افسانہ (06) مالکن

افسانہ مالکن

آپ کے پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل چھٹا افسانہ “مالکن”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

آئیے خلاصہ پڑھیں۔

مالکن

منشی پریم چند

(1)

 شیو داس نے بھنڈار کی کنجی اپنی بہورام پیاری کے سامنے پھینک دی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا:’’بہو آج سے گرہستی کی دیکھ بھال تمہارے ذمے ہے ۔ میرا سکھ بھگوان سے نہیں دیکھا گیا۔ نہیں تو کیا جوان بیٹے کو یوں چھین لیتے ؟ مگر اس کا کام کر نے والا تو کوئی چاہیے ۔اب ہل توڑ دوں تو گزر نہ ہوگی ، اس لیے برجو کاہَل اب میں ہی سنبھالوں گا۔ پھر گھر کی دیکھ بھال کر نے والا ، رکھنے اٹھانے والا تمہارے سوا دوسرا کون ہے؟ روؤ مت بیٹا! بھگوان کی جو مرضی تھی وہ ہوا اور جو مرضی ہوگی وہ ہوگا۔ ہمارا تمہا را کیا اختیار ہے ۔ میرے جیتے جی تمھیں کوئی ٹیڑھی نگاہوں سے بھی نہ دیکھ سکے گا۔ تم کسی بات کی فکر نہ کرو۔ بر جو گیا تو میں تو ابھی بیٹھا ہی ہوں “

رام پیاری اور رام دلاری دوحقیقی بہنیں تھیں ۔ دونوں کی شادی متھرا اور برجو دوحقیقی بھائیوں سے ہوئی۔ دونوں بہنیں میکے کی طرح سسرال میں بھی محبت اور آرام سے رہنے لگیں۔ شیوداس کو فرصت ملی ۔ دن بھر دروازے پر بیٹھا گپ شپ کرتا۔آبادگھر دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ۔ دھرم کے کاموں کی طرف طبیعت مائل ہونے لگی ۔ لیکن خدا کی مرضی بڑالڑ کا برجو بیمار پڑا اور آج اسے مرے ہوئے پندرہ روز ہوگئے ۔ آج اس کے آخری مراسم سے فرصت ملی اور شیوداس نے سچے بہادر کی طرح کا رراز ِحیات کے لیے کمر باندھ لی ۔ دل میں چاہے اسے کتنا ہی صدمہ ہوا ہو، اسے کسی نے روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آج اپنی بہو کو دیکھ کر ایک آن کے لیے اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں لیکن اس نے اپنی طبیعت کو سنبھالا اور بھرّ ائی ہوئی آواز میں اسے دلاسا دینے لگا۔ شاید اس نے سوچا تھا کہ گھر کی مالکن بن کر بیوہ کے آنسو پچھ جائیں گے ۔ کم سے کم اسے محنت تو نہ کرنی پڑے گی۔

رام پیاری نے رقت آمیز لہجے میں کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے دادا! تم محنت مزدوری کرو اور میں مالکن بن بیٹھوں ۔ کام دھندے میں لگی رہوں گی تو دل بہلتا رہے گا۔ بیٹھے بیٹھے رونے کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔‘‘

شیوداس نے سمجھایا ’’بیٹا ! بھگوان کی مرضی سے تو کسی کا بس نہیں ۔ رونے دھونے سےہلکان ہونے کے سوا اور کیا ہاتھ آئے گا؟ گھر میں بھی تو بیسیوں کام ہیں ۔ کوئی سادھوسنت آ جائے، کوئی مہمان آ پہنچے ، اس کی خاطر مدارات کے لیے کسی کو تو گھر پر رہنا ہی پڑے گا ۔

 بہو نے حیلے کیے پرشیوداس نے ایک نہ سنی ۔

(2)

شیوداس کے باہر چلے جانے کے بعد مالکن نےکنجی اٹھالی تو اس کے دل میں اختیار اور ذمہ داری کا زبردست احساس پیدا ہوا۔ تھوڑی دیر کے لیے شوہر کی جدائی کا صدمہ اس کے دل سے محو ہو گیا ۔ اس کی چھوٹی بہن اور دیور دونوں کام کرنے گئے ہوئے تھے ۔شیوداس باہر تھا۔ گھر بالکل خالی تھا۔ اس وقت وہ بے فکر ہو کر بھنڈارکوکھول سکتی ہے ۔ اس میں کیا کیا سامان ہے ، کیا کیا چیز ہے؟ یہ د یکھنے کے لیے اس کا دل بے تاب ہو گیا ۔ اس کوٹھری میں وہ بھی نہیں آئی تھی ۔ جب کسی کو کچھ دینا یا کسی سے کچھ لینا ہوتا تو شیوداس آ کر اس کو ٹھری کو کھولتا۔ پھر اسے بند کر کے کنجی اپنی کمر میں رکھ لیتا تھا۔ رام پیاری کبھی کبھی کواڑ کی درازوں سے اندر جھانکتی تھی مگر اندھیرے میں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ سارے گھر کے لیے وہ کوٹھری ایک طلسم یا رازتھی، جس کے بارے میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے رہتے تھے۔ آج رام پیاری کو وہ راز کھول کر دیکھنے کا موقع مل گیا۔ اس نے باہر کا دروازہ بند کر دیا کہ اسے کوئی بھنڈار کھولتے نہ دیکھ لے نہیں تو سوچے گا بے ضرورت اس نے کیوں کھولا ۔ اس کا سینہ دھڑک رہا تھا کہ کوئی دروازہ نہ کھٹکھٹانے لگے۔اندر پانو رکھا تو اسے اس طرح کی ،لیکن اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوئی جو اسے اپنے کپڑے اور زیور کی پٹاری کے کھولنے میں ہوتی تھی۔ مشکوں میں گڑ ، شکر ، گیہوں ، جَو وغیرہ سب چیز یں رکھی ہوئی تھیں ۔ایک کنارے بڑے بڑے برتن رکھے ہوئے تھے، جو شادی بیاہ کے موقع پر نکالے جاتے تھے یا مانگے دیے جاتے تھے ۔ ایک جگہ مال گزاری کی رسید یں اور لین دین کے کاغذات رکھے ہوئے تھے ۔ کوٹھری پرشان وشوکت چھائی ہوئی تھی ۔اس کے سایے میں رام پیاری کوئی آدھ گھنٹے تک اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچاتی رہی۔لمحہ بہ لمحہ اس کے دل پر نشہ طاری ہوتا گیا۔ جب وہ اس کوٹھری سے نکلی تو اس کے دل کی حالت بدلی ہوئی تھی ،جیسے کسی نے اس پرسحر کر دیا ہو۔

اسی وقت دروازے سے کسی آدمی نے آواز دی ۔ اس نے فورا ًبھنڈارے کا دروازہ بند کیا اور جا کر صدر دروازہ کھول دیا۔ دیکھا تو پڑوسن چھنیا کھڑی ایک رو پیا قرض مانگ رہی ہے ۔

رام پیاری نے بے رخی سے کہا: “ابھی تو ایک روپیا بھی گھر میں نہیں ہے بہن ، کام کاج میں سب خرچ ہو گیا ۔”

چھنیاحیران رہ گئی ۔ چودھری کے گھر میں اس وقت ایک روپیا بھی نہیں ہے ۔ یہ یقین کرنے کی بات تھی ۔ جس کے یہاں سیکڑوں کا لین دین ہے ، اس کا سارا ثاثہ  کام کاج میں صرف نہیں ہوسکتا۔ اگر شیو داس نے یہ حیلہ کیا ہوتا تو اسے تعجب نہ ہوتا ۔ رام پیاری تو اپنے سادہ اخلاق کے لیے گانوٗ میں مشہور تھی ۔اکثر شیوداس کی نگاہیں بچا کر ہمسایوں کوضرورت کی چیزیں دے دیا کرتی تھی ۔ ابھی کل ہی اس نے جانکی کوسیر بھر دودھ دے دیا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے گہنے تک مانگے دے دیا کرتی تھی۔ بخیل شیوداس کے گھر میں ایسی سخی بہو کا آنالوگ اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے۔

چھنیا نے مخاطب ہوکر کہا: ایسا نہ کہو بہن ، بڑی مصیبت میں پڑ گئی ہوں۔  نہیں تو تم جانتی ہو کہ میری عادت قرض مانگنے کی نہیں ہے ۔ لگان کا ایک رو پیا دینا ہے ۔ پیادہ دروازے پر کھڑا بک جھک رہا ہے ۔ رو پیا دے دو تو کسی طرح مصیبت ٹلے۔ میں آج کے آٹھویں روز آ کر دے جاؤں گی ۔ گانوٗ  میں اور کون گھر ہے ۔ جہاں ما نگنے جاؤں ۔‘‘

رام پیای ٹس سے مس نہ ہوئی ۔

اس کے جاتے ہی رام پیاری شام کے کھانے کا انتظام کرنے لگی۔ پہلے چاول، دال چنناو بال معلوم ہوتا تھا اور رسوئی میں جانا سولی پر چڑھنے سے کم نہ تھا۔ کچھ دیر دونوں بہنوں میں جھوڑ ہوتی ، آخر میں شیوداس آ کر کہتا کہ آج کیا کھانا نہ پکے گا ؟ اس وقت دونوں میں سے ایک اٹھتی اور موٹے موٹے ٹکڑ پکا کر رکھ دیتی۔ جیسے بیلوں کا را تب ہو۔ آج رام پیاری تن من سے کھانا پکانے کے کام میں لگی ہوئی ہے۔اب وہ گھر کی مالکن ہے۔

اس نے باہر نکل کر دیکھا کتنا کوڑا کرکٹ پڑا ہوا ہے ۔ بڈھے دادادن بھرمکھی مارا کرتے ہیں۔اتنا بھی نہیں ہوتا کہ ذرا جھاڑ وہی دے ڈالیں اب کیا ان سے اتنا بھی نہیں ہوتا۔ دروازہ ایسا صاف ہونا چاہیے کہ دیکھ کر دل خوش ہو جائے، یہ نہیں کہ ابکائی آنے لگے ابھی کہہ دوں تو تنک اٹھیں ۔اچھا! منی ناند سے الگ کیوں کھڑی ہے۔

اس نے منی گائے کے پاس جا کر نا ند میں جھا نکا ، بد بو آ رہی تھی ۔ٹھیک ہے ۔معلوم ہوتا ہے مہینوں سے پانی نہیں بدلا گیا ہے ۔ اس طرح تو گائے رہ چکی ۔ اپنا پیٹ بھر لیا، چھٹی ہوئی اور کسی سے کیا مطلب؟ ہاں دودھ سب کو اچھا لگتا ہے ۔ دادا دروازے پر بیٹھے چلم پی رہے ہیں مگر اتنا نہیں ہوتا کہ چار گھڑے پانی ناند میں ڈال دیں ۔ مزدور رکھا ہے وہ بھی تین کوڑی کا ۔کھانے کو ڈیڑھ سیر ، کام کرتے نانی مرتی ہے ۔آئے تو پوچھتی ہوں نا ند میں پانی کیوں نہیں بدلتا ؟ رہنا ہور ہے یا جائے، آدمی بہت ملیں گے ۔چاروں طرف تو لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں۔

آخر اس سے نہ رہا گیا۔ گھڑا اٹھا کر پانی لینے چلی۔

شیوداس نے پکارا ’’ پانی کیا ہوگا بہو؟ نا ند میں پانی بھرا ہوا ہے ۔‘‘

پیاری نے کہا: ’’ناند کا پانی سڑ گیا ہے ۔منی بھو سے میں منہ نہیں ڈالتی ۔ دیکھتے ہو کوس بھر پر کھڑی ہے۔”

شیوداس مسکرایا ۔ دوڑ کر بہو کے ہاتھ سے گھڑالےلیا۔

(3)

کئی مہینے گزر گئے ۔ پیاری کے اختیار میں آ کر جیسے اس گھر میں بہار آ گئی۔ اندر باہر جہاں دیکھیے ایک لائق منتظم کی سلیقہ شعاری ، صفائی پسندی اور خوش مذاقی کے آثار نظر آنے لگے ۔ پیاری نے گرہستی کی مشین کی ایسی کنجی کس دی کہ سب ہی پرزے ٹھیک ٹھیک چلنے لگے ۔ کھانا پہلے سے اچھا ملتا ہے اور وقت پر ملتا ہے ۔ دودھ زیادہ ہوتا ہے ، گھی زیادہ ہوتا ہے ۔ پیاری نہ خود آرام کرتی ہے نہ دوسروں کو آرام کرنے دیتی ہے۔ گھر میں کچھ ایسی برکت آ گئی ہے کہ جو چیز مانگو گھر ہی میں نکل آتی ہے۔ آدمی سے لے کر جانور تک سب ہی تندرست نظر آتے ہیں ۔ اب وہ پہلی سی حالت نہیں ہے کہ کوئی چیتھڑے لپیٹے پھر رہا ہے کسی کو گہنے کی دھن سوار ہے ۔ ہاں اگر کوئی متر دّد و فکرمند اور پریشان ہے تو وہ پیاری ہے ۔ پھر بھی سارا گھر اس سے جلتا ہے ۔ یہاں تک کہ بوڑھے شیوداس بھی کبھی کبھی اس کی بد گوئی کرتے ہیں۔کسی کو پہر رات گئے اٹھنا اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ محنت سے سب جی چراتے ہیں ، پھر بھی اتناسب ہی مانتے ہیں کہ پیاری نہ ہو تو گھر کا کام نہ چلے اور تو اور اب دونوں بہنوں میں اتنامیل نہیں ہے ۔ صبح کا وقت تھا۔ دلاری نے ہاتھوں کے کڑے لا کر پیاری کے سامنے پٹک دیے اور بگڑ کر بولی:’’ لے کڑے بھی بھنڈار میں بند کر دے۔‘‘

پیاری نے کڑے اٹھا لیے اور نرم لہجے میں کہا: ’’کہہ تو دیا، ہاتھ میں روپے آنے دے بنوادوں گی ۔ ابھی تو ایسے گھس نہیں گئے ہیں کہ آج ہی اتار کر پھینک دیے جائیں ۔ “

دلاری لڑنے کے لیے تیار ہو کر آئی تھی۔ بولی: “تیرے ہاتھ میں کا ہے کو کبھی روپے آئیں گے اور کا ہے کوکڑے بنیں گے۔ جوڑ جوڑ رکھنے میں مزہ آتا ہے ۔ “

پیاری نے ہنس کر کہا:’’ جوڑ رکھتی ہوں تو تیرے ہی لیے یا میرے کوئی اور بیٹھا ہوا ہے یا میں سب سے زیادہ کھا پہن لیتی ہوں۔ میرا باز و بند کب کا ٹوٹا پڑا ہے ۔‘‘

دلاری: ” تم نہ کھاؤ پہنو، نیک نامی تو ہوتی ہے تمہاری۔ یہاں کھانے اور پہننے کے سوا اور کیا ہے؟’’ میں تمہارا حساب کتاب نہیں جانتی ۔میرے کڑے آج بننے کو بھیج دو۔ پیاری نے بالکل مذاق کے انداز میں پوچھا: “روپے نہ ہوں تو کہاں سے لاؤں؟‘‘

دلاری نے چیخ کر کہا:’’ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ۔ میں تو کڑے چاہتی ہوں ۔”

اسی طرح گھر کے بھی آدمی اپنے اپنے موقع پر پیاری کو دو چار سخت و سست سنا جاتے تھے اور وہ غریب سب کی دھونس ہنس کر برداشت کر لیتی تھی ۔ مالکن کا تو یہ فرض ہے کہ سب کی دھونس برداشت کر لے اور کرے وہی جس میں گھر کی بھلائی ہو۔ مالکانہ ذمہ داری کے احساس پر طعن و طنز اور دھمکی کسی چیز کا اثر نہ ہوتا۔ اس کا مالکانہ احساس ان حملوں سے اور بھی قوی ہو جا تا تھا۔ وہ گھر کی منتظمہ ہے ۔ سبھی اپنی اپنی تکلیف اس کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جو کچھ وہ کرتی ہے وہی ہوتا ہے ۔اس کے اطمینان کے لیے اتنا کافی تھا۔

 گانو میں پیاری کی تعریف ہوتی تھی ۔ ابھی عمر ہی کیا ہے ۔ لیکن تمام گھر کو سنبھالے ہوئے ہے ۔ چاہتی تو دوسرا گھر کر کے چین کرتی ۔ اس گھر کے واسطے اپنے کو مٹارہی ہے ۔کبھی کسی سے ہنستی بولتی بھی نہیں ۔ جیسے کا یا پلٹ ہوگئی ۔

چند روز بعد دلاری کے کڑے بن کر آ گئے ۔ پیاری خودسنار کے گھر دوڑ دوڑ گئی ۔

شام ہوگئی تھی ۔ دلاری اور متھر ادونوں کھیت سے لوٹے ۔ پیاری نے نئے کڑے دلاری کو دیے ۔ دلاری نہال ہوگئی ۔ چٹ پٹ کڑے پہنے اور دوڑی ہوئی جا کر کوٹھری میں متھر اکوکڑے دکھانے لگی۔ پیاری کوٹھری کے دروازے کے پیچھے کھڑی ہوکر یہ منظر دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھیں اشک آلود ہوگئیں ۔ دلاری اس سے کل تین ہی سال تو چھوٹی ہے ،لیکن دونوں میں کتنا فرق ہے۔ اس کی نظر میں گویا اس منظر پر جم گئیں۔ متاہلانہ زندگی کی وہ حقیقی مسرت ، ان کی وہ محبت آ گیں محویت ، ان کی وہ سرخوشی !

پیاری کی ٹکٹکی سی بندھ گئی ۔ یہاں تک کہ چراغ کی دھندلی روشنی میں وہ دونوں اس کی نظر سے غائب ہو گئے ۔ اسے اپنی گذشتہ زندگی کا ایک ایک واقعہ نگاہوں کے سامنے بار بار نئی صورت میں سامنے آنے لگا ۔ نا گہاں شیوداس نے پکارا: “بڑی بہوا یک پیسا دو تمباکو منگاؤں ۔

 پیاری کا سلسلہ تصور شکست ہو گیا ۔آنسو پونچھتی ہوئی بھنڈار میں پیسا لینے چلی گئی ۔

(4)

ایک ایک کر کے پیاری کے گہنے اس کے ہاتھ سے نکلتے جاتے تھے۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا گھر گانوٗ میں سب سے خوش حال سمجھا جائے اور اسی کو اس ہوس کی قیمت دینا پڑتی تھی ۔ کبھی مکان کی مرمت کے لیے کبھی بیلوں کی نئی جوڑی خریدنے کے لیے روپے کی ضرورت پڑتی رہتی تھی اور جب بہت تو ڑ جوڑ کرنے پر بھی کام نہ چلتا تو وہ اپنی کوئی نہ کوئی چیز نکال دیتی اور وہ چیزایک بار ہاتھ سے نکل کر پھر واپس نہ آتی ۔ وہ چاہتی تو ان میں سے بہت سے خرچوں کو ٹال جاتی لیکن جہاں عزت کی بات آ پڑتی وہ دل کھول کر خرچ کرتی تھی ۔ اگر گانو میں ہیٹی ہوگئی تو کیا بات رہی ، اس کی تو بد نامی ہوگی! دلاری کے پاس بھی گہنے تھے، ایک دو چیز یں متھرا کے پاس بھی تھیں، لیکن پیاری ان کی چیز یں نہ چھوتی ۔ان کے کھانے پہننے کے دن ہیں ، وہ اس جھگڑے میں کیوں پھنسیں ۔ دلاری کے لڑکا پیدا ہوا تو پیاری نے دھوم دھام کے ساتھ خوشی منانے کا ارادہ کیا۔

 شیوداس نے مخالفت کی: ’’ کیا فائدہ؟ جب بھگوان کی کر پا سے بیاہ بارات کا موقع آئے گا تو دھوم دھام کر لینا ۔‘‘

پیاری کا حوصلہ مند دل بھلا کیوں مانتا؟ بولی : ” کیسی بات کرتے ہو دادا! پہلونٹی کے لڑکے کے لیے بھی دھوم دھام نہ ہوئی تو کب ہوگی؟ دل تو نہیں مانتا پر دنیا کیا کہے گی؟ نام بڑے درشن تھوڑے۔ میں تم سے کچھ نہیں مانگتی ، اپنا تمام سامان کرلوں گی ۔

’’ گہنے کے سر جائے گی اور کیا؟‘‘ شیوداس نے فکرمند ہو کر کہا۔’ اس طرح ایک روز تار بھی نہ بچے گا۔ کتناسمجھا یا بیٹا بھائی بھاوج کسی کے نہیں ہوتے ۔ اپنے پاس دو چیزیں رہیں گی تو سب منہ تکیں گے نہیں تو کوئی سید ھے منہ بات بھی نہ کرے گا۔”

 پیاری نے ایسا منہ بنایا گویا وہ ایسی بوڑھی باتیں بہت سن چکی ہے۔ بولی:’’ جواپنے ہیں وہ اپنے ہیں ۔ وہ بات بھی نہ پوچھیں جب بھی اپنے ہی رہتے ہیں ۔ میرادھرم میرے ساتھ ہے ،ان کا دھرم ان کے ساتھ ہے ۔ مر جاؤں گی تو کیا سینے پر لاد کے لے جاؤں گی ۔‘‘

دھوم دھام سے لڑکا پیدا ہونے کی خوشی منائی گئی ۔ برھی کے روز ساری برادری کا کھانا ہوا۔ لوگ کھا پی کر چلے گئے تو پیاری دن بھر کی تھکی ماندی آنگن میں ٹاٹ کا ایک ٹکڑا ڈال کر کمر سیدھی کرنے لگی ۔ آنکھ لگ گئی۔ متھرا اس وقت گھر میں آیا۔ نومولود بچے کو دیکھنے کے لیے اس کا دل بے قرار ہور ہا تھا۔ دلاری زچہ خانے سے نکل چکی تھی حمل کی حالت میں اس کا جسم لاغر ہو گیا تھا۔ چہرہ بھی اتر گیا تھا۔ لیکن آج چہرے پر صحت کی سرخی چھائی ہوئی تھی ۔ مادرانہ غروروناز نے اعضا میں ایک نئی روح پیدا کر دی تھی ۔ زچہ خانے کی احتیاط اور مقوی چیزوں کے استعمال نے بدن کو چکنا دیا تھا۔ متھرااسے آنگن میں دیکھتے ہی قریب آ گیا اور ایک بار پیاری کی طرف دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ وہ سوگئی ہے، بچے کو گود میں لے لیا اور لگا اس کا منہ چومنے۔

آہٹ پاکر پیاری کی آنکھ کھل گئی لیکن نیند کے بہانے وہ نیم باز آنکھوں سے یہ پرلطف تماشاد یکھنے لگی ۔ ماں اور باپ دونوں باری باری سے بچے کو چومتے اور گلے لگاتے اور اس کے منہ کو تکتے تھے ۔ کیسی پر کیف مسرت تھی ۔ پیاری کی تشنہ تمنا ایک آن کے لیے مالکانہ حیثیت کو بھول گئی ۔جس طرح لگام سے منہ بند ، بو جھ سے لدا ہوا، ہانکنے والے کے کوڑے سے تکلیف زدہ ، دوڑ تے دوڑ تے بے دم گھوڑا ہنہنا ہٹ کی آواز سن کر کان کھڑے کر لیتا ہے ، وہ اپنی حالت کو فراموش کر کے ایک دبی ہوئی ہنہنا ہٹ سے اس کا جواب دیتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی پیاری کی حالت ہوگئی ۔اس کی مادریت جو پنجرے میں بند خاموش ، بے جان پڑی ہوئی تھی ، قریب سے گزرنے والی مادریت کی چہکار سے بیدار ہوگئی اور تفکرات کے اس پنجرے سے نکلنے کے لیے بازو پھڑپھڑانے لگی ۔

 متھرا نے کہا: یہ میرالڑ کا ہے ۔

دلاری نے بچے کو سینے سے چمٹا کر کہا:’’ہاں ، ہے کیوں نہیں ۔ تم ہی نے تو نو مہینے پیٹ میں رکھا ہے ۔مصیبت تو میں نے بھکتی ، باپ کہلانے کے لیے تم آگئے ۔‘‘

متھرا:   ” میرا لڑ کا نہ ہوتا تو میری صورت کا کیوں ہوتا؟ صورت وشکل سب میری ہی ہے کہ نہیں ۔

دلاری: ” اس سے کیا ہوتا ہے ۔ بیج بنیے کے گھر سے آتا ہے، کھیت کسان کا ہوتا ہے ۔ پیداوار بنیے کی نہیں ہوتی ۔ کسان کی ہوتی ہے۔”

 متھرا: ’’باتوں میں تم سے کوئی نہ جیتے گا۔ میرالڑ کا بڑا ہو جائے گا تو میں دروازے پر بیٹھ کرمزے سے حقہ پیا کروں گا۔”

 دلاری: “میرالڑ کا پڑھے لکھے گا۔ کوئی بڑا عہدہ حاصل کرے گا۔ تمہاری طرح دن بھر بیل کے پیچھے نہ چلے گا۔ مالکن سے کہنا ہے کل ایک جھولا بنوادیں ‘‘

متھرا:  ’’ اب بہت سویر ے نہ اٹھا کرنا اور کلیجہ پھاڑ کر کام بھی نہ کرنا ‘‘

 دلاری : “یہ مہارانی جینے دے گی ۔”

متھرا: ” مجھے تو اس بے چاری پر ترس آتا ہے ۔ اس کے کون بیٹھا ہے۔ ہمیں لوگوں کے لیے تو مرتی ہے ۔ بھیا ہوتے تو اب تک دو تین لڑکوں کی ماں ہوگئی ہوتی “

پیاری کے گلے میں آنسوؤں کا ایک ایسا سیلاب امڈا کہ اس کے روکنے میں اس کا تمام جسم کانپ اٹھا۔

اس کی بیوگی کا سونا پن کسی خوف ناک جانور کی طرح اسے نگلنے لگا۔ تصور اس بنجر زمین میں ہرا بھرا باغ لگانے لگا۔ یکا یک شیوداس نے اندر آ کر کہا: ’’ بڑی بہو، کیا سوگئی۔ باجے والوں کو ابھی کھانے کو نہیں ملا ۔ کیا کہہ دوں؟‘‘

(5)

کچھ دنوں بعد شیوداس بھی مر گیا ۔ادھر دلاری کے دو بچے ہوئے ۔ وہ بھی زیادہ تر بچوں کی پرورش و پرداخت میں رہنے لگی کھیتی کا کام مزدوروں پر آ پڑا متھر امز دورتو اچھا تھا مگرمنتظم اچھا نہ تھا۔ اسے آزادانہ طور پر کام لینے کا موقع نہ ملا تھا۔خود پہلے بھائی کی نگرانی میں کام کرتا رہا۔ بعد کو باپ کی نگرانی میں کام کرنے لگا۔ کھیتی کا انداز بھی نہیں جانتا تھا۔ وہی مز دور اس کے یہاں ٹکتے تھے جو محنتی نہیں ۔ خوشامد کرنے میں ہوشیار ہوتے تھے، اس لیے اب پیاری کو دو چار چکر کھیت کے بھی لگانے پڑتے تھے۔ کہنے کوتو وہ اب بھی مالک تھی مگر حقیقت میں گھر بھر کی خدمت گذارتھی ۔ مزدور بھی اس سے تیوریاں بد لتے ۔ زمین دار کا پیادہ بھی اس پر دھونس جماتا ،کھانے میں بھی کفایت کرنی پڑتی ۔ لڑکوں کو جتنی بار مانگیں کچھ نہ کچھ چاہیے ۔ دلاری بچوں والی تھی ، اسے بھی پوری خوراک چاہیے۔ متھر ا گھر کا سردار تھا۔ اس حق کو اس سے کون چھین سکتا۔ مزدور بھلا کیوں رعایت کر نے لگے۔ ساری کسر بے چاری پیاری پر نکلتی تھی ۔ اس کی ایک ذات فاضل تھی ۔ آدھا ہی پیٹ کھائے جب بھی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا تھا۔ تیس برس کی عمر میں اس کے بال سفید ہو گئے تھے، کمر جھک گئی ، آنکھوں کی روشنی کم ہوگئی ۔ مگر وہ خوش تھی ۔ مالک ہونے کا احساس ان تمام زخموں پر مرہم کا کام کرتا تھا۔

 ایک روز متھرا نے کہا: ’’ بھابی ، اب تو کہیں پردیس جانے کو جی چاہتا ہے ۔ یہاں تو کمائی میں کوئی برکت نہیں ۔ کسی طرح پیٹ کی روٹیاں چلی جاتی ہیں، وہ بھی رو دھو کر ۔ کئی آدمی پورب سے آئے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ وہاں دو تین روپے روز کی مزدوری ہوتی ہے ۔ چار پانچ سال بھی رہ گیا تو مالا مال ہو جاؤں گا ۔اب لڑ کے بالے ہوئے، ان کے لیے تو کچھ کرنا ہی چاہیے ۔”

 دلاری نے تائید کی : ” ہاتھ میں چار پیسے ہوں گے، لڑکوں کو پڑھائیں گے لکھائیں گے۔ ہماری تو کسی طرح کٹ گئی، لڑکوں کو تو آدمی بنانا ہے ۔”

پیاری یہ رائے سن کر حیران رہ گئی ۔ ان کا منہ تکنے لگی ۔اس سے پہلے اس طرح کی بات چیت بھی نہیں ہوئی تھی ۔ انھیں یہ دھن کیسے سوار ہوگئی۔اسے شک ہوا کہ شاید میری وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا ہے۔

بولی :’’ تو میں تو جانے کو نہ کہوں گی ۔آگے تمہاری جیسی خوشی ہو ۔لڑکوں کے پڑھانے لکھانے کے لیے یہاں بھی اسکول ہیں ۔ پھر کیا ہمیشہ ہی ایسا وقت رہے گا۔ دو تین سال میں کھیتی بن گئی تو سب کچھ ہو جائےگا۔‘‘

متھرا: “اتنے روز کھیتی کر تے ہو گئے ۔ جب اب تک نہ بنی تو اب کیا بن جائے گی ۔اسی طرح ایک روز چل دیں گے ۔ دل کی دل میں رہ جائے گی۔ پھر اب ہاتھ پانو بھی تو تھک رہے ہیں ۔یہ کھیتی کون سنبھالے گا۔لڑکوں کو اس چکی میں جوت کر ان کی زندگی خراب کرنی نہیں چاہتا۔”

 پیاری نے آنکھوں میں آنسوبھر کر کہا: “بھیا، گھر پر جب تک آدھی ملے ساری کے لیے نہ دوڑ نا چا ہیے ۔ اگر میری طرف سے کوئی بات ہو تو اپنا گھر بار اپنے ہاتھ میں لے لو۔ مجھے ایک ٹکڑا دے دینا۔ پڑی رہوں گی ۔‘‘

متھر اگلو گیر آواز سے بولا :” بھابی ، یہ تم کیا کہتی ہو۔ تمھارے ہی سنبھالے یہ گھراب تک سنبھلا ہے نہیں تو ختم ہوچکا ہوتا۔ اس گرہستی کے پیچھے تم نے اپنے کومٹی میں ملادیا۔ اپنا جسم تک گھلا ڈالا۔ میں اندھا نہیں ہوں ۔سب کچھ سمجھتا ہوں ۔ ہم لوگوں کو جانے دو ۔ بھگوان نے چاہا تو گھر پھر سنبھل جائے گا تمہارے لیے ہم برابرخرچ بھیجتے رہیں گے ۔ “

پیاری نے کہا: ’’اگر ایسا ہی ہے تو تم چلے جاؤ۔ بال بچوں کو کہاں کہاں باندھےپھرو گے؟‘‘

دلاری بولی: ’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے بہن ۔ یہاں دیہات میں لڑ کے کیا پڑھیں لکھیں گے۔ بچوں کے بغیر وہاں ان کا جی بھی نہ لگے گا۔ دوڑ دوڑ کر گھر آئیں گے اور ساری کمائی ریل کھا جائے گی۔ پردیس میں اکیلے جتنا خرچ ہوگا اتنے میں سارا گھر آرام سے رہے گا ۔‘‘

پیاری بولی:’’ تو میں ہی یہاں رہ کر کیا کروں گی؟ مجھے بھی لیتے چلو۔“

دلاری اسے ساتھ لے چلنے کو تیارنہ تھی ۔ کچھ روز زندگی کا لطف اٹھانا چاہتی تھی ۔ اگر پردیس میں بھی یہی ضابطہ رہا تو جانے سے فائدہ ہی کیا ؟ بولی:” بہن ، تو چلتی تو کیا بات تھی ۔ پھر یہاں تو سارا کاروبار چوپٹ ہو جائےگا۔ تم تو کچھ نہ کچھ دیکھ بھال کرتی ہی رہوگی ۔”

 روانگی کی تاریخ سے ایک روز پہلے ہی رام پیاری نے رات بھر جاگ کر حلوا پوری پکائی۔جب سے اس گھر میں آئی کبھی تو ایک روز کے لیے بھی تنہار ہنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ دونوں بہنیں ہمیشہ ساتھ رہیں ۔ آج اس ہولناک موقع کو سامنے آتے دیکھ کر پیاری کا دل بیٹھا جا تا تھا۔ وہ دیکھتی تھی کہ متھراخوش ہے ۔لڑ کے باہر جانے کی خوشی میں کھانا پینا بھولے ہوئے ہیں ، تو اس کے جی میں آتا تھا کہ وہ بھی اسی طرح بےغم رہے محبت و ہمدردی کو پیروں سے کچل ڈالے لیکن وہ محبت جس غذا کو کھا کھا کر پلی تھی اسے سامنے سے ہٹتے جاتے دیکھ کر بے قرار ہونے سے نہ روک سکی ۔ دلاری تو اس طرح بے فکر بیٹھی تھی جیسے کوئی میلا دکھانے جارہی تھی ۔نئی چیزوں کے دیکھنے ،نئی دنیا کی سیرکرنے کے شوق نے اسے دیوانہ بنارکھا تھا۔ پیاری کے سرانتظام کا بارتھا ۔ دھو بی کے گھر سے سب کپڑے آئے ہیں یا نہیں ۔ کون کون سے برتن ساتھ جائیں گے ۔ سفر خرچ کے لیے کتنے روپے کی ضرورت ہوگی ۔ ایک بچے کو کھانسی آ رہی تھی ، دوسرے کو کئی روز سے دست آ رہے تھے ۔ان دونوں کی دواؤں کو کوٹنا پیسنا وغیرہ سیکڑوں کام اسے مصروف کیے ہوئے تھے ۔ لاولد ہو کر بھی وہ بچوں کی داشت و پرداخت میں دلا ری سے ہوشیار تھی ۔’’دیکھو، بچوں کو زیادہ مارنا پیٹنا مت ۔ مارنے سے بچے ضدی اور بے حیا ہو جاتے ہیں ۔ بچوں کے ساتھ آدمی کو بچہ بن جانا پڑتا ہے ۔ کبھی ان کے ساتھ کھیلنا پڑتا ہے، کبھی ہنسنا پڑتا ہے۔ اگر تم چاہو کہ ہم آرام سے پڑے ہیں اور بچے چپ بیٹھے رہیں ، ہاتھ پاؤں نہ ہلائیں تو یہ نہیں ہوسکتا۔ بچے تو طبیعت کے تیز ہوتے ہیں ۔انھیں کسی نہ کسی کام میں پھنسائے رکھو۔ دھیلے کا ایک کھلونا ہزار گھر کیوں سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔”

 دلاری ان ہدایتوں کو اس بے تو جہی سے سن رہی تھی گو یا کوئی پاگل بک رہا ہو۔

رخصت کا روز پیاری کے لیے امتحان کا دن تھا۔ اس کے جی میں آتا تھا کہ کہیں چلی جائے تا کہ وہ منظر نہ دیکھنا پڑے۔ ہائے گھڑی بھر میں یہ گھر سونا ہو جائے گا۔ وہ دن بھر گھر میں تنہا پڑی رہے گی ۔ کس سے ہنسے گی ،کس سے بولے گی؟ یہ سوچ کر اس کا دل لرز جا تا۔ جوں جوں وقت قریب آتا تھا اس کے حواس معطل ہوتے جاتے تھے ۔ وہ کام کرتے کرتے جیسے کھوجاتی تھی اورٹکٹکی باندھ کر کسی چیز کی طرف دیکھنے لگتی تھی ۔ کبھی موقع پاکر تنہائی میں جا کر تھوڑا سا رولیتی تھی ۔ دل کو سمجھا رہی تھی کہ یہ لوگ اپنے ہوتے تو کیا اس طرح جاتے ۔ یہ مانا کہ نا تا ہے مگر کسی پر کوئی زور تو نہیں ۔ دوسروں کے لیے کتنا ہی مرو پھر بھی اپنے نہیں ہوتے ۔ پانی تیل میں کتنا ہی ملے، پھر بھی الگ ہی رہے گا۔ بچے نئے نئے کپڑے پہنے نواب بنے گھوم رہے تھے ۔ پیاری انھیں پیار کر نے کے لیے گود میں لینا چاہتی تھی تو رونے کا سامنہ بنا کر ہاتھ چھڑا کر بھاگ جاتے ۔ وہ کیا جانتی تھی کہ ایسے موقع پراکثر بچے بھی ایسے ہی بے مروت ہو جاتے ہیں ۔ دس بجتے بجتے دروازے پر بیل گاڑی آ گئی ۔لڑ کے پہلے ہی سے اس پر جا بیٹھے ۔ گانو کے کتنے ہی مردعورتیں ملنے آئیں ۔ پیاری کو اس وقت ان کا آنا برا معلوم ہورہا تھا۔ وہ دلاری سے تھوڑی دیر تنہائی میں گلے مل کر رونا چاہتی تھی متھرا سے ہاتھ جوڑ کر کہنا چاہتی تھی کہ میری کھوج خبر لیتے رہنا تمہارے سوا اب دنیا میں میرا کون ہے؟ لیکن گڑ بڑ میں اسے ان باتوں کا موقع نہ ملا۔ متھرا اور دلاری دونوں گاڑیوں میں جا بیٹھے اور پیاری دروازے پر کھڑی روتی رہ گئی ۔ وہ اتنی حواس باختہ تھی کہ اسے گانوٗ کے باہر تک پہنچانے کا بھی ہوش نہ رہا۔

(6)

کئی روز تک پیاری بے ہوش ہی پڑی رہی ۔ نہ گھر سے نکلی ، نہ چولھا جلا یا ، نہ ہاتھ منہ دھویا ۔ اس کا ہلواہا جوکھو بار بارآ کر کہتا :’’مالکن اٹھو ، منہ ہاتھ دھوؤ۔ کچھ کھاؤ پیو ۔ کب تک اس طرح پڑی رہوگی؟‘‘

اس طرح کی تسلی گانوٗ کی اور عورتیں بھی دیتی تھیں لیکن ان کی تسلی میں ایک قسم کے بغض کا انداز پایا جا تا تھا اور جو کھو کی آواز میں سچی ہمدردی جھلکتی تھی ۔ جوکھو کام چور، با تونی اور نشہ باز تھا۔ پیاری اسے برابر ڈانتی رہتی تھی۔ دوا یک بارا سے نکال بھی چکی تھی مگر متھرا کی سفارش سے پھر رکھ لیا تھا۔ آج بھی جوکھو کی ہمدردی بھری باتیں سن کر جھنجھلائی ۔ یہ کام کر نے کیوں نہیں جاتا۔ یہاں میرے پیچھے کیوں پڑا ہے۔ مگر اسے جھڑ کنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت اسے ہمدردی کی ضرورت تھی ۔ پھل کانٹے دار درخت میں بھی ملیں تو کیا انھیں چھوڑ دیا جا تا ہے۔

رفتہ رفتہ طبیعت بہلنے لگی ۔ زندگی کا کاروبار جاری ہوا۔ اب کھیتی کا سارا بار پیاری پر تھا۔لوگوں نے رائے دی کہ ایک ہل تو ڑ دو اور کھیتوں کو اٹھادو۔ لیکن پیاری کی وضع داری یوں ڈھول پیٹ کر اپنی شکست قبول نہ کرسکتی تھی ۔ تمام کام سابق کی طرح چلنے لگے ۔ ادھر متھرا کے خط و کتابت نہ کرنے سے اس کے جذبات کو اور اشتعال ہوا۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اس کے بھرو سے بیٹھی ہوں۔ یہاں اس کے کھلانے کا بھی دعوا رکھتی ہوں ۔اس کے بھیجنے سے مجھے کوئی خزان مل جا تا۔ اسے اگر میری فکر نہیں ہے تو میں اس کی کب پروا کرتی ہوں ۔ گھر میں تو اب کوئی زیادہ کام رہا نہیں ۔ پیاری تمام دن کھیتی باڑی کے کاموں میں لگی رہتی ۔خربوزے بوئے تھے ۔ وہ خوب پھلے اور خوب بکے۔ پہلے سب دودھ گھر میں خرچ ہو جا تا تھا ۔ اب بکنے لگا۔ پیاری کے خیالات میں بھی ایک عجیب انقلاب پیدا ہو گیا۔ وہ اب صاف ستھرے کپڑے پہنتی ، ما نگ چوٹی کی طرف سے بھی اتنی بے توجہ تھی ۔ زیوروں کا بھی شوق ہوا۔ روپے ہاتھ میں آتے ہی اس نے اپنے گروی گہنے چھڑائے اور کھانے میں بھی احتیاط کر نے لگی ۔تالاب پہلے کھیتوں کو سیراب کر کے خود خالی ہو جا تا تھا۔ اب نکاس کی نالیاں بند ہوگئی تھیں ۔ تالاب میں پانی جمع ہونے لگا۔ اس میں ہلکی ہلکی لہریں بھی تھیں، کھلے ہوئے کمل بھی تھے۔ ایک روز جوکھوکنویں سے لوٹا تو اندھیرا ہو گیا تھا۔ پیاری نے پوچھا: ’’ اب تک وہاں کیا کرتارہا؟‘‘

 جوکھو نے کہا :”چار کیاریاں بچ رہی تھیں، میں نے سوچادس موٹ اور کھینچ دوں ۔ کل کاجھنجھٹ کون رکھے۔‘‘

جوکھو اب کچھ دنوں سے کام میں جی لگانے لگا تھا۔ جب تک مالک اس کے سر پر سوار رہتے تھے وہ حیلے بہانے کرتا تھا ۔ اب سب کچھ اس کے ہاتھ میں تھا۔ پیاری سارے دن کنویں پر تھوڑے ہی رہ سکتی تھی ، اس لیے اب اس میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گیا۔ پیاری نے پانی کالوٹا رکھتے ہوئے کہا: ”اچھا ہاتھ منہ دھوڈالو ۔ آ دی جان رکھ کر کام کرتا ہے ۔ ہائے ہائے کر نے سے کچھ نہیں ہوتا ۔کھیت آج نہ ہوتے کل ہوتے ۔ کیا جلدی تھی؟‘‘

جوکھونے سمجھا پیاری بگڑ رہی ہے۔ اس نے تو اپنی سمجھ میں کارگذاری کی تھی اوروہ سمجھا تھا تعریف ہوگی ۔ یہاں اعتراض ہوا ۔ چڑ کر بولا :” مالکن تم داہنے بائیں دونوں طرف چلتی ہو۔ جو بات نہیں سمجھتی ہو اس میں کیوں کو دتی ہو؟ کل کے لیے تو اونچے کے کھیت پڑے سوکھ رہے ہیں ۔ آج بڑی مشکل سے کنواں خالی ہوا ہے ۔ سویرے میں نہ پہنچا تو کوئی اور آ کر ڈٹ جا تا ۔ پھر ہفتہ بھر تک راہ دیکھنی پڑتی ۔ تب تک تو سب اوکھ بدا ہو جاتی ‘‘

 پیاری اس کی سادگی پر ہنس کر بولی:’’ارے تو میں تجھے کچھ کہہ تھوڑی ہی رہی ہوں ۔میں تو کہتی ہوں کہ جان رکھ کر کام کر کہیں بیمار پڑ گیاتو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔”

 جوکھو: ” کون بیمار پڑ جائے گا؟ بیس برس سے کبھی سر تک تو نہیں دکھا۔ آیندہ کی نہیں جانتا۔ کہو رات بھر کام کرتا رہوں ۔ “

پیاری میں کیا جانوں۔ تمھیں آئے دن بیٹھے رہتے تھے اور پوچھا جا تا تھا تو کہتے تھے کہ بخار آ گیا تھا۔ پیٹ میں دردتھا۔”

 جوکھوجھینپتا ہوابولا : وہ باتیں جب تھیں جب مالک لوگ چاہتے تھے اسےپیس ڈالیں ۔ اب تو جانتا ہوں میرے ہی سر ہے ۔ میں نہ کروں گا تو چوپٹ ہو جائےگا ۔‘‘

پیاری:” میں کیا دیکھ بھال نہیں کرتی ؟‘‘

جوکھو : “تم بہت کروگی تو دو وقت چلی جاؤ گی ۔ تمام دن تم وہاں بیٹھی تو نہیں رہ سکتیں ۔”

 پیاری کو اس کی اخلاص بھری باتوں نے فریفتہ کرلیا۔ بولی: ’’اتنی رات گئے چولھا جلاؤ گے۔ بیاہ کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘

جوکھو نے منہ دھوتے ہوئے کہا: ’’ تم بھی خوب کہتی ہو مالکن ! اپنے پیٹ بھر کو تو ہوتا نہیں، بیاہ کرلوں ۔ سوا سیر کھاتا ہوں ۔ ایک وقت پورا سواسیر ۔ دونوں وقت کے لیے ڈھائی سیر چاہیے۔“

پیاری :”اچھا آج میری رسوئی میں کھاؤ۔ دیکھوں کتنا کھاتے ہو ؟‘‘

 جوکھونے گلوگیر آواز میں کہا:’’نہیں مالکن ! تم پکاتے پکاتے تھک جاؤ گی ۔ہاں آدھ سیرکی دوروٹیاں پکادوتو کھالوں۔ میں تو یہی کرتا ہوں ۔بس آٹا گوندھ کر دو روٹی بنالیتا ہوں اور اوپر سے سینک لیتا ہوں ۔ کبھی میٹھے سے کبھی پیاز سے کھالیتا ہوں اور آ کر پڑ رہتا ہوں ۔“

 پیاری :”میں تمھیں آج پھلکے کھلاؤں گی ۔‘‘

جوکھو: ” تب تو ساری رات کھاتے ہی گز رجائے گی ۔“

پیاری :’’ بکومت ،جلدی آ کر بیٹھ جاؤ۔‘‘

جوکھو : “ذرا بیلوں کو چارہ پانی دیتا آؤں تو بیٹھوں ‘‘

(7)

جوکھواور پیاری میں ٹھنی ہوئی تھی ۔ پیاری نے کہا: میں کہتی ہوں کہ دھان روپنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جھڑی لگ جائے تو کھیت ڈوب جائے۔  بارش رک جائے تو کھیت سوکھ جائے ۔ جوار، باجرا، سن ، ار ہر تو ہیں، دھان نہ سہی ۔

جوکھو نے اپنے کندھے پر پھاوڑا رکھتے ہوئے کہا:’’ جب سب کا ہوگا تو میرا بھی ہوگا ، سب کا ڈوب جائے گا تو میرا بھی ڈوب جائے گا۔ میں کیوں کسی سے پیچھے رہوں؟ بابا کے زمانے میں پانچ بیگھے سے کم نہیں رو پا جا تا تھا۔ برجو بھیانے اس میں ایک دو بیگھے اور بڑھادیے۔ متھرانے بھی ہر سال تھوڑے بہت روپے۔ تو کیا میں سب سے گیا گزرا ہوں ۔ میں پانچ بیگھے سے کم نہ لگاؤں گا ۔

“تب گھر کے دو جوان کام کرنے والے تھے۔“

’’ میں تنہا ان دونوں کے برابرکھا تا ہوں ۔ دونوں کے برابر کام کیوں نہ کروں گا؟‘‘

 ” چل جھوٹا کہیں کا۔ کہتا تھا دوسیر کھا تا ہوں ۔ چار سیر کھا تا ہوں۔ آدھ سیر میں ہی رہ گیا۔”

کسی روز تو لوتو معلوم ہو ۔‘‘

“تولا ہے، بڑے کھانے والے! میں کہے دیتی ہوں دھان نہ رو پو، مزدور ملیں گے نہیں ، تمھیں ہلکان ہونا پڑے گا۔ “

تمھاری بلا سے میں ہلکان ہوں گا نا! یہ بدن کس روز کام آئے گا؟‘‘ پیاری نے اس کے کندھے سے پھاوڑا لے لیا اور بولی: ’’پہر رات سے پہر رات تک تال میں رہو گے نہ ، میرا دل گھبرائے گا۔‘‘

جوکھوکو دل کے گھبرانے کا تجربہ نہ تھا۔ کوئی کام نہ ہو تو آدمی پڑ کر سور ہے، دل کیوں گھبرائے گا۔ بولا:’’ جی گھبرائےتو سور ہنا۔ میں گھر رہوں گا تب تو اور بھی گھبرائے گا۔ میں بیکار بیٹھتا ہوں تب مجھے بار بارکھانے کی سوجھتی ہے۔ باتوں میں دیر ہورہی ہے ۔اور بادل گھرے آتے ہیں ۔”

پیاری نے کہا:’’اچھا کل جانا ۔آج بیٹھو‘‘

جوکھو نے گویا مجبور ہوکر کہا:’’اچھا بیٹھ گیا۔ کہو کیا کہتی ہو؟‘‘

 پیاری نے تمسخر کے انداز سے پوچھا: ” کہنا کیا ہے، میں تم سے پوچھتی ہوں اپنا بیاہ کیوں نہیں کر ڈالتے ۔ میں اکیلی مرا کرتی ہوں ۔تب ایک سے دوتو ہو جائیں گے ۔“

جوکھوشر ما تا ہوا بولا :’’ تم نے پھر وہی بات چھیڑ دی مالکن ! کس سے بیاہ کروں؟ میں ایسی جورو لے کر کیا کروں جو گہنے کے لیے جان کھاتی رہے۔“

پیاری :یہ تو تم نے بڑی کڑی شرط لگائی ۔ایسی عورت کہاں ملیں گی جو گہنا نہ چاہتی ہو ۔”

جوکھو :”یہ میں تھوڑا ہی کہتا ہوں کہ گہنانہ مانگے ۔ ہاں میری جان نہ کھائے ۔ تم نے تو بھی گہنے کے لیے ضد نہیں کی، بلکہ اپنے گہنے دوسروں کو دے دیے۔”

 پیاری کے رخسار پر ہلکا سا رنگ آ گیا، بولی:’’اچھا اور کیا چاہتے ہو؟“

جوکھو :”میں کہنے لگوں گا تو بگڑ جاؤ گی ۔”

 پیاری کی آنکھوں میں شرم کی ایک لہر دوڑ گئی، بولی: ” بگڑ نے کی بات ہوگی تو ضروربگڑوں گی ۔

جوکھو: ”تو میں نہ کہوں گا۔‘‘

پیاری نے پیچھے کی طرف ڈھکیلتے ہوئے کہا: ” کہوگے کیسے نہیں۔ میں کہلا کر چھوڑوں گی۔”

 جوکھو: “اچھا تو سنو۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ تمھاری طرح ہو۔ ایسی ہی لجانے والی ہو، ایسی ہی بات چیت میں ہوشیار ہو، ایسا ہی اچھا کھانا پکاتی ہو، ایسی ہی کفایت شعار ہو، ایسی ہی ہنس مکھ ہو ۔ بس ایسی مورت ملے گی تو بیاہ کروں گا۔ نہیں تو اسی طرح پڑارہوں گا۔“ پیاری کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا پیچھے ہٹ کر بولی :’’ تم بڑے دل لگی باج ہو ۔‘‘

*****

مالکن، مالکن، مالکن، مالکن، مالکن، مالکن

آپ نے افسانہ مالکن پڑھا اب اس کو دوسروں تک پہنچائیں۔

مالکن، مالکن، مالکن، مالکن، مالکن، مالکن

1 thought on “افسانہ (06) مالکن”

  1. Pingback: 06 پریم چند کا افسانہ : مالکن Urdu Literature

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks