دیوانِ غالب
ردیف “الف” کی ابتدائی پانچ غزلیں
Diwan e Ghalib: Radeef Alif ki ibtedai 5 Ghazlen
پہلی غزل
یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ تحریر، تصویر، شیر، شمشیر، تقریر، زنجیر، اور ردیف “کا “ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیار ِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بس کہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
اس کے دو شعر دیکھتے ہیں:
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا | کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر ِتصویر کا |
نقش کس کی شوخیِٔ تحریر کا فریادی ہے کہ | جو صورتِ تصویر ہے، اس کا پیرہن کاغذی ہے۔ |
نقش:اسکیچ، شکل ، صورت
فریادی:فریاد کرنے والا
شوخیِ تحریر:تحریر کی شوخی. تحریر کی خوبصورتی
کاغذی: نفیس , باریک , مہین.
پیرہن: لباس
پیکرِ تصویر: تصویرمیں موجود پیکر
یہ شعرِ مطلع، سرِدیوانِ غالبؔ ہے۔ اس میں ”نقش“ کی شِین زیر کے بغیر ہے۔ چوں کہ وزن فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلن ہے، اس لئے بھی بعضے اس شین کو حرکت کے ساتھ پڑھ جاتے ہیں، اور تقطیع میں ایسے ہی ہے۔
”عودِ ہندی“ میں جناب عبد الرزاق شاکرؔ گورکھپوری کے نام غالبؔ کے 10 خطوط نقل ہیں۔ اس کے آٹھویں اور مولانا غلام رسول مہر کے مرتبہ مجموعۂِ خطوط کے چوتھے خط میں غالبؔ لکھتے ہیں :
“حضرت،مطالبِ علمی و شعری کا لکھنا موقوف سوال پر ہے۔ جب حضور کی طرف سے کوئی سوال آئے گا بقدر اپنے معلوم کے جواب لکھا جائے گا۔ “
اس کے بعد اسی خط میں ایک شعر کی تشریح درج کی ہے۔ وہ تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے، جیسےمَشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا کر لے جانا۔ بس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخیِٔ تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے، اس کا پیرہن کاغذی ہے؟ یعنی ہستی اگرچہ مثلِ تصاویر اعتبار محض ہو، موجبِ رنج و ملال و آزار ہے۔ “
شرح اول: تصویر فریادکناں ہے کہ اس کے مصور نے اگرچہ اسے شوخ بنایا مگر کیا فائدہ کہ جب کاغذی پیرہن ہے اور ناپائیدار ہے! احسن علی خاں کے حوالے سے اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نوحہ کنائی کی وجہ تصویر کا شکوہ ہے کہ جب مصور اس میں روح نہیں پھونک سکتا تو پھر اس کاغذی وجود کا کیا فائدہ؟ یہ شعر کے حسی معنی ہیں۔
شرح دوم: مجازی و صوفیانہ معنوں میں نقش کو مخلوقات، اس نقش کے بنانے والے کو خالق، اور کاغذی پیرہن کو مخلوقات کی ناپائیداری خیال کریں تو مطلب یہ ہے کہ ہر مخلوق کی رنگینی و رعنائی بزبانِ حال اپنے خالق سے اپنی بے ثباتی کا شکوہ کرتی ہے۔ مخلوقات کی شوخی کا بتا کر غالبؔ نے اپنے دیوان کا آغاز حمدیہ کیا ہے۔ اس میں شکوہ کا پہلو نکالنا غالب کی اپج ہے۔
کون سی چیز ہے جس کو فنا نہیں، اور فنا کی کس صورت پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا! سو سَوسَو مطالب اس ایک شعر سے نکلتے ہیں۔
کاوکاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ | صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا |
نہ پوچھ تنہائی کے سخت جانی ہائے (پہاڑوں) کو کریدنا | شام کا صبح کرنا جوئے شیر کا لانا ہے |
کاؤ کاؤ:کھودنا
کاویدن، فارسی زبان کا مصدر ہے جس کا مطلب ہے زمین کھودنا۔ اس سے مراد آہستہ آہستہ زمین کھودناہے۔جلدی جلدی کھودنے والے عمل کو ”کندن“ کہا جاتا ہے،جیسا کہ فارسی کی مشہور مثل ہے ”کوہ کندن و کاہبرآوردن“ …. جس کا اردو ترجمہ ہے: کھودا پہاڑا اور نکلا چوہا۔ کاویدن کا حاصل مصدر ”کاوش“ ہے جو اردو زبان میں کوشش کا ہم معنی لفظ ہے یعنی کوشش و کاوش گویا دو جڑواں عمل ہیں۔شاعر نے ”کاوِکاوِ“ کو حاصل مصدر کے طور پر استعمال کیا ہے اور تکرارِ ”کاو“ سے مراد یہ لی ہے کہ کھودتے چلے جانا…. مسلسل کھودنا وغیرہ
دوسرا لفظ ”سخت جانی“ہے۔غالب نے سخت جانی کو بطور ایکنقشِ زمینی(Ground Feature)کے استعمال کیاہے۔گویا سخت جانی ایک ٹیلہ یا ایک پہاڑی ہے جس کو کھودنا، کارِ دشوار ہے۔ ”سخت جانیہائے“ صیغہءجمع ہے جس کا مرادی معنی پہاڑیاںیا ٹیلے لیا جا سکتا ہے۔
(جوئے شیر:دودھ کی نہر )کہتے ہیں فرہاد نے شیریں کے لئے نہر کھودی جس میں بکریوں کا دودھ ڈالتے تھے جو بہہ کر محل میں جاتا تھا
شرح اول: شب ہائے ہجر کا کاٹنا ویسا ہی سخت ہے جیسا کہ فرہاد کے لیے جوئے شیرلاناتھا، صبح کی سپیدی اور جوئے شیر میں جو مشابہت ہے وہ ظاہر ہے۔ کاؤ کاؤ سے کاوش و کاہش مراد ہے۔
اس شعر میں شاعر نے خود کو کوہ کن اور اپنی سخت جانی کو کوہ کنی، شب ہجر کو پہاڑ اور سپیدۂ صبح کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے ۔
دوسری غزل
یہ صرف ایک شعر کی غزل ہے۔
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داگِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسدؔ! غمخوارِ جانِ درد مند آیا
تیسری غزل
یہ غزل چھ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ حسود، دود، سود، بود، وجود، قیود اور ردیف “تھا” ہے
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا
اس کے ایک شعر کی تشریح دیکھتے ہیں۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ | جب آنکھ کھُل گئی، نہ زیاں تھا ، نہ سود تھا |
خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ تھا | جب آنکھ کھُل گئی نہ زیاں تھا، نہ سود تھا |
زیاں:ضرر، نقصان
سود: نفع، فائدہ
*تشریح:* خواب میں خیال کو تجھ سے یعنی محبوب سے یا کسی اور سے بھی معاملہ تھا مثلاً وصالِ یار کے لیے تڑپتے عاشق نے وصل کا خواب دیکھ کر انتہائی درجے کی خوشی کا احساس کیایا کسی غم ناک بات کو دیکھ کر رنجور و افسردہ ہوا لیکن جیسے ہی آنکھ کھلی نہ کوئی خوشی تھی نہ کوئی غم تھا.
شعر میں رعایتِ لفظی کمال کی ہے خواب، آنکھ، معاملہ، سود و زیاں وغیرہ
شعر کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کی زندگی ایک خواب کی طرح تھی اور اس میں سود و زیاں کے بے شمار معاملات تھے لیکن جیسے دنیا سے رخصت ہوئے دنیا کی حقیقت واضح ہوگئی اب نہ کوئی منافع ہاتھ لگا نہ کوئی نقصان. سب کچھ یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ جانا پڑا.
چوتھی غزل
یہ غزل سات اشعار پر مشتمل ہے، اس میں حسن مطلع بھی ہے، قافیہ پڑا، مدّعا، مزا، دوا، رسَا، آزما، ہوا، بارہا، مزا اور ردیف “پایا” ہے۔
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
دوست دارِ دشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا | دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا |
کہتےہو اگر دل پڑا پایا تو نہ دیں گے | دل کہاں کہ گم کیجےہم نے مدعا پایا |
تشریح: ہم نے مدعا پایا یعنی ہم آپ کا مطلب سمجھ گئے کہ آپ نے ہمارا دل پالیا ہے اور یہ باتیں کہ “اگر ہم تیرا دل پائیں گے تو نہ دیں گے وہ پالینے کے بعد کی ہیں یعنی جیسے لوگ کوئی گم شدہ چیز پا کر چھیڑنے کے لیے مالک سے کہا کرتے ہیں۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا | درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا |
طبیعت نے عشق سے زیست کا مزا پایا | درد کی دوا پائیبے دوا درد پایا |
زیست: زندگی
تشریح: عشق ایک درد لا دوا ہے لیکن وہی عشق درد زیست کی دوا بھی ہے کیوں کہ اسی سے طبیعت نے زندگی کا مزاپایا۔
پانچویں غزل
یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ محابا، گویا، تھا، عنقا، صحرا، فرما، دنیا ہے اور ردیف “جل گیا” ہے۔
دل مرا ، سوز نہاں سے ، بے محابا جل گیا
آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا
دل میں ، ذوق ِوصل و یادِ یار تک ، باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل! بارہا
میری آہ آتشیں سے بال عنقا جل گیا
عرض کیجے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں!
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کار فرما جل گیا
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو ، غالبؔ! کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاک اہل دنیا جل گیا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا | آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا |
مرا دل سوز نہاں سے بے محابا جل گیا | گویاآتش خاموش کی مانند جل گیا |
سوز:جلن، تپش، غم ، سوزش، رنج
نہاں: مخفی، پوشیدہ، پنہاں
بے محابا: بلاتامل، بے دھڑک، بے خوف، بے جھجھک
تشریح: مرا دل اچانک پوشیدہ تپش سے جل گیا اور اس طرح چپکے چپکے جلا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی۔
عرض کیجے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں | کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا |
عرض کیجے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں | وحشت کا کچھ خیال آیا تھا کہ صحرا جل گیا |
تشریح: اندیشہ کے جوہر کی گرمی کا بیان یہ ہے کہ وحشت کا خیال آیا تھا کہ اس کے اثر سے صحراجل گیا۔ یعنی چوں کہ وحشت کی حالت میں صحرا نوردی کی نوبت ضرور آتی اس لیے خیال ِ وحشت سے صحرا جلنے لگا۔
صنعت مبالغہ:مبالغہ سے مراد عقل کی حدود سے الفاظ کا تجاوز کر جانا۔(معجم الغنی)
اِصطلاح میں کسی چیز کے لیے اس کے حق سے زائد توصیف و تعریف کرنا“(التلخیص البلاغۃ)
مبالغہ کی تین اقسام ہیں:
ا) تبلیغ: وہ بات جو ازرُوئے عقل و عادت ممکن ہو، مثلاً :
دل کے نالوں سے جِگَردُکھنے لگا
یاں تلک روئے کہ سَردُکھنےگا
(انشا)
دونوں باتیں ازرُوئے عقل و عادت ممکن معلوم ہوتی ہیں:
ب) اغراق
کسی وصف کو باعتبار عقل ممکن لیکن باعتبار عادت محال بلندی تک پہنچا دینا۔
ج) غُلُوّ
وصف کی آخری حد یعنی محالِ محض یعنی عقلاً و عادۃً ناممکن و محال امر، مثلاً :
پیدا نہ ہو زمیں سے نیا آسماں کوئی
دل کانپتا ہے آپ کی رفتار دیکھ کر
Diwan e Ghalib: Radeef Alif ki ibtedai 5 Ghazlen
*****