افسانہ (10) انصاف کی پولیس کا خلاصہ

پریم چند کا افسانہ : انصاف کی پولیس

افسانہ “انصاف کی پولیس” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل دسواں افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

مکمل افسانہ کے لیے کلک کریں

اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے” سیٹھ نا نک چند نے آج پھر وہی لفافہ پایا اور وہی تحریر دیکھی تو ان کا چہرہ زرد ہو گیا”۔

اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے: “موٹر تیز ہوگئی اور سیٹھ جی چیختے رہ گئے ۔

’’دوڑو، دوڑو ڈاکو مجھے لوٹے لیے جارہے ہیں ۔”

 لیکن وہ ساری فریاد فریاد صحرا تھی۔

اس افسانے کے کل تین حصے ہیں۔

نچوڑ

اس افسانےمیں پریم چند نے ایک مہاجن سیٹھ نانک چند کا قصہ بیان کیا ہے جس کی تمام دولت ڈاکوپولیس کی بھیس بنا کر لوٹ لے جاتے ہیں۔

خلاصہ

اس افسانے میں ایک مہاجن سیٹھ نانک چند کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو کہ سود پر لوگوں کو پیسہ دیتا ہے اور اس کے بعد ان سے زیادہ سے زیادہ سود لیتا ہے کبھی کبھی تو ایک سود کے بدلے پورے خاندان کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ سیٹھ نانک چند بہت ظالم ہے اس کے باوجود وہ مذہبی امور بھی انجام دیتا ہے وہ ایک قصبے کی زمین پر دھرم شالہ بنوانا چاہتا ہے جس میں سب کچھ دوسروں کا ہوگا مگر نام اس کا ہوگا اس سے ڈاکو خط کے ذریعے 25 ہزار روپیہ مانگتے ہیں جس کی وجہ سے مہاجن اور اس کی بیوی بہت پریشان رہتے ہیں اور آخر میں مہاجن سوچتا ہے کہ وہ پولیس کو خبر کر دے کیونکہ وہ سالانہ پانچ ہزار ٹیکس جمع کرتا ہے جس سے پولیس اور سرکار اس کی حفاظت کرے گی حالانکہ اس کی بیوی مہاجن سے کہتی ہے کہ وہ کچھ دنوں کے لیے تیرتھ یاترا کے لیے چلے جائیں مگر مہاجن تیار نہیں ہوتا اس کے بعد چوکیدار آ کر خبر دیتا ہے کہ داروغہ جی نے کئی کانسٹبل بھیجے ہیں۔ مہاجن ان سے ملتا ہے اور وہ سب بہانے سے مہاجن کا سارا قیمتی سامان اپنے کار میں لاد لیتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہ سب سامان تھانے میں جمع ہو جائے گا، جہاں وہ سب محفوظ رہے گا۔ جب کانسٹبل سامان لے کر جاتے ہیں تو مہاجن بھی ان کے ساتھ جاتا ہے مگر راستے میں کانسٹبل جو کہ اصل میں ڈاکو ہوتے ہیں مہاجن سے اس کے گزشتہ زندگی کے بارے میں پوچھتا ہے اور جائداد کمانے کے طریقہ کار دریافت کرتا ہے اور جب مہاجن کہتا ہے کہ یہ سب مایا جال ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اس مایا جال سے آزاد کریں گے اور وہ اپنی شناخت ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ڈاکو ہیں تب مہاجن کی آنکھ کھلتی ہے، وہ پچیس ہزار دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن اب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت، ڈاکو مہاجن کو کارسے ڈھکیل دیتے ہیں اور سارا سامان لے کر فرار ہوجاتے ہیں اور مہاجن فریاد رسی کرتا رہ جاتا ہے۔

کردار

چوکیدار

سیٹھ نانک چند ۔ مہاجن

کیسر۔ مہاجن کی بیوی

سپرنٹنڈنٹ صاحب

کانسٹبل

خان صاحب۔ ہیڈ کانسٹبل / ڈاکوؤں کا سردار

اہم نکات

ڈاکو مہاجن سے 25 ہزار روپے مانگتے ہیں

“اگر اپنی جان عزیز ہے تو پچیس ہزار روپے نقد رامیشور کے مندر کے سامنے درخت کے نیچے آٹھ بجے رات کو رکھ دو ۔”

مہاجن سرکار کو 5 ہزار روپیہ ٹیکس جمع کرتا ہے

 تحقیقی خبر ملی ہے کہ ڈاکوؤں کا غول اس علاقے میں آ گیا ہے ۔ بیس آدمی ہیں اور سب کے سب مسلح و سادھو بنے ہوۓ ہیں ۔ دو پنجابیوں کے بھیس میں ہیں اور الوان اور دھمے بیچتے پھرتے ہیں ۔ان دونوں کے ساتھ دو بہنگی بردار بھی ہیں ۔ دو ڈاکو بلوچیوں کے بھیس میں چھریاں اور تالےبیچتے ہیں

مہاجن صرف تین روپے سے اپنی مہاجنی شروع کیا تھا۔

ہیڈ کانسٹیبل نے سیٹھ جی سے پوچھا: “یہ کہاں تک صحیح ہے کہ پچیس سال پہلے آپ یہاں بالکل خالی ہاتھ آئے تھے؟‘‘ نا نک چند تفاخر کے انداز سے بولے ’’بالکل صحیح ہے خاں صاحب! میرے پاس کل تین روپے تھے۔لٹیا ڈور کندھے پر تھی اور چھڑی ہاتھ میں ۔

مہاجن کے پاس دو سوا دو لاکھ کی جائیداد تھی

’’ دوسوا دو لاکھ کی جائیداد ہے خاں صاحب! بیس ہزار کا تو مکان ہی کھڑا ہے۔ آج بیچوں تو پچاس ہزار سے کم نہ ملے ۔“

اہم اقتباسات

اس خط کا بھی وہی مضمون ہوگا ، اس میں مطلق شبہ نہ تھا۔ وہ خط کو کانپتے ہاتھوں میں لیے آسمان کی طرف تا کنے لگے گویا اس میں اپنا نوشتہ تقدیر پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں ۔

وہ ہر پورن ماشی کوستیہ نارائن کی کتھا سنتے تھے۔ پچھلے پندرہ سال میں اس معمول میں ایک ناغہ بھی نہ ہوا تھا۔ منگل یا کسی خاص دن مہابیر جی کولڈو چڑھاتے تھے، روزانہ جمنا میں اشنان کرتے اور شیو جی کو جل چڑھاتے تھے ۔ مہینے میں دو بار برہمنوں کو بھوجن بھی کراتے تھے اور جب سے گھی کے کاروبار میں نفع کثیر ہونے لگا تھا، ایک دھرم شالہ بنوانے کی فکر میں تھے۔

 ہر ایک کامیاب آدمی کی طرح دیوتاؤں پران کا پکا اعتقاد تھا جن کی دعا اور برکت سے انہیں کسی کاروبار میں گھاٹا نہیں ہوا

یہ فرقہ احسان فراموشوں کا ہے۔ جس کے دروازے پر ضرورت کے وقت ناک اور پیشانی رگڑتا ہے، اسی کے در پے آزار ہو جا تا ہے ۔ احسان ماننا تو دور رہا الٹا بدخواہ ہو جا تا ہے ۔

 کیسر دو ہرے بدن کی عورت تھی نخل بے ثمر جو پت جھڑ میں بھی ہری ہری پتیوں سے لدا رہتا ہے ۔ اولاد کی ناکام آرزو میں زندگی کا بڑا حصہ گزار چکنے کے بعد اب اس پر ہمیشہ ایک پر خوف مایوسی طاری رہتی تھی ۔ معلوم نہیں کب آنکھیں بند ہو جائیں ، پھر یہ زرومال کس کے ہاتھ لگے گا ۔

’’پولیس والے واردات کے وقت تو نظر نہیں آتے ۔ جب واردات ہو جاتی ہے تب البتہ شان جتانے کے لیے آ پہنچتے ہیں ۔مثل مشہور ہے کہ پولیس اور دھنش طوفان ختم ہو جانے کے بعد دکھائی دیتی ہے۔”

’ولایت کی عورتیں چلاتی ہوں گی ۔ یہاں کی عورتیں کیا چلائیں گی ۔ ہاں انگل بھر کی زبان چاہے چلا لیں ۔”

     خطرے میں انسان کا دل کمزور ہو جا تا ہے اور ایسی باتوں کا بھی یقین کر لیتا ہے جو شاید ہوش وحواس کی حالت میں وہ نہ کرتا۔ یہاں تو شہبے کا موقع ہی نہ تھا ۔

پانچ میل کا سفر تھا ۔ قصبے سے باہر نکلتے ہی پہاڑوں کی خاموش اور اودی بلندیاں نظر آئیں، جن کے دامن میں ہرا بھرا سبزہ زار تھا اور اس میدان کے بیچ سے سرخ بجری کی سڑک سیندور بھری مانگ کی طرح نکل گئی تھی ۔

”میرا اصول ہے کہ اصلی بچت وہی ہے جو آرام سے زندگی بسر کرنے کے بعد بچ رہے ۔ جب بہت تھوڑی دولت تھی تب بھی میرا یہی اصول تھا۔‘‘

’’ آخریہ دولت آپ کو ملی کہاں سے؟‘‘

’’ آڑھت ، لین دین ، رہن ، بیع سب ہی کچھ تو ہے خاں صاحب ! یہ سمجھ لیجے کہ صبح سے آدھی رات تک سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی ۔صرف کھانا کھانے اندر جا تا ہوں ۔”

’’ آپ بجا فرماتے ہیں ۔ محنت کے بغیر کسی کام میں کامیابی نہیں ہوتی ۔ آپ کو اپنے ہاتھ سے بھی بہت سا کام کر نا پڑتا ہوگا۔”

یہ سب تو مایا جال ہے جس میں پھنس جانے کے بعد پھر نجات نہیں ملتی ۔ مرکر ہی گلا چھوڑتا ہے ۔ اب دھرم شالا بنوانے کا ارادہ ہے۔سامان کر لیا ہے ۔ کوئی اچھی مہورت دیکھ کر ہاتھ لگا دینا ہے۔ ایک لڑکا بھی گود لینا چاہتا ہوں ، بس پھر بھگوان کا بھجن کروں گا۔‘‘

“تقدیر میں نہ تھی خاں صاحب! اور کیا کہوں ۔ جن کے گھر میں بھونی بھانگ نہیں ان کے ہاں تو گھاس پھوس کی طرح بچے نکلتے آتے ہیں۔ جنہیں بھگوان نے کھانے کو دیا ہے وہ اولاد کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے ہیں ۔”

اسی دولت کے لیے آدمی اپنا خون پسینا ایک کر دیتا ہے ۔خاں صاحب! دغا ،فریب ، بے ایمانی اور ظلم سب کچھ اس کے لیے کرتا ہے۔ بغیراپناضمیر بیچے دولت نہیں ملتی ۔ ایسی بیش قیمت چیز کون چھوڑ سکتا ہے ۔”

“آخر یہ روپیا آپ کے پاس آیا کہاں سے؟ آپ نے کسی اسامی کو سوروپے قرض دیے، یقیناً اس سے کچھ نہ کچھ سود لیا ہی ہوگا۔ کبھی کبھی تو سو کے دوسو، تین سو، چارسو تک وصول کیے ہوں گے ۔ آپ کے روپے نے تو بچے دیے نہیں ۔ اسامی کی محنت کے روپے آپ کے ہاتھ لگے۔ بسا اوقات دو چارسوروپے قرض دے کر آپ نے پورے خاندان کو اپنا غلام بنالیا ہوگا اوران کی شبانہ روز کی مشقت کی کمائی آپ کے ہاتھ لگی ہوگی ۔”

 آپ اسامیوں سے روپے وصول کر کے جمع رکھ چھوڑتے ہیں۔ جب کہ سرکار اس سے ملک کا انتظام کرتی ہے ۔ عدالتیں اور پولیس قائم کرتی ہے کہ آپ اور آپ کے بھائی بہ اطمینان ان غربا کا خون چوس سکیں اگر کوئی غریب سرکشی کرے اور آپ کا منہ اپنی رگ سے ہٹا دینا چاہے تو سرکار کی پولیس اور عدالت اور فوج آپ کی مدد کرے۔ دراصل آپ نے سود یا نفع یا مال گذاری کی شکل میں جو کچھ بھی پایا ہے وہ غریبوں کی کمائی ہے جو آپ نے ان سے جبراً چھین لیا ہے اور جو آپ ہی کے لفظوں میں آپ کے پاس بیکار پڑی ہوئی ہے۔ آپ کو مسروقہ مال گھر میں رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ ان چیزوں کو پولیس کے حوالے کر کے گھر کی راہ لیجیے ۔ ہم سرکاری پولیس کے سپاہی نہیں ، انصاف کی پولیس کے سپاہی ہیں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks