افسانہ (06) مالکن کا خلاصہ

پریم چند کا افسانہ : مالکن

افسانہ “مالکن” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل چھٹا افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

مکمل افسانہ کے لیے کلک کریں

اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے”شیو داس نے بھنڈار کی کنجی اپنی بہورام پیاری کے سامنے پھینک دی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا:’’بہو آج سے گرہستی کی دیکھ بھال تمہارے ذمے ہے”۔

“اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے: “پیاری کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا پیچھے ہٹ کر بولی :’’ تم بڑے دل لگی باج ہو۔

اس افسانے کے کل سات حصے ہیں۔ پہلے حصے میں کہانی کے کردار شیوداس، برجو، رام پیاری، متھرااور رام دلاری کا تعارف ہے، برجو کی وفات کے بعد شیوداش کا باہر کی ذمہ داری کو سنبھالنے اور رام پیاری کو  گھر کی مالکن بنانے کا ذکر ہے

دوسرے حصے میں شیوداس کے جانے کے بعدپیاری کے مالکن بن کر کنجی لینے ، بھنڈار کو کھول کر دیکھنے اس کے بعد چھنیا کے دروازہ پر دستک دے کر ایک روپیہ کا مطالبہ کرنے اور پیاری کے انکارکا ذکر ہے بعدہ پیاری کا کھانا کاانتظام کرنے اور منّی کے لیے ناند میں پانی بھرنے کا تذکرہ ہے۔

تیسرے حصے میں پیاری کےعمدہ انتظام کے سراہنے، گھرکے لوگوں کے جلنے، پیاری کا برداشت کرنےاور ہر ایک کام کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا ذکر ہے

چوتھے حصے میں گھر کو منظم رکھنے کے لیے پیاری کے گہنے کے بکنے کا ذکر ہے پھر دلاری کے پہلے لڑکے کی پیدائش پر جشن، اور متھرااور دلاری کے اپنے بچہ کے ساتھ خوش رہنے پر پیاری کے ارمانون کا ذکر ہے

پانچویں حصے میں شیوداس کی وفات، دلاری کے دوبچےہونےاور متھرااور دلاری کے پردیس جانے کا بیان ہے

چھٹے حصے میں پیاری اور اس کے ہلواہا جوکھو کے گھرسنبھالنے اور آپسی تعلق کا بیان ہے۔

ساتواں اور آخری حصہ میں جوکھو اور پیاری کے تعلقات کے استور ہونے اور اس کا اختتام جوکھو کے پیاری جیسی عورت سے شادی کے اظہار پرہوتا ہے۔

نچوڑ

پریم چند نے افسانہ “مالکن” میں ایک بیوہ کا ذکرکیا ہےجو مالکن بن کر اپنے شوہر کا غم بھول جاتی ہے، گھر کے انتظام و انصرام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے، گاؤں میں اپنے گھر کی عزت کو بحال کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہے، لیکن وہی اس دیور اور دیورانی جو اس کی سگی بہن بھی ہےاس کو چھوڑ کر پردیش چلے جاتے ہیں ، اس وقت اس کاہلواہا جوکھو اس کے کام آتا ہے اس کو تسلی دیتا ہے جس سے انسیت بڑھ جاتی ہےاخیر میں آپسی دل لگی پر افسانہ ختم ہوتا ہے۔

خلاصہ

(1)

یہ افسانہ بیانہ انداز میں ہے، رام پیاری اور رام دلاری دوحقیقی بہنیں تھیں ۔ دونوں کی شادی متھرا اور برجو دوحقیقی بھائیوں سے ہوئی، برجو کی وفات کے بعد ان کا سسر شیوداس یہ سوچ کر رام پیاری کو مالکن بنادیتا ہے کہ گھر کی مالکن بن کر بیوہ کے آنسو پچھ جائیں گے ۔ کم سے کم اسے محنت تو نہ کرنی پڑے گی، لیکن رام پیاری یہ کہتے ہوئے انکار کرتی ہے: “یہ کیسے ہوسکتا ہے دادا! تم محنت مزدوری کرو اور میں مالکن بن بیٹھوں ۔ کام دھندے میں لگی رہوں گی تو دل بہلتا رہے گا۔ بیٹھے بیٹھے رونے کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔‘‘۔

شیوداس پیاری کو تسلی دیتا ہے اور اس کوگھر کی مالکن بنادیتا ہے۔

(2)

شیوداس کے جانے کے بعد پیاری کنجی اٹھاتی ہے اور کنجی اٹھاتے ہی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے سب سے پہلے بھنڈار کا رخ کرتی ہے، جو گھر والوں کے لیے طلسم گھر تھا اس میں صرف شیوداس ہی جاتا تھا دوسروں کو اس میں جانے کی اجازت نہیں تھی وہ لوگ صرف آرزو کرکے رہ جاتے تھے، پیاری نے صدر دروازہ بند کیا اور بھنڈار میں داخل ہوئی اور ہر ایک چیز کو دیکھتی جاتی اورخوش ہوتی جاتی ہے تب ہی دروازے پر دستک ہوئی پیاری نے جلدی سے بھنڈار کا دروازہ بندکیااور صدر دروازہ پر پہنچ گئی، دروازہ کھولاتو سامنے چھنیا ایک روپیہ کا مطالبہ لیے کھڑی تھی جو چھنیا کو لگان کے لیے دینا تھا، لیکن پیاری یہ کہہ کرانکار کر دیتی ہے کہ کام کاج میں سب ختم ہوگیا، اس کا یہ بہانہ چھنیا کو ہضم نہیں ہوا کیوں کہ یہ پیاری کی عادت نہیں تھی وہ کبھی کسی کو دروازے سے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی تھی۔

پیاری نے صدر دروازہ بندکیا اور کھانا پکانے ، صاف صفائی وغیر میں لگ گئی ، تب ہی اس کی نظر گائے پر پڑی جس کا نام منی تھا جو ناند سے دور ہے کیوں کہ اس سے بدبو آرہی تھی ، اس کاپانی بدلنا ضروری تھا اس کے لیے خود بالٹی لے کر پانی بھرنے چلتی ہے لیکن شیوداس کی نظر اس پر پڑی تو اس نے اس کے ہاتھ سے بالٹی لیا اور خود پانی بھرنے کے لیے چل پڑا۔

(3)

پیاری کے اختیار میں آ کر گھر کی رونق بڑھ گئی تھی اس نے  ہر ایک چیز کو منظم کردیاتھا،ہر چیز گھر میں ہی نکل آتی تھی ،گھر کے اس ماحول کو برقراررکھنے کے لیے پیاری  ہمیشہ فکر مندرہتی، پورے گاؤں میں اس کا چرچا تھا، لیکن گھر والے ہی حاسد بنے ہوئے تھے یہاں تک کہ شیوداس بھی اس کی برائی کرتا تھا ، پیاری کے دلاری سے بھی تعلقات خراب ہونے لگے تھے، لیکن وہ بات کو سنبھال لے جاتی تھی، دلاری نے ایک بار کڑے بنوانے کی فرمائش کی توپیاری پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹال دیا دلاری اس بات پر اپنی بہن سے ناراض ہوگئی کڑے پھینک کر یہ کہتے ہوئے چلی جاتی ہے کہ پیسہ کب آنے والا ہے ، تم تو اپنی نیک نامی کی وجہ سے خرچ کرنا ہی نہیں چاہتی ۔

بہن کو خوش کرنے کے لیے پیاری نے ہرممکن کوشش کی دلاری کو کڑا بنوا کر دی تو وہ بہت خوش ہوئی اور پہن کر اپنے شوہر کو دکھلانے لگی اس منظر کو دیکھ کر پیاری اپنی ماضی کی یادوں میں کھو گئی ، شیوداس کی آوازوں پر چونکی جو تمباکو کے لیے پیسے مانگ رہا تھا پیاری  پیسہ لینے کے لیے بھنڈارچلی گئی۔

(4)

گاؤں والوں کی نظروں میں اچھا بنے رہنے کے لیے پیاری دھیرے دھیرے اپنے گہنے بیچ کر انتظام و انصرام کرتی رہی، یہاں تک کہ شیوداس کےسمجھانے کے باوجود دلاری کے پہلے بچے کی پیدائش پر اس نے جشن منایا، اس کے لیے اس کو اپنے گہنے بیچنے پڑے، برھی کے روز ساری برادری کی دعوت ہوئی ، سبھی کے چلنے جانے کے بعد پیاری آنگن میں ٹاٹ پر سو رہی تھی تب ہی دلاری اور متھرا اپنے بچے کے بارے میں بات کرنے لگے جس سے اس کی نیند کھلی اور ان کو دیکھ کر اس کی ممتا بھی جگ اٹھی۔ اس کی بیوگی کا سونا پن کسی خوف ناک جانور کی طرح اسے نگلنے لگا۔ تصور اس بنجر زمین میں ہرا بھرا باغ لگانے لگا۔تبھی شیوداس کی آواز آئی:”باجے والوں کو ابھی کھانے کو نہیں ملا کیا کہہ دوں؟”

(5)

شیوداس کا انتقال ہوجاتا ہے، دلاری کے دو بچے ہوجاتے ہیں اوروہ انہیں میں مشغول رہنے لگتی ہے، کھیتی کا کام متھرا پر آپڑتا ہے لیکن اس کے اچھا منتظم نہ ہونے کی وجہ سے پیاری کو کھیت کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی ،لیکن اس کی باتوں پر ملازم کان نہیں دھرتے تھے ، یہ سب کاخیال تو رکھتی تھی پر اپنا نہیں چنانچہ تیس سال کی عمر میں بال سفید ہوگئے۔

ایک دن متھرا نے پردیش جانے کی ٹھانی اور دلاری کی حمایت سے طے بھی ہوگیا، لیکن پیاری نہیں چاہتی تھی کہ وہ لوگ جائیں اور اگر جا ہی رہے ہیں تو اس کو بھی اپنے ساتھ لے کر جائیں ، لیکن دلاری کو منظور نہ تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ پیاری اس کے گھر میں دخل اندازی کرے وہ  کہنے لگی :” بہن ، تو چلتی تو کیا بات تھی ۔ پھر یہاں تو سارا کاروبار چوپٹ ہو جائےگا۔ تم تو کچھ نہ کچھ دیکھ بھال کرتی ہی رہوگی ۔”۔

روانگی کی پوری تیاری کرائی لیکن وہ تنہائی کا سوچ سوچ کر ہلکان ہورہی تھی ، پھر اس نے بہت نصیحت کی،  روانگی کا وقت آیا تو گاؤں کی اور عورتیں آنے لگیں ، وہ ان لوگوں سے گلے مل کر رونا چاہتی تھی اور کہنا چاہتی تھی کہ وہ ان کی خبر لیتے رہیں بالآخر دونوں روانہ ہوگئے اور وہ دروازے پر روتی رہ گئی۔

(6)

ان کی جدائی میں کئی روز تک یہ بے ہوش پڑی رہی، گاؤں والوں نے تسلی دی ، اس کا ہلواہا جوکھو بھی باربارکہتا ’’مالکن اٹھو ، منہ ہاتھ دھوؤ۔ کچھ کھاؤ پیو ۔ کب تک اس طرح پڑی رہوگی؟‘‘اس کی آواز میں سچی ہمدردی جھلکتی تھی ۔اس کی بات سے پیاری کو تسلی ملی اور وہ دھیرے دھیرے خود کو سنبھال لی اور سارے کاروبار کو بھی بحال کرلی، جوکھو بھی محنت سے سارے کام کرنے لگا اب مالک کو نہ پاکر خود مالک بن کر ہر ایک کام کو خوش اسلوبی سے کرنے لگا، پیاری بھی اس کا خیال رکھتی یہاں تک کہ ایک دن اس کو خود روٹی بنا کر کھلائی

(7)

جوکھو اب بالکل گھر کے ایک فرد کی طرح کام کرتاتھا، یہاں تک کہ پانچ بگھیے سے کم دھان روپنے پر راضی نہ تھا، جتنا شیوداس کے زمانے میں وہ روپا کرتا تھا،پیاری نے اس سے کہااتنی محنت کروگے تو تاخیر سے آؤگے ، میرا تو دل گھبرائے گا، پھر جوکھو کوگھر پر روک کر بات کرنے لگی اور اس سے کہنے لگی کہ شادی کیوں نہیں کرتے ، جوکھونے کہاکہ شادی تو کرلوں لیکن میرے موافق کوئی عورت نہیں ملتی، پیاری نے پوچھا:تم کو کیسی عورت چاہیے۔ جوکھونے جواب دیا:” میں چاہتا ہوں کہ وہ تمھاری طرح ہو۔ ایسی ہی لجانے والی ہو، ایسی ہی بات چیت میں ہوشیار ہو، ایسا ہی اچھا کھانا پکاتی ہو، ایسی ہی کفایت شعار ہو، ایسی ہی ہنس مکھ ہو ۔ بس ایسی مورت ملے گی تو بیاہ کروں گا۔ نہیں تو اسی طرح پڑارہوں گا۔“ پیاری کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا پیچھے ہٹ کر بولی :’’ تم بڑے دل لگی باج ہو ۔‘‘

افسانے کے کردار

شیوداس: رام پیاری اور دلاری کا سسر

برجو: شیوداس کا بڑا بیٹا

متھرا: چھوٹا بیٹا

رام پیاری : بڑی بہو (جومالکن ہے)

رام دلاری: چھوٹی بہو اور رام پیاری کی بہن، متھرا کی بیوی

جوکھو: دلاری کا ہلواہا

چھنیا: رام پیاری کی پڑوسن

چھنیا: پیاری کی پڑوسن

جانکی: جس کو رام پیاری چپکے سے سیر بھر دودھ دیتی ہے

متھرا کے دو لڑکے

اہم نکات

رام پیاری اور رام دلاری دوحقیقی بہنیں تھیں ۔ دونوں کی شادی متھرا اور برجو دوحقیقی بھائیوں سے ہوئی۔

پڑوسن چھنیا لگان ادا کرنے کے لیے ایک رو پیا قرض مانگتی ہے ۔

ایک گائے رہتی ہے جس کا نام “منی” ہے

دلاری پیاری سے کل تین ہی سال تو چھوٹی ہے

دھوم دھام سے لڑکا پیدا ہونے کی خوشی منائی گئی ۔ برھی کے روز ساری برادری کا کھانا ہوا۔

جوکھو کام چور، با تونی اور نشہ باز تھا۔ پیاری اسے برابر ڈانتی رہتی تھی۔ دوا یک بارا سے نکال بھی چکی تھی مگر متھرا کی سفارش سے پھر رکھ لیا تھا۔

بابا کے زمانے میں پانچ بیگھے سے کم نہیں رو پا جا تا تھا۔ برجو بھیانے اس میں ایک دو بیگھے اور بڑھادیے۔ متھرانے بھی ہر سال تھوڑے بہت روپے۔ تو کیا میں سب سے گیا گزرا ہوں ۔ میں پانچ بیگھے سے کم نہ لگاؤں گا ۔

اہم اقتباسات

یہ کیسے ہوسکتا ہے دادا! تم محنت مزدوری کرو اور میں مالکن بن بیٹھوں ۔ کام دھندے میں لگی رہوں گی تو دل بہلتا رہے گا۔ بیٹھے بیٹھے رونے کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔‘‘

’’بیٹا ! بھگوان کی مرضی سے تو کسی کا بس نہیں ۔ رونے دھونے سےہلکان ہونے کے سوا اور کیا ہاتھ آئے گا؟ گھر میں بھی تو بیسیوں کام ہیں ۔ کوئی سادھوسنت آ جائے، کوئی مہمان آ پہنچے ، اس کی خاطر مدارات کے لیے کسی کو تو گھر پر رہنا ہی پڑے گا ۔

مزدور رکھا ہے وہ بھی تین کوڑی کا ۔کھانے کو ڈیڑھ سیر ، کام کرتے نانی مرتی ہے ۔

سارے گھر کے لیے وہ کوٹھری ایک طلسم یا رازتھی، جس کے بارے میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے رہتے تھے۔

چودھری کے گھر میں اس وقت ایک روپیا بھی نہیں ہے ۔ یہ یقین کرنے کی بات تھی ۔ جس کے یہاں سیکڑوں کا لین دین ہے ، اس کا سارا ثاثہ  کام کاج میں صرف نہیں ہوسکتا۔

کھانا پہلے سے اچھا ملتا ہے اور وقت پر ملتا ہے ۔ دودھ زیادہ ہوتا ہے ، گھی زیادہ ہوتا ہے ۔ پیاری نہ خود آرام کرتی ہے نہ دوسروں کو آرام کرنے دیتی ہے۔ گھر میں کچھ ایسی برکت آ گئی ہے کہ جو چیز مانگو گھر ہی میں نکل آتی ہے۔ آدمی سے لے کر جانور تک سب ہی تندرست نظر آتے ہیں ۔ اب وہ پہلی سی حالت نہیں ہے کہ کوئی چیتھڑے لپیٹے پھر رہا ہے کسی کو گہنے کی دھن سوار ہے ۔

مالکن کا تو یہ فرض ہے کہ سب کی دھونس برداشت کر لے اور کرے وہی جس میں گھر کی بھلائی ہو۔ مالکانہ ذمہ داری کے احساس پر طعن و طنز اور دھمکی کسی چیز کا اثر نہ ہوتا۔ اس کا مالکانہ احساس ان حملوں سے اور بھی قوی ہو جا تا تھا۔ وہ گھر کی منتظمہ ہے ۔ سبھی اپنی اپنی تکلیف اس کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جو کچھ وہ کرتی ہے وہی ہوتا ہے۔ اس کے اطمینان کے لیے اتنا کافی تھا۔

ابھی عمر ہی کیا ہے ۔ لیکن تمام گھر کو سنبھالے ہوئے ہے ۔ چاہتی تو دوسرا گھر کر کے چین کرتی ۔ اس گھر کے واسطے اپنے کو مٹارہی ہے ۔کبھی کسی سے ہنستی بولتی بھی نہیں ۔ جیسے کا یا پلٹ ہوگئی ۔

کتناسمجھا یا بیٹا بھائی بھاوج کسی کے نہیں ہوتے ۔ اپنے پاس دو چیزیں رہیں گی تو سب منہ تکیں گے نہیں تو کوئی سید ھے منہ بات بھی نہ کرے گا۔”

’’ جواپنے ہیں وہ اپنے ہیں ۔ وہ بات بھی نہ پوچھیں جب بھی اپنے ہی رہتے ہیں ۔ میرادھرم میرے ساتھ ہے ،ان کا دھرم ان کے ساتھ ہے ۔ مر جاؤں گی تو کیا سینے پر لاد کے لے جاؤں گی ۔‘‘

جس طرح لگام سے منہ بند ، بو جھ سے لدا ہوا، ہانکنے والے کے کوڑے سے تکلیف زدہ ، دوڑ تے دوڑ تے بے دم گھوڑا ہنہنا ہٹ کی آواز سن کر کان کھڑے کر لیتا ہے ، وہ اپنی حالت کو فراموش کر کے ایک دبی ہوئی ہنہنا ہٹ سے اس کا جواب دیتا ہے۔

اس کی مادریت جو پنجرے میں بند خاموش ، بے جان پڑی ہوئی تھی ، قریب سے گزرنے والی مادریت کی چہکار سے بیدار ہوگئی اور تفکرات کے اس پنجرے سے نکلنے کے لیے بازو پھڑپھڑانے لگی ۔

بیج بنیے کے گھر سے آتا ہے، کھیت کسان کا ہوتا ہے ۔ پیداوار بنیے کی نہیں ہوتی ۔ کسان کی ہوتی ہے۔”

پیاری کے گلے میں آنسوؤں کا ایک ایسا سیلاب امڈا کہ اس کے روکنے میں اس کا تمام جسم کانپ اٹھا۔

اس کی بیوگی کا سونا پن کسی خوف ناک جانور کی طرح اسے نگلنے لگا۔ تصور اس بنجر زمین میں ہرا بھرا باغ لگانے لگا۔

یہ مانا کہ نا تا ہے مگر کسی پر کوئی زور تو نہیں ۔ دوسروں کے لیے کتنا ہی مرو پھر بھی اپنے نہیں ہوتے ۔ پانی تیل میں کتنا ہی ملے، پھر بھی الگ ہی رہے گا۔

وہ اب صاف ستھرے کپڑے پہنتی ، ما نگ چوٹی کی طرف سے بھی اتنی بے توجہ تھی ۔ زیوروں کا بھی شوق ہوا۔ روپے ہاتھ میں آتے ہی اس نے اپنے گروی گہنے چھڑائے اور کھانے میں بھی احتیاط کر نے لگی ۔تالاب پہلے کھیتوں کو سیراب کر کے خود خالی ہو جا تا تھا۔ اب نکاس کی نالیاں بند ہوگئی تھیں ۔ تالاب میں پانی جمع ہونے لگا۔ اس میں ہلکی ہلکی لہریں بھی تھیں، کھلے ہوئے کمل بھی تھے۔

پھل کانٹے دار درخت میں بھی ملیں تو کیا انھیں چھوڑ دیا جا تا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ وہ تمھاری طرح ہو۔ ایسی ہی لجانے والی ہو، ایسی ہی بات چیت میں ہوشیار ہو، ایسا ہی اچھا کھانا پکاتی ہو، ایسی ہی کفایت شعار ہو، ایسی ہی ہنس مکھ ہو ۔ بس ایسی مورت ملے گی تو بیاہ کروں گا۔ نہیں تو اسی طرح پڑارہوں گا۔

آپ یہاں تک پہنچ گئے تو آپ اس سے مستفیض ہوئے ہوں گے، تو دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں

2 thoughts on “افسانہ (06) مالکن کا خلاصہ”

  1. Pingback: افسانہ مالکن Urdu Literature

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks