آپ نظیر اکبرآبادی کی نظم “مفلسی” پڑھیں اور اس کو سن بھی سکتے ہیں۔
نظم مفلسی
نظیر اکبرآبادی
نظیر اکبرآبادی کی نظم “مفلسی” مخمس کی ہئیت میں ہے جو 34 بندوں پر مشتمل ہے۔ اس کو مفلسی کی فلاسفی کے نام سے بھی معنون کیا گیا ہے۔
نظیر اکبرآبادی اردو تنقید میں پست و بلند دونوں رہے ہیں، کسی نے مدح سرائی کی ہے تو کسی نے مذمت سے کام لیا ہے الغرض ان کے شاعرانہ مرتبہ کے درست تعین سے اردو تنقید نگار قاصر رہے ہیں۔ لیکن مسعود حسین کے الفاظ میں:
“وہ اردو کا پہلا (اور غالباً آخری بھی) ‘عوامی ‘ شاعرہے، کیا بہ اعتبار زبان ، کیا بہ امتیازِ بیان اور کیا بہ اعتبارِ موضوعات۔ یہ اس کے عوامی شاعرہونے کے طفیل میں ہے کہ ابتدائے شاعری میں اس نے فسق فجور کی باتیں بھی بے محابا بیان کردی ہیں۔ نظیرؔ کی شاعری خود نظیرؔ کی شخصیت ہے۔شعر اور شاعری میں اس قدر تال میل اور کہیں نہیں ملے گا۔”
(1)
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی | جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی |
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی | پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی |
روز: دن
جب آدمی کے حال پہ مفلسی آتی ہے ، مفلسی اس کو کس کس طرح سے ستاتی ہے ، تمام روز مفلسی پیاسا بٹھاتی ہے مفلسی تمام رات بھوکا سلاتی ہے ، یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ مفلسی آتی ہے ۔
(2)
تعظیم جس کی کرتے ہیں نو اب اور خاں | کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شاں |
عیسیٰ بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا میاں | مفلس ہوئے تو حضرت لقماں کیا ہے یاں |
کہیے تو اب سب سے بڑی حکیم کی شاں ہے نو اب اور خاں جس کی تعظیم کرتے ہیں ، مفلس ہوئے تو یاں حضرت لقماں کیا ہے ، عیسیٰ بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا میاں، مفلسی حکیم کی حکمت بھی ڈوباتی ہے
(3)
مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں | جو اہل فضل عالم و فاضل کہاتے ہیں |
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں | پوچھے کوئی الف، تو اُسے بے بتاتے ہیں |
کلمہ تلک بھول جانا: یعنی لوگ کہتے ہیں کہ کمبخت کو کلمہ تک تو درست آتا ہی نہیں ہے۔
(4)
سب جانیں روٹیوں کا یہ ڈالا ہے اس نے جال | مفلس کرے جو آن کے محفل کے بیچ حال |
مفلس میں ہوویں لاکھ اگر علم اور کمال | گر گر پڑے تو کوئی نہ لیے اسے سنبھال |
آن: آمد، آنا
(5)
مفلس کو دیویں ایک تونگر کو چار چار | جب روٹیوں کے بٹنے کا آ کر پڑے شمار |
اس مفلسی کا آہ بیاں کیا کروں میں یار | گر مانگے اور وہ تو اسے جھڑکیں بار بار |
شمار: باری ، نمبر
تونگر : مالدار
چپانا: شرمندہ کرنا، شرمانا، شرم دلانا، لجانا، پانی پانی کرنا
(6)
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر | مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر |
جس طرح کتے لڑتے ہیں اک استخوان پر | ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر |
آن: عزت، شان، زعم، وقت
نان: روٹی
استخوان: ہڈی
(7)
مفلس کرے ہے اس کے تئیں انصرام آہ | کرتا نہیں حیا سے جو کوئی وہ کام آہ |
کہتے ہیں جس کو شرم و حیا ننگ و نام آہ | سمجھے نہ کچھ حلال نہ جانے حرام آہ |
انصرام: انتظام
ننگ و نام: عفت و عصمت، غیرت و حیا، لحاظ و شرم
(8)
پھر جتنی گھر میں ست تھی اسی گھر کے در گئی | یہ مفلسی وہ شے ہے کہ جس گھر میں بھر گئی |
ہم سایہ پوچھتے ہیں کہ کیا دادی مر گئی | زن بچے روتے ہیں گویا نانی گزر گئی |
ست: طاقت، زور، جان، دم، خیر و برکت
درجانا: قدر و منزلت جاتے رہنا
(9)
مفلس بغیر غم کے ہی کرتا ہے ہائے ہائے | لازم ہے گر غمی میں کوئی شور غل مچائے |
اس مفلسی کی خواریاں کیا کیا کہوں میں ہائے | مر جاوے گر کوئی تو کہاں سے اسے اٹھائے |
خواری: ذلت، بے عزتی، بے وقری
(10)
جھاڑو بغیر گھر میں بکھرتی ہیں جھکڑیاں | کیا کیا مفلسی کی کہوں خواری پھکڑیاں |
پیدا (پیسا)نہ ہوویں جن کے جلانے کو لکڑیاں | کونوں میں جالے لپٹے ہیں چھپر میں مکڑیاں |
خواری: ذلت، بے عزتی، بے وقری
پھکڑی: بداخلاقی، ناشائستگی، بے عزتی
جھکڑی: جھانکڑ کی تصغیر، جھاڑی خاردار درخت
(11)
کپڑے میاں کے بنیے کے گھر میں پڑے رہے | بی بی کی نتھ نہ لڑکوں کے ہاتھوں کڑے رہے |
زنجیر نہ کواڑ نہ پتھر گڑے رہے | جب کڑیاں بک گئیں تو کھنڈر میں پڑے رہے |
(12)
سب رنگ دم میں کر دے مصور کے کرکرے | نقاش پر بھی زور جب آ مفلسی کرے |
تصویر اور نقش میں کیا رنگ وہ بھرے | صورت بھی اس کی دیکھ کے منہ کھنچ رہے پرے |
(13)
پھرتا ہے بوسے دیتا ہے ہر اک کو خواہ مخواہ | جب خوب رو پہ آن کے پڑتا ہے دن سیاہ |
گر حسن ہو ہزار روپے کا تو اس کو آہ | ہرگز کسی کے دل کو نہیں ہوتی اس کی چاہ |
(14)
جو کوڑی کوڑی بوسہ کو راضی ہو دم بہ دم | اس خوب رو کو کون دے اب دام اور درم |
کیوں کر نہ جی کو اس چمن حسن کے ہو غم | ٹوپی پرانی دو تو وہ جانے کلاہ جَم |
دام: مول، قیمت
درم: چاندی کا سکہ، روپیہ
دم بدم: ہر گھڑی، ہروقت
(15)
معشوق اپنے پاس نہ دے اس کو بیٹھنے | عاشق کے حال پر بھی جب آ مفلسی پڑے |
اس ڈر سے یعنی رات کو ایذاکہیں نہ دے | آوے جو رات کو تو نکالے وہیں اسے |
ایذا: دکھ، تکلیف، اذیت
(16)
جب مفلسی کا آن پڑے سر پہ اس کے جال | کیسی ہی دھوم دھام کی رنڈی ہو خوش جمال |
ناچے ہے وہ تو فرش کے اوپر قدم سنبھال | دیتے ہیں اس کے ناچ کو ٹھٹھے کے بیچ ڈال |
آن پڑنا: یکایک گرنا، ٹوٹ پڑنا، وارد ہوجانا
ٹھٹھا: ہنسی،مذاق، دل لگی
انگلی پر نچانا: ہنسی اُڑانا، ذلیل کرنا، حیران کرنا، ستانا
کیسی ہی دھوم دھام کی خوش جمال رنڈی ہو
جب اس کے سر پہ مفلسی کا جال آن پڑے
اس کے ناچ کو ٹھٹھے کے بیچ ڈال دیتے ہیں
وہ فرش کے اوپر قدم سنبھال کر ناچتی ہے
(17)
جب ہو پھٹا دوپٹہ تو کاہے سے منہ چھپائے | اس کا تو دل ٹھکانے نہیں بھاؤ کیا بتائے |
اوروں کو آٹھ سات تو وہ دو ٹکے ہی پائے | وہ شام سے لے صبح تلک گو کہ ناچے گائے |
بھاؤ: قیمت
لاج: شرم
(18)
رکھتا ہے اس کو جب کوئی آ کر تماش بیں | جس کسبی رنڈی کا ہو فلاکت سے دل حزیں |
یہ دکھ اسی سے پوچھئے اب آہ جس کے تئیں | اک پون پیسے تک بھی وہ کرتی نہیں نہیں |
کسبی: کمایا ہوا، پیشہ ور، بازاری عورت
فلاکت: بے مایگی، افلاس، بپتا، بدحالی، مصیبت
حزیں:غمگین، رنجیدہ، افسردہ
تماش بیں: تماشابیں کی جمع، تماشا دیکھنے والے
(19)
دمڑی کے پان دمڑی کے مسی منگاؤں گی | وہ تو یہ سمجھی دل میں کہ دھیلا جو پاؤں گی |
پھر دل میں سوچتی ہے کہ کیا خاک کھاؤں گی | باقی رہی چھدام سو پانی بھراؤں گی |
دھیلا: آدھا پیسہ
دمڑی: پیسہ کا چوتھا حصہ
چھدام: پیسہ کا آٹھواں حصہ
(20)
پھرتا ہے لے طنبورے کو ہر گھر کے آس پاس | جب مفلسی سے ہووے کلاونت کا دل اداس |
گوری کا وقت ہووے تو گاتا ہے وہ ببھاس | اک پاؤ سیر آٹے کی دل میں لگا کے آس |
کلانونت: گویّا،
گوری، ببھاس: ایک راگ
(21)
پیسا کہاں جو جا کے وہ لاوے جہیز مول | مفلس بیاہ بیٹی کا کرتا ہے بول بول |
گھر کی حلال خوری تلک کرتی ہے ٹھٹھول | جورو کا وہ گلا ہے کہ پھوٹا ہو جیسے ڈھول |
بول بولنا: نیلام کی آواز لگانادام لگانا، منت ماننا
حلال خوری:مہترانی، بھنگی
ٹھٹھول: ایک مسخرا، ہنسی مذاق
(22)
نے روشنی نہ باجے کی آواز آتی ہے | بیٹے کا بیاہ ہو تو نہ بیاہی نہ ساتھی ہے |
بیٹا بنا ہے دولہا تو باوا براتی ہے | ماں پیچھے ایک میلی چدر اوڑھے جاتی ہے |
(23)
شہدا زنانہ ہیجڑا اور بھاٹ منڈ چرا | گر بیاہ کر چلا ہے سحر کو تو یہ بلا |
وہ آگے آگے لڑتا ہوا جاتا ہے چلا | گھیرے ہوئے اسے چلے جاتے ہیں جا بہ جا |
شہدا: ایک فرقہ فقیروں کا جو اکثر ننگے سر ننگے پاؤں رہتا ہے اور شادیوں میں پلنگ عروس کو اٹھاتا ہے
منڈچرا: یہ اصل میں منڈت شِراتھا جس کے معنی منڈی ہوئی کھوپڑی والا ، یا ممکن ہے کہ منڈچرا؛ منڈا اور چیرا سے مرکّب ہویعنی وہ شخص جو منڈکر کسی بزرگ کا چیلا ہوا ہو، آزاد فقیر،
(24)
اور گھر میں بیٹھی ڈومنی دیتی ہیں گالیاں | دروازے پر زنانے بجاتے ہیں تالیاں |
سقا کھڑا سناتا ہے باتیں رذالیاں | مالن گلے کی ہار ہو دوڑ ے لے ڈالیاں |
سقا:آب پاش، آب کش، آب رسا
رذالیاں: بےشرمی، بے حیائیِ ، سخت رذیل
(25)
بیٹے نے جانا باپ تو میرا نکھٹو ہے | کوئی شوم بے حیا کوئی بولا نکھٹو ہے |
بی بی یہ دل میں کہتی ہے بھڑوا نکھٹو ہے | بیٹی پکارتی ہیں کہ بابا نکھٹو ہے |
شوم: بدبخت
نکھٹو: بے شغل، نکما، نہ کمانے والا
بھڑوا: بدکردار، عورتوں کی کمائی پر بسر کرنے والا، غیر مرد اور عورتوں کو ملانے والا
(26)
مفلس کی بات کو بھی کوئی مانتا نہیں | مفلس کا درد دل میں کوئی ٹھانتا نہیں |
صورت بھی اس کی پھر کوئی پہچانتا نہیں | ذات اور حسب نسب کو کوئی جانتا نہیں |
(27)
پھر کوئی اس کے حال پہ کرتا نہیں نگاہ | جس وقت مفلسی سے یہ آ کر ہوا تباہ |
جو باتیں عمر بھر نہ سنی ہوویں اس نے آہ | والیدری کہے کوئی ٹھہرا دے رو سیاہ |
والیدری: مفلس، غریب آدمی، منحوس آدمی
روسیاہ: بے عزت
(28)
پینے کو کچھ نہ کھانے کو اور نے رکابی ہے | چولھے توا نہ پانی کے مٹکے میں آبی ہے |
مفلس کی جورو سچ ہے کہ یاں سب کی بھابی ہے | مفلس کے ساتھ سب کے تئیں بے حجابی ہے |
آبی: آب ہی تخفیف تلفظ کے لیے گرا دیا گیا ہے۔
(29)
کوئی گدھا کہے اسے ٹھہرا دے کوئی بیل | کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل |
منہ خشک دانت زرد بدن پر جما ہے میل | کپڑے پھٹے تمام بڑھے بال پھیل پھیل |
(30)
جو آشنا ہیں ان کی تو الفت گھٹاتی ہے | ہر آن دوستوں کی محبت گھٹاتی ہے |
شرم و حیا و عزت و حرمت گھٹاتی ہے | اپنوں کی مہر غیر کی چاہت گھٹاتی ہے |
جو آشنا ہیں ان کی تو الفت گھٹاتی ہے | ہر آن دوستوں کی محبت گھٹاتی ہے |
شرم و حیا و عزت و حرمت گھٹاتی ہے | اپنوں کی مہر غیر کی چاہت گھٹاتی ہے |
(31)
وہ قدر ذات کی وہ نجابت کہاں رہی | جب مفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی |
تعظیم اور تواضع کی بابت کہاں رہی | کپڑے پھٹے تو لوگوں میں عزت کہاں رہی |
نجابت: عالی خاندانی، شرافت
(32)
باپ اس کا دیکھے ہاتھ کا اور پاؤں کا کڑا | مفلس کسی کا لڑکا جو لے پیار سے اٹھا |
نٹ کھٹ اُچکّا چور دغاباز گٹھ کٹا | کہتا ہے کوئی جوتی نہ لیوے کہیں چرا |
(33)
سب خاک میں ملاتی ہے حرمت کی شان کو | رکھتی نہیں کسی کی یہ غیرت کی آن کو |
چوری پہ آ کے ڈالے ہی مفلس کے دھیان کو | سو محنتوں میں اس کی کھپاتی ہے جان کو |
(34)
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر | دنیا میں لے کے شاہ سے اے یار تا فقیر |
کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیرؔ | اشراف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر |
آپ لوگ پڑھے نظیر اکبرآبادی کی نظم “مفلسی” اب ساتھیوں تک دوسروں تک پہنچائیں۔