پیش خدمت ہے سعادت حسن منٹو کے مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل تیسرا افسانہ “رحمتِ خداوندی کے پھول”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
رحمتِ خداوندی کے پھول
سعادت حسن منٹو
‘زمیندار ‘اخبار میں جب ڈاکٹر راتھر پر رحمت خدا وندی کے پھول برستے تھے تو یار دوستوں نے غلام رسول کا نام ڈاکٹر راتھر رکھ دیا تھا ۔ معلوم نہیں کیوں، اس لئے کہ غلام رسول کو ڈاکٹر راتھر سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایم۔بی ۔ بی ۔ ایس ۔میں تین بار فیل ہو چکا تھا مگر کہاں ڈاکٹر راتھر کہاں غلام رسول۔
ڈاکٹر راتھر ایک اشتہاری ڈاکٹر تھا جو اشتہاروں کے ذریعے سے قوت مردمی کی دوائیں بیچتا تھا۔ خدا اور اس کے رسول کی قسمیں کھا کھا کر اپنی دواؤں کو مجرب بتاتا تھا اور یوں سیکڑوں روپے کماتا تھا۔ غلام رسول کو ایسی دواؤں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ شادی شدہ تھا، اور اس کو قوت مردمی بڑھانے والی چیزوں کی کوئی حاجت نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کے یار دوست اس کو ڈاکٹر را تھر ہی کہتے تھے ۔ اس کا یا کلپ کو اُس نے تسلیم کر لیا تھا۔اس لیے کہ اُس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔اُس کے دوستوں کو یہ نام پسند آ گیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ غلام رسول کے مقابلے میں ڈاکٹر راتھر کہیں زیادہ موڈرن ہے۔
اب غلام رسول کو ڈاکٹر راتھر ہی کے نام سے یاد کیا جائیگا۔ اس لیے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے۔
ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں ۔سب سے بڑی خوبی اس میں یہ تھی کہ وہ ڈاکٹر نہیں تھا اور نہ بننا چا ہتا تھا ۔ وہ ایک اطاعت مند بیٹے کی طرح اپنے ماں باپ کی خواہش کے مطابق میڈیکل کالج میں پڑھا تھا۔ اتنے عرصے سے کہ اب کالج کی عمارت اس کی زندگی کا ایک جزو بن گئی تھی۔ وہ یہ سمجھنے لگا تھا کہ کالج اس کے کسی بزرگ کا گھر ہے جہاں اس کو ہر روز سلام عرض کرنے کے لئے جانا پڑتا ہے ۔
اس کے والدین مصر تھے کہ وہ ڈاکٹری پاس کرے ۔ اس کے والد کو یقین تھا کہ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر کی صلاحیتیں رکھتا ہے، اپنے بڑے لڑکے کے متعلق مولوی صباح الدین نے اپنی بیوی سے پیشیں گوئی کی تھی کہ وہ بیرسٹر ہو گا ، چنانچہ جب اس کو ایل ۔ ایل ۔بی ۔ پاس کراکے لندن بھیجا گیا تو وہ بیرسٹربن کر ہی آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی پریکٹس دوسرے بیرسٹروں کے مقابلے میں بہت ہی کم تھی ۔
گو ڈاکٹر راتھر تین مرتبہ ایم۔ بی ۔بی ۔ایس ۔ کے امتحان میں فیل ہو چکا تھا ، مگر اس کے باپ کو یقین تھا کہ وہ انجام کار بہت بڑا ڈاکٹر بنے گا اور ڈاکٹر راتھر اپنے باپ کااس قدر فرماں بردار تھا کہ اس کو بھی یقین تھا کہ ایک روز وہ لندن کے ہارلے اسٹریٹ میں بیٹھا ہوگا اور اس کی ساری دنیا میں دھوم مچی ہو گی۔
ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ سادہ لوح تھا ۔ لیکن سب سے بڑی برائی اس میں یہ تھی کہ پیتا تھا اور اکیلا پیتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس نے بہت کوشش کی کہ اپنے ساتھ کسی اور کو نہ ملائے لیکن یار دوستوں نے اس کو تنگ کرنا شرو ع کر دیا۔ ان کو اس کا ٹھکانہ معلوم ہو گیا۔ ‘سیوائے بار’ میں شام کو سات بجے پہنچ جاتے مجبوراً ڈاکٹر راتھر کو انہیں اپنے ساتھ پلا نا پڑتی۔ یہ لوگ اس کا گن گاتے ، اس کے مستقبل کے متعلق بڑی حوصلہ افزا باتیں کرتے ۔ راتھر نشے کی ترنگ میں بہت خوش ہوتا اور اپنی جیب خالی کر دیتا۔
پانچ مہینے اسی طرح گذر گئے۔ اس کو اپنے باپ سے دوسو روپیے ماہوار ملتے تھے۔ رہتا الگ تھا۔ مکان کا کرایہ بیس روپے ماہا نہ تھا۔ دن اچھے تھے ۔ ورنہ راتھرکی بیوی کو فاقے کھینچنے پڑتے لیکن پھر بھی اس کا ہاتھ تنگ ہو گیا اس لئے کہ راتھر کو دوسروں کوپلانا پڑتی تھی۔
ان دنوں شراب بہت سستی تھی۔ آٹھ روپے کی ایک بوتل۔ ادھا چار روپے آٹھ آنے میں ملتا تھا۔ مگر ہر روز ایک ادھا لینا ، یہ تو ڈاکٹر راتھر کی بساط سے باہر تھا اس نے سوچا کہ گھر میں پیا کرے ، مگر یہ کیسے ممکن تھا۔ اس کی بیوی فوراً طلاق لےلیتی اس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا خاوند شراب کا عادی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کو شرابیوں سے سخت نفرت تھی ، نفرت ہی نہیں ان سے بہت خوف آتا تھا۔ کسی کی سرخ آنکھیں دیکھتی تو ڈر جاتی ، ہائے ، ڈاکٹر صاحب، کتنی ڈراونی آنکھیں تھی اُس آدمی کی –––ایسا لگتا تھا کہ شرابی ہے۔
اور تو ڈاکٹر راتھر دل ہی دل میں سوچتا کہ اس کی آنکھیں کیسی ہیں ، کیا پی کرآنکھوں میں سرخ ڈورے آتے ہیں ؟ کیا اس کی بیوی کو اس کی آنکھیں ابھی تک سرخ نظر نہیں آئیں؟ کب تک اس کا راز، راز رہے گا ؟ منہ سے بو تو ضرور آتی ہو گی، کیا وجہ ہے کہ اس کی بیوی نے کبھی نہیں سونگھی۔ پھر وہ یہ سوچتا ”نہیں” میں بہت احتیاط برتتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ منہ پرے کرکے اس سے بات کی ہے۔ ایک دفعہ اس نے پوچھا تھا کہ آپ کی آنکھیں آج سرخ کیوں ہیں تو میں نے اس سے کہا تھا ، دھول پڑ گئی ہے۔ اسی طرح ایک بار اس نے دریافت کیا تھا ، یہ بوکیسی ہے تو میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا ، آج سیگار پیا تھا–––بہت بُو ہوتی ہے کمبخت میں۔
ڈاکٹر راتھر اکیلا پینے کا عادی تھا۔ اس کو ساتھی نہیں چاہیئے تھے۔ وہ کنجوس تھا۔ اس کے علاوہ اس کی جیب بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ دوستوں کو بلائے اس نے بہت سوچا کہ ایسی ترکیب کیا ہو سکتی ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی یہ مسئلہ کچھ اس طرح حل ہو کہ وہ گھر میں پیا کرے جہاں اس کے دوستوں کو شرکت کرنے کی جرات نہیں ہوسکتی تھی۔
ڈاکٹر راتھر پورا ڈاکٹر تو نہیں تھا لیکن اس کو ڈاکٹری کی چند چیزوں کا علم ضرور تھا۔ وہ اتنا جانتا تھا کہ دوائیں بوتلوں میں ڈال کر دی جاتی ہیں۔ اور ان پر اکثر یہ لکھا ہوتا ہے۔ ” شیک دی بوٹل بی فور یوز۔” اس نے اتنے علم پہ اپنی ترکیب کی دیواریں استوار کیں۔ آخر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نے یہ سوچا کہ وہ گھرہی میں پیا کرے گا۔ سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ وہ دوا کی بوتل میں شراب ڈلوا کر گھر رکھ دے گا۔ بیوی سے کہے گا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اس کے استاد ڈاکٹرسید رمضان علی شاہ نے اپنے ہاتھ سے یہ نُسخہ دیا ہے اور کہا ہے ۔ کہ شام کو ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک خوراک پانی کے ساتھ پیا کرے ان شاء اللہ شفاء ہو جائےگی۔
یہ ترکیب تلاش کر لینے پر ڈاکٹر راتھر بے حد خوش ہوا۔ اپنی زندگی میں پہلی بار اُس نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے ایک نیا امریکا دریافت کر لیا ہے، چنانچہ صبح سویرے اٹھ کر اس نے اپنی بیوی سے کہا یہ نسیمہ آج میرے سر میں بڑا درد ہو رہا ہے––– ایسا لگتا ہے پھٹ جائے گا ۔
نسیمہ نے بڑے تردّد سے کہا ۔”کالج نہ جائے آج۔”
ڈاکٹر راتھر مسکرایا۔ “پگلی،آج تو مجھے ضرور جانا چاہئے –––ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ صاحب سے پوچھوں گا ۔ ان کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے۔ “
“ہاں ہاں، ضرور جائے میرے متعلق بھی ان سے بات کیجئے گا ۔”
نسیمہ کو سیلان الر حم کی شکایت تھی۔ جس سے ڈاکٹرا راتھرکو کوئی دلچسپی نہیں تھی، مگر اس نے کہا۔ ہاں ہاں بات کروں گا ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ میرے لئے کوئی نہا یت ہی کڑوی اور بدبودار دوا تجویز کردیں گے۔
“آپ خود ڈاکٹر ہیں، دوائیں مٹھائیاں تو نہیں ہوتیں۔”
“ٹھیک ہے لیکن بدبو دار دواؤں سے مجھے نفرت ہے۔ “
“آپ دیکھئے تو سہی کیسی دوا دیتے ہیں۔ ابھی سے کیوں ایسی رائے قائم کر رہے ہیں آپ ۔؟ “
“اچّھا” کہہ کر ڈاکٹر راتھر اپنے سرکو دباتا کالج چلا گیا ۔ شام کو وہ دوا کی بوتل میں وسکی ڈلوا کر لے آیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ ضرور کوئی ایسی دوا لکھ کر دیں گے جو بے حد کڑوی اور بد بودار ہوگی–––لو ذرا اسے سونگھو۔ بوتل کا کارک اتار کراس نے بوتل کا منہ اپنی بیوی کی ناک کے ساتھ لگا دیا۔ اس نے سونگھا اور ایک دم ناک ہٹا کر کہا ۔ “بہت واہیات سی بُو ہے۔”
“اب ایسی دوا کون پیئے ؟ “
“نہیں نہیں –––آپ ضرور پئیں گے –––سر کا درد کیسے دور ہوگا ۔ “
“ہو جائے گا اپنے آپ۔“
اپنے آپ کیسے دور ہو گا۔ یہی تو آپ کی بری عادت ہے۔ دوا لاتے ہیں مگر استعمال نہیں کرتے۔
“یہ بھی کوئی دوا ہے –––ایسا لگتا ہے جیسے شراب ہے۔”
“آپ تو جانتے ہی ہیں کہ انگریزی دواؤں میں شراب ہوا کرتی ہے ۔”
“لعنت ہے ایسی دواؤں پر۔ “
ڈاکٹر را تھر کی بیوی نے خوراک کے نشان دیکھے اور حیرت سے کہا یہ اتنی بڑی خوراک ! “
ڈاکٹر راتھر نے برا سا منہ بنایا ۔” یہی تو مصیبت ہے !“
“آپ مصیبت مصیبت نہ کہیں اللہ کا نام لے کر پہلی خوراک پئیں–––پانی کتنا ڈالنا ہے۔؟
ڈاکٹر راتھر نے بوتل اپنی بیوی کے ہاتھ سے لی اور مصنوعی طور پر با دل نا خواستہ کہا۔” سوڈامنگوانا پڑے گا–––عجیب و غریب دوا ہے –––پانی نہیں سوڈا !
یہ سن کرنسیمہ نے کہا ۔”سوڈا اس لئے کہا ہوگا کہ آپ کا معدہ خراب ہے۔”
“خدا معلوم کیا خراب ہے ۔” یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے ایک خوراک گلاس میں ڈالی۔ “بھئی خدا کی قسم میں نہیں پیوں گا۔ “
بیوی نے بڑے پیار سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا ۔ “نہیں نہیں “–––پی جائے –––ناک بند کرلیجیے–––میں اسی طرح فیورمکسچر پیا کر تی ہوں۔
ڈاکٹر راتھر نے بڑے نخروں کے ساتھ شام کا پہلا پگ پیا۔ بیوی نے اس کوشاباشی دی اور کہا ‘ پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک ۔ خدا کے فضل و کرم سے درد یوں چٹکیوں میں دور ہو جائے گا۔
ڈاکٹر راتھر نے سارا ڈھونگ کچھ ایسے خلوص سے رچایا تھا کہ اس کو محسوس ہی نہیں ہواکہ اس نے دوا کے بجائے شراب پی ہے۔ لیکن جب ہلکا سا سرور اس کے دماغ میں نمودار ہوا تو وہ دل ہی دل میں خوب ہنسا ۔ ترکیب خوب تھی۔ اس کی بیوی نے عین پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک گلاس میں انڈیلی۔ اس میں سوڈا ڈالا اور ڈاکٹر راتھر کے پاس لے آئی۔ یہ لیجئے دوسری خوراک کوئی ایسی بری بُو تو نہیں ہے ۔
ڈاکٹر راتھر نے گلاس پکڑ کر بڑی بددلی سے کہا، تمہیں پینا پڑے تو معلوم ہو۔ خدا کی قسم شراب کی سی بُو ہے ۔ ذرا سونگھ کر تو دیکھو !
“آپ تو بالکل میری طرح ضد کرتے ہیں۔”
“نسیمہ خدا کی قسم ضد نہیں کرتا –––ضد کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن خیر ٹھیک ہے۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے گلاس منہ سے لگایا اور شام کا دوسرا پگ غٹا غٹ چڑھا گیا۔
تین خوراکیں ختم ہوگئیں۔ ڈاکٹرا تھر نے کسی قد را فاقہ محسوس کیا لیکن دوسرے روز سر میں درد عو د کر آیا۔ ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی سے کہا۔ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ مرض آہستہ آہستہ دور ہو گا ، لیکن دوا کا استعمال برابر جاری رہنا چاہیے۔خدا معلوم کیا نام لیا تھا انہوں نے بیماری کا –––کہا تھا معمولی سر کا درد ہوتا تو دو خوراکوں ہی سے دور ہوجاتا۔ مگر تمہارا کیس ذرا سیریس ہے۔
یہ سن کر نسیمہ نے تردّد سے کہا ۔ “تو آپ کو دوا اب باقاعدہ پینی پڑے گی۔”
میں نہیں جانتا۔ تم وقت پر دے دیا کرو گی تو قہر درویش بر جانِ درویش پی لیا کروں گا۔
نسیمہ نے ایک خوراک سوڈے میں حل کرکے اس کو دی۔ اُس کی بُوناک میں گھسی تو متلی آنے لگی مگر اس نے اپنے خاوند پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔ کیوں کہ اس کو ڈر تھا کہ وہ پینے سے انکار کردے گا۔
ڈاکٹر راتھر نے تین خوراکیں اپنی بیوی کے بڑے اصرار پر پیں۔ وہ بہت خوش تھی کہ اس کا خاوند اس کا کہا مان رہا ہے کیونکہ بیوی کی بات ماننے کے معاملے میں ڈاکٹر بہت بد نام تھا۔
کئی دن گذر گئے۔ خوراکیں پینے اور پلانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ ڈاکٹر راتھر بڑا مسرور تھا کہ اس کی ترکیب سود مند ثابت ہوئی۔ اب اسے دوستوں کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ ہرشام گھر میں میسر ہوتی۔ ایک خوراک پیتا اورلیٹ کر کوئی افسانہ پڑھنا شروع کر دیتا۔ دوسری خوراک عین پندرہ منٹ کے بعد اس کی بیوی تیار کر کے لے آتی۔ اسی طرح تیسری خوراک اس کو بن مانگے مل جاتی –––ڈاکٹر راتھر بے حد مطمئن تھا۔ اتنے دن گذر جانے پر اس کے اور اس کی بیوی کے لئے یہ دوا کا سلسلہ ایک معمول ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر راتھر اب ایک پوری بوتل لے آیا تھا۔ اس کا لیبل وغیرہ اتار کر اس نے اپنی بیوی سے کہا تھا ۔ کیمسٹ میرا دوست ہے ۔ اس نے مجھ سے کہا۔ آپ ہر روز تین خوراکیں لیتے ہیں دوا آپ کو یوں مہنگی پڑتی ہے۔ پوری بوتل لے جائیے۔ اس میں سے چھوٹی نشانوں والی بوتل میں ہر روز تین خوراکیں ڈال لیا کیجئے –––بہت سستی پڑے گی اس طرح آپ کو یہ دوا۔
یہ سن کر نسیمہ کو خوشی ہوئی کہ چلو بچت ہوگئی۔ ڈاکٹر راتھر بھی خوش تھا کہ اس کے کچھ پیسے بچ گئے ، کیونکہ روزنہ تین پگ لینے میں اسے زیادہ دام دینے پڑتے تھے اور بوتل آٹھ روپوں میں مل جاتی تھی ۔
کالج سے فارغ ہو کر ڈاکٹر راتھر ایک دن گھر آیا تو اس کی بیوی لیٹی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر راتھر نے اس سے کہا۔ ” نسیمہ کھانا نکالو بہت بھوک لگی ہے ۔ “
نسیمہ نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا ۔”کھانا –––کیا آپ کھانا کھا نہیں چکے”
“نہیں تو “
“نسیمہ نے ایک لمبی ‘نہیں’ کہی۔ “آپ –––کھانا کھا چکے ہیں –––میں نےآپ کو دیا تھا ۔”
ڈاکٹرراتھر نے حیرت سے کہا۔ ” کب دیا تھا۔ میں ابھی ابھی کا لج سے آرہا ہوں”
نسیمہ نے ایک جمائی لی ” جھوٹ ہے ۔۔۔۔۔ آپ کالج تو گئے ہی نہیں۔”
ڈاکٹر راتھرنے سمجھا نسیمہ مذاق کر رہی ہے چنانچہ مسکرایا اٹھو چلو کھانا نکالو سخت بھوک لگی ہے ۔
نسیمہ نے ایک اور لمبی “نہیں”کہی ۔ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔”
“کب؟ –––حد ہو گئی ہے–––چلو اٹھو، مذاق نہ کرو۔” یہ کہہ کر ڈاکٹر را تھر نے اپنی بیوی کا بازو پکڑا۔” خدا کی قسم میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔”
نسیمہ کھلکھلا کر ہنسی۔ “چوہے –––آپ یہ چوہے کیوں نہیں کھاتے ؟”
ڈاکٹر راتھر نے بڑے تعجب سے پوچھا۔ “کیا ہوگیا ہے تمہیں“
نسیمہ نے سنجیدگی اختیار کر کے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے خاوندسے کہا میں–––میں –––سرمیں درد تھامیرے –––آپ کی دوا کی دوخو –––خو –––خوراکیں پی ہیں –––چوہے –––چوہے بہت ستاتے ہیں–––ان کو مارنے والی گولیاں لے آیئے –––کھانا ؟ –––نکالتی ہوں کھانا ۔”
ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی سے صرف اتنا کہا۔ “تم سوجاؤ، میں کھانا کھا چکا ہوں۔”
نسیمہ زورسے ہنسی“ میں نے جھوٹ تو نہیں کہا تھا۔”
ڈاکٹر راتھر نے جب دوسرے کمرے میں جا کرمضطرب حالت میں زمیندار کا تازہ پرچہ کھولا تو اس کو ایک خبر کی سرخی نظر آئی۔ ڈاکٹر راتھر پر رحمت خداوندی کے پھول۔” اس کے نیچے یہ درج تھا کہ پولیس نے اس کو دھوکا دہی کے سلسلے میں گرفتار کر لیا ہے۔
غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر نے یہ خبر پڑھ کر یوں محسوس کیا کہ اس پر رحمت خدا وندی کے پھول برس رہے ہیں۔
۲۵جولائی ۱۹۵۰