افسانہ (02) معصوم بچہ کا خلاصہ

پریم چند کا افسانہ : معصوم بچہ

افسانہ “معصوم بچہ” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل دوسرا افسانہ ہے۔ اس کے خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے آپ سن بھی سکتے ہیں۔

اس افسانے کا آغازاس جملے سے ہوتا ہے:” گنگو کو لوگ برہمن کہتے ہیں اور وہ اپنے کو برہمن سمجھتا بھی ہے”۔ اوراس کا اختتام اس جملے سے ہوتا ہے:ِ” اصلی شرافت تم میں ہے اور یہ معصوم بچہ وہ پھول ہے جس سے تمہاری شرافت کی دہک نکل رہی ہے۔

میں بچے کو سینے سے چمٹائے ہوئے گنگو کے ساتھ چلا۔”

نچوڑ

اس افسانے میں راوی ایک مالک ہے جو اپنے برہمن ملازم کی نوکری چھوڑ کر جانے اور ایک بار بار بھاگ جانے والی بدھواسے شادی کرنے کے بارے میں بتاتا ہے۔اس میں دراصل ایک نفسیاتی مسئلہ کوموضوعِ بحث بنایاگیاہے کہ معاشرہ ایک بچے کو ناجائز قرار دیتی ہے جب کہ وہ تو معصوم ہوتا ہے اور شریف ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس کو اپنا بناتے ہیں، نہ کہ نام نہاد شریف جو ظاہر میں شریف اور دل کے انتہائی غلیظ ہوتے ہیں۔

یہ افسانہ تین حصوں پر مشتمل ہے پہلے میں گنگواور راوی کا تعارف ہے اور گنگوکا راوی کی ملازمت سے استعفا دینے کا ذکر ہے، دوسرے حصے میں ان کی شادی اور خوش و خرم زندگی اور اخیر میں گومتی کے بھاگ جانے کا تذکرہ ہےاور آخری حصہ میں گومتی کے ملنے اور راوی کے اپنے رویے پر افسوس کرنے کا بیان ہے۔

خلاصہ

روای پہلے کردار “گنگو” کا تعارف پیش کرتا ہےکہ وہ برہمن ہےاور اس کو اس کا ادِّعا بھی ہے، وہ میرا ملازم ہے لیکن مجھے سے تعظیم کی توقع رکھتا ہے، مجھے بھی اس سے حکم دینے کی ہمت نہیں ہوتی ہےاور کوئی کام کرتا بھی ہے تو احسان معلوم ہوتا ہے،تیز مزاج آدمی ہے، بات کی مطلق برداشت نہیں۔ بہت کم لوگوں سے دوستی، ملازموں کے ساتھ رہنے سے گریز، میلے تماشے سے دور، یہاں تک نشہ وغیر ہ کا بھی شوق نہیں، پوجا پاٹ اور ندی میں اشنان کا بھی خبط نہیں، بالکل جاہل ہے لیکن برہمن ہونے کا دعویٰ ہے اور اس کو حق بھی ہے کیوں کہ وہ اس کو وراثت میں ملا ہے۔

راوی آگے اپنے مزاج سے آگہی فراہم کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں ملازموں سے کم بولتا ہوں ، چھوٹے چھوٹے کام کے لیے ملازم کو پکارنے کے بجائےخود سے کرنے کو ترجیح دیتا ہوں ، ملازم بھی میرے پاس کم آتے ہیں۔ اس لیے ایک دن گنگوصبح صبح میرے سامنے آکر کھڑا ہوا تومجھے کوفت ہوئی کہ ان لوگ کی آمدکا مقصدیاتو پیشگی یا دوسرے ملازم کی شکایت ہوتی ہے۔ اور مجھے دونوں ناگور گزرتا ہے ۔

 اب یہاں سے مالک اور ملازم کی گفتگو شروع ہوتی ہے، راوی گنگو سے آنے کی وجہ پوچھتا ہےتو وہ جواب دینے سے ہچکچاتا ہے، تو راوی ہی کہتا ہے کہ پیشگی لینے یا شکایت کرنے تو نہیں آئے تو گنگو انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ملازمت سے سبکدوشی چاہیے۔ اس کے لفظ میں” مجھے اب آپ چھٹی دیدیں۔ میں اب آپ کی نوکری نہ کر سکوں گا۔”راوی وجہ معلوم کرتا ہے تو بتاتا ہے کہ بِدھوا آشرم سے نکالی ہوئی خاتون گومتی دیو سے شادی کرنا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے آپ پر بدنامی کا دھبہ لگ سکتا ہے اور میں یہ نہیں چا ہتا میرے ڈیل سے آپ کی آبرو میں بٹہ لگے۔راوی کو اس کی بات پر تعجب ہوا یہاں پر راوی گومتی کے متعلق بتاتا ہے۔

گومتی کے بارے میں راوی بتاتا ہے کہ وہ کچھ سال پہلے آشرم آئی تھی تین بار منتظموں نے شادی کی لیکن وہ ہفتہ دس دن میں بھاگ آئی یہاں تک کہ سیکرٹری نے اس کو آشرم سے نکال دیا، اب وہ محلے میں ہی ایک کوٹھری میں رہتی ہے۔

راوی گنگو کوبہت سمجھایا کہ وہ تین تین بار شادی کے بعد آشرم بھاگ آئی ہے وہ تم کو بھی چھوڑ دے گی لیکن گنگو پر کوئی اثر نہیں دکھا تو بدنامی سے بچنے کے لیے  اس کا استعفیٰ منظور کردیا ۔

یہاں سے دوسرا حصہ شروع ہوتا ہےاور شادی کے بعد کی زندگی کا ذکر ہےکہ شادی کے پانچ ماہ گذر گئے، وہ شادی کرکے کھپریل کے مکان میں رہتے تھے، اور گنگوچاٹ کاخوانچہ لگا کر گزر بسر کر رہا تھا، جب بھی ملتا تو راوی خبر خیریت معلوم کرتاکیوں کہ اس کو گنگو سے خاصی دلچسپی تھی، راوی کا ماننا تھا کہ ایک دن وہ پچھتائے گا، لیکن گنگو خوشی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔تب ہی ایک دن راوی سنتا ہے کہ گومتی گنگو کو چھوڑ کر بھاگ گئی یہ سن کر بہت خوش ہوا، وہ یہی سننے کا منتظر تھاوہ سوچنے لگا کہ میں کتنا منع کیا تھاانجام بتائے تھے نہیں مانا تھا اب جھیلے، اور اس کوجی کیا کہ مل کر  مزاج پرسی کرنا چاہتا تھا کہ اتفاق سے  اس ملاقات ہوگئی تو وہ روتے ہوئے بولا” بابو جی گومتی نے میرے ساتھ بھی دغا کیا۔”

اب راوی کو دلی مسرت ہوئی اور ظاہری ہمدردی کااظہار کیاصبر کرو، روپے پیسے تو نہیں لے گئی وغیرہ، گنگواس سوال سے رنجیدہ ہوکر بولا ایک دھیلے کی چیزبھی تو نہیں چھوئی، معلوم نہیں مجھ میں کیابرائی دیکھی کہ چھوڑ کر چلی گئی یعنی اپنی کمی اور اس کی خوبی و احسان شمار کرانے لگاراوی کو یہ بالکل مخالف سن کر مایوسی ہوئی کہ ابھی بھی یہ اسی کے گن گا رہا ہے۔ اور ڈھونڈ لانے کی بات کر رہا ہے۔

یہاں سے تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔

اس کے بعد راوی کو نینی تال جانا پڑتا ہےاور مہینہ بھر کے بعد لوٹتے ہی گنگوسے ملاقات ہوتی ہے وہ گود میں نوزائیدہ کو لیے ہوئے کھڑا بہت خوش تھا، دریافت پر معلوم ہوا کہ وہ گومتی کو ڈھونڈلیا ہے وہ بچے کی پیدائش کے لیے گئی تھی، بچہ کا نام سن کر راوی کو حیرت ہوئی کہ ابھی تو چھ ماہ ہوئے شادی کے اور بچہ،اور اس سے زیادہ اس کے طرزعمل پر حیرت ہورہی تھی ،راوی کہا کہ چھ مہینے میں لڑکا ہوتے میں نے آج سنا۔گنگو جواب دیا کہ اسی شرم سے تو بھاگ گئی تھی لیکن میں اس کو منایااور کہا”یہ بچہ میرا ہے۔ میرا اپنا بچہ ہے۔ میں نے ایک بویا ہوا کھیت لیا تو کیا اس کے پھل کو اس لیے چھوڑ دوں گا کہ اسے دوسرے نے بویا تھا۔ یہ کہہ کر اس نے زور سے قہقہہ مارا۔”

یہ سن کر راوی کے ہوش اڑگئے اور وہ پانی پانی ہوگیااور دلی کراہت کے باوجودہاتھ بڑھا کر معصوم بچے کو گود میں لے لیااور انتہائی محبت سے بوسہ لیا۔

یہ دیکھ کر گنگو بولا۔ بابو جی آپ بڑے شریف آدمی ہیں۔ گومتی سے برابر آپ کا بکھان کیا کرتا ہوں۔ کہتا ہوں چل ایک بار ان کے درشن کر آ۔ لیکن مارے شرم کے آتی ہی نہیں۔

تب راوی کو احساس ہو اکہ وہ تو صرف شرافت کا لبادہ اڑھے ہوئے اصل شرافت تو ان لوگوں میں ہے اور بول اٹھا۔

“تم مجھے شریف سمجھتے ہو، میں ظاہر میں شریف مگر دل کا کمینہ ہوں۔ اصلی شرافت تم میں ہے اور یہ معصوم بچہ وہ پھول ہے جس سے تمہاری شرافت کی دہک نکل رہی ہے۔ “

راوی بچے کو سینے سے چمٹائے ہوئے گنگو کے ساتھ چلا۔اس طرح افسانہ ختم ہوتا ہے۔

کردار

راوی: مالک، ملازم: گنگو، ہینگن اور میکو، گومتی دیو

اہم اقتباسات

وہ شاید مجھ سے پالاگن کی توقع رکھتا ہے۔ میرا جھوٹا گلاس کبھی ہاتھ سے نہیں چھوتا اور نہ کبھی میری اتنی ہمت ہوئی کہ اس سے پنکھا جھلنے کو کہوں۔

بالکل ناحرف شناس آدمی ہے لیکن پھر بھی وہ برہمن ہے اور چاہتا کہ دنیا اس کی تعظیم اور خدمت کرے اور کیوں نہ چاہے؟ جب اجداد کی پیدا کی ہوئی ملکیتوں پر آج بھی لوگ قابض ہیں اور اسی شان سے قابض ہیں گویا انہوں نے خود پیدا کی ہو تو وہ کیوں اس تقدس اور امتیاز کو ترک کر دے جو اس کے بزرگوں نے پیدا کیا تھا۔ یہی اس کا ترکہ ہے۔

یہ لوگ جب آتے ہیں تو یا تو پیشگی حساب میں کچھ مانگنے کےلئے یا کسی دوسرے ملازم کی شکایت کرنے کےلئے اور مجھے یہ دونوں حرکتیں حد درجہ ناپسند ہیں۔

میں شکایت کو کمزوری کی دلیل سمجھتا ہوں یا خوشامد پرستی اور امداد پرستی کی کمینی کوشش۔

میرے کچھ لکھنے پڑھنے کو تو شاید کام سمجھتا ہو لیکن غوروخوض کو جو میرے لیے انتہائی مصروفیت ہے، وہ میرے آرام کا وقت سمجھتا ہے۔ یقینا یہ اسی وقت آ کر میرے سر پر سوار ہو جائےگا ۔

یہ اس قسم کی پہلی استدعا تھی جو میرے کانوں میں پڑی۔ میری خودداری کو چوٹ لگی۔ میں جو اپنے آپ کو انسانیت کا پتلا سمجھتا ہوں

جہاں محبت نہیں ہے ہجور وہاں کوئی عورت نہیں رہ سکتی۔ عورت کھالی روٹی کپڑا تو نہیں چاہتی ہے، کچھ محبت بھی تو چاہتی ہے۔

بھوکے آدمی کی طرح روٹی کا ٹکڑا دیکھ کر اس کی طرف لپک رہا ہے۔ روٹی خشک ہے، بدمزہ ہے، اس کی اسے پرواہ نہیں۔

شاید کرشن کو پاکر نند بھی اتنے باغ باغ نہ ہوئے ہوں گے۔ معلوم ہوتا تھا مسرت اس کے جسم سے باہر نکل پڑی ہے۔ چہرے اور آنکھوں سے تشکر اور نیاز کے نغمے سے نکل رہے تھے۔ کچھ وہی کیفیت تھی جو کسی فاقہ کش سائل کے چہرے پر شکم سیر ہو جانے کی بعد نظر آتی ہے۔

اس نے بچے کو گود میں اٹھا کر میری طرف بڑھایا۔ گویا کوئی کھلاڑی تمغہ پا کر اسے دکھا رہا ہو۔

یہ بچہ میرا ہے۔ میرا اپنا بچہ ہے۔ میں نے ایک بویا ہوا کھیت لیا تو کیا اس کے پھل کو اس لیے چھوڑ دوں گا کہ اسے دوسرے نے بویا تھا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks