Diwan e Ghalib: Radeef Ra ki ibtedai 5 Ghazlen

دیوانِ غالب

ردیف "ر” کی ابتدائی پانچ غزلیں

Diwan e Ghalib: Radeef Ra ki ibtedai 5 Ghazlen

پہلی غزل

یہ "ر ” ردیف کی پہلی غزل ہے، یہ دس اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ نظر، پر، در، پیشتر،ہر، نظر، پر، پر،کر، بسر، مگر ہے اور ردیف درو دیوار ہے۔

بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار

نگاہ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

وفور اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ

کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار

نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید ِمقدم ِ یار

گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

ہوئی ہے کس قدر ارزانی مےِ جلوہ

کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

جو ہے تجھے سر سوداے انتظار تو آ

کہ ہیں دکان متاع نظر در و دیوار

ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے؟

کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

وہ آ رہا مرے ہمسایہ میں تو سایے سے

ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار

نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی

ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

نہ پوچھ بے خودی عیش مقدم سیلاب

کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار

نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ! نہیں زمانے میں

حریف راز محبت مگر در و دیوار

Diwan e Ghalib: Radeef Ra ki ibtedai 5 Ghazlen

دوسری غزل

یہ غزل نو اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ در، گھر، کر، ستمگر، پر، کافر، خنجر، ساغر، مکرّر، پر اور ردیف "کہے بغیر” ہے۔

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر

جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن

جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم

سر جائے یا رہے نہ رہیں پر کہے بغیر

نثر:ہمارے جی میں ہی کچھ نہیں ہے ورنہ ہم کہے بغیر نہ رہیں خواہ سر جائے یا رہے

چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا

چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام

چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

نثر: ہر چند مشاہدۂ حق کی گفتگو ہو؛ بادہ و ساغر کہے بغیر نہیں بنتی ہے

ہرچند:کتنا ہی، جس قدر، بہترا

بادہ : مے، شراب

ساغر:جام، پیالہ، شراب کا پیالہ

ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

بہرا ہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات

سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض

Diwan e Ghalib: Radeef Ra ki ibtedai 5 Ghazlen

تیسری غزل

یہ غزل بارہ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ یار، دیدار، بار، آزار، تلوار، رفتار، آزار، خریدار، ہموار، پرخار، زنگار، خوار، دیوار اور ردیف "دیکھ کر” ہے۔

کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

نثر: تابِ رخِ یار دیکھ کر جل کیوں نہ گیا، اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر جلتا ہوں

تاب: چمک، تپش

صنعت اشتقاق : جب کلام میں ایک اصل کے چند لفظ لائے جائیں اور ان لفظوں میں اصل لفظ کے حروف کی ترتیب بھی قائم رہے اور اصل میں جو معنی ہیں اس سے بھی موافقت ہو تو اسے صنعت اشتقاق کہتے ہیں۔

آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے

سرگرم نالہ ہائے شرربار دیکھ کر

نثر: سرگرم نالہ ہائےشرربار دیکھ کر اہل جہاں مجھے آتش پرست کہتے ہیں

شرر: شرار کا مخفف، چنگاری

شرربار: چنگاری برسانے والا

تشریح: اپنے ذوق نالہ کشی کو ارادت آتش پرست سے تشبیہ دی ہے یعنی جس ارادت سے وہ آگ کی پرستش میں مشغول ہوتا ہے ، اُسی ذوق و شوق سے میں نالہ آتشیں کرنے میں سرگرم رہتا ہوں۔

کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا

رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

آتا ہے میرے قتل کو پر جوش رشک سے

مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق

لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر

واحسرتا !کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر

بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ

لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر

زنار باندھ سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال

رہ رو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

ان آبلوں سے پانّو کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر

کیا بد گماں ہے مجھ سے کہ آئینہ میں مرے

طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

گرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر

سر پھوڑنا وہ غالبؔ شوریدہ حال کا

یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

Diwan e Ghalib: Radeef Ra ki ibtedai 5 Ghazlen

چوتھی غزل

یہ غزل آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ درخشاں، بیاباں، زنداں، دبستاں، نمکداں، عنواں،گلستاں، شہیداں، گریباں اور ردیف "پر” ہے۔

لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر

میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر

نثر: مرا دل زحمت مہر درخشاں پر لرزتا ہے؛ میں وہ قطرۂ شبنم ہوں جو بیاباں کے خارپرہو

مِہر: سورج

درخشاں: چمکتا ہوا

زحمت: محنت، تکلیف، آزار

تشریح: اول تو قطرہ شبنم ہی کی کیا ہستی دوسرے وہ قطرہ بھی کیسا جو خار بیاباں کی نوک پر ہو یعنی جس کا خود بخود فنا ہوجانا یقینی ہو۔

زبان تشنہ خار مجھے خود جذب کر لے گی آفتاب کو میرے خشک کرنے میں زحمت کرنا کیا ضروری ہے۔ اس شعر میں دل کے لرزنے سے آفتاب شبنم کے چمکنے کو تشبیہ دی ہے اور وجہ شبہ حرکت ہے۔

نہ چھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی

سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے

کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے

بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمکداں پر

نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومار ناز ایسا

کہ پشت چشم سے جس کی نہ ہووے مہر عنواں پر

مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا

کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر

بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا

قیامت اک ہوائے تند ہے خاک شہیداں پر

نہ لڑ ناصح سے غالبؔ کیا ہوا گر اس نے شدت کی

ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

نثر: غالبؔ ناصح سے نہ لڑ ، گر اس نے شدت کی توکیا ہوا؛ ہمارا بھی تو آخر گریباں پر زور چلتا ہے

پانچویں غزل

گیارہ اشعار پر مشتمل غزل ہےاس کا قافیہ نشاں، گماں ، زباں، کماں، جاں، گراں، فشاں، ہاں، نہاں،فغاں، رواں اور بیاں ہے اور ردیف "اور” ہے۔

ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

یارب !وہ نہ سمجھے ہیں ، نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو،  جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ابرو سے ہے کیا ، اس نگہ ِناز کو پیوند؟

ہے تیر مقرر ، مگر اس کی ہے کماں اور

تم شہر میں ہو،  تو ہمیں کیا غم ؟جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں ، تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور

ہے خونِ  جگر جوش میں ، دل کھول کے روتا

ہوتے جو کئی دیدۂ خو نابہ فشاں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ،  ہر چند سر اڑ جائے

جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور

لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا کوئی دم چین

کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ و فغاں اور

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

نثر: اگر دل تمہیں نہ دیتاتو کوئی دم(اور) چین لیتا؛ (اور) جو (اگر) نہ مرتا (تو) کوئی دن اورآہ و فغاں کرتا

تعلی:تعلی عربی میں شیخی بگھارنا، ڈینگ مارنا یا اپنی بڑائی بیان کرنا کہلاتا ہے، شاعری کی اصطلاح میں اس سے مراد کسی بھی شاعر کی طرف سے شعری انداز میں اپنی تعریف کرنا یا برتری ظاہر کرنا ہے۔

Diwan e Ghalib: Radeef Ra ki ibtedai 5 Ghazlen

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!