افسانہ (04) شانتی کا خلاصہ

پریم چند کا افسانہ : شانتی

افسانہ “شانتی” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل چوتھا افسانہ ہے۔ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے آپ سن بھی سکتے ہیں۔

اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے”مرحوم دیوناتھ میرے دوستوں میں تھے۔آج بھی جب ان کی یاد آجاتی ہے تو وہ رنگ رلیاں آنکھوں میں پھر جاتی ہیں”۔

اوراس کا اختتام اس جملے سے ہوتا ہے”سنی نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔اس کے پتا ہوتے تو آج سنی کی مورت بنا کر پوجتے”۔

نچوڑ

اس افسانے میں پریم چند نے ازدواجی زندگی میں درپیش ذہنی وفکری اختلافات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ جہاں بیوی اپنے شوہر کی محبت کے لئے ترستی ہے، اور جب شوہر اس کے ساتھ بے وفائی کرتا ہے تو وہ شوہر کو سزا دینے کے بجائے خود ہی اپنی جان دے دیتی ہے۔

شانتی میں دیوناتھ کے وفات کے بعد گوپا اپنی بیٹی سنیتا کی شادی مداری لال کے بیٹے کیدار ناتھ سے کی۔

شانتی خلاصہ

اس افسانے کا راوی مرحوم دیوناتھ کا دوست ہے، جو لکھنو کا رہنے والا ہے اورراوی کا دوست دیوناتھ دہلی کا۔دیوناتھ نہایت شریف، محبت نوازاوردوستوں پر جان دینے والا آدمی تھا، کئی دفعہ انکے دوست ان کی شرافت کا فائدہ بھی اٹھاتے لیکن دیوناتھ نے زندگی سے سبق لینے کی قسم کھالی تھی۔ اس کی بیوی گوپااوران کی ایک لڑکی اوردو لڑکے تھے لیکن لڑکوں کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا، اور بیٹی کا نام سنی (سنیتا) تھا۔ دیو ناتھ کا اچانک انتقال ہوگیا۔

دیوناتھ کے مرنے کے بعد دوستوں نے شرافت کا اظہار کرتے ہوئے گوپا کے بسر اوقات کے لئے روپیہ جمع کرنے کی تجویز رکھی اس کے دوستوں میں سے ایک رانڈوا دوست نے گوپا سے شادی کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی، لیکن گوپا نے انکارکردیا، اور گوپا نے اپنے گھرکے ایک حصے کو ماہانہ پچاس روپیہ کے کرائے پر دے دیا، اسی طرح دو سال گزرگئے وقت اور حالات نےوقت سے پہلے ہی گوپا کو بوڑھا کر دیا تھا۔ گوپا کواب کوئی فکر تھی تو صرف اپنی اکلوتی بیٹی سنّی (سُنیتا) کی شادی کی، وہ اپنی بیٹی کی شادی مداری لال کے لڑکے کیدارناتھ سےکرنا چاہتی تھی، مداری لال پہلے انجنئیر تھے۔ بہت مالدارآدمی تھے اور گوپا بس چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کی شادی اسی مالدار گھرانے میں ہو تاکہ اس کی بیٹی سسرال میں رانی بن کر رہے۔ گوپا اپنی بیٹی کی شادی میں کسی طرح کی کمی نہیں رکھنا چاہتی تھی جس کے لئے گوپا نے سارے محلے سے قرض لیا تھا گوپا اس رقم کوقرض سمجھ کر لیتی لیکن دینے والے اسے دان سمجھ کردے رہے تھے۔

جون کے مہینے میں سنی کی شادی کیدارناتھ سے ہوتی ہے، کیدارناتھ جو اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا تھا اور بے جا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا، شراب کی عادت پڑگئی تھی، او ڈرامہ کھیلنے کا شوقین تھا، باپ کا پیسہ خوب اڑاتا تھا اس کے انہیں عادتوں سے تنگ آکر مداری لال نے کیدارناتھ کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا انہیں لگا کہ سنی جیسی خوبصورت لڑکی سے شادی ہوگی تو اس کا بیٹا سدھر جائے گا لیکن شادی کے بعد بھی وہ بازنہ آیا، وہ ہربات میں بس اپنی من مانی کرتا، رات گئے گھر سے باہررہنا اس کی عادت بن گئی تھی۔ وہ بیوی سے کبھی پیار کے دو بول کہنا بھی گوارا نہیں کرتا جس کی سنّی منتظر تھی، لیکن سنی بھی اکلوتی اور لاڈلی تھی اور کیدار بھی، لوہا لوہے سے بھڑ گیا  اس طرح یہ رشتہ نہ چل سکا، اورادھر کیدارناتھ ایک ایکٹریس کے ساتھ بھاگ گیا اور اپنے باپ کے جعلی دستخط کرکے بینک سے پیسہ بھی لے گیا۔ آخر میں سنّی شوہر کے احمقانہ حرکت سے دلبرداشتہ ہوکر ایک روزجمنا میں اشنان کرنے جاتی ہے اور جمنا میں خود کوغرق آب کردیتی ہے۔ اس طرح وہ خود کو شانتی پہنچاتی ہے۔ سنیتا بدلتے ہوئے سماج کی ایسی ہی عورت ہے جس کی مساوی حیثیت کو اگرچہ سماج اب تک قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہ اپنے حقوق سے دست بردار ہونے کےلئے بالکل بھی تیار نہیں۔

گوپا جو سنّی کی ماں ہے اپنی بیٹی کے مرنے کی خبر سن کر بجائے غمگین ہونے اور ماتم کرنے کہ خوشی کا اظہار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ “جس عورت کو محبت نہ ملے اس کا مر جانا ہی اچھا ہے”۔

افسانے کے کردار

راوی، دیوناتھ(راوی کا دوست)، گوپا(دیوناتھ کی بیوی)سنیتا(دیوناتھ کی بیٹی)، مداری لال (سنیتا کا سسر)کیدار ناتھ (سنیتا کا شوہر)

منتخب اقتباسات

لیکن اس بھلے آدمی نے زندگی سے سبق لینے کی قسم کھائی تھی ۔ ان کے طرزعمل میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ۔ جیسے بھولا ناتھ جیے ویسے ہی بھولا ناتھ مرے۔

جس دنیا میں وہ رہتے تھے وہ نرالی دنیاتھی ، جس میں بدگمانی و چالا کی اور بغض وحسد کے لیے گنجایش نہ تھی ۔ سب اپنے تھے، کوئی غیر نہ تھا ۔

جو لوگ خدمت خلق کرتے ہیں اور ذاتی مفاد کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں سمجھتے ان کے پس ماندوں کو آڑ دینے والوں کی بھی کمی نہیں رہتی ۔

اس وقت اس کی نگاہوں میں شباب کی جھلک تھی۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس کے چہرے کی جھریاں مٹ گئی ہیں ۔ چہرے پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی ہے۔

کسی کو اپنا غلام بنانے کے لیے پہلے خود بھی اس کا غلام بنا پڑتا ہے۔

ہم سنی سنائی باتوں سے دوسروں کے متعلق کیسے غلط خیالات قائم کر لیتے ہیں ۔

بیوہ کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے ۔تم نے سنا نہیں رانڈ مرے نہ کھنڈر ڈھئے۔

مرد اور عورت میں بیاہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں سولہ آنے ایک دوسرے کے ہو جائیں ۔ ایسے مرد کم ہیں جو عورت کی جو برابرکج نگاہی بھی برداشت کر سکیں لیکن ایسی عورتیں بہت ہیں جوشو ہر کودیوتا سمجھتی ہیں۔

وہ اگر محبت کرتی ہے تو محبت چاہتی بھی ہے اور اگر شوہر میں یہ بات نہ ہوئی تو اس سے واسطہ نہیں رکھے گی چاہے اس کی ساری زندگی روتے کٹ جائے۔”

غیرت کی پتلی ہی سمجھواسے۔ رسی سمجھ لو جس کے جل جانے پر بھی بل نہیں جاتے ۔جن پیروں نے اسے ٹھکرادیا ہے انھیں وہ بھی نہ سہلائے گی ۔اسے اپنا بنا کر کوئی چاہے تو لونڈی بنا لے لیکن حکومت تو اس نے میری نہ سہی ، دوسروں کی کیا سہے گی۔

لڑکے تو سب ہی من چلے ہوتے ہیں۔ لڑکیا ں اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ان کی سیوا قربانی اور محبت یہی ان کے دو ہتھیار ہیں جن سے وہ اپنے شوہر پر فتح حاصل کر لیتی ہیں ۔

 میں بدنصیب ہوں۔ بس ان باتوں کا علاج میرے قابو سے باہر ہے۔ میں اس زندگی سے موت کو کہیں بہتر سمجھتی ہوں ۔ جہاں اپنی قدر نہ ہوزندگی کی کوئی دوسری شکل میری سمجھ میں نہیں آتی۔اس معاملے میں کسی طرح کا سمجھوتہ کرنامیرے لیے غیرممکن ہے۔ نتیجے کی میں پروانہیں کرتی۔“

حیوان کو انسان بنا نا میری طاقت سے باہر ہے ۔‘‘

اس ابھا گن کے باغ تمنّا میں یہی ایک پودا تھا۔ اسے اپنے خون جگر سے سینچ کر پال رہی تھی ۔ اس کے بسنت کا سنہرا خواب ہی اس کی زندگی کا ماحصل تھا۔ اس میں کونپلیں نکلیں گی ، پھول کھلیں گے ، پھل آ ئیں گے، چڑیاں اس کی ڈالیوں میں بیٹھ کر اپنے سہانے راگ گائیں گی لیکن آج موت کے بے رحم ہاتھوں نے اس پودے کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اس کی زندگی اب بیکارتھی ۔ وہ نقطہ ہی مٹ گیا تھا جس پر زندگی کے تمام خطوط آ کر ملتے تھے ۔ دل کو دونوں ہاتھوں سے تھامے میں نے زنجیر کھٹکھٹائی۔

عورت کو زندگی میں محبت نہ ملے تو اس کا مر جانا ہی اچھا ہے ۔

 بھیا! انسان اس لیے تھوڑے ہی جینا چاہتا ہے کہ روتا رہے ۔ جب معلوم ہو گیا کہ زندگی میں دکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو آدمی جی کر کیا کرے؟ کس لیے جیے؟ کھانے سونے اور مرجانے کے لیے؟

وہ جانتی ہے کہ ساری دنیا اس کی مذمت کرے، اس کی ماں اس کی تعریف ہی کرے گی ۔اس کی روح سے یہ مسرت بھی چھین لوں؟

*****

اگر یہ پوسٹ مفید لگا ہو اور افسانہ شانتی کو سمجھنے میں فائدہ ملا ہو تو اس کو آگے اپنے دوستوں تک ضرور پہنچائیں۔

2 thoughts on “افسانہ (04) شانتی کا خلاصہ”

  1. Pingback: افسانہ شانتی Urdu Literature

  2. Pingback: Afsana Roshni Urdu Literature

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks