اس مکان کو الگ کر دوں گی ۔ بیس بائیس ہزار روپے مل جائیں گے ۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مکان پہلے ہی رہن ہو چکا ہے اور سود ملا کر اس پر بیس ہزار ہو گئے ہیں ۔مہاجن نے اتنی ہی دیا کیا کم کی کہ مجھے گھر سے نکال نہیں دیا۔ ادھر سے تو اب کوئی امید نہیں ۔ بہت ہاتھ پانو جوڑ نے پر شاید مہا جن سے دو ڈھائی ہزار روپے اورمل جائیں ۔اتنے میں کیا ہوگا ۔ اسی فکر میں گھلی جارہی ہوں ۔ لیکن میں بھی کتنی مطلبی ہوں ۔ نہ تمھیں ہاتھ منہ دھونے کو پانی دیا ، نہ کچھ  ناشتہ کولائی اور اپنا دُکھڑا لے بیٹھی۔ اب آپ کپڑے اتاریے اور آرام سے بیٹھیے ۔ کچھ کھانے کو لاؤں کھا لیجیے ،تب باتیں ہوں ۔ گھر میں تو سب خیریت ہے؟‘‘

میں نے کہا:’’ میں بمبئی سے سیدھا یہاں آ رہا ہوں ۔ گھر کہاں گیا؟‘‘

گو پانے مجھے مخمور نگاہوں سے دیکھا ۔ اس وقت اس کی نگاہوں میں شباب کی جھلک تھی۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس کے چہرے کی جھریاں مٹ گئی ہیں ۔ چہرے پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی ہے۔اس نے کہا: ’’اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھاری دیوی جی تمہیں بھی یہاں نہ آنے دیں گی ۔“

’’ میں کسی کا غلام ہوں؟‘‘

کسی کو اپنا غلام بنانے کے لیے پہلے خود بھی اس کا غلام بنا پڑتا ہے۔ شام ہورہی تھی ۔ سنیتا لالٹین لے کر کمرے میں آئی ۔ دوسال پیشتر کی معصوم لڑکی اب منزل شباب میں قدم رکھ چکی تھی ۔ جسے میں گود میں اٹھا کر پیار کیا کرتا تھا، اس کی طرف آج آنکھیں نہ اٹھا سکا اور وہ جومیرے گلے سے لپٹ کر خوش ہوتی تھی آج میرے سامنے کھڑی بھی نہ رہ سکی ۔ جیسے مجھ سے کوئی چیز چھپانا چاہتی ہے اور جیسے میں اسے اس چیز کے چھپانے کا موقع دے رہا ہوں ۔

میں نے پوچھا: ”سنی ، اب تم کس درجے میں پڑھتی ہو؟‘‘

اس نے سر جھکائے ہوئے جواب دیا :’’ دسو یں میں ہوں ۔

’’گھر کا بھی کچھ کام کاج کرتی ہو؟‘‘

’’اماں جب کر نے بھی دیں ۔‘‘

گو پانے کہا: میں نہیں کرنے دیتی یا خود کسی کام کے قریب نہیں جاتی ۔“

سنیتا منہ پھیر کر ہنستی ہوئی چلی گئی ۔ ماں کی دلاری لڑکی تھی ۔ جس دن گرہستی کا کام کرتی اس دن شاید گو پا رورو کر آنکھیں پھوڑ لیتی ۔ وہ خود لڑکی کو کام نہ کرنے دیتی تھی ۔مگر سب سے شکایت کرتی تھی کہ وہ کام نہیں کرتی ۔ یہ شکایت بھی اس کے پیار کا ہی ایک کرشمہ تھا۔

میں کھانا کھا کر لیٹا تو گو پانے پھر سنیتا کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا۔ اس کے سوا اس کے پاس اور بات ہی کیا تھی ۔لڑ کے تو بہت ملتے ہیں لیکن کچھ حیثیت بھی تو ہو لڑکی کو یہ سوچنے کا موقع کیوں ملے کہ دادا ہوتے تو میرے لیے شاید اس سے اچھابر ڈھونڈتے ۔ پھر گو پانے ڈرتے ڈرتے لالہ مداری لال کے لڑکے کا ذکر کیا۔

میں نے متحیر ہوکر اس کی طرف دیکھا ۔ لالہ مداری لال پہلے انجینئر تھے۔اب پنشن پاتے تھے ۔ لاکھوں روپے جمع کر لیے تھے۔ پر اب تک ان کی حرص کی پیاس نہ بجھی تھی ۔ گو پانے گھر بھی وہ چھانٹا تھا جہاں اس کی رسائی دشوارتھی ۔

میں نے کہا:’’ مداری لال تو بہت ہی بڑا آدمی ہے ۔‘‘

گو پانے دانت تلے زبان دبا کر کہا: “ارے نہیں بھیا تم نے انھیں پہچانا نہ ہوگا۔ میرے او پر بڑے دیالو ہیں۔ کبھی کبھی آ کر خیر یت بھی پوچھ جاتے ہیں لڑ کا ایسا ہونہار کہ میں تم سے کیا کہوں ۔ پھر ان کے ہاں کمی کس بات کی ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ پہلے وہ خوب رشوت لیتے تھے۔ لیکن یہاں دھرماتما کون ہے؟ کون موقع پا کر چھوڑ دیتا ہے ۔ مداری لال نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مجھ سے جہیز نہیں چاہتے۔ صرف لڑ کی چاہتے ہیں ۔سِنّی ان کے من میں بیٹھ گئی ہے ۔‘‘

مجھے گو پا کی سادگی پر رحم آیا۔ لیکن میں نے سوچا کہ میں اس کے دل میں کسی کے خلاف شبہات کیوں پیدا کروں ۔ شاید مداری لال اب وہ نہ ر ہے ہوں ۔انسان کی طبیعت بدلتی رہتی ہے ۔

میں نے نیم متفق ہو کر کہا: “مگر یہ تو سوچو کہ تم میں اوران میں کس قد رفرق ہے ۔ تم شایدا پنا سب کچھ قربان کر کے بھی ان کا منہ سیدھا نہ کر سکو ‘‘

لیکن گو پا کے من میں یہ بات جم گئی تھی ۔ سنتی کو وہ ایسے گھر میں بیاہنا چاہتی تھی جہاں وہ رانی بن کرر ہے ۔

دوسرے دن میں مداری لال کے پاس گیا اور ان سے جو میری بات چیت ہوئی اس نے مجھے مطمئن کر دیا۔ کسی زمانے میں وہ لا لچی رہے ہوں گے لیکن اس وقت تو انھیں بہت ہی بلند اورپاک دل پایا۔

بولے: ’’بھائی صاحب! میں دیوناتھ جی سے خوب واقف ہوں ۔ وہ آدمیوں میں رتن تھے ۔ ان کی لڑکی میرے گھر میں آئے، یہ میری خوش قسمتی ہے۔ آپ اس کی ماں سے کہہ دیجیے مداری لال ان سے کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتا ۔ خدا کا دیا ہوا میرے گھر میں سب کچھ ہے ۔ میں انھیں زیر بار کر نانہیں چاہتا ‘‘

میرے دل کا بوجھ اتر گیا۔ ہم سنی سنائی باتوں سے دوسروں کے متعلق کیسے غلط خیالات قائم کر لیتے ہیں ۔ میں نے آ کر گو پا کومبارک بادی۔ یہ طے ہوا کہ گرمیوں میں بیاہ کر دیا جائےگا۔

چار مہینے گو پانے بیاہ کی تیاریوں میں کاٹے۔ میں مہینے میں ایک مرتبہ ضرور اس سے مل جا تا تھا لیکن ہر مرتبہ مایوس ہوکر لوٹتا ۔ گو پانے اپنے خاندان کی عزت کا نہ جانے کتنا بڑا نصب العین اپنے سامنے رکھ لیا تھا۔ دیوانی اس بھرم میں پڑی ہوئی تھی کہ اس کی یہ اولوالعزمی شہر میں اپنی یادگار چھوڑ جائے گی۔ یہ نہ جانتی تھی کہ یہاں ایسے تماشے روز ہوتے ہیں اور آئے دن بھلا دیے جاتے ہیں ۔ شاید وہ دنیا سے یہ کہلوانا چاہتی تھی کہ اس گئی گزری حالت میں بھی مرا ہوا ہاتھی نو لاکھ کا ہے ۔ قدم قدم پر اسے دیو ناتھ کی یاد آتی ۔ وہ ہوتے تو یہ کام یوں نہ ہوتا یوں ہوتا اور تب وہ روتی ۔مداری لال نیک آدمی ہے ۔سچ ہے لیکن گو پا کا اپنی بیٹی کے متعلق بھی تو کچھ فرض ہے ۔ اس کی دس پانچ لڑکیاں تھوڑی ہی ہیں ۔ وہ تو دل کھول کر ارمان نکالے گی ۔سنتی کے لیے اس نے جتنے گہنے اور جوڑے بنوائے  تھے۔ انھیں دیکھ کر مجھے تعجب ہوتا تھا۔ جب دیکھو کچھ نہ کچھ سی رہی ہے ۔کبھی ستاروں کی دکان پر بیٹھی ہوئی ہے۔ کبھی مہمانوں کی مدارات کا انتظام کر رہی ہے ۔ محلے میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس سے اس نے قرض نہ لیا ہو ۔ وہ اسے قرض سمجھتی تھی پر دینے والے دان سمجھ کر دیتے تھے ۔ سارا محلہ اس کا مددگار تھا۔ سنتی اب محلے کی لڑکی تھی۔ گوپاکی عزت سب کی عزت ہےاور گوپا کے لیے نیند اور آرام حرام تھا۔درد سے سر پھٹا جارہا تھا۔ آدھی رات ہوگئی ہے مگر وہ بیٹھی کچھ نہ کچھ سی رہی ہے ۔

اکیلی عورت اور وہ بھی نیم جان ، کیا کیا کرے؟ جو کام دوسروں پر چھوڑ دیتی ہے اس میں کچھ نہ کچھ خرابی ہو جاتی ہے لیکن اس کی ہمت ہے کہ کسی طرح نہیں مانتی ۔

پچھلی مرتبہ اس کی حالت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ بولا ” گوپا دیوی اگر مرنا ہی چاہتی ہو تو شادی ہو جانے کے بعد مرنا ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تم اس کے پہلے ہی کہیں چل نہ دو ۔‘‘

گو پا نے جواب دیا: ’’ بھیا! اس کی فکر نہ کرو۔ بیوہ کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے ۔تم نے سنا نہیں رانڈ مرے نہ کھنڈر ڈھئے۔لیکن میری تمنا یہی ہے کہ سنتی کو ٹھکانے لگا کر میں بھی چل دوں ۔ اب زندہ رہ کر کیا کروں گی ۔سوچو کیا کروں ۔ اگر کسی طرح کا رخنہ پڑ گیا تو کس کی بدنامی ہوگی ؟ ان چار مہینوں میں مشکل سے گھنٹہ بھر سوتی ہوں گی ۔ نیند ہی نہیں آتی لیکن میرا دل خوش ہے ۔ میں مروں یا جیوں مجھے تسکین تو ہوتی کہ سنیتا کے لیے اس کا باپ جو کر سکتا تھا وہ میں نے کر دیا۔ مداری لال نے اپنی شرافت دکھائی تو مجھے بھی اپنی ناک رکھنی ہے ۔‘‘

ایک دیوی نے آ کر کہا: ”بہن! ذرا چل کر دیکھ لو۔ چاشنی ٹھیک ہوگئی ہے یا نہیں؟‘‘ گوپا اس کے ساتھ چاشنی کا امتحان کرنے گئی اور ایک لمحے بعد آ کر بولی:” جی چاہتا ہے کہ سر پیٹ لوں ۔ تم سے ذرا با تیں کرنے لگی،ادھر چاشنی اتنی کڑی ہوگئی کہ لڈو دانتوں سے لڑیں گے کسی سے کیا کہوں؟‘‘

میں نے چڑھ کر کہا:’’ تم بیکار کی جھنجھٹ کر رہی ہو ۔ کیوں نہیں کسی حلوائی کو بلا کر مٹھائیوں کا ٹھیکہ دے دیتیں؟ پھر تمہارے یہاں مہمان ہی کتنے آئیں گے جن کے لیے یہ طو مار باندھ رہی ہو ۔ دس پانچ کی مٹھائی ان کے لیے بہت ہوگی ۔‘‘

میری یہ بات شاید گو پا کو نا گوار ہوئی ۔ ان دنوں اسے بات بات پر غصہ آجا تا تھا۔

بولی :”بھیا! تم یہ باتیں نہ سمجھو گے۔ تمھیں نہ ماں بننے کا موقع ملا نہ بیوی بننے کا۔ سنتی کے باپ کا کتنا نام تھا۔ کتنے آدمی ان کے دم سے پلتے تھے ۔ کیا تم نہیں جانتے یہ پگڑی میرے ہی سرتو بندھی ہے ۔تمھیں یقین نہ آئے  گا ، ناستک ہی جوٹھہرے ۔پر میں تو انھیں سدا اپنے اندر بیٹھا ہوا پاتی ہوں ۔ جو کچھ کر رہے ہیں وہی کر رہے ہیں ۔ میں ناقص العقل بھلا اکیلی کیا کر لیتی ؟ وہی میرے مددگار ہیں ، وہی میرے رہبر ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ جسم میرا ہے لیکن اس کے اندر جو آتما ہے وہ ان کی ہے ۔ تم ان کے دوست ہو ۔تم نے اپنے سیکڑوں روپے خرچ کیے اور اتنے حیران ہور ہے ہو ۔ میں توان کی شریک زندگی ہوں۔ لوک میں بھی اور پر لوک میں بھی ۔”

میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔

جون میں شادی ہوگئی۔ گوپا نے بہت کچھ دیا اور اپنی حیثیت سے بہت زیادہ دیا لیکن پھربھی اس کا دل مطمئن نہ ہوا۔ اگر آج سنتی کے باپ ہوتے تو نہ جانے کیا کرتے ! باربار یہ کہتی اور روتی رہی ۔

جاڑوں میں میں پھر دہلی آگیا۔ میرا خیال تھا کہ گوپا اب خوش ہوگی ۔لڑکی کا گھر اور بر دونوں اچھے ہیں ۔ گوپا کو اس کے سوا اور کیا چاہیے۔ لیکن سکھ اس کے مقدر میں ہی نہ تھا۔

میں ابھی کپڑے بھی نہ ا تار نے پایا تھا کہ اس نے اپنا دکھڑا شروع کر دیا ’’ بھیا! گھر دوار سب کچھ اچھا ہے، ساس سر بھی اچھے ہیں لیکن داماد نکمّا نکلا۔ سنتی بے چاری رورو کر دن کاٹ رہی ہے۔ تم اسے دیکھو تو پہچان نہ سکو ۔ بس اس کا سایہ ہی رہ گیا ہے۔ ابھی چند دن ہوئے آئی تھی ۔ اس کی حالت دیکھ کر چھاتی پھٹتی ہے  نہ تن بدن کی سدھ ہے، نہ کپڑے لتّے کی ۔میری سنتی کی یہ در گت ہوگی ، یہ تو میں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ بالکل گم سم سی ہوگئی ہے ۔ کتنا پوچھا بیٹا !تجھ سے وہ کیوں نہیں بولتا بس آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں ۔ میری سنتی تو کنوئیں میں گرگئی ۔

میں نے کہا: “تم نے اس کے گھر والوں سے پتا نہیں لگایا؟‘‘

لگایا کیوں نہیں بھیا۔ سب حال معلوم ہو گیا ۔ لڑکا چاہتا ہے کہ میں چاہے جس راہ جاؤں سنتی میری پوجا کرتی رہے۔ سنتی بھلا اسے کیوں سہنے لگی اسے تم جانتے ہو کہ کتنی خوددار ہے ۔ وہ ان عورتوں میں نہیں ہے جو شوہر کو دیوتا سمجھتی ہیں اور اس کی بدسلوکیاں برداشت کرتی رہتی ہیں ۔ اس نے ہمیشہ دلار پایا ہے ۔ باپ بھی اس پر جان دیتا تھا۔ میں بھی آنکھ کی پتلی سمجھتی تھی ۔ شو ہر ملا چھیلا جو آدھی آدھی رات تک مارا مارا پھرتا ہے ۔ دونوں میں کیا بات ہوئی یہ کون جان سکتا ہے لیکن دونوں میں کوئی گانٹھ پڑگئی ہے ۔ نہ وہ سنتی کی پروا کرتا ہے اور نہ سنتی اس کی پروا کرتی ہے ۔ مگر وہ تو اپنے رنگ میں مست ہے ۔سنتی جان دےدے گی۔

میں نے کہا: “لیکن تم نے سنتی کوسمجھایا نہیں ۔ اس لونڈے کا کیا بگڑ ے گا۔ اس کی توزندگی خراب ہو جائےگی ۔”

 گوپا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئےبولی: “بھیا! کس دل سے سمجھاؤں؟ سنتی کودیکھ کر تو میری چھاتی پھٹتی ہے ۔ بس یہی جی چاہتا ہے کہ اسے اپنے کلیجے میں رکھ لوں کہ اسے کوئی کڑی آنکھ سے دیکھ بھی نہ سکے ۔ سنتی پھو ہڑ ہوتی ، آرام طلب ہوتی تو سمجھاتی بھی ۔ کیا یہ سمجھاؤں کہ تیرا شو ہرگلی گلی منہ کالا کرتا پھرے اور تو اس کی پوجا کر ۔ میں تو خود یہ ذلت برداشت نہ کرسکتی ۔مرد اور عورت میں بیاہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں سولہ آنے ایک دوسرے کے ہو جائیں ۔ ایسے مرد کم ہیں جو عورت کی جو برابرکج نگاہی بھی برداشت کر سکیں لیکن ایسی عورتیں بہت ہیں جوشو ہر کودیوتا سمجھتی ہیں۔ سنتی ان عورتوں میں نہیں ۔ وہ اگر محبت کرتی ہے تو محبت چاہتی بھی ہے اور اگر شوہر میں یہ بات نہ ہوئی تو اس سے واسطہ نہیں رکھے گی چاہے اس کی ساری زندگی روتے کٹ جائے۔”

یہ کہہ کر گو پا اندر گئی اور ایک سنگھاردان لا کر بولی :”سنتی اسے اب کے یہیں چھوڑ گئی ۔اس لیے آئی تھی ۔ یہ وہ گہنے ہیں جنھیں میں نے نہ جانے کتنی تکلیفیں برداشت کر کے بنوائے تھے ۔ان کے پیچھے مہینوں ماری ماری پھری تھی ۔ یوں کہو کہ بھیک مانگ کر جمع کیے تھے۔سنتی اب ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی ۔ پہنے تو کس لیے؟ سنگھار کرے تو کس پر؟ پانچ صندوق کپڑوں کے دیئے تھے۔ کپڑے سیتے سیتے میری آنکھیں پھوٹ گئیں ۔ وہ سب کپڑے اٹھا لائی ۔ان چیزوں سے اسے اب نفرت سی ہوگئی ہے ۔ بس کلائی میں کانچ کی دو چوڑیاں اور ایک اجلی کی ساڑی یہی اس کا سنگھار ہے ۔

میں نے گوپا کو دلاسا دیا کہ میں جا کر ذرا کیدار ناتھ سے ملوں گا۔ دیکھوں تو وہ کس رنگ ڈھنگ کا آدمی ہے۔

 گو پانے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’بھیا! بھول کر بھی نہ جانا۔ سنتی سنتے ہی جان دے دے گی ۔ غیرت کی پتلی ہی سمجھواسے۔ رسی سمجھ لو جس کے جل جانے پر بھی بل نہیں جاتے ۔جن پیروں نے اسے ٹھکرادیا ہے انھیں وہ بھی نہ سہلائے گی ۔اسے اپنا بنا کر کوئی چاہے تو لونڈی بنا لے لیکن حکومت تو اس نے میری نہ سہی ، دوسروں کی کیا سہے گی۔

میں نے گو پاسے تو اس وقت کچھ نہ کہا۔ لیکن موقع پاتے ہی لالہ مداری لال سے ملا۔ میں راز معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے باپ بیٹے دونوں ایک ہی جگہ مل گئے ۔ مجھے دیکھتے ہی کیدار ناتھ نے اس طرح جھک کر چرن چھوئے کہ میں اس کی سعادت مندی سے متاثر ہوا۔ جلدی سے اندر گیا اور چائے، مربہ اور مٹھائیاں لا یا ۔اتنا شائستہ ،اتنا شریف اورا تنا خلیق نو جوان میں نے نہ دیکھا تھا۔ یہ گمان ہی نہ ہوسکتا تھا کہ اس کے اندر اور باہر میں کوئی فرق ہوسکتا ہے۔ جب تک رہا سر جھکائے بیٹھار ہا۔ جب وہ ٹینس کھیلنے چلا گیا تو میں نے مداری لال سے کہا:

“کیدار ناتھ بابو تو بہت ہی نیک معلوم ہوتے ہیں۔ پھر میاں بیوی میں اتنی کشیدگی کیوں ہوگئی ہے؟”

مداری لال نے ایک لمحہ غور کر کے جواب دیا: “اس کا سبب سوائے اس کے اور کیا بتاؤں کہ اپنے ماں باپ کے لاڈلے ہیں اور پیارلڑکوں کو اپنے من کا بنادیتا ہے ۔ میری ساری عمر محنت میں کٹی ، اب جا کر ذرا راحت ملی ہے۔ رنگ رلیوں کا بھی موقع کبھی نہ ملا۔ دن بھر محنت کرتا تھا اور شام کو پڑ کر سور ہتا تھا۔ صحت بھی اچھی تھی ۔ اس لیے برابر یہی فکر سوار رہتی تھی کہ کچھ جمع بھی کرلوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بال بچے بھیک مانگتے پھریں نتیجہ یہ ہوا کہ ان مہاشے کو مفت کی دولت ملی سنک سوار ہوگئی ،شراب اڑنے لگی، پھر ڈراما کھیلنے کا شوق ہوا۔ روپے کی کمی تھی نہیں ، اس پر ماں باپ کے اکیلے بیٹے،ان کی خوشی ہی ہماری زندگی کی بہشت تھی۔ پڑھنا لکھنا تو دور رہا آوارگی کی طرف رجحان بڑھتا گیا۔ رنگ اور گہرا ہوا اور اپنی زندگی کا ڈراما کھیلنے لگے۔ میں نے یہ رنگ دیکھا تو مجھے فکر ہوئی۔سوچا بیاہ کردوں ،ٹھیک ہو جائے گا۔ گو پا دیوی کا پیغام آیا تو میں نے منظور کر لیا۔ میں سنتی کو دیکھ چکا تھا۔ سوچا ایسی خوب صورت بیوی پا کر اس کی اصلاح ہو جائے گی ۔لیکن اتفاق سے وہ بھی لاڈلی لڑ کی تھی ۔ضدی اور ہٹیلی۔مفاہمت کا زندگی میں کیا درجہ ہے اس کی اسکو خبر ہی نہیں ۔لو ہالو ہے سے لڑ گیا۔ میں ہے سارا بھید اور صاحب میں تو بہو کو ہی زیادہ خطاوار سمجھتا ہوں۔ لڑکے تو سب ہی من چلے ہوتے ہیں۔ لڑکیا ں اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ان کی سیوا قربانی اور محبت یہی ان کے دو ہتھیار ہیں جن سے وہ اپنے شوہر پر فتح حاصل کر لیتی ہیں ۔ بہو میں یہ گن نہیں ہے۔ ناؤ کیسے پار ہوگی ، خدا ہی جانے ۔” اتنے میں سنتی اندر سے آ گئی ۔اپنی تصویر کا مٹا ہوا خا کہ تھی ۔ کندن تپ کر مجسّم ہو گیا تھا۔ مٹی ہوئی تمناؤں کی اس سے اچھی تصویر نہیں ہوسکتی۔ مجھ پر طعن کرتی ہوئی بولی: ’’آپ جانے کب سے بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے خبر تک نہیں ۔ آپ شاید باہر ہی باہر چلے بھی جاتے ۔”

 میں نے اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہا: نہیں سنتی ! یہ کیسے ہوسکتا تھا۔ تمہارے پاس آ ہی رہا تھا کہ تم خود آ گئیں۔” لالہ مداری لال کمرے سے باہر اپنے موٹر کی صفائی کرانے لگے ۔ شاید مجھے سنتی سے بات چیت کا موقع دینا چاہتے تھے۔

 سِنی نے پوچھا:”اماں تو اچھی ہیں؟‘‘

میں نے کہا: “ہاں وہ تو اچھی ہیں لیکن تم نے اپنی کیا گت بنارکھی ہے؟‘‘

” میں تو بہت اچھی طرح ہوں ‘‘

’’ یہ بات کیا ہے؟ تم لوگوں میں کیا ان بن ہے؟ گو پا دیوی جان دے ڈالتی ہیں ۔تم خودمر نے کی تیاری کر رہی ہو ۔ کچھ تو عقل سے کام لو ‘‘

سنتی کے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔ وہ بولی:’’ آپ نے ناحق یہ گفتگو چھیڑ دی۔ میں نے تو یہ سوچ کر اپنے دل کو سمجھایا کہ میں بدنصیب ہوں۔ بس ان باتوں کا علاج میرے قابو سے باہر ہے۔ میں اس زندگی سے موت کو کہیں بہتر سمجھتی ہوں ۔ جہاں اپنی قدر نہ ہوزندگی کی کوئی دوسری شکل میری سمجھ میں نہیں آتی۔اس معاملے میں کسی طرح کا سمجھوتہ کرنامیرے لیے غیرممکن ہے۔ نتیجے کی میں پروانہیں کرتی۔“

“لیکن ۔۔۔۔۔‘‘

نہیں چاچا جی ۔اس معاملے میں آپ کچھ نہ کہیے نہیں تو میں چلی جاؤں گی ‘‘

” آخر سو چوتو۔۔۔ “

’’ میں سب سوچ چکی اور طے کر چکی ۔ حیوان کو انسان بنا نا میری طاقت سے باہر ہے ۔‘‘

مئی کا مہینہ تھا۔ میں مسوری گیا تھا کہ گو پاکاتار پہنچا:’’ فورا ًآؤ بہت ضروری کام ہے ۔‘‘ میں گھبرا کر دوسرے ہی دن دہلی پہنچا۔ گو پادق کی مریضہ معلوم ہورہی تھی ۔ میں نے پوچھا:’سِنّی تو اچھی ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا: “ہاں ‘‘

’’اور کیدار ناتھ؟‘‘

’’ وہ بھی اچھی طرح ہے ۔”

’’ تو ماجرا کیا ہے؟‘‘

“کچھ نہیں ‘‘

“تم نے مجھے تاردے کر بلایا اور پھر کہتی ہو کہ کوئی بات نہیں ۔‘‘

’’ دل گھبرارہا تھا، اس لیے تم کو بلایا۔ سِنّی کو کسی طرح سمجھا کر یہاں لانا ہے۔ میں توسب کچھ کر کے تھک گئی ۔‘‘

’’ کیا ادھر کوئی نئی بات ہوئی ہے؟‘‘

 ’’نئی تو نہیں ۔ لیکن ایک طرح سے نئی ہی سمجھو۔ کیدار ایک ایکٹرس کے ساتھ کہیں بھاگ گیا۔ایک ہفتے سے کچھ پتانہیں۔سِنّی سے کہہ گیا ہے کہ جب تک تم رہو گی میں گھر میں قدم نہ رکھوں گا۔ سنا ہے کہ کیدا راپنے باپ کے جعلی دستخط بنا کر کئی ہزار روپے بھی بینک سے لے گیا ہے ۔‘‘

’’ تم سِنّی سے ملی تھیں؟‘‘

’’ہاں ، تین دن سے برابر جارہی ہوں ۔‘‘

’’اگرسِنّی نہیں آنا چاہتی تو تم رہنے کیوں نہیں دیتیں؟‘‘

’’وہاں وہ گھٹ گھٹ کر مر جائےگی ۔‘‘

میں اسی وقت مداری لال کے پاس گیا۔ وہ میری صورت دیکھتے ہی بولے : “بھائی صاحب! میں تو لٹ گیا۔لڑکا بھی گیا اور بہو بھی گئی ۔”

معلوم ہوا کہ جب سے کیدار غائب ہو گیا ہے، سِنّی اور بھی اداس رہنے لگی تھی ۔ اس نے اسی دن اپنی چوڑیاں توڑ ڈالی تھیں اور مانگ کا سیندور پونچھ ڈالا تھا۔ کسی سے بات نہ کرتی تھی ۔ آج صبح وہ جمنا اشنان کرنے گئی ۔ اندھیرا تھا۔ سارا گھر سورہا تھا۔ کسی کونہیں جگایا۔ جب دن چڑھ گیا اور بہو نہ ملی تو اس کی تلاش ہونے لگی ۔ دو پہر کو پتا چلا کہ جمنا گئی ہے ۔ لوگ ادھر بھاگے۔ وہاں اس کی لاش ملی ۔ پولیس آئی ۔لاش کا معائنہ ہوا۔ اب لاش واپس لی ہے ۔‘‘

میں کلیجہ تھام کر بیٹھ گیا۔ ارتھی کے ساتھ گیا اور وہاں سے لوٹا تو رات کے دس بج گئے تھے ۔ میرے پانو کانپ رہے تھے ۔ معلوم نہیں یہ خبر پا کر گو پا کی کیا حالت ہوگی ۔اس ابھا گن کے باغ تمنّا میں یہی ایک پودا تھا۔ اسے اپنے خون جگر سے سینچ کر پال رہی تھی ۔ اس کے بسنت کا سنہرا خواب ہی اس کی زندگی کا ماحصل تھا۔ اس میں کونپلیں نکلیں گی ، پھول کھلیں گے ، پھل آ ئیں گے، چڑیاں اس کی ڈالیوں میں بیٹھ کر اپنے سہانے راگ گائیں گی لیکن آج موت کے بے رحم ہاتھوں نے اس پودے کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اس کی زندگی اب بیکارتھی ۔ وہ نقطہ ہی مٹ گیا تھا جس پر زندگی کے تمام خطوط آ کر ملتے تھے ۔ دل کو دونوں ہاتھوں سے تھامے میں نے زنجیر کھٹکھٹائی۔ گوپا ایک لالٹین لیے نکلی ۔ میں نے گو پا کے چہرے پر سکون کی ایک نئی جھلک دیکھی ۔اس نے مجھے غمگین دیکھ کر محبت سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی:’’ آج تو تمھیں سارا دن روتے ہی کٹا۔ لاش کے ساتھ تو بہت آدمی ہوں گے ۔ میرے جی میں بھی آیا تھا کہ چل کرسِنّی کا آخری درشن کرلوں لیکن میں نے سوچا کہ جب سِنّی ہی نہ رہی تو اس کی لاش میں کیا رکھا ہے ۔نہ گئی ۔ “

میں حیرت سے گوپا کا منہ دیکھنے لگا۔ اسے اس افسوس ناک حادثے کی اطلاع مل گئی تھی لیکن وہ کس قد رصابر و پرسکون ہے۔ میں نے کہا:  “اچھا، کیاتم نہیں گئیں ۔ رونا ہی تو تھا۔”

 گو پانے کہا:’’ہاں اور کیا۔ روئی تو یہاں بھی ۔ لیکن تم سے سچ کہتی ہوں کہ دل سے نہیں روئی۔ نہ جانے آنسو کس طرح نکل آئے۔  مجھے تو درحقیقت سنی کی موت سے خوشی ہوئی ۔ بدنصیب اپنی عزت و خودداری کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئی نہیں تو نہ جانے کیا کیا دیکھنا پڑتا ۔اس لیے اور بھی خوش ہوں کہ اس نے اپنی آن نبھا دی ۔عورت کو زندگی میں محبت نہ ملے تو اس کا مر جانا ہی اچھا ہے ۔تم نے سنی کی لاش دیکھی تھی؟ لوگ کہتے ہیں ایسا جان پڑتا تھا کہ مسکرا رہی ہے ۔ میری سنی سچ مچ دیوی تھی ۔ بھیا! انسان اس لیے تھوڑے ہی جینا چاہتا ہے کہ روتا رہے ۔ جب معلوم ہو گیا کہ زندگی میں دکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو آدمی جی کر کیا کرے؟ کس لیے جیے؟ کھانے سونے اور مرجانے کے لیے؟ یہ میں نہیں کہتی کہ مجھے سنی کی یاد نہ آئے گی یا میں اسے یادکر کے روؤں گی نہیں، لیکن وہ غم کے آنسونہ ہوں گے خوشی کے آنسو ہوں گے۔ بہادر بیٹے کی ماں اس کی بہادری سے خوش ہوتی ہے۔ سنی کی موت کیا کم باعث فخر ہے؟ میں آنسو بہا کر اس فخر کو کیوں بربادکروں؟ وہ جانتی ہے کہ ساری دنیا اس کی مذمت کرے، اس کی ماں اس کی تعریف ہی کرے گی ۔اس کی روح سے یہ مسرت بھی چھین لوں؟ لیکن اب رات زیادہ ہوگئی ہے ۔ اوپر جا کر سو رہو۔ میں نے تمہاری چارپائی بچھا دی ہے۔ مگر دیکھو!اکیلے پڑے پڑے رونا نہیں۔ سِنّی نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا ۔ اس کے پتاہوتے تو آج سِنّی کی مورت بنا کر پوجتے۔”

*****

1 thought on “افسانہ (04) شانتی”

  1. Pingback: پریم چند کا افسانہ : شانتی 04 Urdu Literature

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks