UPHESC URDU COMPLETE SYLLABUS
ASSISTANT PROFESSOR URDU
اسسٹنٹ پروفیسر اردو نصاب
اس صفحہ پر یوپی ایچ ای ایس سی اسسٹنٹ پروفیسر اردو کے نصاب کو بتدریج پیش کیا جا رہا ہے۔ جلد ہی مکمل نصاب آپ کی خدمت میں ہوگا۔آپ روزانہ اس صفحہ پر آ کر مطالعہ کریں آپ کو کچھ نہ کچھ مزید مواد دستیاب ہوگا۔آفیشل فائل بھی دی جا رہی ہے۔
UNIT - I
اردو زبان کا ارتقاء اور نظریات
ہندوستان میں آریاؤں کی آمد
جدیدمحققین کی رائے میں آریاؤں کے وطن کی تلاش وسطی ایشیا کے علاقوں میں کرنا چاہیے۔بہر حال 2000 ق م میں وہ ایران پہنچ چکے تھے ایران میں ان کی زبان کو “ہندایرانی” کا نام دیا گیاہے۔آریاؤں کا اصلی وطن وسط ایشیا کا ایک خشک پہاڑی علاقہ تھا۔ انہیں اس علاقے کو چھوڑ کر زرخیز زمین اور اپنے جانوروں کے لئے گھاس کے میدان کی تلاش میں اپنے وطن کو خیرآباد کہنا پڑا۔1500 ق م میں ایران سے ہندوستان آئے۔یہاں ان کا مقابلہ دراوڑوں سے ہوا۔ہندوستان کو آریاؤں کی سب سے بڑی دین زبان تھی۔ اور ایک اور بڑی دین براہمی رسم الخط ہے۔
ہندآریائی اور اس کے ادوار
ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے جہاں تین بڑے خاندانوں کی تقریباً آٹھ سو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ خاندان ہیں: ہندآریائی، دراوڑی اور ہند چینی۔اردو کا تعلق ہندآریائی خاندان السنہ سے ہے۔ اسے جدیدہندآریائی زبان اس لئے کہتے ہیں کہ آسامی، بنگالی، پنجابی، مراٹھی، گجراتی اور ہندی کی طرح یہ بھی سنسکرت سے ماخوذ ہے۔ہندوستان میں آریوں کی زبان کے مختلف ارتقائی مراحل کو “ہند آریائی ” کے ارتقا سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز 1500 ق م سے ہوتا ہے۔
ہندآریا ئی کے ارتقا کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے:
- قدیم ہند آریائی 1500ق م تا 500ق م (ہزار سال کا وقفہ)
- وسطی ہندآریائی 500 ق م تا 1000ء (پندرہ سو سال کا وقفہ)
- جدید ہند آریائی 1000ء تاحال
مسعود حسین خاں کے یہاں ادوار کی مدت میں تبدیلی ہے اسی کو این سی ای آر ٹی میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
ہند آریائی زبان کا عہد قدیم : 1500 ق م تا 500 ق م
آریائی زبان کا عہد وسطیٰ : 500 ق م تا 600 عیسوی
آریائی زبانوں کا تیسرا دور: 600 عیسوی تا 1000 عیسوی
قدیم ہندآریائی
یہ وہی زمانہ ہے جب آریا ایران سے ہندوستان آئے۔ہندوستان میں آریوں کی زبان کا قدیم ترین نمونہ رِگ وید ہے جو ان کی مذہبی کتاب بھی ہے۔ رِگ وید کے بعد، مختلف زمانوں میں تین اور وید (سام وید، یجروید، اور اتھروید)مرتّب ہوئے اور ویدوں کی تعداد چار ہوگئی۔ویدوں میں استعمال زبانوں کو ویدک زبان یا ویدِک سنسکرت کہتے ہیں۔ ویدک سنسکرت کے بعد کلاسیکی سنسکرت سامنے آتی ہے۔ ویدک سنسکرت کے لیے میکڈانل کی ویدک گرامر مشہور ہے۔
قدیم ہندآریائی کے دو ذیلی ادوارہیں:
- ویدک سنسکرت 1500 ق م تا 1000 ق م (500 سال)
- کلاسیکل سنسکرت 1000 ق م تا 500 ق م (500 سال)
اس دور کی ایک نمایاں خصوصیت رہی ہے کہ آریوں کے شمال مغربی خطے سے مشرقی خطے کی جانب پھیلنے سے سنسکرت زبان کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہےاور اس کا ایک معیار پر قائم رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ نیز مقامی بولیوں کے اختلاط کی وجہ سے اس کی تین علاقائی شکلیں ظہور پذیر ہوتی ہیں
1۔ اُدِیچہ: شمالی مغربی ہندوستان کی ۔نہایت معیاری اور شستہ۔ آریوں کی قدیم معیاری زبان سے قریب تر۔دوسریبولیوں پر فائق۔ یہ اس علاقے کی بولی تھی جہاں آج کل سندھی اور لہندا(مغربی پنجابی) زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس میں “ر” اور “ل” کی جگہ صرف “ر” کی آواز پائی جاتی ہے۔
2۔ مدھیہ دیشیہ : درمیانی علاقے کی ۔ انبالہ سے الہ آباد تک۔جہاں آج کل مغربی ہندی کی بولیاں یعنی کھڑی بولی، برج بھاشا، بندیلی اور قنوجی بولی جاتی ہیں اور جہاں اردو اور ہندی کا چلن عام ہے۔فصاحت کے لحاظ سے دوسرے درجے کی۔اس میں “ر” اور “ل” دونوں آوازیں موجود تھیں۔
3۔ پراچیہ: مشرقی ہندوستان کی زبان۔ مرکز سے دور۔ غیر معیاری۔ مغربی ہندوستان کے آریوں کے نزدیک اشدھ زبان۔اس میں “ر” کی جگہ”ل” کا چلن عام ہوگیا تھا۔ اس کا علاقہ وہ سر زمین تھی جہاں اِ ن دنوں بنگالی، آسامی، اُڑیا اور بہاری بولیوں یعنی مگہی، میتھلی اور بھوجپوری کا چلن ہے۔
چوتھی بولی اگر تھی تو وہ دکشنی (جنوبی) ہے
نوٹ: ہارنلے، گریرسن اور دیبر سنسکرت کو بول چال کی زبان نہیں مانتے جب کہ ہندوستانی علما ڈاکٹر بھنڈارکر اور ڈاکٹرگنے مانتے ہیں۔
ویدک اور کلاسکل سنسکرت میں الفاظ کےاقسام حسب ذیل ہیں:
تَتسَم: (الفاظ یعنی اصل ذخیرے کے صحیح تلفظ والے الفاظ زیادہ تر یہی تھے۔)
تدبھو: (وہ سنسکرت الاصل الفاظ جو بول چال کی زبانوں کے زیر اثر بدل گئے)
دیسی جو بول چال کی زبانوں سے لیے گئے۔
بدیسی باہر کی زبانوں کے
کلاسکل سنسکرت کے لیے دھٹنے(Whitne) کی سنسکرت گرامر مشہور ہے۔
نوٹ:قدیم ہند آریائی دور (ویدک اور کلاسیکل سنسکرت کا دور) کے اختتام پر سنسکرت زبان کا جید عالم اور قواعد داں پاننی پیدا ہوتا ہے۔ جس کی شہرہ آفاق تصنیف “ایشٹادھیائی” سنسکرت زبان کا ایک منظوم قواعد ہے۔ کہاجاتا ہے کہ پاننی کا جنم 350 ق م اور وفات 250 ق م میں ہوئی۔ چنانچہ 300 ق م پاننی نے سنسکرت زبان کی قواعد لکھی۔اس کے بعد پتنجلی نے “مہابھاشیہ ” نامی کتاب جس میں پاننی کے قواعد کی تشریح اور توضیح کی گئی۔
وسطی ہندآریائی
سنسکرت کے زوال کے بعد 500 ق م سے پراکرتوں کا ظہور ہوتا ہے یہ دراصل ایک ایسی زبان تھی جو سنسکرت زبان میں تبدیلی کے نتیجے میں فطری طورپر ظہور پذیر ہوئی تھی۔ سنسکرت اعلی طبقے کی زبان بن چکی تھی۔ اسے دیوبانی کا درجہ بھی حاصل تھا۔ چنانچہ عوام میں پراکرت روز بروز مقبول ہوتی چلی گئی۔جب سنسکرت زبان کے تلفظ قواعد اور نحوی ڈھانچے میں کافی حد تک تبدیلیاں رونما ہوگئیں تو یہ زبان بالکل بدل گئی ۔ سنسکرت کی یہی بدلی ہوئی شکل پراکرت کہلائی۔
سنسکرت زبان میں تبدیلی رونما ہوئیں جن کے نتیجے میں پراکرتوں کا ظہور عمل میں آیا۔ ان لسانی تبدیلیوں کے پس منظر میں اردو زبان کے ارتقا کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ہندآریائی کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے وسطی ہندآریائی دور کہتے ہیں۔ یہ دور 500 ق م تا 1000 سنہ عیسوی یعنی پندرہ سوسال تک قائم رہتا ہے۔
وسطی ہندآریائی کو تین ادوار پالی، پراکرت اور اپ بھرنش میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
1۔ پالی دور 500 ق م تا مولود مسیح (500 سال)
2۔ پراکرت دور مولود مسیح تا 500 عیسوی (500 سال)
3۔اپ بھرنش دور500 عیسوی تا 1000 عیسوی (500سال)
گریرسن اور دوسرے مستشرقین کے لیے یہ عام ہے کہ تینوں کو ملا کر پراکرت کہہ دیتے ہیں۔ پالی کو پہلی پراکرت، پراکرت کو دوسری پراکرت اور اپ بھرنش کو تیسری پراکرت۔
پالی دور
پراکرت کے قدیم ترین نمونے گوتم بدھ اورجین کے مذہبی کتابوں اور اشوک (250 ق م) کی لاٹوں پر کندہ کئےہوئے ملتے ہیں۔ اس کو پہلی پراکرت کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔ اسی پہلی پراکرت کی ادبی شکل کو “پالی ” کہتے ہیں۔
پالی کو پہلی پراکرت یا ابتدائی پراکرت بھی کہا گیا ہے۔ پالی سنسکرت لفظ پنکتی سے ماخوذ ہے۔ لسانیا ت کے علما پالی کے معنی سطر، سیدھی لکیر، کتاب کی اصل عبارت ، بودھ گرنتھوں کی سطر، بودھ دھرم شاستر کی سطر بتاتے ہیں۔ پہلی پراکرت میں پالی اور اشوکی پراکرت دونوں شکلیں شامل ہیں۔
وسطی ہند آریائی کے پہلے دور میں دو زبانیں ملتی ہیں:
- پالی
- اشوکی پراکرت
مہاتما بدھ کے اپدیش پالی میں ملتے ہیں جس سے کم از کم یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ پانچویں صدی ق م کے قریب مگدھ میں سنسکرت کا اثر ختم ہوچکا تھا۔
اشوک کا بیٹا مہندراجین سے پالی کتب لنکا لے گیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان میں اصل کتابیں تو رہیں لیکن ان کی تفسیر و تشریحات نہیں ملتی تھیں۔ انھیں پانچویں صدی عیسوی میں بدھ گھوش وہاں سے لایا۔ اس کے بعد ہندوستان پالی زبان کو بھلابیٹھا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ایک انگریزجیمس پرنسپ(Prinsep) نے اس زبان کو پڑھا اور مستشرقین کے فیض ہی سے ہم از سر نو پالی سے واقف ہوئے۔اس زبان کو پالی نام بھی انھیں کا دیا ہوا ہے۔ لنکا میں اسے ماگدھی کہتے ہیں۔ہم چونکہ ماگدھی ایک پراکرت کے لیے مخصوص کر چکے ہیں اس لیے بودھی زبان کو پالی کہنا ہی مناسب ہے۔
پالی کی وجہ تسمیہ
- اس لفظ کا قدیم ترین استعمال چوتھی صدی عیسوی میں لنکا میں لکھی’ سیپ ہنس’میں ہے۔ وہاں یہ ‘مہاتما بدھ کے قول ‘ کے معنی میں آتا ہے۔
- پالی سنسکرت لفظ پنکتی (سطر) سے ماخوذ ہے۔
- یہ لفظ پلّی، گاؤں کی بھاشا ہے۔ یہ سنسکرت کے مقابلے میں دیہاتی زبان ہے۔
- بودھ عالم ‘کوسامبی’ کے نزدیک یہ پالنے والی (محافظ ) کے معنی میں ہے۔
ڈاکٹر سنتی کمار چٹرجی کی رائے میں یہ مدھیہ دیش کی زبان تھی۔
پالی کی خصوصیات
- اس میں سنسکرت کی دس آوازیں نہیں ہوتیں۔
- دو نئے مصوتے خفیف اے اور خفیف اُو شامل ہوگئے ہیں۔
- سنسکرت لفظوں کے مصمتوں کو مشدد کرنے کا رجحان کافی ہے۔
- تدبھو الفاظ زیادہ ہیں۔
اشوک پراکرت
اس کو شِلالیکھی پراکرت بھی کہتے ہیں۔
اشوک کے لاٹ تعداد میں بیس سے زیادہ ہیں۔ اور 250 ق م اور 262 ق م کے بیچ کی ہیں۔
اس میں جنس تین ہیں لیکن تثنیہ بالکل غائب ۔
پراکرت دور
یہ دو رمسیحی سن سے 500ء تک پر محیط ہے۔
پراکرت کی وجہ تسمیہ:
سنسکرتی تہذیب کو پرکرتی کہتے ہیں۔فطرت کو سنسکرت مہذب زبان تھی پراکرتیں فطری یعنی غیر مرصع، عوامی۔
پراکرت کے اقسام
- وُرروچی نے چار پراکرتوں ، مہاراشٹری، پیشاچی، ماگدھی اور شورسینی کا ذکر کیا ہے۔ ہیم چندر نے تین اور نام دیئے ہیں آرش(اردھ ماگدھی)، چویکا پیشاچی (پیشاچی) اور اپ بھرنش(بعد کی زبانیں)۔
- مستند پراکرتیں پانچ ہیں:
شورسینی، مہاراشٹری، اردھ ماگدھی، ماگدھی، پیشاچی
شورسینی: یہ مدھیہ دیس کی پراکرت ہے اس کا مرکز شورسین یعنی متھرا کا علاقہ تھا۔اس کی دوبولیاں آبھیریراہیری اور اونتی کا ذکر ملتا ہے۔ اونتی اُجیّن کے پاس کی شورسینی تھی۔
مہاراشٹری : زوال بلاک نے مراٹھی کو اسی سے ماخوذ کیا ہے ، لیکن من موہن گھوش اور سکمارسین، مہاراشٹرکے معنی بڑا ملک، لے کر اسے پورے ملک کی زبان مانتے ہیں۔منموہن گھوش کی رائے ہے کہ یہ شورسینی کی بعد کی شاخ ہے جو شمال سے دکن چلی گئی۔
یہ قواعد نگاروں کی محبوب بولی ہے وہ ساری پراکرتوں میں سب سے پہلے مہاراشٹری کے قواعد درج کرتے ہیں۔
سوتیامبرجینیوں نے اس میں اپنی مذہبی کتب لکھیں۔ان کی زبان کو جین مہاراشٹری کہا جاتا ہےبالکل اسی طرح جیسے دگامبرجینیوں کی جین شورسینی ہے مہاراشٹری میں کچھ بودھگرنتھ بھی ملتے ہیں۔
صوتی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض نے اس کو مصنوعی زبان قرار دیا۔
اردھ ماگدھی: لغوی معنی آدھی ماگدھی۔یہ شورسینی اور ماگدھی کے بیچ کی ہے۔ اس کا مقام کوشل یعنی اودھ اور مشرقی یوپی تھا۔ یہ تمام پراکرتوں میں سب سے قدیم ہے۔
نمونہ: 1) اشوکی پراکرتوں کی تہہ میں ، (2) سوتیامبرجینیوں کے 45 گرنتھ ہیں۔
جین اپنی اردھ ماگدھی کو آرش (بہ رائے ساکن)کہتے ہیں۔
گریرسن کا خیال ہے کہ ارد ماگدھی شورسینی اور ماگدھی کے بیچ ایک عبوری شکل ہے ۔
خصوصیات:
- ش اور معکوسی ش (ष)کی جگہ س ملتا ہے
- دنتی بندشیے معکوسی ہوگئے ہیں
- کہیں کہیں چ کی جگہ ت ہوگیا ہے مثلا چکتسا کی جگہ “تےِاچّھا”
- بین المصّوتین ماحول میں بعض مصمتے ی میں بدل جاتے ہیں۔
ماگدھی: یہ پورے مشرقی ہندوستان کی بولی تھی ۔ اس کا مرکز مگدھ(دال ساکن) یعنی جنوبی بہار تھا۔آریہ اس پراکرت کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ورروچی اسے شورسینی سے نکلی ہوئی مانتا ہے۔ لنکا میں پالی کو بھی ماگدھی کہا جاتا ہےلیکن اس کا ماگدھی پراکرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی پانچ بولیاں:
باہ لوکی، شاکاری، ڈھکی، شابری، چانڈالی
صوتی خصوصیات:
- س اور معکوسی ش نہیں ہے ان دونوں کی جگہ ش ہی ہے۔
- ر بدل کر ل ہوجاتا ہے۔ مثلاً راجا سے لاجا
پیشاچی: سنسکرت میں پشاچ بھوت کو کہتے ہیں ۔ گوونڈی اور راج شیکھر نے اسے بھوت بھاشا بھی کہا ہے۔پشاچ کے معنی مردم خور، یا ‘کچا گوشت کھانے والا بھی بتائے گئے ہیں۔ گریرسن لکھتا ہے کہ پشاچی عام معنی میں پراکرت نہیں ۔ یہ سنسکرت کی ہم عصرایک قدیم بولی ہے۔ یہ سنسکرت کی دختر نہیں خواہر ہے۔
پشاچی ہی سے دردی زبانیں بنیں۔
ہارنلے اسے دراوڑوں کی پراکرت کہتا ہےجو کسی طرح صحیح نہیں ۔ ور روچی اسے سنسکرت پر مبنی مانتا ہے۔ پرشوتم دیو اسے سنسکرت اور شورسینی کا مسخ روپ قرار دیتا ہے۔ کچھ بھی ہو یہ ظاہر ہے کہ یہ بہت حقیر سمجھی جاتی تھی۔
اس میں کہنا ڈھیہ نے برہت کتھا جیسی عظیم کتاب لکھی اب وہ گم ہوگئی ہےلیکن اس کے ایک جز کے سنسکرت تراجم کتھا سرت ساگر اور برہت کتھا منجری وغیرہ ملتے ہیں۔کتھا سرت ساگر الف لیلہ کی طرح ایک ضخیم کتاب ہے۔
ہیم چندر نے پشاچی کے علاوہ “چولکا پیشاچی” کا بھی ذکر کیا ہے جوایک مختلف بولی ہوسکتی ہے۔ مارکنڈے نے پیشاچی کے تین روپ کیکئی، پانچال اور شورسینی درج کیے ہیں۔ماضی میں کیکئی پنجاب کے علاقے کو پانچال روہیل کھنڈاورقنّوج کے علاقے کو اور شورسین برج کےعلاقے کو کہتے تھے۔
صوتی خصوصیات:
- بین المصوتیں مصیتی بندشیے غیر مصیتی ہوجاتے ہیں
- ل اور ر میں کہیں کہیں ادل بدل ہے۔
- معکوسی ش کی جگہ کہیں ش تو کہیں س ہے۔
- نئے پراکرت کے علاوہ اور کسی پراکرت میں تثنیہ کا صیغہ نہیں ملتا ۔ الفاظ عموماً مصمتوں پر ختم نہیں ہوتے۔ ن کی جگہ معکوسی نण مستعمل ہے۔ بعض پراکرتوں میں غیرہند آریائی آوازیں ز۔ ع۔ پائی جاتی ہیں۔
اپ بھرنش
یہ دور500 ء سے 1000ء تک پر محیط ہے۔
اس کے معنی بھرشٹ یا مسخ شدہ کے ہیں ۔ زبان کے معنی میں اس کا پہلا استعمال بھامہ کے کاویالنکار اور چنڈے کے پراکرت لکشٹم میں چھٹی صدی عیسوی میں ملتا ہے۔
اپ بھرنشی الفاظ پہلی بار بھرت کے ناٹیہ شاستر (300) میں ملتے ہیں۔
اپ بھرنش سے سے پہلے شمال مغرب کی زبان میں ظاہر ہوتی ہے۔ کیتھ نے اپ بھرنش کو بنیادی طور سے اہیروں اور گوجروں سے متعلق کیا ہے۔ ڈاکٹر رام بلاس شرما نے “بھاشا اور سماج “میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اپ بھرنش شمال مغرب کی زبان ہے لیکن اس کی قواعد پورب کی ہے۔
ڈاکٹر رام بلاس شرما نے اپنی ہندی کتاب بھاشا اور سماج میں دعویٰ کیا ہے کہ اپ بھرنش بول چال کی زبان نہیں تھیں بلکہ مصنوعی زبانیں تھیں۔
خصوصیات:
- اس کے ذخیرہ الفاظ میں تدبھو الفاظ سب سے زیادہ ہیں، اس کے بعد دیسی اور پھر تت سم ابتدا میں تو تتسم بہت ہی کم تھے۔ بعد کی اپ بھرنش میں تتسم بھی دخل پاگئے۔ کچھ فارسی اور ترکی الفاظ بھی مسخ ہوکرآگئے۔
- لفظ کے آخری مصوتے کے اختصار کا رجحان بہت بڑھ گیا۔
- سنسکرت میں اسم کی حالتوں اور تعداد کی وجہ سے 24 روپ بن جاتے تھے۔ پراکرت میں 12 رہ گئے اور اپ بھرنش میں محض چھ۔
- جنس محض دو
- ڈ کا استعمال بڑھ گیا۔
پندرھویں صدی کے میتھلی شاعروِدّیا پتی نے کیرتی لتا لکھی اور اپنی زبان کو اپ بھرنش نہ کہہ کر اوہٹھ ہی کہا ہے۔
اپ بھرنش کی تعداد کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ ذیل میں کچھ قدیم و جدید ماہرین کے خیال پیش کیے جاتے ہیں:
پراکرت کے بڑے عالم مارکنڈے نے اَپ بھرنش کی تین قسمیں بتائی ہیں:
- ناگر اپ بھرنش: گجراتی اور راجستھانی کی قدیم بولیوں کی ادبی شکل
- براچڈاَپ بھرنش: سندھ میں رائج
- اُپ ناگر اپ بھرنش:
نواری نے ذیل کی سات اپ بھرنشیں فرض کی ہیں۔
شورسینی، پیشاچی، براچڈ، کھس، مہاراشٹری، ارد ماگدھی، ماگدھی
مسعود حسین خاں نے کہا
شورسینی، ماگدھی، اردھ ماگدھی، مہاراشٹری، شمالی مغربی ہندوستان کی اپ بھرنش (ابھی تک تاریخی دھندلکے میں ہیں۔جس میں براچڈ، کیکئی اپ بھرنش آتے ہیں۔)
جدیدہندآریائی
یہ 1000 عیسوی سے تاحال
ہارنلے نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندوستان میں آریہ دو گروہوں میں آئے۔ دوسرا گروہ جب آیا تو وہ مرکز میں گھس کر جابسا اور وہاں پر پہلے سے بسے ہوئےآریوں کو بے خل کردیا وہ لوگ ہٹ کر مغرب جنوب اور مشرق میں پھیل گئے۔
گریرسن نے ہارنلے کا نظریہ قدرے ترمیم کے ساتھ قبول کرلیا۔ انھو نے اندرونی بیرونی کی بات مانی لیکن ان کے مطابق پہلا گروہ درمیان میں بسا رہا اور بعد کا گروہ تینوں طرف یعنی مغرب، جنوب اور مشرق میں بس گیا۔
لسانیاتی جائزہ ہند جلد اوّل میں ص 120 پر جدید بولیوں کی گروہ بندی کی ہےجو حسب ذیل ہے:
بعد میں 1931 ص میں گریرسن نے ایک اور گروہ بندی کی جو حسب ذیل ہے:
دونوں گروہ بندی میں فرق یہ ہے کہ پہلی گروہ بندی میں بیرونی، وسطی اور اندرونی ہے جب کہ دوسرے میں مدھیہ دیشی، اندرونی اور بیرونی ہے ۔ دوسری گروہ بندی میں اندرونی اور وسطی میں تبدیلی کی گئی ہے بیرونی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔دوسری گروہ بندی میں وسطی کو مدھیہ دیشی کا نام دیا ہے اور مدھیہ دیشی کے اندر مغربی ہندی کو رکھا جو پہلی گروہ بندی میں اندرونی کے مرکزی کے تحت تھی ۔اس کے علاوہ اندرونی کی ذیلی تقسیم کا نام تبدیل کیا ، مرکزی اور پہاڑی سے تبدیل کرکے مغربی ہندی سے گہرا تعلق رکھنے والی اور بیرونی سے نزدیک کر دیا، اندرونی کی ذیلی قسم مغربی ہندی سے گہرا تعلق رکھنے والی (مرکزی) میں سے مغربی ہندی کو ہٹاکر مدھیہ دیشی میں لے گیا، بھیلی اور خاندیشی کو حذف کر دیااور اندرونی کی ذیلی قسم پہاڑی کو اسی میں شامل کر دیا، پھر اندرونی کی نئی ذیلی قسم بیرونی سے نزدیک کی اور اس میں وسطی کی ذیلی قسم مشرقی ہندی کو لایا۔
گریرسن نے اندرورنی اور بیرونی گروہوں کی تقسیم تائید میں دونوں کی اصوات قواعد اور ذخیرہ الفاظ سے دلائل دیئے ۔ ڈاکٹر سنتی کمار چٹرجی نے ان دلائل کی تردید کی۔
ڈاکٹر سنتی کمارچٹرجی نے بیرونی اور اندرونی تقسیم کی تردید کرکے اپنی گروہ بندی دی جو یہ ہے:
- اُدیچیہ(شمالی):سندھی، لہندا، پنجابی
- پرتی چیہ (مغربی): گجراتی ، راجستھانی
- مدھیہ دیشیہ: مغربی ہندی
- پراچیہ(مشرقی): مشرقی ہندی، بہاری، اُڑیہ، بنگلہ، آسامی
- دکنی: مراٹھی
مختلف ماہرین نے مزید گروہ بندیاں بھی کی ہیں۔
جدید ہند آریائی کی بولیوں میں سے گریرسن کی گروہ بندی میں سے مدھیہ دیشی کی صرف ایک ہی ذیلی قسم ہےمغربی ہندی جس پر ہم الگ سے گفتگو کریں گے۔ یہاں درج ذیل ترتیب میں جدید بولیوں کی مختصرمعلومات حاصل کرتے ہیں۔
- اندرونی کی ذیلی قسم بیرونی سے نزدیک کے تحت مشرقی ہندی
- بیرونی کی ذیلی قسم مشرقی کے تحت بہاری، اُڑیا، بنگالی، آسامی
- بیرونی کی ذیلی قسم جنوبی کے تحت مراٹھی
- بیرونی کی ذیلی قسم شمالی مغربی کے تحت لہندا ، سندھی
- اندرونی کی ذیلی قسم مغربی ہندی سے گہرا تعلق رکھنے والی پنجابی، راجستھانی، گجراتی، پہاڑی
مشرقی ہندی
یہ اردھ ماگدھی سے نکلی ہے، اس کی تین بولیاں ہیں؛ اودھی، بگھیلی، چھتیس گڑھی
اودھی: یہ اودھ یعنی لکھنؤ اور فیض آباد کی کمشنریوں نیز الہ آباد کی کمشنری میں شمالی حصّہ کو چھوڑ کر بولی جاتی ہے۔ اس میں جائسی کی پدماوت اور تلسی داس کی رام چرت مانس یعنی رامائن جیسے شاہکار ملتے ہیں۔ اس کے جنوب مغربی روپ کو بیسواڑی کہتے ہیں۔
بگھیلی: یہ مدھیہ پردیش بننے سے قبل 1947 اور 1952 کے درمیان ریاست وندھیاپردیش تھی اس کا مغربی حصّہ بندیل کھنڈ اور مشرقی حصہ باگھیل کھنڈتھا، بگھیلی اسی حصّے کی بولی ہے۔ اس کا مرکز ریوا، ستنا کا علاقہ ہے۔ ڈاکٹر بابو رام سکسینہ اس کو اودھی سے مختلف نہیں مانتے۔
چھتیس گڑھی: مشرقی مدھیہ پردیش میں رائے پور کمشنری کے علاقہ کی بولی ہے۔ اس پر مراٹھی اور اُڑیا کا اثر ہے۔
بہاری
ماگدھی سے ارتقا پانے والی بولی ہےیہ دراصل بہاری کے نام کی کوئی زبان نہیں بلکہ یہ تین بولیوں ؛میتھلی یا تِرہٹی، مگہی، بھوج پوری کا مجموعہ ہے۔
میتھلی یا تِرہٹی:یہ شمال مشرقی بہارکی بولی ہے۔ اس کا مرکز دربھنگہ ہے۔ ودّیا پتی میتھلی کا بہت بڑا شاعر ہوا ہے۔
مگہی:یہ جنوبی بہار کی بولی ہے جو پٹنہ، گیا، ہزاری باغ وغیرہ میں رائج ہے۔ یہ خاص ماگدھی کا علاقہ ہے۔
بھوج پوری:اس کا نام بہار کے ضلع شاہ آباد کے پرگنہ بھوج پور سے ماخوذ ہے۔ مالوے (اُجیّن) کے راجہ بھوج کے خاندان کے کچھ راجپوت اس علاقے میں آکر بس گئے تھے۔ وہ بھوج ونشی کہلاتے تھے۔ ان کی ریاست کو بھوج پور کہا گیا۔ اس بولی کا علاقہ مشرقی یوپی میں گورکھپور اور بنارس کی کمشنری اور بہار میں شاہ آباد اور چمپارن وغیرہ کے ضلع ہیں۔
اُڑیا
یہ ماگدھی کی بولی ہے، یہ اڑیسہ میں بولی جاتی ہے۔ اڑیا میں مراٹھی الفاظ کافی ہیں۔ آندھر پردیش کے جغرافیائی قرب کی وجہ سے تیلگو الفاظ بھی دخل پاگئے ہیں۔
بنگالی/بنگلہ
یہ ماگدھی اپ بھرنش کی خاص جانشین ہے۔ ادبی اعتبار سے یہ ہندوستانی زبانوں میں سے سب سے اوپر ہے۔ اس کے قدیم شاعروں میں چنڈی داس اور جدید میں ٹیگور ہیں۔اس کے ادبی زبان میں سنسکرت الفاظ کی بھرمار ہے، لیکن بنگالی لوگ ان کا تلفظ اپنے ڈھنگ سے کرتے ہیں۔اس میں “س” کا تلفظ ش ہے، آ کو مختصراُو میں بدلنے کا رجحان ہے۔ لفظ کی ابتدا میں سنسکرت ی بدل کر ج اور و بدل کر عموماً ب ہو جاتا ہے۔
آسامی
اس زبان کا صحیح نام اَسَمیہ ہے۔ یہ بھی ماگدھی اپ بھرنش سے نکلی ہے۔بنگالی سے بہت مماثل ہے۔ دونوں کا رسم الخط ایک ہی ہے ۔
مراٹھی:یہ مہاراشٹر اپ بھرنش سے نکلی ہےاس میں تت سم الفاظ بہت کم ہیں زیادہ تر دیسی یا تدبھو ہیں۔ اس کی ابتدا تیرھویں صدی کے سنت گیانیشور کی گیانیشوری سے ہوتی ہےجو گیتا کی تفسیر ہے۔ دوسرے بڑے سنت کوی نام دیو، تکارام اور ایک ناتھ ہوئےہیں۔مراٹھی میں چ کی دو قسمیں ہیں نیز ایک قسم کا ‘ز’ بھی ہے جو اردو ‘ز’ سے کسی قدر مختلف ہے۔
پنجابی/لہندا: گریرسن نے لہندا اور پنجابی کو علیحدہ زبانیں مانا ہے۔
ڈاکٹر کالا سنگھ بیدی نے لکھا ہے کہ کسی عہد میں پنجاب دو مشہور علاقوں ؛ٹک اور کیکی میں منقسم ہوگیاتھا۔ ٹک کی بولی ٹکّی اور کیکی کی کیکئی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ دونوں پیشاچی اپ بھرنش کی بیٹیاں تھیں لیکن ٹکّی شورسینی اپ بھرنش سے بھی بہ شدت متاثر ہوئی ۔ ٹکّی شورسینی اپ بھرنش سے بھی بہ شدت متاثر ہوئی ۔ ٹکّی علاقے میں ماجھی پنجابی بولی رائج ہے، کیکئی علاقے میں لہندا۔
ڈاکٹر بنارسی داس پنجابی کی سات بولیاں مانتے ہیں:
ماجھی، دوآبی، پوادھی، مالوی، مغربی پنجابی، بھٹیالی، ڈوگری۔
پنجابی کومسلمان اردو خط میں، سِکھ گرمکھی میں اور ہندو بعض اوقات دیوناگری خط میں لکھتےہیں۔ لہندا کا رسم الخط لنڈا تھا۔
سندھی: سندھی براچڈ اپ بھرنش سے نکلی ہے۔ اس کی پانچ بولیا ں ہیں؛ وچولی، سراکی، لاری، تھریلی، کچھیّ۔
معیاری بولی وِچولی ہے، سندھی عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ سندھی الفاظ مصوتوں پر ختم ہوجاتےہیں۔اس کی مشہور کتاب ‘شاہ جی رِسالو’ ہے۔
راجستھانی:یہ مدھیہ دیش کی زبان کا جنوب مغربی پھیلاؤ ہے۔ ہندی کے ویر گاتھا کال کے کئی راسو راجستھانی میں ہیں۔ اس کی چار بولیاں ہیں؛ مارواڑی، جے پوری، میواتی اور مالوی
گجراتی:یہ گجرات کاٹھیاواڑ اور کچّھ کی زبان ہے۔ یہ ناگر اپ بھرنش سے نکلی ہے جو شورسینی کا مغربی روپ تھی۔ کاٹھیاواڑی بولی میں لوک ادب کا کافی ذخیرہ ہے۔ گجراتی ادب چودھویں صدی سے ملتا ہے۔ اس کا مشہور شاعر نرسی مہتا ہے۔
پہاڑی بولیاں
یہ کھس پراکرت یا اپ بھرنش سے نکلی ہیں۔ ان کی مغربی ہندی سے مماثلت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ اس کو شورسینی ہی سے ماخوذ قرار دیا ہے۔
اس کے ذیلی اقسام میں سے مشرقی پہاڑی کی بولی نیپالی یا گھرکھالی ہے، وسطی پہاڑی کی کمایونی، گڑھوالی، اور مغربی پہاڑی کی چمیالی، جونساری، سرموری اور دیگر بولیاں ہیں۔
یہ مکمل ہوا۔اب آپ اگلے حصہ پر تشریف لے چلیں۔
اردو کی ابتدا کے بارے میں مختلف نظریات
مشہور محقّق اور ہندآریائی لسانیات کے ماہر ڈاکٹرسنتی کمار چٹرجی (1890-1977ء) کا خیال ہے کہ اگر مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تو جدیدہند آریائی زبانوں کے ادبی آغاز و ارتقا میں دو ایک صدی ضرور تاخیر ہو جاتی ۔
اردو زبان کے مولد اور ابتداء سے متعلق کافی مواد موجود ہے، اردو زبان و ادب کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اکثر ماہرین نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان میں سے تاریخی اعتبار سے سرفہرست نام میر امّن دہلوی کا ہے۔انھوں نے اردو کی ابتداء عہدِ اکبر سے منسوب کیا ہے۔دوسرا نام سرسید احمد خاں کا ہے انھوں نے “آثار الصنادید” میں اردو کی ابتدا عہدِ شاہجہاں اور شاہ جہاں آباد سے بتائی ہے۔ ان کے نظریے کی بنیادمحض قیاس پر ہے۔ وہ اردو کو مخلوط زبان بھی کہتے ہیں۔
جن لوگوں نے ضمنی طور پر اپنی کتابوں میں اس موضوع سے بحث کی ہے ان میں انشاء اللہ خاں انشاء، شیر علی خاں سر خوش، میر امن دہلوی ، امام بخش صہبائی ، محمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق ، نصیر الدین ہاشمی ، سید سلیمان ندوی، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی اور عبد القادر سروری کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ انشاء اللہ خاں انشاء دریائے لطافت میں لکھتے ہیں کہ “اردو کے اجزائے ترکیبی: اردو زبان کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے جیسے عربی، ترکی ، پنجابی، پوربی اور برج وغیرہ”۔ شیر علی خاں سرخوش ” تذکرہ اعجاز سخن” میں اردو کی پیدائش پنجاب میں غزنوی کے دور ِحکومت میں بتاتے ہیں۔ ان کی نظر میں اردو اور پنجابی سگی بہنیں ہیں جن کی ماں وہ مخلوط زبان ہے جو تر کی ، فارسی اور عربی کے ساتھ پنجاب کی پراکرت یعنی مقامی زبان کے اختلاط سے پیدا ہوئی ۔ میر امن دہلوی باغ و بہار کے دیباچے میں لکھتے ہیں ”حقیقت اردو زبان کی بزرگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سےقوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سُن کر حضور میں آکر جمع ہوئے لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف سوال جواب کرتے ایک زبان اردو کی مقررہوئی “۔ امام بخش صہبائی رسالہ قواعد اردو میں لکھتے ہیں کہ “شاہ جہاں آباد میں فارسی اور ہندی کے خلا ملا سے جو بولی مروج ہوئی اس کا نام اردو ٹھہرا۔” محمد حسین آزاد نے آب حیات میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ” اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے”۔ مولوی عبدالحق اردو کی ابتدائی نشونما میں صوفیائے کرام کا کام میں لکھتے ہیں کہ ” بزرگان دین نے اہل ملک سے ارتباط اور میل جول بڑھانے اور ان کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ۔ اسی نظر سے انہوں نے ان کی اور اپنی زبانوں کو ملانا شروع کیا۔ اس میل جول اور ارتباط سے خود بخود ایک نئی زبان بنی جو نہ ہندی تھی اور نہ فاری بلکہ ایک نئی مخلوط زبان تھی جسے اب ہم اردو یا ہندستانی کہتے ہیں”۔ نصیر الدین ہاشمی اردو کا مولد دکن کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عرب تاجر صدیوں سے ( مالا بار ) مغربی ساحل پر تجارت کی غرض آتے جاتے رہے۔ ان عرب تاجروں نے یہاں کے مقامی لوگوں کو اپنی زبان کے بعض الفاظ دیے اور بعد میں خلجیوں اور مغلوں کی معاونت سے اردو زبان کا آغاز ہوا۔ مقامی ہندو باشندوں کے اختلاط سے ایک نئی زبان کا خمیر تیار ہوا اور جب بہمنی ، قطب شاہی اور عادل شاہی سلاطین نے اس کی سر پرستی کی تو اس کی ادبی شکل ابھر کر سامنے آنے لگی ۔ سید سلیمان ندوی نقوش سلیمانی“ میں اردو زبان کے آغاز سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان سب سے پہلے سندھ پہنچتے ہیں۔ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہو گا۔ ایک اور جگہ سید صاحب فرماتے ہیں کہ مسلمان پنجاب سے پہلے سندھ میں آئے اور فتح پنجاب سے کافی عرصہ پہلے انھوں نے اس زمین میں توطن اختیار کیا لہذا ایک نئی زبان کی داغ بیل اگر پڑی تو و دیقینا سندھ میں پڑی ۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کی نظر میں اردو پنجاب میں پیدا ہوئی اور بعد میں دہلی و دیگر علاقوں میں پروان چڑھی ۔ ان کے خیال میں یہ ایک مخلوط زبان ہے جو شمال مغرب سے ہندوستا ن میں داخل ہونے والے مسلمانوں کی عربی ، فارسی اور ترکی اور مقامی غیر مسلموں اور نو مسلموں کی زبانوں کے ساتھ لسانی اختلاط کا نتیجہ ہے۔ اس کا اہم مرکز لاہور تھا جو بعد میں دہلی منتقل ہوا۔ عبد القادر سروری زبان اور علم زبان میں مالتان یعنی سندھ اور پنجاب کی سرز مین کو اردو کا وطن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو عربوں، ترکوں اور ایرانیوں کے اہل پنجاب اور اہل سندھ کے ساتھ انسانی اختلاط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک مخلوط زبان ہے۔
مستشرقین میں ژول بلاک کا ماننا ہے کہ اردو کا سرچشمہ وہ زبان ہے جو پنجابی اور برج دونوں کی ماں تھی۔ گریرسن بھی پنجابی اور اردو کے ماں بیٹی کے رشتے کے حامی ہیں۔
اس موضوع سے متعلق جتنے ماہرین کی آرا ہے ان پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ماہرین نے اردو کی مولدکسی خاص علاقے کو ٹھہرایا ہے یہ کسی خاص بولی کو۔ اردو زبان کی جائے پیدائش حسب ذیل ہے:
دکن میں اردو
نصیر الدین ہاشمی دکن میں اردو (1923) میں اردو کا مولد دکن کو قرار دیا ہے:
“بعض علماء اردو کی پیدائش علاقہ سندھ کو بیان کرتے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مالابار کا علاقہ بھی کھڑی بولی اردوکی پیدائش کا خطّہ کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ فتح سندھ سے بہت عرصہ پیشتر اس علاقے میں عرب آباد تھے۔”
دکنی کی ابتدا سے متعلق ڈاکٹر آمنہ خاتو ن کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے:
“تاریخ شاہد ہے کہ بندرگاہ تھانہ پر قبضے (636ء) کے زمانے سے دولت آباد کے پایہ تخت قرار پانے (1327ء) کے زمانے تک مہاراشٹر کے مسلمانوں کی زبان پہلے بلاشبہ شورسینی اپ بھرنش اور بلاشبہ اس کی مقامی پیداوار مراٹھی تھی اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ شورسینی اپ بھرنش اور مرہٹی میں عربی اور فارسی کی سات سو سال کے عرصے میں بتدریج آمیزش اور پڑوس کی جدید آریائی زبانوں سے لین دین اور راہ رسم کی وجہ سے مرہٹی کے دوش بدوش دکنی کی نشو ونما ہوئی ۔
پنجاب میں اردو
محمد بن قاسم کے بعد دوسری بار مسلمان دسویں صدی عیسوی کے رُبعِ آخر میں غزنی کے بادشاہ امیر سبکتگین کی سرکردگی میں درہ خیبر سے ہوکر پنجاب میں داخل ہوئے۔امیر سبکتگین کی وفات (997ء) کے بعد اس کے فرزند و جانشین سلطان محمود غزنوی (وفات1030ء) کے پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں پر پے در پے حملوں (1001ء تا 1027ء) کا سلسلہ شروع ہوا۔
سلطان محمود غزنوی خود ایک ترکی النسل بادشاہ تھا۔ پنجاب میں مسلمانوں نے تقریبا دو سو سال تک قیام کیا۔ اس مدت میں ان کے اوراہل پنجاب کے درمیان مضبوط سماجی روابط قائم ہوگئے ۔ اسی گہرے میل جول اور مضبوط سماجی روابط کی بنیاد پر حافظ محمود خاں شیرانی (1880-1946ء ) نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ زبان جسے ہم اردو کہتے ہیں سرزمین پنجاب میں پیدا ہوئی اور وہیں سے ہجرت کرکے دہلی پہنچی۔
حافظ محمود خاں شیرانی نے اس نظریے کو اپنی تصنیف پنجاب میں اردو (لاہور، 1928) میں بڑے مفصّل اور مدلّل انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کےساتھ دہلی جاتی ہے، اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔”
شیرانی نے پنجاب میں اردو (لاہور،1928ء) میں “عرضِ حال” کے عنوان سے خود اعتراف کیا ہے کہ اس سے پہلے شیر علی سرخوشؔ اپنے تذکرے “اعجاز سخن” (لاہور، 1923ء) میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔بقولِ پروفیسر مسعودحسین خاں، جارج گریرسن (1851۔1941ء) نے بھی اپنی تحریروں میں اردو کے “پنجابی پن” پر غیر معمولی زور دیا ہے۔
1928ء میں شیرانی کی “پنجاب میں اردو” کی اشاعت سے دو سال قبل ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی (1890-1947ء) کی تحقیق اور عالمانہ تصنیف “دی اوریجن اینڈ ڈیولپمنٹ آف دی بنگالی لینگویج” (کلکتہ 1926ء) شائع ہوئی جس کی جلد اوّل کے مقدمے میں انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ نواحِ دہلی کی موجودہ بولیوں کا تشخص مسلمانوں کے داخلہء دہلی کے وقت نہیں ہوا تھااور لاہور تا الہ آباد تقریباً ایک ہی قسم کی زبان رائج تھی۔ بعدکو اس نقطہ نظر کی تائید ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ (1905-1962ء) نے بھی کی جنہوں نے علاقے کی توسیع الٰہ آباد تا شمال مغربی سرحدی صوبہ کردی اور اردو کو اس زبان پر مبنی بتایا جو پنجاب میں بارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔
بہ قولِ ڈاکٹر زورؔ، پنجاب میں اردو کی اشاعت سے ایک سال قبل وہ اردو کے آغاز و ارتقا کے موضوع پر لند ن یونی ورسٹی میں لسانی تحقیقات میں مصروف تھے۔ ان کے ذہن میں بھی یہی بات آئی تھی کہ “اردو پنجاب میں بنی۔” اس نظریے کی مزید توثیق اور وضاحت انھوں نے اپنی تصنیف ہندوستانی فونے ٹِکس (پیرس، 1930ء) میں اور بعد کو ہندوستانی لسانیات (حیدرآباد، 1932ء) میں بھی کی ہے۔ آخر الذکر کتاب میں وہ لکھتے ہیں:
“اردو کا سنگِ بنیاد دراصل مسلمانوں کی فتحِ دہلی سے بہت پہلے ہی رکھا جا چکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اس وقت تک ایک مستقل زبان کی حیثیت نہیں حاصل کی تھی، جب تک کہ مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا پایہ تخت نہ بنالیا۔ اردو اس زبان سے مشتق ہے جو بالعموم’نئے ہند آریائی دور’ میں اس حصہ ملک میں بولی جاتی تھی جس کے ایک طرف عہدِ حاضر کا شمال مغربی سرحدی صوبہ ہے اور دوسری طرف الٰہ آباد۔ اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اردو اس زبان پر مبنی ہے جو پنجاب میں بارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔”
ٹی ۔ گراہم بیلی (وفات 1942ء) نے جوپنجابی زبان کے ایک مستند عالم سمجھے جاتے تھے۔ محمود شیرانی کے خیال سے پورے طور پر اتفاق کرتے ہوئے رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے مجلّے میں لکھا ہے:
“اردو 1027ء کے لگ بھگ لاہور میں پیدا ہوئی، قدیم پنجابی اس کی ماں ہے اور قدیم کھڑی بولی سوتیلی ماں۔ برج سے براہِ راست اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ مسلمان سپاہیوں نے پنجابی کے اس روپ کو جو ان دنوں دہلی کی قدیم کھڑی بولی سے زیادہ مختلف نہ تھا اختیار کیا اور اس میں فارسی الفاظ اور فقرے شامل کردییے ۔”
گراہم بیلی نے اِس نقطہ نظر کی تائید اپنی تصنیف اے ہسٹری آف دی اردو لٹریچر (لندن، 1932ء) میں بھی کی ہے۔
سندھ میں اردو
سب سے پہلے مسلمان بڑی تعداد میں محمد بن قاسم کی قیادت میں شمال مغرب کے بحری راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور 711ء میں سندھ کو فتح کرکے اسے اسلامی حکومت کا ایک صوبہ بنا لیا۔ اور تقریباً تین سو سال تک وادیِ سندھ ہی میں مقیم رہے۔
سید سلیمان ندوی (1884-1953ء) اپنی تصنیف نقوش سلیمانی (اعظم گڑھ ، 1939ء) میں اُردو کی جائے پیدائش سندھ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
“مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں، اس لیے قرینِ قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اُردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ وادیِ سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔”
اڑیسہ میں اردو
سہیل بخاری کا نظریہ ہے۔
برج بھاشا سے اردو
اردو کی ابتدا کے بارے میں محمد حسین آزاؔد (1832ء تا 1910ء) نے آب حیات لکھتے ہیں:
“اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے۔”
اردوکے برج سے ماخوذ ہونے کا نظریہ سب سے پہلے ہند آریائی لسانیات کے ایک بڑے ماہر روڈولف ہیورنلے نے پیش کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
“اردو مقابلۃً حال کی پیداوار ہے۔ دہلی کے نواح میں، جو مسلم اقتدار کا مرکز تھا اردو بارہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئی۔ یہ علاقہ برج، مارواڑی، پنجابی کے لیے سنگم کی حیثیت رکھتاہے۔ مقامی باشندوں اور مسلمان سپاہیوں کے اختلاط و ارتباط سے ایک ملی جلی زبان وجود میں آئی جو صرفی، نحوی اصول کی حدتک برج ہے، اگرچہ اس میں پنجابی اور مارواڑی کی آمیزش بھی ہے۔ اس کے کچھ الفاظ دیسی ہندی ہیں اور کچھ بدیسی یعنی فارسی و عربی۔”
سیّد شمس اللہ قادری رسالہ تاجِ اردو کے “قدیم نمبر” میں لکھتے ہیں:
“مسلمانوں کے اثر سے برج بھاشا میں عربی فارسی الفاظ داخل ہونے لگے جس کے باعث اس میں تغیّر شروع ہوا جو روز بروز بڑھتا گیا اور ایک عرصہ کے بعد اُردو زبان کی صورت اختیار کرلی۔”
زائد: سلطان بہلول لودھی (وفات 1480ء) کے بسائے ہوئے شہر آگرہ کو جب اس کے فرزند و جانشین سکندر لودھی (وفات 1510ء) نے اپنا پایہ تخت قرار دیا۔ تو برج بھاشا کو پھلنے پھولنے کا اور بھی موقع ملا۔ اکبر (وفات1605ء) جہاں گیر (وفات 1627ء) اور شاہجہاں (وفات 1666ء) کےعہد میں اسے خاص طور پر فروغ حاصل ہوا۔
اکبر کے دربار کا مشہور شاعر عبدالرحیم خان خاناں (1553ء ۔ 1626ء) برج بھاشا کا مشہور شاعرگذرا ہے۔
شاہ جہاں نے 1647ء میں اپنا پایہ تخت آگرے سے دہلی منتقل کیا۔
لیکن اورنگ زیب (وفات 1707ء ) کے عہد میں تحفۃ الہند (1676ء) کے تصنیف کیے جانے سے اس دور میں دہلی میں برج بھاشا کی اہمیت اور مقبولیت کا اندازہوتا ہے۔ تحفۃ الہند برج بھاشا کی قواعد ہے جو مرزا خاں نے غالباًمغل شہزادوں کو ہندی پڑھانے کی غرض سے فارسی زبان میں لکھی تھی۔
پروفیسر مسعود حسین خاں نے یہ بالکل درست فرمایا ہے کہ آزاد نے محض “روایتاً” برج کو اردو کا ماخذ بتایا ہے۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ آزاؔد ماہر السنہ نہیں تھے۔ وہ نواح ِ دہلی کی بولیوں کے نازک اختلافات سے بھی واقف نہیں تھے، اسی لیے انھوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں نہ تو کوئی دلیل پیش کی اور نہ ہی لسانی حقائق و شواہد سے بحث کی۔
کھڑی بولی سے اردو
ڈاکٹر شوکت سبزواری(1908ء ۔ 1973ء)، ڈاکٹر سہیل بخاری اور ان کے تتبّع میں پروفیسر گیان چند جین کھڑی بولی کو اردو کی اصل قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
“اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے ۔ کھڑی بولی دہلی اور مغربی یوپی کی بولی ہے۔ کس کی مجال نہیں کہ یہ کہہ سکے کہ یہ پنجاب کی زبان پنجابی کی اولاد ہے۔ اگر کھڑی بولی پنجابی سے نہیں نکلی تو اردو بھی پنجابی سے نہیں نکلی۔”
وہ مزید لکھتے ہیں:
“میں شوکت سبزواری اور سہیل بخاری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ لسانیاتی نقطہ نظر سے اردو ، ہندی، کھڑی بولی ایک ہیں۔ اردو کھڑی بولی کا وہ روپ ہے جس میں عربی فارسی الفاظ کسی قدر زیادہ اور تت سم سنسکرت الفاظ تقریبا نہیں کے برابر ہوتے ہیں لیکن اس خصوصیت کے باعث اردو کھڑی بولی سے علیحدہ زبان نہیں ہوجاتی۔”
ڈاکٹر شوکت سبزواری (1908۔ 1973ء) نے اپنی تصنیف داستانِ زبانِ اردو (دہلی ، 1961ء) میں اردو کے آغاز و ارتقاسے متعلق اپنا ایک الگ نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق اردو کھڑی بولی سے ترقی پاکربنی ہے جو دہلی اور میرٹھ کے نواح میں گیارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔وہ لکھتے ہیں:
“اردو ہندوستانی سے ترقی پاکر بنی جو دہلی ، میرٹھ اور اس کے نواح میں بولی جاتی تھی۔ جب مسلمان فاتحانہ شان سے دہلی میں داخل ہوئے تو ہندوستانی ، دہلی کے بازاروں میں بول چال کی حیثیت سے رائج تھی ۔امیرخسروؔ، ابوالفضل، شیخ بہاءالدین باجن نے اسے دہلوی کہا۔ ہندو اہل علم عام طورسے برج ، بندیلی ، قنوجی وغیرہ بولیوں سے امتیاز کے لیے جو اس وقت”پڑی ” کہلاتی تھیں،کھڑی کے نام سے یادکرتے ہیں ۔ جب یہ زبان ترقی پاکر آگے بڑھی، مسلمانوں کی سرپرستی میں پروان چڑھی۔ ملک کے گوشے گوشے میں پہنچی، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تو ہندستانی کہلائی۔زبان بنیادی طورسے وہی رہی جو آج ہے اس کے نام ایک سے زیادہ تجویز ہوئے۔”
وہ مزید لکھتے ہیں:
“ہندوستانی کے مولد کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ سب متفقہ طور سے اسے دہلی، اور میرٹھ کی زبان بتاتے ہیں، اردو اسکی ادبی شکل ہے اس زبان کو یہ نام بعد میں دیا گیا جب مسلمانوں کی سرپرستی میں بول چال کی زبان سے ترقی کرکے اس نے ادب و شعر کی زبان کا درجہ پایا۔”
“اردو کھڑی بولی سے ترقی پاکر بنی جس کی بابت عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ دہلی اور میرٹھ کے نواح میں بولی جاتی تھی۔”
شوکت سبزواری کا علیحدہ نظریہ
ڈاکٹر شوکت سبزواری مغربی ہندی کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اسے وہ ایک طرح کی “ذہنی تجرید” یا “منطقی اُپچ” بتاتے ہیں۔ان کے نزدیک مغربی ہندی ایک طرح کی فرضی اور خیالی زبان ہے، وہ مغربی ہندی کو درمیان سے نکال کر اردو اور پراکرت کی درمیانی کڑی اپ بھرنش کو مانتے ہیں اور اردو کا ارتقا اپ بھرنش سے دکھلاتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ ایک بول چال کی اپ بھرنش تھی جو دہلی اور میرٹھ میں گیارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی اور یہی اردو کا ماخذ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“اردو اور پراکرت کی درمیانی کڑی اپ بھرنش ہے اس لیے مغربی ہندی کو درمیان سے نکال کر یہ کہنا کہ اردو اپ بھرنش سے ارتقا پا کر وجود میں آئی زیادہ صحیح ہے۔”
وہ مزید لکھتے ہیں :
“اردو یا ہندستانی اپ بھرنش کےاس روپ سے ماخوذ ہے جو گیارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں مدھیہ دیش میں رائج تھی ۔ مغربی اپ بھرنش اس کی ادبی شکل ہے، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا وہ بول چال کی اپ بھرنش سے مختلف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بول چال کی اپ بھرنش دہلی اور میرٹھ میں بولی جاتی تھی۔”
اپ بھرنش کے ساتھ ڈاکٹر شوکت سبزواری قدیم مغربی ہندی کا بھی ذکر کرتے ہیں اور اسے اردو کا ماخذ قرار دیتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:
“گیارہویں صدی عیسوی یا اس سے کچھ پہلے اردو کے خط و خال اُبھرے یایوں کہیے کہ اردو نے قدیم مغربی ہندی سے ترقی پاکر موجودہ روٗپ اختیار کیا۔”
لیکن آگے چل کر وہ خود ااس کی تردید بھی کرتے ہیں:
“ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گیارہویں صدی عیسوی میں مغربی ہندی دہلی اور میرٹھ کے نواح میں بولی جاتی تھی اور اردو اس سے ترقی پاکر بنی۔ میرے خیال میں قدیم مغربی ہندی کا تصّور جیسا کہ میں اپنے تحقیقی مقالے میں عرض کر چکا ہوں ایک طرح کی ذہنی تجرید یا منطقی اپچ ہے۔”
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اردو اور کھڑی بولی کے متعلق جو باتیں کہی ہیں ان میں کچھ وزن ہے، لیکن اپ بھرنش ، قدیم مغربی ہندی اور ہندوستانی وغیرہ سے متعلق ان کی بہت سی باتیں کافی گنجلک اور مبہم ہیں ان میں بےحد تضاد پایا جاتا ہے۔ کبھی وہ اردو کا ارتقا براہِ راست کھڑی بولی اور ہندوستانی سے دکھلاتے ہیں تو کبھی بول چال کی اپ بھرنش اور قدیم مغربی ہندی سے، کبھی وہ اردو اور ہندوستانی کو ایک مانتے ہیں تو کبھی اردو کو ہندوستانی کی ادبی شکل تسلیم کرتے ہیں۔
نواحِ دہلی کی بولیاں سے اردو
شہر دہلی چار بولیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ بولیاں ہیں، ہریانی کھڑی بولی، برج بھاشا اور میواتی۔ ہریانی، دہلی کے شمال مغرب میں بولی جاتی ہے۔ دراصل یہ شہر جمنا کے مغرب میں ہریانی سے گھرا ہوا ہے۔ جمنا اور دہلی کے شمال مشرق میں کھڑی بولی کا چلن ہے۔ دہلی کے جنوب مشرق میں کچھ دور چل کر برج بھاشا مل جاتی ہے اور دہلی کے جنوب مغربی حصّے میں راجستھانی کی ایک بولی میواتی بولی جاتی ہے۔بہ قول پروفیسر مسعود حسین خاں اردو کے ارتقا میں اِن تمام بولیوں کے اثرات مختلف زمانوں میں پڑتے رہے ہیں۔ہریانی نے قدیم اردو کی تشکیل میں حصّہ لیا، کھڑی بولی نے جدید اردو کا ڈول تیّار کیا، برج بھاشا نے اردو کا معیاری لب ولہجہ متعین کرنے میں مدد دی اور میواتی نے قدیم اردو پر اپنے اثرات چھوڑے۔ اس ضمن میں مقدمہ تاریخ زبانِ اردو کے ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
“قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیراثر ہوئی ہے۔ اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں، اور جب پندرہویں صدی میں آگرہ دارالسلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھگتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام مقبول ہوجاتی ہے تو سلاطینِ دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعے درست ہوتی ہے۔”
“قدیم اردو جمنا پور کی ہریانی بولی سے قریب تر تھی۔ جدید اردو اپنی صرف و نحو کے اعتبار سے مرادآباد اور بجنور کے اضلاع کی بولی سے قریب تر ہے۔ برج بھاشا نے بعد کو اردو کا معیاری لب و لہجہ متعیّن کرنے میں ضرور مدد دی ہے۔ اِس سلسلے میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر لودھی کے عہد سے لے کر شاہ جہاں کے زمانے تک آگرہ ہندوستان کا پایہ تخت رہا ہے۔”
“راجپوتوں کی دلّی، ڈلّی یا اپ بھرنش ادبیات کی “ڈھلّی” ہریانے کے علاقے میں تھی جس سے کھڑی بولی کی بہ نسبت میواتی زیادہ قریب تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد کو مغلوں کے عہد میں برج بھاشا اور کھڑی بولی کے اثرات اس پر غالب آجاتے ہیں۔”
پروفیسر مسعود حسین خاں نے جس بنیادی نظریے کی تشکیل کی ہے وہ یہ ہے کہ نواحِ دہلی کی یہ بولیاں اردو کا “اصل منبع اور سر چشمہ” ہیں، اور “حضرتِ دہلی” اس کا صحیح “مولد و منشا”۔ لیکن اردو کی ابتدا اس وقت تک ممکن نہ ہوسکی جب تک کہ شہاب الدین محمّد غوری (وفات 1206ء) نے 1193ء میں دہلی کو فتح کرکرکے اسے اپنا پایہ تخت نہیں بنا لیا۔
1930ء کے آس پاس ژول بلاک (1880ء ۔ 1953ء) اپنی تحریروں میں اردو پر ہریانی کے اثرات کی نشان دہی کر چکے تھے۔
ڈاکٹر سیّد محی الدین قادری زوؔر(1905ء۔ 1962ء) نے بھی اردو پر ہریانی کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ وہ اپنی تصنیف ہندوستانی لسانیات (حیدرآباد، 1932ء) میں رقم طراز ہیں:
“یہاں ایک اور بات مدّنظر رکھنی چاہیے کہ اردو پر بانگڑو یا ہریانی زبان کا بھی قابل لحاظ اثر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زبان دہلی کے شمال مغرب میں انبالہ کے اطراف اس علاقے میں بولی جاتی ہے جو پنجاب سے دہلی آتے ہوئے راستے میں واقع ہے۔۔۔۔۔۔ فاتح و مفتوح کے میل جول سے جو زبان بنتی چلی آ رہی تھی اس میں ہریانی عنصر بھی شامل ہوگیا۔”
ہریانی مواد کے لسانیاتی تجزیوں کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کا کام سب سے پہلے پروفیسر مسعود حسین خاں نے ہی انجام دیا۔
حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر زور نے ، جو اردو پر ہریانی کے اثرات کی طرف توجہ مبذول کراچکے تھے، پروفیسرمسعود حسین خاں کے اس لسانی نظریے کی اپنے ایک مضمون “اردو کی ابتدا” میں سخت تنقید کی ہے۔ وہ کافی بحث و تمحیص کے بعد جس نتیجے پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ:
“ہریانی زبان کی پیدائش اردو کی پیدائش کے بعد عمل میں آئی اور اگر قدیم دکنی اردو کی بعض خصوصیات ہریانی زبان میں ملتی جلتی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ اردو ہریانی سے بنی بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اردو اور ہریانی دونوں کا سرچشمہ ایک ہی تھا۔”
پروفیسر گیان چند جین نے بھی اپنے ایک حالیہ مضمون میں پروفیسر مسعود حسین خاں کے اس نظریے سے عدم اتفاق کیا ہے۔
ملواں زبان سے اردو
انشاء اللہ خاں انشاء دریائے لطافت میں لکھتے ہیں کہ “اردو کے اجزائے ترکیبی: اردو زبان کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے جیسے عربی، ترکی ، پنجابی، پوربی اور برج وغیرہ”۔ شیر علی خاں سرخوش ” تذکرہ اعجاز سخن” میں اردو کی پیدائش پنجاب میں غزنوی کے دور ِحکومت میں بتاتے ہیں۔ ان کی نظر میں اردو اور پنجابی سگی بہنیں ہیں جن کی ماں وہ مخلوط زبان ہے جو تر کی ، فارسی اور عربی کے ساتھ پنجاب کی پراکرت یعنی مقامی زبان کے اختلاط سے پیدا ہوئی ۔ میر امن دہلوی باغ و بہار کے دیباچے میں لکھتے ہیں ”حقیقت اردو زبان کی بزرگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سےقوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سُن کر حضور میں آکر جمع ہوئے لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف سوال جواب کرتے ایک زبان اردو کی مقررہوئی “۔ امام بخش صہبائی رسالہ قواعد اردو میں لکھتے ہیں کہ “شاہ جہاں آباد میں فارسی اور ہندی کے خلا ملا سے جو بولی مروج ہوئی اس کا نام اردو ٹھہرا۔”
نظریہ کار محققین کا نظریہ اختصار کے ساتھ
- محمد حسین آزاد: ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے
- نصیرالدین ہاشمی: مالابار کا علاقہ بھی کھڑی بولی اردوکی پیدائش کا خطّہ کہا جا سکتا ہے
- محمود شیرانی: مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔
- محی الدین قادری زور: “اردو اس زبان پر مبنی ہے جو پنجاب میں بارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔”/” اردو پر بانگڑو یا ہریانی زبان کا بھی قابل لحاظ اثر ہے۔”(کوئی واضح نظریہ نہیں ہے۔
- سید سلیمان ندوی: جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہو گا۔
- سنیتی کمار چٹرجی:سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں “ہندوستانی” زبان کی مسلم شکل میں اردو وجود میں آئی۔ مشرقی پنجاب اور گنگا جمنا کے دو آبے پر واقع مدھیہ پردیش کا علاقہ اردو کے اہل زبان کا علاقہ ہے۔ ان کے خیال میں پنجاب اور وسطیٍ ٍعلاقے کو اردو کا مآخذ اور منبع قرار دیا جا سکتا ہے۔
- مسعود حسین خاں: 1948ء میں “مقدمہ تاریخ زبان اردو” میں اردو کی ابتداء کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اردو زبان شورسینی اپ بھرنش کی بولیوں میں ایک کی ترقی یافتہ شکل ہے، مغربی ہندی کی بولیوں میں اردو اردو زبان ہریانی سے ماخوذ قرار دیا ۔ لیکن کتاب کے نئے ایڈیشن(1986) میں اپنے نظریے میں تبدیلی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو کی اساس کسی ایک زبان پر قائم نہیں ہے۔ انھوں نے اردو کا مولد نواحِ دہلی قرار دیا ۔
- شوکت سبزواری: پہلے انھوں نے اپنی کتاب “اردو زبان کا ارتقا ” میں اردو کا رشتہ پالی سے جوڑا تھا بعد میں اپنی دوسری کتاب “داستان زبان اردو” میں انھوں نےاردو کو کھڑی بولی پر مبنی قرار دیا ۔
- سہیل بخاری: وہ اپنے مضمون “اردو کا قدیم ترین ادب” میں یہ نظریہ پیش کیا کہ اردو کی اصل کھڑی بولی ہےاور اردو اور ہندی کھڑی بولی کے دو روپ ہیں، دونوں میں فرق رسم الخط اور دخیل الفاظ کا فرق ہےلیکن صرفی و نحوی ڈھانچہ ایک ہے۔آگ چل کر اپنی کتاب “اردو کے روپ” میں ایک الگ نظریہ پیش کیا کہ اردو ہندآریائی نہیں بلکہ دراوڑی خاندان کی زبان ہے اور اس کی جائے پیدائش پنجاب، سندھ، دہلی یا دکن نہیں بلکہ اڑیسہ کی سرزمین ہے۔
- گیان چند جین: اردو کی اصل کھڑی بولی کو قرار دیا ہے۔ اردوکے پنجابی ، ہریانی، برج یا دکنی وغیرہ کے رشتوں سے متعلق نظریات کو لسانیاتی اصولوں کی روشنی میں رد کیا ہے۔
اس موضوع پر معتبر کتابیں:
- آب حیات (1880): محمد حسین آزاد:1830-1910
- دکن میں اردو(1923): نصیرالدین:1895- 1964
- پنجاب میں اردو (1928): محمود شیرانی:1880-1946
- ہندوستانی لسانیات (1932):محی الدین قادری زور: 1905-1962
- نقوشِ سلیمانی(1939): سلیمان ندوی:1884۔ 1953
- مقدمہ تاریخ زبان اردو(1948): مسعود حسین خاں: 1919-2010
- داستان زبان اردو (1960): شوکت سبزواری: 1908 – 1974
ہندوستانی لسانیات کا خاکہ : جان بیمزمترجم: احتشام حسین
مغربی ہندی کا تعلق براہِ راست شورسینی اَپ بھرنش سےہے۔ہر عہد میں اس علاقہ کی زبان کا مرکز متھرا رہا ہےجو قدیم ہندی تمدّن کا اہم مرکز تھا۔مغربی ہندی کا یہ نام مدھیہ دیش کی زبان کوگریرسن نے دیا ہے جس نے سب سے پہلے مشرقی اور مغربی ہندی میں فرق کیا ہے۔
مغربی ہندی مدھیہ دیش کی زبان ہونے کی وجہ سے ہند آریائی زبان کی بہترین نمائندہ ہے، کیوں کہ اسی علاقہ میں سنسکرت شورسینی پراکرت اور شورسینی اپ بھرنش پروان چڑھتی ہیں جن کی سچّی جانشین اس علاقے کی جدید بولیاں کھڑی بولی (ہندوستانی) برج بھاشا، ہریانی، بندیلی اور قنوجی ہیں جس کے مجموعے کو گریرسن مغربی ہندی کا جدیدنام دیتا ہے۔
مغربی ہندی کے حدود تقریباً وہی ہیں جو مدھیہ دیش کے ہیں۔ یہ مغرب میں سرہند سے لے کر مشرق میں الہ آباد تک، شمال میں ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب میں وندھیاچل اور بندیل کھنڈ تک بولی جاتی ہے۔ اس کے شمال مغرب میں پنجابی زبان ہے اور جنوب مشرق میں مراٹھی اور مشرقی ہندی شمال میں یہ پہاڑی بولیاں (جونسری، گڑھوالی اور کمایونی) سے گھری ہوئی ہے۔
اندرونی زبان کی شاخ میں صرف مغربی ہندی ایک ایسی زبان ہے جسے ہم خالص اندرونی زبان کہہ سکتے ہیں۔
اس میں صحیح معنوں میں صرف ایک زمانہ فعل کے لیے اور صرف ایک حالت اسماء کے لیے پائی جاتی ہے۔ اسماء اور افعال کی دیگر تمام حالتیں حروف، فعلِ امدادی اور سابقوں، لاحقوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔
گریرسن نے مغربی ہندی کی پانچ بولیاں گنائی ہیں جن کے نام حسب ذیل ہیں:
- کھڑی بولی یا ہندستانی
- ہریانوی، جاٹو یا بانگڑو
- برج بھاشا
- قنوّجی
- بندیلی
شورسینی اپ بھرنش اپنے آخری دورمیں نمایاں شکلیں اختیار کرلیتی ہے۔ پہلی شکل میں افعال و اسما کا اختتام عام طور سے (آ) پر ہوتا ہے اور دوسری شکل میں (اُو) پر کھڑی بولی اور ہریانی میں عام طور سے (آ) شکل ملتی ہے، جو گریرسن اور شیرانی کے خیال میں پنجابی سے لی گئی ہے۔ (اُو) والی شکل برج بھاشا، قنوّجی اور بندیلی میں پائی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے پنڈت چندردھرشرماگلیری انھیں کھڑی بولی کے مقابلے میں “پڑی بولی” کا نام دیتے ہیں۔ اردو نے اپنے دورانِ ارتقا میں (اُو) کی شکل کو کبھی بھی اختیار نہیں کیا ۔
برج بھاشا:مغربی ہندی کی سب سے نمائندہ بولی یا استعارہ میں اس کی سب سےعزیز بیٹی برج بھاشاہے۔یہ کھڑی بولی کے مقابلہ میں شورسینی اپ بھرنش اور پراکرت کی سچی جانشین ہے۔ اس کا مرکز برج (متھرا) کا علاقہ ہے۔ جو سنسکرت زبان کا گہوارہ رہا ہے۔
بندیلی یا بندیل کھنڈی:یہ بندیل کھنڈکی بولی ہے اور اس کے بولنے والے بندیلے کہلاتے ہیں۔جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے بندیل کھنڈ میں باندا، ہمیرپور، جالون اور جھانسی کے اضلاع اور سنٹرل انڈیا کی اکثر سابق ریاستیں شامل ہیں۔اس میں ادب کا وقیع سرمایہ ملتا ہے۔آلہااودل کے قصے اسی بولی میں پہلے پہل لکھے گئے تھے۔ ان کے علاوہ ہندی ادب کے نورتن شاعر اور تنقید نگار کیشو داس اور پداکر کا بھی اسی بولی سے تعلق ہے۔
قنوّجی:مغربی ہندی کی اس بولی کا نام شہر قنوّج کے نام پر ہے جو ضلع فرّخ آباد میں ہے۔ رامائن تک میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ ادبی حیثیت سے یہ برج کی وجہ سے پیچھے رہ گئی ہے۔ گریرسن کو اسے علیحدہ بولی کی حیثیت دینے میں پس و پیش ہے۔ برج اور قنوّجی دونوں میں حروف صحیح پر ختم ہونے والے الفاط کے آخر میں (ا) بڑھا دیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی گھر، قنوّجی گھرااورگھروا۔دوسری ہمسایہ بولیوں کی طرح قنوّجی میں بھی حرفِ علّت کے درمیان کی ہ گِرجاتی ہے۔ جیسے کہی ہوگی بجائے “کئی او”
ہریانوی، بانگڑو و جاٹو:دہلی کے شمال مغربی اضلاع کرنال، رہتک، حصار وغیرہ کی بولی ان تینوں ناموں سے پکاری جاتی ہے۔ لیکن اس کا ہریانوی نام زیادہ موزوں ہے۔
گریرسن موجودہ ہریانی کو کھڑی بولی ہی کی ایک شکل مانتا ہے جس میں راجستھانی اور پنجابی بولیوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ حالاں کہ آگے چل کر پنجابی کے سلسلے میں لکھتا ہے کہ پنجابی ایک مخلوط زبان ہے۔جو پرانی لہندا اور دو آبہ کی زبان کے اختلاط سے قدیم زمانے میں بنی ہوگی۔
میر عبدالواسع ہانسوی کے غرائب اللغات ہندی کی تصنیف کے بعد ہم کہہ سکتےہیں کہ ہانسی کے نواح کی ہریانی بولی معیاری مانی جانے لگی تھی، جو جمنا پار کی میرٹھ ضلع کی کھڑی بولی (ہندوستانی ) سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی تھی لیکن خان آرزو تصحیح غریب اللغات ہندی میں میر عبدالواسع سے اختلاف کرتے ہوئےہریانوی کے بجائے سند ہمیشہ برج بھاشا سے (گوالیری “افصح السنہء ہند”) سے لیتے ہیں۔ “زبانِ اہلِ اردو” یا “زبان اردوئے شاہی” یا “بزبانِ اردو” (اقتباسات خان آرزو کے ہیں) کو بھی وہ بہت معیاری نہیں مانتے۔
کھڑی بولی یا ہندوستانی:مغربی ہندی کی وہ بولی جو مغربی روہیل کھنڈ ، دو آبہ کے شمالی حصہ اور پنجاب کے ضلع انبالہ میں بولی جاتی ہے، گریرسن اسے ہندوستانی کہہ کر پکارتا ہے۔ اس میں اور ادبی ہندوستانی (اردو) میں ماں بیٹی کا تعلق ہے۔ہندوستانی بولی کے حدودِ اربعہ کی تفصیل یوں ہے:
کھڑی بولی یا ہندوستانی مغربی ہندی کے شمال مغربی علاقہ کی بولی ہے ۔ اس کے مغرب میں پنجابی یا دلّی اور کرنا ل کی آدھی راجستھانی مِلی ہوئی بانگڑو یا جاٹو زبان ہے۔ اس کے شمال میں پہاڑی بولیاں ہیں جن کا راجستھانی سے گہرا رشتہ ہے۔ جنوب اور مشرق میں یہ برج بھاشا سے گھری ہوئی ہے۔ چنانچہ گریرسن نے اسے برج بھاشا کا ایساروپ مانا ہے جو پنجابی میں بتدریج ضم ہوتا چلا گیا ہے۔
ہندوستانی کے بارے میں گریرسن اور لائل دونوں کی رائے یہی ہے کہ بولی ہندوستانی کا ڈول اور کینڈا دیگر بولیوں کی بہ نسبت برج کے زیادہ قریب ہے۔
اسے دہلوی، کھڑی بولی یا ہندوستانی کسی بھی نام سے یاد کیا جائےاس کا علاقہ اور اس کی قدامت متعین کی جاسکتی ہے۔
ہندوستانی اور پنجابی کے درمیان دریائےگھگھر کو خطِ فاصل قرار دیا جاسکتا ہے۔
کھڑی بولی کے اوصاف:
ہر زبان اور ہر بولی کی طرح کھڑی بولی کی بھی چند خصوصیات ہیں، جو حسب ذیل ہیں :۔
- کھڑی بولی کی سب سے بڑی خصوصیت معکوسی الفاظ ’’ ڈ ‘‘ کا کثرت سے استعمال ہے۔ جیسے گڈی (گاڑی)۔
- مشدّد الفاظ کا بکثرت استعمال۔ جیسے بدّل (بادل) ندّی (ندی) چدّر (چادر) جگّہ(جگہ)۔
- درمیانی ‘‘ ہ‘‘ کا گرا دینا ۔جیسے نئیں (نہیں)۔
- نفسی آوازوں کو حذف کردینا ۔جیسے وو (وہ) کاں (کہاں)۔
- مصوتوں کو انفیانےیعنی ’’ں‘‘کے زیادہ کرنے کا رواج ۔جیسے فاطماں (فاطمہ) کہناں (کہنا) کونچ در کونچ (کوچ در کوچ)۔
- ’’ ڑ ‘‘ اور ’’ ڑھ ‘‘پر ” ڈ “اور” ڈھ “کو ترجیح دینا ۔جیسے گڈی (گاڑی) پڈھنا (پڑھنا)۔ یہ خصوصیت دکنی اردو میں بھی پائی جاتی ہے۔
- ساکن کو متحرک کرنے کا رجحان، جو آج تک عوام میں باقی ہے۔ مثلاً وَقَت (وقت) شَکَل(شکل) زَخَم(زخم) وغیرہ۔
- ’’ اں ‘‘ لگا کر جمع بنانے کا رجحان۔ جیسے دناں، کھیتاں وغیرہ۔
- ’’ نے ‘‘ کا بے محل استعمال۔ جیسے راشد نے اس نے دیکھ لیا (راشد نے اس کو دیکھ لیا)۔
- دکنی اردو کی طرح ’’ یو ‘‘ کا استعمال۔ اسی طرح دکنی کا او (وہ) کھڑی بولی میں ‘‘ اوہ‘‘ کی شکل میں مستعمل ہے۔
- کھڑی بولی میں بھی دکنی کی طرح تیرا، میرا، کی تجھ ، مجھ کا استعمال ملتا ہے۔
- دکنی ہی کی طرح کھڑی بولی میں بھی ’’ مارو ہوں‘‘ (مارتا ہوں) ’’ مارے ہے‘‘ ( مارتاہے) وغیرہ افعال کییہ صورت ملتی ہے۔
اردو اور اس کی اہم بولیاں
اردو ایک ترقی یافتہ زبان ہے۔ یہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں بولی جاتی ہےجہاں ہر علاقے کی اپنی زبانیں اور بولیاں ہیں، جب کوئی زبان اپنے مرکز سے ہٹ کر دور دراز علاقوں میں بولی جاتی ہے اور دوسرے لسانی ماحول یا سماج کے مختلف طبقوں میں بولی جاتی ہےتو اس کی حسب ترتیب علاقائی، لسانی اور سماجی بولیاں جنم لیتی ہیں۔چنانچہ اردو پر بھی اثرات مرتب ہوئے جس کی وجہ سے اس کی لسانی و سماجی بولیاں وجود میں آئی۔
بولی سے مراد زبان کی وہ شکل ہے جس میں کسی بھی وجہ سے اپنی اصل شکل میں تبدیلی آگئی ہو،اگر اس پر کسی دوسری زبان کا اثر ہو اور اس سے کوئی بولی وجود میں تو اس کی لسانی بولی کہتے ہیں، لیکن اگر سماج کا طبقاتی فرق زبان میں تبدیلی لائے تو اس کو سماجی بولی کہیں گے۔ مختصر یہ کہ بولی زبان کی ایک ایسی فطری شکل کا نام ہے جو علاقائی، لسانی، سماجی، شخصی اور پیشے کے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔
اس موضوع پر سب سے پہلے انشاء اللہ خاں انشا نےاپنی کتاب “دریائے لطافت” میں چند بلیغ اشارے کے ہی۔ دکنی اردو کی لسانیات کے مطالعے میں محی الدین قادری زوراور عبدالقادر سرور وغیرہ نے کھل کر بحث کی ہے۔گوپی چند نارنگ نے دہلی اردو کی سماجی بولی کرخنداری پرتحقیقی نوعیت کا کام کیا ہے۔نصیراحمد خاں نے بھی اردو کی مختلف بولیوں مثلاً دکنی اردو، پنجابی اردو، کشمیری اردو ، کلکتہ اردو اور کرخنداری اردو کی صوتی، صرفی، نحوی اور لفظی ساختوں کی تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔
ان بولیوں کو مجموعی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی لسانی بولیاں، سماجی بولیاں اور علاقائی بولیاں۔لسانی ، علاقائی بولیاں: کلکتہ اردو، کشمیری اردو، بمبیا اردو، سماجی بولی: کرخنداری
اردو کی سماجی بولی: کرخنداری
لفظ کرخنداری کار خانہ سے مشتق ہے۔ اس لفط کی تشکیلیاتی ساخت اس طرح ہے: کارخانہ (کار “کام +خانہ “جگہ) +دار (لاحقہ) = کارخانے دار (کارخانے) (خانہ)دار)+ی (لاحقہ) =کارخانے داری=کرخندارییہ ہندوستان کی دارالسلطنت دہلی کے ان علاقوں میں بولی جاتی ہے جسے کبھی شاہ جہاں آباد کہا جاتاتھا۔ کرخنداری کے پھیلاؤ کا دہلی کے شہری علاقوں میں یہ جامع مسجد کے اطراف کے علاوہ ان محلوں میں بھی بولی جاتی ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی خاصی ہے ۔ پرانی دہلی کے اردو بازار، کباڑی بازارمٹیا محل، چتلی قبر، سوئی والان، محلّہ قبرستان، کوچہ پنڈت، کوچہ چیلان، لال کنواں، بازار سیتا رام، فراشخانہ، رودگران، گلی قاسم جان، بلی ماران ترکمان گیٹ، لاہوری گویٹ، باڑہ ہندوراؤ، بارہ ٹوٹی، صدر، تیلی واڑہ، پہار گنج وغیرہ محلے کرخنداری کے سلسلے میں خاس طور سے قابل ذکر ہیں۔
اردو کی بولی : کلکتیا اردو
مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کی اہم زبان بنگالی ہے۔ بنگال کے مشرقی و مغربی دونوں حصوں میں اچھی خاصی آبادی اردو بولنے والوں کی کہی جاسکتی ہے۔تاریخی اعتبار سے یہاں تیرہویں صدی سے اسکے نقوش ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ وہی زمانہ ہے جب بختیارخلجی نے بنگال میں لکھنوتی کے مقام پر حملہ کرکے وہاں پہلی بار مسلم حکومت قائم کی تھی۔ رفتہ رفتہ مسلمان فاتحین بنگال کے علاقوں پر قابض ہونے لگے ان کی سربرستی اور پشت پناہی میں وہاں صوفیائے کرام کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا بھی موقع ملا۔
بنگال میں اردو کو اکبر کے عہد میں باقاعدہ فروغ ملا۔ بنگال میں اردو کے ادبی سرمایے کا سراغ اٹھارہویں صدی سے ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اردو شاعری کا چرچا مرشد آباد سے بڑھ کر نساخ، ضیغم، صادق حسین اختر وغیرہ کے ذریعے پورے بنگال میں ہونے لگتا ہے۔ بنگال میں اردو کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں فورٹ ولیم کالج کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہےجس کا قیام 1800ء میں ہوا۔
بنگال میں بول چال کی اردو پر وہاں کی بنگلہ زبان کے زبردست اثرات پڑے ہیں۔ انہیں تلفظ، قواعداور لغت غرض زبان کی تینوں سطحوں پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کلکتیا اردو کلکتہ شہر میں بولی جانے والی اردو کی ایک زبردست سماجی بولی ہے۔اس کی ابتدائی شکل کو ایک اردو ناول “احسن” مصنف بدر الزماں بدر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ روزنامہ “آبشار” میں اس بولی کے لیے ایک مستقل کالم وقف ہے۔
کلکتیا اردو کی لسانی خصوصیات
- ق، ف، ز، خ، غ کلکتیا اردو میں ک، پھ، ج، کھ اور گ ہوجاتے ہیں۔ ش پر مشتمل الفاظ س مصمتے کے ساتھ تلفط ہوتے ہیں۔
- دو مصوتے ایک ساتھ نہیں آتے ۔ مصوتے کو گراکراس کی جگہ کوئی مصمتہ تلفظ کیا جاتا ہے جیسے جائیگی ، جاگی
- “و”، “ب” میں بدل جاتا ہے جیسے تصویر تصبیر
- مصوتوں کو انفی کرنے کا رجحان ہےجیسے سوچ سونچ
- لفظ کے اخیر میں مصمتی خوشوں کو توڑ دیا جاتا ہے یا آخری مصمتے کو رادیا جاتا ہے جیسے گوشت، گوش
- طویل مصوتوں کو مختصر کرنے کی طرف بھی عام رجحان ہے جیسے آسمان، اسمان
اردو کی بولی : دکنی اردو
دکنی اردو عام طور پر جنوبی ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کی بدلی ہوئی شکل کو کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی ہند کے صوبہ مہاراشٹر میں جو اردو بولی جاتی ہے اسے بھی وہاں کے لوگ دکنی کہتے ہیں۔ دکنی اردو کی آبادی دونوں صوبوں یعنی آندھرا پردیش اور کرناٹک (اور کسی حد تک تامل ناڈو اور کیرالا میں ) کے مختلف علاقوں میں ٹکڑیوں میں بکھری ہوئی ہے۔
دکنی اردو کی ایک قدیم اور زبردست بولی ہے۔ پندرہویں سے سترہویں صدی کے دوران اسے ادبی فروغ بھی ملا اور اس طرح دکنی کی گرانقدر تحریریں سامنے آئیں جن کی آض بھی تاریخی، لسانی اور ادبی حیثیت مسلم ہے۔اسے اردو کی ابتدائی شکل بھی کہا جاتا ہے۔
دکنی کی لسانی خصوصیات:
- اردو کی مسوڑی بغلدار آواز “ل” دکنی میں معکوسی عنصر کے ساتھ بولی جاتی ہے۔
- دکنی میں غیر مسموع حنجری بندشی مصمتہ”ق” کو “خ” بدل دیا جاتا ہے۔
- دکنی میں مصمتوں پر ختم ہونے والے اسما کی جمع عموماً”آں” سے بنائی جاتی ہے۔
- اردو کے حرف تاکید”ہی” کو دکنی میں لفظ کے آخر میں “اَچ” لگا کر ظاہر کیا جاتا ہے
اردو ساخت کے بنیادی عناصر
زبان کی ساخت سے آواز، قواعد اور لغت کا نظام مراد ہے یعنی زبان میں آوازیں کس طرح تلفظ ہوتی ہیں۔ الفاظ کی بناوٹ اور ان کی اقسام کیا ہیں۔ لفظ کی فقروں، فقروں کی کلموں اور ان کی جملوں میں ترتیب کیا ہے۔ اور زبان کا سرمایہ الفاظ کیسا اورکتنا ہے۔
صوتی ساخت
اردو کل آوازوں کی تعداد 48 ہے جس میں 38 مصمتہ اور دس مصوتہ ہیں۔ ان کے لفظوں میں آنے سے معنیٰ بدل جاتے ہیں ۔ اس لیے انہیں بنیادی کہا جاتا ہے۔ اردو کا صوتی نظام دیسی اور بدیسی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ کل دیسی آوازیں اس طرح ہیں: ب بھ پ پھ ت تھ ٹ ٹھ ج جھ چ چھ خ د دھ ڈ ڈھ ر ڑ ڑھ ز ژ س ش غ ف ک کھ گ گھ ل م ن و ہ ی اور ف خ غ ز ژ ق آوازیں عربی و فارسی اثرات کا نتیجہ ہے۔
صرفی ساخت
اردو الفاط کی تین قسمیں ہیں سادہ جو اپنی جگہ مکمل ہوتے ہیں اور انہیں بامعنی اجزا میں الگ نہیں کیا جا سکتا جیسے چاند، ندی، پیچیدہ یعنی وہ الفاظ جو ایک سے زیادہ بامعنی اجزا سے مل کر بنتے ہیں جیسے لکڑیاں، قلم دان تیسری قسم میں وہ الفاظ آتے ہیں جو دو یا دوسے زیادہ با معنی اجزا سے مل کر اپنی ساخت مکمل کرتے ہیں جیسے تاج محل، سورج مکھی۔ اردو میں عربی و فارسی کے طرز پر کچھ مرکبات بھی بناتے جاتے ہیں۔ جیسے سیاسیات، دسترخوان، گرانقدر وغیرہ۔ اردو نے جو الفاظ عربی و فارسی سے مستعار لیے ہیں ان میں اپنے لسانی مزاج کے مطابق ڈھالا ہے۔
نحوی ساخت
اردو میں عربی و فارسی ترکیبوں کا استعمال ہوتا ہےجیسے اضافت کا استعمال لبِ سڑک، چرغِ محفل، دردِ دل۔ اسی طرح عطف واؤ کا بھی اردو میں خوب چلن ہے۔ جیسے خواب و خیال، لب و رخسار، درد و دیوار وغیرہ۔ اردو جملے میں اجزئے کلام کے مقام مقرر ہیں لیکن کسی حد تک وہ اختیاری بھی ہوجاتے ہیں۔
لغت یا فرہنگ
ایک اندازے کے مطابق اردو میں عربی و فارسی الفاظ کی مجموعی تعداد تیس سے پینتیس فیصد ہے۔ زیادہ تر اسما کی ہے۔ کافی تعداد میں صفات بھی ملتی ہیں۔ہندوستان کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اس طرح کی انفرادیت رکھتی ہو۔ اردو نے واحد کے ساتھ جمع کی شکلیں بھی عربی و فارسی سے مستعار لے لی ہیں ۔ جیسے استاذ سے اساتذہ، فکر سے افکار، تصور سے تصورات
الفاظ میں سابقے اور لاحقے دیسی استعمال ہوتے ہیں لیکن عربی و فارسی لاحقوں کا بھی بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے سیاست سے سیاسیات، ریاضی سے ریاضیات وغیرہ
اردو رسمِ خط
اردو زبان کا صوتی نظام ہند آریائی، دراوڑی، ہند ایرانی (فارسی) اور سامی (عربی) جیسے دنیا کے چار بڑے خاندانوں کی زبانوں سے عبارت ہے۔ اردو کی ان آوازوں کو جس رسمِ خط سے ظاہر کیا جاتا ہے وہ در اصلل عربی و فارسی رسمِ خط ہے جسے بعض تبدیلیوں اور اضافوں کے بعد ہم نے زبان کے مطابق بنایا ہے اورآج اردو کا اپنا رسمِ خط کہلاتا ہے ۔ اس رسمِ خط کے اردو میں لکھنے کے تین طریقے رائم ہیں جنھیں نسخ، نستعلیق اور شکستہ جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ عام طور پر سے نستعلیق کا استعمال چھپائی کے کاموں میں ہوتا ہے۔ یہ رسم خط کسی قدر پیچیدہ اور صوتی نہ ہو کر صوری ہے۔ اس میں کہیں ایک آواز کے لیے مختلف حروف ہیں جیسے /ذ/ کے لیے ذ ز ض ظ وغیرہ تو کہیں مختلف آوازوں کے لیے ایک حرف استعمال ہوتا ہے جیسے واؤ جس کے ذریعے کم و بیش پانچ آوازیں ظاہر کی جاتی ہیں مثلاًموٗلی، مَولا، ہوش، ہوا، اور خود وغیرہ
اردو رسم ِ خط کے حروف کی کل تعداد 37 ہے جن کی مدد سے ہم اردو کے صوتی نظام یعنی مصوتوں ، ملواں مصوتوں، مصمتوں، ہاکاریت اور انفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان حروف کو بھی 19 بنیادی حروف میں تقسیم کیا جاسکتا ہےجیسے ا ب ح د ر س ص ط ع ف ق ک ل م ں و ہ ی ے (ان میں سے کسی پر نقطہ نہ ہو)روایتی طرز تحریر کے مطابق لفط میں ہر حرف اپنی اصل شکل یا ٹکڑے کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کون سا حرف لفظ میں کہاں رقم ہو رہا ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاکاریت اور انفیت کے علاوہ دوسری غیر قطعہ دار آوازوں (Supra-Segmental Sounds) جن کی تعداد 9 ہے، ظاہر کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی علامت یا نشانی نہیں ہے۔
اردو ساخت کی بنیادی عناصر کے لیے توضیحی لسانیات کا مطالعہ ضروری ہے۔
لسانیات
لسانیات کا مطلب زبان کا سائنسی مطالعہ ہے ۔
سائنسی مطالعہ میں زبان کے نظام کے اجزا اور ان کی ساختوں کو سمجھنا اور سمجھانا ہوتا ہے۔ زبان بحیثیت آوازوں کے مکمل نظام (یاساختوں کا مجموعہ) کا تصور بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے رائج نہیں ہوا تھا۔
بقول جان پیل “جس طرح کوئی ماہر نباتات پھولوں کا تجزیہ کرتا ہے، ایک لسانیاتی لفظوں کو ٹکڑے کرکے دیکھتا ہے تاکہ معلوم کرے کہ وہ کن اجزا سے مرکب ہیں اور ان اجزا کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے۔”
ہندوستانی لسانیات؛ محی الدین قادری زور ص 18
جب ہم زبان کی ساخت کا مطالعہ علامتوں یعنی آوازوں کے نظام کے طور پر کرتے ہیں تو ہمارا تعلق لسانیات کی اس شاخ سے ہوتا ہے جس “توضیحی لسانیات” کہتے ہیں۔ اس شاخ کے اہم شعبے یا ذیلی شاخیں
الف۔ صوتیات
ب۔ فونیمیات
ج۔ صرفیات/تشکیلیات
د۔ نحویات
ہ۔ معنیات
لسانیاتی نقطہ نظر سےزبان سے مراد انسان کے منہ سے ارادتاً ادا کی گئی آوازوں کے اس مجموعے سے ہے جن کا کوئی مفہوم اور معنی ہو۔ بولنے کے عمل میں ہمارے جو اعضا کام کرتے ہیں ان میں زبان ، دونوں ہونٹ، دانت، تالو، نتھنےحنجرہ اہم ہیں۔ ان میں متحرک ترین عضو زبان ہے جو اوپر ، نیچے اور دائیں ، بائیں ہر طرف حرکت کرسکتی ہے۔
اظہار و ترسیل کی تین ارتقائی صورتیں :
الف۔ اشاری اظہار
ب۔ تکلمی اظہار
ج۔ تحریری اظہار
صوتیات کی تعریف اور اس کی شاخیں
صوتیات انسانی آوازوں کا سائنسی مطالعہ ہے۔ اس میں “انسانی آواز(Speech Sound)اور “سائنسی مطالعہ” کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انسانی آواز سےہماری مراد وہ تمام آوازیں ہیں جو الفاظ کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ سائنسی مطالعہ سے مراد یہ ہے کہ اس مطالعے میں ماہر صوتیات کی ذاتی دلچسپی شامل نہیں ہوتی اور وہ سائنسی اصولوں کی بنیاد پر آوازوں کی ادائیگی کی تفصیلات، خصوصیات اور درجہ بندی پیش کرتا ہے۔
صوتیات کا تعلق دنیا کی تمام زبانوں سے ہے اور یہ علم آوازوں کے مطالعے کا بنیادی خاکہ پیش کرتا ہے۔
صوتیات کی مدد سے ہم آوازوں کی ادئیگی ، آوازوں کی ترسیل اور آوازوں کے تصورکوبخوبی سمجھ سکتےہیں۔ اسی بنیاد پر صوتیات کی تین شاخوں کی نشان دہی کی جاتی ہے۔
1۔ تلفظی صوتیات 2۔ سمعی صوتیات 3۔ سمعیاتی صوتیات
تلفظی صوتیات
صوتیات کی اس شاخ میں انسانی آوازوں کی ادائیگی کے عمل کا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے انسان کے اعضائے تکلم کو بخوبی سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
اعضائے تکلم The organs of Speech
1۔ ہونٹ(Lips)
2۔ اوپری دانت (Upper Teeth )
3۔ نوک زبان (Tips of the tongue)
4۔ زبان کا پھل(Blade of the Tongue)
5۔ وسط زبان(Front of the Tongue)
6۔ زبان کا پچھلا حصہ(Back of the Tongue)
7۔ زبان کی جڑ(Root of the Tongue)
8۔ اوپری مسوڑھا(Alveolar Ridge)
9۔ سخت تالو(Hard Palate)
10۔ نرم تالو یا غشا(Soft Plate (Velum))
11۔ لہات(Uvula)
12۔ حلق (Pharynx)
13۔ حلقی ڈھکن(Epiglottis)
14۔ سانس کی نلی(Trachea)
15۔ حنجرہ(Larynx)
16۔ صوت تانت(Vocal Cords)
17۔ صوت تانت کا دہانہ(Glottis)
18۔ خلائےانفی(Nasal Cavity)
19۔ پھیپھڑے (Lungs)
20۔ نرخرہ
21۔ کھانے کی نلی
22۔ ٹیٹوا
اعضائے تکلم کے رول کو بخوبی سمجھنے کے لیے انھیں مندرجہ ذیل خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
1۔ تلفظ کار
2۔ نقطہ تلفظ
وہ اعضائے تکلم جو حرکی ہیں یعنی اپنی جگہ سے حرکت کرسکتے ہیں انھیں تلفظ کار کہا جاتا ہے۔
وہ اعضائےتکلم جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر پاتے ہیں اور ان اعضائے تکلم کےقریبآکرتلفظ کار آوازوں کی ادائیگی کرتاہے۔انھیں نقطہ تلفظ کہا جاتا ہے۔
زبان اور نچلے ہونٹ کو تلفظ کار کا درجہ دیا جاتا ہے۔
زبان
تمام اعضائے تکلم میں زبان سب سے زیادہ متحرک اورلچیلاعضوئے تکلم ہے۔
زبان کی خصوصیت کی بنیاد پر اسے چار خانوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:
زبان کی نوک Tip of the Tongue
زبان کا پھل Blade of the Tongue
زبان کا پچھلا حصہ Back of the Tongue
زبان کی جڑ Root of the Tongue
زبان کی نوک
زبان کی نوک اپنی ساخت کے اعتبار سے زبان کا سب سے زیادہ لچیلا حصہ ہے۔ اپنے لچیلے پن کی وجہ سے زبان کا یہ حصہ اوپری ہونٹ سے سخت تالو تک بہ آسانی پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح آوازوں کی ادائیگی میں یہ اوپری دانت، مسوڑھا اور سخت تالو تک پہنچ کر ہوا میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور آوازوں کی ادائیگی کا سبب بنتا ہے۔ زبان کی نوک اور اوپری دانت کی مدد سے اداکی گئی آوازیں دنتی Dentalکہلاتی ہیں۔ لہذا یہ بات یاد رکھیے کہ “ت”، “تھ”، “د” اور “دھ” دنتی آوازیں ہیں۔
ایسی آوازیں جن کی ادائیگی میں زبان کی نوک مسوڑھے کے قریب جاکر ہوا میں رکاوٹ ڈالتی ہےلثائیAlveolar کہلاتی ہیں۔ اردو میں “س”، “ر”اور”ن” لثائی آوازیں ہیں۔ اسی طرح وہ آوازیں جن کی ادائیگی میں زبان کی نوک سخت تالو تک جاکر ہوا میں رکاوٹ ڈالتی ہے “معکوسی” Retroflexآوازیں کہلاتی ہیں۔ ٹ، ٹھ، ڈ، ڈھ اردو کی معکوسی آوازیں ہیں۔
زبان کا پھل
یہ کم لچیلا تلفظ کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “زبان کا پھل” صرف ایک مقام تلفظ پر آوازوں کی ادائیگی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ “زبان کے پھل” اور تالو کی مدد سےادا کردہ آواز کو تالوئیPalatal آواز کہتے ہیں۔ “چ”، “چھ”، “ج”اور “جھ” تالوئی آواز ہیں، ان کی ادائیگی میں “زبان کا پھل”، تالو کےقریبجاکر باہر آتی ہوا میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے اور اس طرح ان آوازوں کی ادائیگی ہوتی ہے۔
زبان کاپچھلا حصہ
یہ دو مختلف “مقام تلفظ” پر جاکر آوازوں کی ادائیگی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اردو آواز”ک”، “کھ”، “گ” اور”گھ” کی ادائیگی میں زبان کا پچھلا حصہ “نرم تالو” Velumکے قریب جاکر باہر آتی ہوامیں رکاوٹ ڈالتا ہے اور آوازوں کی ادائیگی کا سبب بنتا ہے۔ دوسری جانب اردو آواز “ق” کی ادائیگی زبان کا پچھلا حصہ’کوّا’ یا’لہات’ Uvulaکے قریب جاکر باہر آتی ہوا میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور اس طرح اس آوازکی ادائیگی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آواز کو لہاتی کہتے ہیں۔
زبان کی جڑ
زبان کی جڑ نوک زبان سے اندر کی طرف تقریباً تین انچ کے فاصلے پر ہوتی ہے۔ یہ زبان کا وہ حصہ ہے جو حلق کی اگلی دیوار کی طرح ہوتا ہے۔ زبان کی پچھلا حصہ آگے طرف تھوڑا سا اٹھ کر جب کوّے کے ربط میں آتی ہے تو لہاتیمصمتے /ق/کا تلفظ ادا ہوتا ہے۔ اسی طرح حلق کے اندرزبان کی جڑ اور کوّے میں رابطہ قائم ہوکرحلقی مصمتے /ہ/ کی ادائیگی عمل میں آتی ہے۔
زبان کی نوک (دنتی، لثائی، معکوسی)
زبان کا پھل (تالوئی)
زبان کا پچھلا حصہ لہاتی
زبان کی جڑ Root of the Tongue
نچلا ہونٹ
نچلے ہونٹ میں حرکت کی وجہ سے اسے تلفظ کار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اپنی خصوصیت کے سبب نچلا ہونٹ دو “مقام تلفظ” “اوپری ہونٹ” اور “اوپری دانت”کےقریبجاکر آوازوں کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
“پ”، “پھ”، “ب”، اور “بھ” کی ادائیگی میں نچلا ہونٹ اوپری ہونٹ کے قریب جاکر باہر آتی ہوا میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان آوازوں کو “دولبی ” آوازیںکہتےہیں۔ نچلا ہونٹ اوپری دانت کے قریب جاکر بھی رکاوٹ ڈالتا ہے۔ “ف” اور “و” کی ادائیگی میں “نچلاہونٹ” اوپری دانت کے قریب جاکر رکاوٹ کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے ان آوازوں کو “لب دنتی” آوازیں کہتے ہیں۔
نقطہ تلفظ
“تلفظ کار”جنمقامات پر جاکر ہوا میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور آوازوں کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتے ہیں ان “مقامات” کو “مقام تلفظ” کہا جاتا ہے۔
آوازوں کی قسمیں : مصوتے اور مصمتے
انسانی آوازیں عام طور سے دوخانوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔
1۔ مصوتے
2۔ مصمتے
مصوتے
وہ آوازیں جن کی ادائیگی میں منھOral Cavity کے اندر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی مصوتے کہلاتی ہیں۔ ان آوازوں کی ادائیگی کے وقت باہر آتی ہوا میں صوت تانت Vocal Folds کے قریب کچھ اس طرح رکاوٹ ڈالی جاتی ہے کہ صوت تانت مرتعش ہوجاتے ہیں۔ صوت تانت میں اس ارتعاش کی وجہ سے ایک گونج کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور مصوتےمسموعVoicedہوجاتے ہیں۔ مصوتے عام طور سے مسموع ہوتے ہیں اور ان کی آدائیگی میں صوت تانت کا مرتعش ہونا نمایاں رول انجام دیتا ہے۔ اردو میں “آ”، “اے”، “ای”، “او” اور “او” مصوتے ہیں۔ یوں تو مصوتوں کا تلفظ صوت تانت ہوتا ہے لیکن منہ Oral Cavityانھیں ایک مخصوص شکل دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مصوتوں کی درجہ بندی کے وقت مندرجہ ذیل باتوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے:
الف۔ زبان کا حصہ ب۔ زبان کی اونچائی
ج۔ ہونٹوں کی گولائی د۔ طول یا مدت
زبان کا حصہ:
کچھ مصوتوں کی ادائیگی میں زبان کا اگلاحصہانھیں ایک مخصوص شکل دیتا ہے اسی وجہ سے ان مصوتوں کو “اگلا مصوتہ” کہتے ہیں۔ اردو میں “ای”، “ائ”، “اے”،”ائے” اگلا مصوتہ ہیں۔ اس طرح “ا” درمیانی مصوتہ کہلاتا ہے۔ اَو، او، اوٗ اور آ کو عام طور سے “پچھلا مصوتہ” کہا جاتا ہے۔
زبان کی اونچائی
مصوتوں کی ادائیگی کے وقت مصوتوں کو ایک مخصوص شکل دینے کی خاطر زبان کا کوئی مخصوص حصہ اوپر یا نیچے کی جانب حرکت کرتا ہےاورمصوتوں کو ایک مخصوص شکل میں ڈھال دیتا ہے۔ زبان کی حرکت کو ذہن میں رکھ کر مصوتوں کو الف۔ بالائی، ب۔ وسطی اور ج۔ نچلے مصوتوں کے خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
بالائی مصوتوں کی ادائیگی میں زبان کا کوئی ایک مخصوص حصہ اوپر کی جانب اٹھتا ہے۔ مثلا “ای “اور “او”مصوتوں کو دیکھیے ۔ ان مصوتوں کی ادائیگی میں زبان کا کوئی ایک حصہ اوپر کی جانب اٹھتا ہے جس کی وجہ سے ان مصوتوں کو “بالائی مصوتہ” کہا جاتا ہےلہذا “ای” کو اگلا بالائی مصوتہ کہتے ہیں کیوں کہ اس کی ادائیگی میں زبان کا اگلا حصہ اوپر کی جانب اٹھتا ہے جب کہ “او” کے تلفظ میں زبان کا پچھلا حصہ اوپر کی جانب اٹھتا ہے اس لیے اس مصوتے کو پچھلا بالائی مصوتہ کہتےہیں۔
اردو میں “اے”اور “او” وسطی مصوتےہیں۔کیوں کہ ان کی ادائیگی میں زبان درمیانی سطح پر رہتی ہے۔
اردو زبان میں “آ” نچلا مصوتہ ہے کیوں کہ اس کے تلفظ میں زبان کا پچھلا حصہ نیچے کی جانب جھک جاتا ہے
ہونٹوں کی گولائی
بعض مصوتوں کی ادائیگی میں ہونٹ گول ہوجاتے ہیں ان مصوتوں کو “مدور” مصوتہ کہتے ہیں۔عام طور سے “پچھلے مصوتے” مدور ہوتے ہیں۔ پچھلے مصوتے “اوٗ”، او”، “اؤ” اور “اُو” کو دیکھیے۔انمصوتوں کے تلفظ میں ہونٹ گول ہوجاتاہےلہذاانھیںمدورمصوتہ کہا جاتا ہے۔پچھلےمصوتوں میں صرف “آ” ایک غیر مدورمصوتہ ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی میں ہونٹ گول نہیں ہوتاہے۔
طول یا مدت
اردو میں مصوتوں کی کل تعداد دس ہے جن میں سات “طویل “مصوتے جب کہ تین “خفیف “مصوتےہیں۔اردو میں “زیر”، “زبر” اور “پیش سے ظاہر ہونے والے مصوتے “اَ”، “اِ” اور “اُ” خفیف مصوتے ہیں جب کہ حروف “ی”، “ے”، “و” اور “الف”سے ظاہر ہونے والے مصوتے “آ”، “ای”، “اے”، “ائے”، “او”، “اوٗ” اور “اؤ” طویل مصوتے ہیں۔
مصمتے
وہ آوازیں جن کی ادائیگی میں باہر آتی ہوا میں منہ Oral Cavityکے اندر رکاوٹ ڈالی جاتی ہو “مصمتے ” کہلاتی ہیں۔ مثال کے طور پر “پ”کو دیکھیے ۔ اس آواز کی ادائیگی میں باہر آتی ہوا کو دونوں ہونٹوں کے درمیان روکا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اسے مصمتہ کہا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس “آ” کی ادائیگی میں منہ کھلا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ “آ”کی ادائیگی میں منہ کھلا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ “آ” ایک مصوتہ ہے۔
مصمتوں کی درجہ بندی میں چار بنیادی باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے
مقام تلفظ
طریقہ تلفظ
مسموع / غیر مسموع
ہکاریت
مقام تلفظ
وہ مقامات جہاں “تلفظ کار” باہر آتی ہوا میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے “مقام تلفظ ” کہلاتے ہیں۔ اردو مصمتوں کی ادائیگی میں نو مختلف مقامات پر یہ رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں ۔ اس کا ایک تفصیلی جائزہ اوپر پیش کیا جا چکا ہے۔
طریقہ تلفظ
یہ “رکاوٹ ” کے اس انداز کی نشان دہی کرتی ہے جس کی بنا پر آوازوں کی ادائیگی ہوتی ہے۔ آوازوں کے طریقہ ادائیگی کو عام طور سے مندرجہ ذیل سات قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
الف۔ بندشی طریقہ تلفظ ب۔ انفی طریقہ تلفظ
ج۔ صفیری طریقہ تلفظ د۔پہلوئی طریقہ تلفظ
ہ۔ ارتعاشی طریقہ تلفظ و۔ تھپک دار
ز۔نیممصوتہ
بندشی طریقہ تلفظ Stop
اس میں باہر آتی ہوئی ہوا کو کسی “مقام تلفظ” پر لمحے بھر کے لیے روکا جاتا ہے۔ باہر آتی ہوئی ہوا کو روکنے کا عمل تلفظ کردہ آواز کو “بندشیآواز”بناتاہے۔اردو زبان میں بندشی آواز کی کل تعداد اکیس ہے۔ اردو میں “پ”، “پھ”، “ب”، “بھ”، “ت”، “تھ”، “د”، “دھ”، “ٹ”،”ٹھ”، “ڈ”، “ڈھ”، “چ”، “چھ”، ج”،”جھ”، “ک”، “کھ،”گ”، “گھ”، اور “ق” کا شمار بندشی آوازوں کی ادائیگی میں باہر آتی ہوئی ہوا کو متعدد مقامات پر روکاجاتا ہے۔
انفی طریقہ تلفظ Nasal
“انفی” طریقہ تلفظ کو انفی مصمتوں کی ادائیگی میں نرم تالوکےنیچےآجانے کی وجہ سے منہ کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور ہواناک کے راستے باہر گذرتی ہے۔ مثال کے طورپر “م” میں آوازکی ادائیگی میں دونوں ہونٹ آپس میں ملتے ہیں لہذا اسے “دولبیانفی مصمتہ” کہتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب “ن” کی ادائیگی میں “زبان کی نوک”
مسوڑھے کے قریب جاتی ہے اوور رکاوٹ کا سبب بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ اردو کے اس “انفیمصمتے” کو “لثائیانفی مصمتہ” کہتے ہیں۔اردو میں انفی مصمتوں کی کل تعداد دو ہے لیکن بعض اوقات “نگ” کو بھی انفی مصمتہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
صفیری طریقہ تلفظ
اس میں “تلفظ کار” “مقام تلفظ” کے اتنا قریب آجاتا ہے کہ دہانہ تنگ ہوجاتا ہے اور سانس کی ہوا اس تنگ راستے سے رگڑ کھاتی ہوئی گذرتی ہے۔ اس طرح تلفظ کردہ آواز کو صفیری آواز کہتے ہیں۔ اردو میں صفیری آوازوں کی کل تعداد نو ہے۔
“ف”، “و”، “س”، “ژ”،”خ”، “غ”اور “ہ” کو صفیری مصمتے کہتے ہیں کیوں کہ ان مصمتوں کی ادائیگی میں سانس کی ہوا مقام تلف ظ سے رگڑ کھاتی ہوئی گذرتی ہے۔
پہلوئی طریقہ Lateral
اگر کسی مصمتے کی ادائیگی میں زبان کی نوک کو اوپری مسوڑھے سے لگا کر ہوا نکالی جائے تو اسے پہلوئی مصمتہ کہتے
ہیں۔ جیسے ل
ارتعاشی طریقہ تلفظ Trill
اس میں زبان کی نوک مسوڑھےکے قریب آکرکپکپاتی ہے ۔اسی ارتعاش یا کپکپاہٹ کی وجہ سے ان مصمتوں کو ارتعاشی مصمتہ کہتے ہیں ۔اردو میں “ر” ارتعاشی مصمتہ ہے۔ارتعاشی مصمتہ عام طور سے مسموع ہوتا ہے۔
تھپک دار Flap
اگر کسی مصمتے کی ادائیگی میں “تلفظ کار” مقام تلفظ پر دستک دے کر ہٹ جائے تو اس مصمتے کو تھپک دار مصمتہ کہتے ہیں۔
نیم مصوتہ
اگر مصمتے کی ادائیگی میں تلفظ کار مقام تلفظ تک اس طرح جائے کہ باہر آتی ہوئی ہوا میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ پڑے تو وہ نیم مصوتہکہلائے گا۔ اردو میں “ی” اور “و” نیم مصوتہ ہیں۔
“سمعی صوتیات” میں آوازوں کے ترسیل کو موضوع بنایا جاتا ہے۔
سمعیاتی صوتیات کی وہ شاخ جو آوازوں کی سمعی طریقہ کار کا جائزہ پیش کرتی ہے۔
اردو مارفیمیات، اردو نحویات، معنیات کا بھی مطالعہ کر سکتے ہیں اس کے لیے نصیر احمد خاں صاحب کی کتاب اردو ساخت کے بنیادی عناصر بہترین کتاب ہے۔
اس سے متعلق مواد اردو ساخت کے ابتداء میں بیان کیا گیا ہے اردو کے ساخت ہی اس کی لسانی انفرادیت ہے۔آپ کہیں تو اس کو دوبارہ یہاں نقل کیا جائے گا اس کے لیے آپ تبصرہ کریں۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
UNIT - II
دکن میں اردو زبان و ادب
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- نظامی بیدری : کدم راؤ پدم راؤ
- نصرتی : گلشنِ عشق
- ہاشمی بیجا پوری : دیوانِ ریختی
- علی عادل شاہ ثانی شاہی : کلیاتِ شاہی
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- محمد قلی قطب شاہ : کلیات محمد قلی قطب شاہ
- ملا وجہی : سب رس قطب مشتری
- غواصی : سیف الملوک و بدیع الجمال
- ابنِ نشاطی : پھول بن
- ولی : دیوانِ ولی
- سراج اورنگ آبادی : کلیات سراج
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
UNIT - III
شمالی ہند میں اردو زبان و ادب
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
UNIT - IV
غیر افسانوی نثر
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
UNIT - V
افسانوی نثر: داستان، ناول، افسانہ اور ڈرامہ
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- سب رس : ملا وجہی
- باغ و بہار : میر امن
- فسانہ عجائب : رجب علی بیگ سرور
- قصہ مہر افروز و دلبر : عیسوی خاں بہادر
- رانی کیتکی کی کہانی : انشاء اللہ خاں انشا
سب رس : ملا وجہی
باغ و بہار : میر امن
فسانہ عجائب : رجب علی بیگ سرور
قصہ مہر افروز و دلبر : عیسوی خاں بہادر
رانی کیتکی کی کہانی : انشاء اللہ خاں انشا
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
فسانہ آزاد: رتن ناتھ سرشار
توبۃ النصوح : ڈپٹی نذیر احمد
فردوسِ بریں: عبدالحلیم شرر
امراؤ جان ادا: مرزا ہادی رسوا
گئودان:پریم چند
ٹیڑھی لکیر:عصمت چغتائی
- آگ کا دریا
- اداس نسلیں
- فائر ایریا
- کئی چاند تھے سرِ آسماں
آگ کا دریا: قرۃ العین حیدر
- فائر ایریا
- کئی چاند تھے سرِ آسماں
اداس نسلیں: عبداللہ حسین
فائر ایریا: الیاس احمد گدی
- کئی چاند تھے سرِ آسماں
کئی چاند تھے سرِ آسماں: شمس الرحمٰن فاروقی
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- پریم چند
- سعادت حسن منٹو
- کرشن چندر
- راجندر سنگھ بیدی
- عصمت چغتائی
- قرۃ العین حیدر
- خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
پریم چند
- سعادت حسن منٹو
- کرشن چندر
- راجندر سنگھ بیدی
- عصمت چغتائی
- قرۃ العین حیدر
- خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
سعادت حسن منٹو
- کرشن چندر
- راجندر سنگھ بیدی
- عصمت چغتائی
- قرۃ العین حیدر
- خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
کرشن چندر
- راجندر سنگھ بیدی
- عصمت چغتائی
- قرۃ العین حیدر
- خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
راجندر سنگھ بیدی
- عصمت چغتائی
- قرۃ العین حیدر
- خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
عصمت چغتائی
- قرۃ العین حیدر
- خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
قرۃ العین حیدر
- خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
خواجہ احمد عباس
- غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
غیاث احمد گدی
- سید محمد اشرف
سید محمد اشرف
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- امانت
- آغا حشر کاشمیری
- محمد مجیب
- حبیب تنویر
- محمد حسن
امانت
- آغا حشر کاشمیری
- محمد مجیب
- حبیب تنویر
- محمد حسن
آغا حشر کاشمیری
- محمد مجیب
- حبیب تنویر
- محمد حسن
محمد مجیب
- حبیب تنویر
- محمد حسن
حبیب تنویر
- محمد حسن
UNIT - VI
قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- سودا
- ذوق
- غالب
- محسن کاکوروی
سودا
- ذوق
- غالب
- محسن کاکوروی
ذوق
- غالب
- محسن کاکوروی
غالب
- محسن کاکوروی
محسن کاکوروی
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- قطب مشتری
- علی نامہ
- خواب و خیال
- سحرالبیان
- گلزارِ نسیم
- زہرِ عشق
قطب مشتری
- علی نامہ
- خواب و خیال
- سحرالبیان
- گلزارِ نسیم
- زہرِ عشق
علی نامہ
- خواب و خیال
- سحرالبیان
- گلزارِ نسیم
- زہرِ عشق
خواب و خیال
- سحرالبیان
- گلزارِ نسیم
- زہرِ عشق
سحرالبیان
- گلزارِ نسیم
- زہرِ عشق
گلزارِ نسیم
- زہرِ عشق
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- ہاشم علی
- انیس
- دبیر
- حالی
- جوش
ہاشم علی
- انیس
- دبیر
- حالی
- جوش
انیس
- دبیر
- حالی
- جوش
دبیر
- حالی
- جوش
UNIT - VII
غزل و نظم
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- نظیراکبرآبادی
- الطاف حسین حالی
- اکبرالہ آبادی
- سرور جہاں آبادی
- چکبست لکھنؤی
- اقبال
- جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
نظیراکبرآبادی
- الطاف حسین حالی
- اکبرالہ آبادی
- سرور جہاں آبادی
- چکبست لکھنؤی
- اقبال
- جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
الطاف حسین حالی
- اکبرالہ آبادی
- سرور جہاں آبادی
- چکبست لکھنؤی
- اقبال
- جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
اکبرالہ آبادی
- سرور جہاں آبادی
- چکبست لکھنؤی
- اقبال
- جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
سرور جہاں آبادی
- چکبست لکھنؤی
- اقبال
- جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
چکبست لکھنؤی
- اقبال
- جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
اقبال
- جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
جوش
- میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
میرا جی
- فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
فیض احمد فیض
- اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
اخترالایمان
- مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
مخدوم محی الدین
- اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
اختر شیرانی
- علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
علی سردار جعفری
- ن۔ م۔ راشد
ن۔ م۔ راشد
UNIT - VIII
اردو تنقید، تحقیق اور تدوینِ متن
اردو کے اہم محققین و ناقدین اور مختلف دبستانِ نقد کا مطالعہ
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
حافظ محمود شیرانی، مولوی عبدالحق، محی الدین قادری زور، نصیرالدین ہاشمی، قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
حافظ محمود شیرانی، مولوی عبدالحق، محی الدین قادری زور، نصیرالدین ہاشمی، قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
مولوی عبدالحق، محی الدین قادری زور، نصیرالدین ہاشمی، قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
محی الدین قادری زور، نصیرالدین ہاشمی، قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
نصیرالدین ہاشمی، قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
امتیاز علی خاں عرشی، مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
مسعود حسین خاں، مسعود حسین رضوی ادب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
مسعود حسین رضوی ادیب، گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
گیان چند جین، رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
رشید حسن خاں، حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
حنیف نقوی، مرزا خلیل احم بیگ۔
مرزا خلیل احمد بیگ
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- مشرقی تنقید : اصول و نظریات (عربی فارسی اور سنسکرت میں اس کی روایت
- مغربی تنقید : اصول و نظریات اور ہم ناقدین
- اردو کے اہم تذکرہ نگار اور تذکروں میں تنقید کی روایت
- متنی تنقید اور اس کے اصول و نظریات
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- مشرقی تنقید : اصول و نظریات (عربی فارسی اور سنسکرت میں اس کی روایت
- مغربی تنقید : اصول و نظریات اور ہم ناقدین
- اردو کے اہم تذکرہ نگار اور تذکروں میں تنقید کی روایت
- متنی تنقید اور اس کے اصول و نظریات
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
حالی، شبلی، امداد امام اثر، کلیم الدین احمد، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
حالی، شبلی، امداد امام اثر، کلیم الدین احمد، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
شبلی، امداد امام اثر، کلیم الدین احمد، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
امداد امام اثر، کلیم الدین احمد، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
کلیم الدین احمد، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
آل احمد سرور، احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
احتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ
گوپی چند نارنگ
UNIT - IX
ادبی تحریکات
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
UNIT - X
اردو قواعد، صحافت اور کمپیوٹر
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
اسم، فعل، ضمیر، صفت، تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجاز مرسل، معروف صنعتیں، محاورات، ضرب المثل، کہاوت
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
جلد مواد دستیاب ہوں گے۔
- کمپیوٹر کا بنیادی علم
- ان پیج سوفٹ ویئر
- ایم ایس آفس