پریم چند کا افسانہ : سوانگ
افسانہ “سوانگ” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل نواں افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کو مکمل پڑھنے کے لیے کلک کریں
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے”راجپوت خاندان میں پیدا ہوجانےہی سے کوئی سورما نہیں بن جاتا”۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے “میں بھی اس تماشے کا لطف اٹھا رہا تھا ۔اگر سبھی کو پکڑکر مونچھیں اکھاڑلیتا تو تم کتنی شرمندہ ہوتیں۔ میں اتنا بے رحم نہیں ہوں”َ۔ سب کی سب گجندر کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔
اس افسانے میں دو حصے ہیں ۔
نچوڑ
اس افسانے میں پریم چند نے زوال پذیر خاندانی بہادری کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے زوال کا دوسروں پر ظاہر نہ کرنے کی نفسیات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
خلاصہ
اس افسانے کا مرکزی کردار گجندر سنگھ ہے۔ جس کا تعلق راجپوت گھرانے سے ہے۔ لیکن اس کے اندر راجپوتوں والی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ نہایت ڈرپوک اور بزدل ہے۔ لیکن چونکہ شہرمیں تعلیم حاصل کرتا ہے اسی لئے زبان کا تیز ہے اپنی میٹھی اور لچھےدار باتوں سےاپنی کمیوں کو چھپانے میں ماہر ہے۔ گجندر سنگھ کے جد بزرگواروکیل تھے۔ اور ان کے اندر تھوڑی بہت راجپوتوں کی خوبی موجود تھی، لیکن والد نرندرسنگھ نے کپڑے کی دکان کھول کراس کی بھی گنجائش نہیں چھوڑی اور رہی بات گجندر سنگھ کی تو وہ قد و قامت میں چھوٹا اور جسم سے بہت کمزور تھا لیکن اس کی شادی جس خاندان میں ہوئی ان میں کچھ راجپوتی جوہر باقی تھا ۔ گجندر کے سسر اوردونوں سالے چنوں منوں شکاراوراکھاڑے کے شوقین تھے۔ گجندر سنگھ کے خسر پنشنر صوبیدار تھے۔ گجندر سنگھ شادی کے دو سال بعد جب سسرال پہنچا تواپنے سالوں کے سامنے خوب شیخی بگھارتا ہے لیکن جب شکار پر جانے کی بات آتی، تو ڈر کے مارے اسے سانپ سونگھ جاتا ۔ کئی بہانوں کے باوجود بھی بات نہیں بنتی تو بے دلی سے شکار پرچلا تو جاتا ہے لیکن راستے میں باتوں ہی باتوں میں اپنے سسر اور سالوں کو صوفیانہ انداز میں اس طرح نصیحتیں کرتا ہے کہ وہ شکار کرنے کا ارادہ ترک کردیتے ہیں۔ اور ہولی کے موقع پر پٹاخوں کے ڈر سے بھاگ کر گھر چلا جاتا ہے لیکن حاضر جوابی سے آتش بازی کو بھی بےسود ثابت کردیتا ہے۔ اورایک رات جب اس کی بیوی کی پانچ سہیلیاں سوانگ کرنے ڈاکو بن کر اسے دھمکاتی ہیں تواس کے پاوں تلے زمین کھسک جاتی ہے۔ اوراسے اپنی بیوی شیام دلاری کا بھی خیال نہیں رہتا اور وہ اسے ڈاکووں کے حوالے کردیتا ہے لیکن جب اس پر یہ رازافشا ہوا کہ وہ ڈاکو نہیں بلکہ اس کی بیوی کی سہیلیاں ہے تو اپنے وقار کو قائم رکھنے کے لئے کہتا ہے کہ “میں بھی اس تماشے کا لطف اٹھا رہا تھا ۔ اگر سبھی کو پکڑکر مونچھیں اکھاڑلیتا تو تم کتنی شرمندہ ہوتیں۔ میں اتنا بے رحم نہیں ہوں ۔
کردار
گجندر سنگھ
بھوپندر سنگھ
نریندر سنگھ
شیام دلاری، شیاما
اہم نکات
گجندر سنگھ کے جد بزرگواروکیل تھیں۔ اور اس کے والد نے کپڑے کی دکان کھول لی تھی۔
شادی کے دو سال بعد ہولی کے موقع پر گجندر سنگھ اپنے سسرال جاتا ہے۔
نیا ریشمی لباس بنواکر ہولی سے ایک دن پہلے سسرال جاتا ہے ۔
ہولی جلنے کا مہرت رات نو بجے تھا۔
شیام دلاری کی سہیلیاں رات بارہ بجے سوانگ کرتی ہیں۔
اہم اقتباسات
راجپوت خاندان میں پیدا ہو جانے ہی سے کوئی سور ما نہیں بن جاتا اور نہ نام کے پیچھے سنگھ کی دُم لگا لینے ہی سے بہادری آتی ہے ۔
تھوڑی دیر بعد پتھریلا راستہ ملا، ایک طرف ہرا بھرا میدان ، دوسری طرف پہاڑ کا سلسلہ، دونوں کی طرف ببول، کریل، کروندے اور ڈھاک کے جنگل تھے ۔
اس درخت کا حسن دل آویز دیکھ کر دل باغ باغ ہوا جار ہا تھا ۔ اہا! کیا بہار ہے، کیا مذاق ہے، کیا شان ہے گو یا جنگل کی دیوی نے شفق کو شرمندہ کرنے کے لیے زعفرانی جوڑا زیب تن کیا ہو، یارشیوں کی پاک روئیں سفر جاودان میں یہاں آرام کر رہی ہوں، یا قدرت کا نغمہ شیریں شکل پذیر ہوکر دنیا پر موہنی منتر ڈال رہا ہو۔
میری روح نغمہ جنت کا مزالے رہی ہے۔ آہا یہ میرا ہی دل ہے جو پھول بن کر چمک رہا ہے ۔ مجھ میں بھی وہی سرخی ہے ، وہی حسن ہے ، وہی طاقت ہے، میرے دل پر صرف اگیان کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔ کس کا شکار کریں۔؟ جنگل کے معصوم جانوروں کا! ہمیں تو جانور ہیں ، ہمیں تو پرند ہیں ۔ یہ ہمارے ہی تصورات کا آئینہ ہے جس میں عالم اجسام کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ کیا اپنا ہی خون کران! نہیں ۔ آپ لوگ شکار کھیلنے جائیں ، مجھے اس مستی و بہار میں محو ہو نے دیں
زندگی مسرت کا خزانہ ہے۔ اس کا خون نہ کیجیے۔ نظارہ ہائے قدرت سے چشم باطن کو مسرور کیجیے۔ قدرت کے ایک ایک ذرے میں ، ایک ایک پھول میں ، ایک ایک بستی میں مسرت کی شعائیں چمک رہی ہیں ۔خوں ریزیوں سے مسرت کے اس لازوال چشمے کو نا پاک نہ کیجیے ۔
ان کی سرخ سبز سنہری چمک کے سامنے ان کے گورے چہرے اور خوبصورت بالوں اور ریشمی کرتے کی دلفریبی کتنی بڑھ جائے گی ۔
گاؤں کا دامادکم رو ہونے پر بھی قابل زیارت اور بدحال ہوتے ہوئے بھی منظور نظر ہوتا ہے ۔
*****