افسانہ (02) گولی

پیش خدمت ہے سعادت حسن منٹو کے مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل دوسرا افسانہ “گولی”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

گولی

سعادت حسن منٹو

شفقت دوپہرکو دفتر سے آیا تو گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ عورتیں تھیں جو بڑے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ شفقت کی بیوی عائشہ ان کی مہمان نوازی میں مصروف تھی ۔ جب شفقت صحن میں داخل ہوا تو اس کی بیوی باہر نکلی اور کہنے لگی ۔ عزیز صاحب کی بیوی اور ان کی لڑکیاں آئی ہیں۔”

شفقت نے ہیٹ اتار کر ماتھے کا پسینہ پونچھا۔”کون عزیز صاحب “

عائشہ نے آواز دبا کر جواب دیا ” ہائے، آپ کے ابا جی کے دوست۔”

“اوہ ––عزیز چچا۔“

“ہاں،ہاں وہی”

 شفقت نے ذرا حیرت سے کہا۔” مگر وہ تو افریقہ میں تھے ۔

عائشہ نے منہ پر انگلی رکھی۔” ذرا آہستہ بات کیجئے۔ آپ تو چلانا شروع کر دیتے ہیں ––– وہ افریقہ ہی میں تھے ، لیکن جو افریقہ میں ہو کیا واپس نہیں آسکتا۔”

 لو، اب تم لگیں مین میخ کرنے ۔”

“آپ تولڑنے لگے” عائشہ نے ایک نظر اندر کمرے میں ڈالی۔” عزیز صاحب افریقہ ہی میں ہیں، لیکن ان کی بیوی اپنی لڑکی کی شادی کرنے آئی ہیں۔ کوئی اچھا بر ڈھونڈ رہی ہیں۔”

اندر سے عزیز کی بیوی کی آواز آئی ۔” عائشہ تم نے روک کیوں لیا شفقت کو ۔آنے دو ––آؤ شفقت بیٹا ، آؤ  ––تمہیں دیکھے اتنی مدت ہو گئی ہے ۔”

“آیا چچی جان” شفقت نے ہیٹ اسٹینڈ کی کھونٹی پہ رکھا اور اندر کمرے میں داخل ہوا۔”آداب عرض چچی جان۔“

 عزیز کی بیوی نے اٹھ کر اس کو دعائیں دیں، سر پر ہاتھ پھیرا اور بیٹھ گئی ۔شفقت بیٹھنے لگا تو اس نے دیکھا کہ سامنے صوفے پر دو گوری گوری لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ ایک چھوٹی تھی ، دوسری بڑی ۔دونوں کی شکل آپس میں ملتی تھی۔ عزیز صاحب بڑے وجیہہ آدمی تھے۔ ان کی یہ وجاہت ان لڑکیوں میں بڑے دلکش طور پرتقسیم ہوئی تھی ۔ آنکھیں ماں کی تھیں نیلی ۔ بال بھورے اور کافی لمبے ۔ دونوں کی دو چوٹیاں تھیں۔ چھوٹی کا چہرہ بڑی کے مقابلے میں زیادہ نکھرا ہوا تھا۔ بڑی کا چہرہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔

ان کی ماں ان سے مخاطب ہوئی ۔” بٹیا سلام کرو بھائی کو۔”

 چھوٹی نے اٹھ کر شفقت کو آداب عرض کیا۔ بڑی نے بیٹھے بیٹھے ذرا جھک کر کہا ۔”تسلیمات۔”

شفقت نے مناسب وموزوں جواب دیا۔ اس کے بعد عزیز صاحب اور افریقہ کے متعلق باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیروبی ٹانگا نیکا، دار السلام کرا تینا ، یوگنڈا ، ان سب کی باتیں ہوئیں۔ کہاں کا موسم اچھا ہے ،کہاں کا خراب ہے پھل کہاں اچھے ہوتے ہیں––پھلوں کا ذکر چھیڑا تو چھوٹی نے کہا : “یہاں ہندوستان میں تو نہایت ہی ذلیل پھل ملتے ہیں ۔”

“جی نہیں، بڑے اچھے پھل ملتے ہیں، بشرطیکہ موسم ہو۔ شفقت نے اپنے ہندوستان کی آبرو بچانا چاہی۔

“غلط ہے “چھوٹی نے ناک چڑھائی۔ ” امی جان، یہ جو کل آپ نے مارکیٹ سے مالٹے لئے تھے، کیا وہاں کے مچنگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔”

لڑکیوں کی ماں بولی۔” شفقت بٹیا یہ صحیح کہتی ہے۔ یہاں کے مالٹے وہاں کے مچنگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔“

عائشہ نے چھوٹی سے پوچھا۔ “طلعت، یہ مچنگا کیا ہوتا ہے ––نام تو بڑا عجیب وغریب ہے۔”

طلعت مسکرائی ۔”آپا ایک پھل ہے، مالٹے اور میٹھے کی طرح–– اتنا لذیذہوتا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتی ––اور رس ––ایک نچوڑئیے––یہ گلاس جو تپائی پر پڑا ہے ،لبالب بھر جائے۔ “

شفقت نے گلاس کی طرف دیکھا اور اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ پھل کتنا بڑا ہوگا ۔” ایک مچنگے سے اتنا بڑا گلاس بھر جاتا ہے ؟“

طلعت نے بڑے فخریہ انداز میں جواب دیا۔ ”جی ہاں !”

شفقت نے یہ سن کر کہا ۔” تو پھل یقیناً بہت بڑا ہوگا ۔”

طلعت نے سرہلایا ۔” جی نہیں ––بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا–– بس آپ کے یہاں کے بڑے مالٹے کے برابر ہوتا ہے ––یہی تو اس کی خوبی ہے کہ رس ہی رس ہوتا ہے اس میں ––اور امی جان وہاں کا انناس بڑی روٹی کے برابر اس کی ایک قاش ہو تی ہے۔”

 دیر تک انناس کی باتیں ہوتی رہیں ۔طلعت بہت باتونی تھی۔ افریقہ سے اس کو عشق تھا ۔ وہاں کی ہر چیز اس کو پسند تھی۔ بڑی جس کا نام نگہت تھا بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ اس نے گفتگو میں کوئی حصہ نہ لیا۔ شفقت کو جب محسوس ہوا کہ وہ خاموش بیٹھی رہی ہے تو وہ اس سے مخاطب ہوا۔ ” آپ کو غالباً ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔”

نگہت نے اپنے ہونٹ کھولے ۔ “جی نہیں ––سنتی رہی ہوں بڑی دلچسپی سے۔”

 شفقت نے کہا۔”لیکن آپ بولیں نہیں۔“

عزیز کی بیوی نے جواب دیا ۔”شفقت بیٹا اس کی طبیعت ہی ایسی ہے ۔”

 شفقت نے ذرا بے تکلفی سے کہا۔ چچی جان اس عمر میں لڑکیوں کو خاموشی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہو۔ پھر وہ نگہت سے مخاطب ہوا۔”جناب آپ کو بولنا پڑے گا ۔”

 نگہت کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی مسکراہٹ پیدا ہوئی ۔ “بول تو رہی ہوں بھائی جان “

شفقت مسکرایا “تصویروں سے دلچسپی ہے آپ کو ؟”

 نگہت نے نگاہیں نیچی کر کے جواب دیا۔ ” جی ہے ۔”

“تو اٹھیے میں آپ کو اپنا البم دکھاؤں ––دوسرے کمرے میں ہے۔ یہ کہہ کر شفقت اٹھا ۔”چلئے۔”

 عائشہ نے شفقت کا ہاتھ دبایا۔ پلٹ کر اس نے اپنی بیوی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا جسے شفقت نہ سمجھ سکا۔ وہ متحیر تھا کہ خدا معلوم کیا بات تھی کہ اس کی بیوی نے اس کا ہاتھ دبایا اور اشارہ بھی کیا، وہ سوچ ہی رہا تھا کہ طلعت کھٹ سے اٹھی۔” چلیے بھائی جان ––مجھے دوسروں کے البم دیکھنے کا بہت شوق ہے––میرے پاس بھی ایک کولکشن ہے۔”

شفقت ، طلعت کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ نگہت خاموش بیٹھی رہی۔شفقت ، طلعت کو تصویریں دکھاتا  رہا حسبِ عادت طلعت بولتی رہی ۔شفقت کا دماغ کسی اور طرف تھا۔ وہ نگہت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہ اس قدر خاموش کیوں ہے۔ تصویریں دیکھنے اس کے ساتھ کیوں نہ آئی جب اس نے اس کو چلنے کے لئے کہا تو عائشہ نے اس کا ہاتھ کیوں دبایا۔ اس اشارے کا کیا مطلب تھا جو اس نے آنکھوں کے ذریعے کیا تھا۔

تصوریں ختم ہو گئیں ۔طلعت نے البم اٹھایا اور شفقت سے کہا ۔” باجی کو دکھاتی ہوں۔ ان کو بہت شوق ہے تصویریں جمع کرنے کا ۔”

 شفقت پوچھنے ہی والا تھا کہ اگر ان کو شوق ہے تو وہ اس کے ساتھ کیوں نہ آئیں مگر طلعت البم اٹھا کر کمرے سے نکل گئی ۔شفقت بڑے کمرے میں داخل ہوا تو نگہت بڑی دلچسپی سے البم کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔ہر تصویر اس کومسرت پہنچاتی تھی

 عائشہ لڑکیوں کی ماں سے باتیں کرنے میں مشغول دیکھ رہی تھی۔ شفقت کنکھیوں سے دیکھتا رہا ۔ اس کا چہرہ جو پہلے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی کی دھند میں لیٹا تھا۔ اب بشاش تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ تصویریں جو آرٹ کا بہترین نمونہ تھیں اس کو راحت بخش رہی ہیں ۔ اس کی آنکھوں میں اب چمکی تھی ۔لیکن جب ایک گھوڑے اور صحت مند عورت کی تصویر آئی تو یہ چمک ماند پڑ گئی۔ ایک ہلکی سی آہ اس کے سینے میں لرزی اور وہیں دب گئی۔

تصویریں ختم ہوئیں تو نگہت نے شفقت کی طرف دیکھا اور بڑے پیارے انداز میں کہا ” بھائی جان شکریہ !”

 شفقت نے البم نگہت کے ہاتھ سے لیا اور مینٹل پیسں پر رکھ دیا۔ اس کے دماغ میں کھد بد ہو رہی تھی۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ کوئی بہت بڑا اسرار اس لڑکی کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس نے سوچا ، شاید کوئی نامکمل رومان ہو یا کوئی نفسیاتی حادثہ۔

چائے آئی تو شفقت نگہت سے مخاطب ہوا۔ “اٹھئے ، چاے بنایئے––یہ پرولج لیڈیز کا ہے۔”

نگہت خاموش رہی لیکن طلعت پھدک کر اٹھی ۔”بھائی جان میں بناتی ہوں۔”

 نگہت کا چہرہ پھر دھند میں ملفوف ہوگیا۔ شفقت کا تجسس بڑھتا گیا۔ ایک بار جب اس نے غیر ارادی طور پر نگہت کو گھور کے دیکھا تو وہ سٹ پٹا سی گئی۔ شفقت کو دل ہی دل میں اس بات کا افسوس ہوا کہ اس نے کیوں ایسی نازیبا حرکت کی ۔

چائے  پر ادھر اُدھر کی بے شمار باتیں ہوئیں۔ طلعت نے ان میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ٹینس کا ذکر آیا تو اس نے شفقت کو بڑے فخریہ انداز میں جوشیخی کی حد تک جاپہنچا تھا بتایا کہ وہ نیروبی میں نمبر ون ٹینس پلئیر تھی  اور پندرہ بیس کپ جیت چکی تھی ––نگہت بالکل خاموش رہی اس کی خاموشی بڑی اداس تھی صاف عیاں تھا کہ اس کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ خاموش ہے ۔

ایک بات جو شفقت نے خاص طور پہ نوٹ کی یہ تھی کہ عزیز کی بیوی کی ممتا کا رخ زیادہ تر نگہت کی طرف تھا۔ اس نے خود اٹھ کر بڑے پیارمحبت سے اس کو کریم رول دیئے ۔ منہ پونچھنے  کے لئے اپنا رومال دیا۔ اس سے کوئی بات کرتی تھی تو اس میں پیار بھی ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ باتوں کے ذریعے سے بھی اس کے سر پر محبت بھرا ہاتھ پھیر رہی ہے یا اس کو چمکار رہی ہے ۔

 رخصت کا وقت آیا تو عزیز کی بیوی اٹھی، برقع اٹھایا ، عائشہ سے گلے ملی ۔ شفقت کو دعائیں دیں اورنگہت کے پاس جا کر آنکھوں میں آنسو لا دینے والے پیار سے کہا۔ ” چلو بیٹا چلیں۔”

 طلعت پھدک کر اٹھی۔ عزیز کی بیوی نے نگہت کا ایک بازو تھاما ، دوسرا بازو طلعت نے پکڑا۔ اس کو اٹھایا گیا ––شفقت نے دیکھا کہ اس کا نچلا دھڑ بالکل بے جان ہے ––ایک لحظے کے لئے شفقت کا دل و دماغ ساکت ہو گیا جب وہ سنبھلا تو اسے اپنے اندر ایک ٹیس سی اٹھتی محسوس ہوئی۔

 لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں پر ماں اور بہن کا سہارا لئے نگہت غیر یقینی قدم اٹھا رہی تھی۔ اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لیجا کرشفقت اورعائشہ کو آداب عرض کیا۔ کتنا پیارا انداز تھا۔ مگر اس کے ہاتھ نے شفقت کے دل پر جیسے گھونسہ مارا––سارا اسرار اس پر واضح ہو گیا تھا۔ سب سے پہلا خیال اس کے دماغ میں یہ آیا۔ “قدرت کیوں اتنی بے رحم ہے ––ایسی پیاری لڑکی اور اس کے ساتھ اس قدر ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک ––اس معصوم کا آخر گناہ کیا تھا جس کی سزا اتنی کڑی دی گئی ؟”

 سب چلے گئے۔ عائشہ ان کو باہر تک چھوڑنے گئی شفقت ایک فلسفی بن کر سوچتا رہ گیا ، اتنے میں شفقت کے دوست آ گئے اور وہ بھی اپنی بیوی سے نگہت کے بارے میں کوئی بات نہ کرسکا––اپنے دوستوں کے ساتھ تاش کھیلنے میں ایسا مشغول ہوا کہ نگہت اور اس کے روگ کو بھول گیا۔جب رات ہو گئی اور عائشہ نے اسے نوکر کے ذریعے سے کھانے پر بلوایا تو اسے افسوس ہوا کہ اس نے محض ایک کھیل کی خاطر نگہت کو فراموش کر دیا، چنانچہ اس کا ذکر اس نے عائشہ سے بھی کیا ، لیکن اس نے کہا۔” آپ کھانا کھائیے مفصل باتیں پھر ہو جائیں گی ۔”

 میاں بیوی دونوں اکٹھے سوتے تھے۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی وہ کبھی رات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے تھے ، اور ان کی شادی کو قریب قریب چھ برس ہو گئے تھے ، مگر اس دوران میں کوئی بچہ نہ ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ عائشہ میں کچھ قصور ہے جو صرف آپریشن سے دور ہو سکتا ہے، مگر وہ اس سے بہت خائف تھی۔ میاں بیوی بہت پیار محبت کی زندگی گذار رہے تھے۔ ان کے درمیان کوئی رنجش نہیں تھی۔

رات کو وہ اکٹھے لیٹتے۔ حسب معمول جب ایک دوسرے کے ساتھ لیٹے تو شفقت کو نگہت یاد آئی۔ اس نے ایک آہ بھر کر اپنی بیوی سے پوچھا۔” عائشہ ، نگہت بے چاری کو کیا روگ ہے ؟ “

عائشہ نے بھی آہ بھری اور بڑے افسوسناک لہجے میں کہا ۔”تین برس کی ننھی منی بچی تھی کہ تپ محرقہ ہوا۔ نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔”

 شفقت کے دل میں نگہت کے لئے ہمدردی کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوا۔

اس نے اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا اور کہا ۔” عائشہ، خدا کیوں اتنا ظالم ہے ؟ “

عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا ۔شفقت کو دن کے واقعات یاد آنے لگے ۔ جب میں نے اس نے کہا تھا کہ چلو، میں تمہیں البم دکھاتا ہوں تو تم نے میرا ہاتھ اسی لئے دبایا تھا کہ …….”

“ہاں ہاں، اور کیا؟ ––آپ تو بار بار ––”

“خدا کی قسم مجھے معلوم نہیں تھا۔”

 “اس کو اس کا بہت احساس ہے کہ وہ اپاہج ہے۔”

 “تم نے یہ کہا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوا ہے کہ میرے سینے میں کسی نے تیر مارا ہے۔”

“جب وہ آئی ، تو  خدا کی قسم مجھے بہت دکھ ہوا––بے چاری کو پیشاب کرنا تھا۔ماں اور چھوٹی بہن ساتھ گئیں۔ازاربند کھولا––پھر بند کیا––کتنی خوبصورت ہے––بیٹھی ہو……..”

“تو خدا کی قسم بالکل پتا نہیں چلتا کہ فالج زدہ ہے۔”

“بڑی ذہین لڑکی ہے۔”

“اچھا؟”

” ماں کہتی تھی کہ اس نے کہا تھا کہ امی جان میں شادی نہیں کروں گی کنواری رہوں گی !”

شفقت تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے انتہائی دکھ محسوس کرتے ہوئے کہا ۔” تو اس کو اس بات کا احساس ہے کہ اس سے شادی کرنے کے لئے کوئی رضامند نہیں ہو گا ۔”

عائشہ نے شفقت کی چھاتی کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہا––” شفقت صاحب کون شادی کرے گا ایک اپاہیج سے ؟ “

نہیں نہیں ایسا نہ کہو عائشہ !”

“اتنی بڑی قربانی کون کر سکتا ہے شفقت صاحب ؟“

“تم ٹھیک کہتی ہو۔”

 “خوبصورت ہے ، اچھے کھاتے پیتے ماں باپ کی لڑکی ہے ––سب ٹھیک ہے ، مگر ……”

“میں سمجھتا ہوں––لیکن ––”

“مردوں کے دل میں رحم کہاں ؟”

شفقت نے کروٹ بدلی ۔” ایسا نہ کہو، عائشہ “

 عائشہ نے بھی کروٹ بدلی۔ دونوں  رو برو ہو گئے ۔” “میں سب جانتی ہوں کوئی ایسا مرد ڈھونڈیئے جو اس بیچاری سے شادی کرنے پر آمادہ ہو۔“

“مجھے معلوم نہیں، لیکن ––”

“بڑی بہن ہے، غریب کو کتنا بڑا دکھ ہے کہ اس کی چھوٹی بہن کی شادی کی بات چیت ہورہی ہے ۔”

“صحیح کہتی ہو تم !”

 عائشہ نے ایک لمبی آہ بھری ” کیا بے چاری اسی طرح ساری عمر کڑهتی رہے گی۔”

“نہیں!”یہ کہ کر شفقت اٹھ کر بیٹھ گیا۔

عائشہ نے پوچھا۔”کیا مطلب؟”

“تمہیں اس سے ہمدردی ہے؟”

“کیوں نہیں ؟ “

“خدا کی قسم کھا کر کہوں۔”

“ہائے، یہ بھی کوئی قسم کھلوانے کی بات ہے، ہر انسان کو اس سے ہمدردی ہونی چاہیئے ۔”

شفقت نے چند لمحات خاموش رہنے کے بعد کہا ۔ “تو میں نے ایک بات سوچی ہے ؟“

عائشہ نے خوش ہو کر کہا ” کیا ؟ “

“مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ہے کہ تم بہت بلند خیال عورت ہو۔ آج تم نے میرے اس خیال کو ثابت کر دیا ہے  ––میں نے  ––خدا میرے اس ارادے کو استقامت بخشے ––میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ میں نگہت سے شادی کرلوں گا––سارا ثواب تمہیں ملے گا ۔”

 تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر ایک دم جیسے گولہ سا پھٹا “شفقت صاحب میں گولی مار دوں گی اُسے اگر آپ نے اس سے شادی کی !”

 شفقت نے ایسا محسوس کیا کہ اسے زبردست گولی لگی ہے اور وہ مرکر اپنی بیوی کی آغوش میں دفن ہو گیا ہے ۔

۔23ِجولائی 1950ء

*گولی*گولی*گولی*

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks