پریم چند کا افسانہ : گِلّی ڈنڈا
افسانہ “گِلّی ڈنڈا” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں آٹھواں افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے “ہمارے انگریزی خواں دوست مانیں یا نہ مانیں میں تو یہی کہوں گا کہ گلّی ڈنڈا سب کھیلوں کا راجا ہے”۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے”وہ اب مجھے اپنا جوڑ نہیں سمجھتا۔ وہ بڑا ہوگیا ہے۔ میں چھوٹا ہو گیا ہوں” ۔
نچوڑ
اس افسانے میں گلی ڈنڈا کی اہمیت، کھیلنے کے طریقے، اس میں بچوں کی دلچسپی، اور کھیل کے دوران ہونے والی نوک جھوک، جھگڑے، لڑائیوں کو بڑی فنکاری کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس افسانے میں انسانی نفسیات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسانوں کے درمیان معاشی طبقہ بندی کی وجہ سے دوستی کے معیار بدل جاتے ہیں۔نیز اس افسانے میں عمر کے ساتھ بدلتے ہوئے معاملات زندگی کے باوجود بچپن کی حسین یادوں کا ذہن میں باقی رہنے کا خوبصورت تصور پیش کیا گیا ہے۔
خلاصہ
اس افسانے میں ہندوستان کے مشہور کھیل گلّی ڈنڈا کا ذکر ہے، جو گاؤں میں بہت مشہورہوتا ہے۔اس کھیل میں نہ تو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ ہی کسی خاص میدان یا کسی ٹیم کی، بلکہ اس کھیل کو صرف دو لوگ بھی کھیل سکتے ہیں۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک انجنئیر ہے جواپنی پرانی یادوں میں سے گلّی ڈنڈا کی یاد تازہ کرنے کا متمنّی ہے۔ اسے ابتداسے ہی گلّی ڈنڈا بہت پسند ہے،بچپن میں اپنے دوست گیا کے ساتھ کھیلے گئےگلّی ڈنڈا کو وہ بیس سال بعد بھی نہیں بھلا پایا۔ جب وہ انجنئیربن کراسی قصبے میں آتا ہے جہاں وہ گیا کے ساتھ گلّی ڈنڈا کھیلا کرتا تھا اس کھیل کی ہار جیت کو لے کر کئی لڑائیاں بھی ہوتی تھیں بات یہاں تک پہنچ جاتی تھی کہ اپنی کھلائی پلائی ہوئی چیز کا احساس دلایا جاتا تھا۔ جو بچوں میں عام طور پر ہوتا ہے،جب وہ اپنے دوستوں سے لڑتے ہیں تو اپنی دی ہوئی چیزیں واپس مانگنے لگتے ہیں۔ بیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے وہ اس حسین یاد کو تازہ کرنے کے لئے یا یوں کیۓ کہ بیس سال پہلے کی اپنی ہار کا حساب برابر کرنے کےلیے گیا سے پھر ایک بار گلّی ڈنڈا کھیلنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ گیا تھوڑی جھجھک کے بعد مان جاتا ہے بیس سال بعد ایک بار پھر گیا اور راوی کے درمیان کھیل شروع ہوا ۔ راوی نے پدانا شروع کیا طرح طرح کے فریب کرنے لگا مشق کی کمی بے ایمانی سے پوری کرتا،دانوں پورے ہونے پر بھی کھیلے جاتا جبکہ گیا کی باری ہوتی۔گیا کا آج کوئی نشانہ نہیں لگ رہا تھا، گلّی کبھی دا ئیں جاتی تو کبھی بائیں۔گویا گلّی کو اس سے وہ محبت نہیں رہی۔ایک بار گیا کی گلّی ڈنڈے سے لگ گئی مگر راوی نے اس کو جھٹلا دیا۔جسے گیا خاموشی سے مان گیا۔دوبارہ گلّی ڈنڈے سے اتنی زور کی لگی جیسے بندوق چھوٹی ہو۔ گیا فاتحانہ انداز میں چلّایا۔۔لگ گئی لگ گئی۔ٹن سے بولی۔ لیکن راوی اسے بھی جھٹلا گیا۔گیا ایک بار پھر مان گیا۔ راوی اپنی فتح پر دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔۔دوسرے دن اس گاؤں میں گلّی ڈنڈے کے بازی ہوتی ہے جس میں گیا بھی شامل ہے اور وہ سب کو ہرا رہا ہے کوئی اس کے سامنے ٹک نہیں پا رہا راوی کو اندازہ ہوا کہ گیا کل کھیل نہیں رہا تھا صرف کھیلنے کا بہانہ کر رہا تھا اگر آج کی طرح وہ کھیلتا تو میں ضرور رونے لگتا۔۔اب مجھے وہ اپنا جوڑ نہیں سمجھتا۔وہ بڑاہوگیا ہے۔ میں چھوٹا ہوگیا ہوں۔
افسانے کے کردار
راوی
(گیا (راوی کا دوست
(مانا (راوی کا دوست
(موہن( راوی کا دوست
(درگا (راوی کا دوست
اہم نکات
راوی کا باپ تھانے دار ہے اور گیا نیچ ذات کا غریب لڑکا ۔
گیا راوی سے دو تین سال بڑا ہے۔
راوی کا بچپن قصبے میں گزرا،والد کا تبادلہ ہوا تو وہ شہر آکر انجنیری پاس کی اور بیس سال بعد جب اپنے قصبے پہنچا تو ڈاک بنگلہ میں ٹہھرا۔
راوی بیس سال بعد جب اپنے دوست گیا سے باقی دوستوں کا حال جاننا چاہتا ہے تو گیا بتاتا ہے کہ وہ ڈپٹی صاحب کا سائیس ہے اور مانا مرگیا ہے اور موہن درگا دونوں ڈاکئےہوگئے ہیں۔
اہم اقتباسات
لڑکوں سے شیخی بگھارتا تھا۔ وہاں ایسے گھر تھوڑے ہی ہیں ایسے ایسے اونچے مکان ہیں کہ آسمان سے باتیں کرتے ہیں وہاں کے انگریزی اسکول میں کوئی ماسٹر لڑکوں کو پیٹے تو قید ہو جائے۔ میرے دوستوں کی حیرت سے پھیلی ہوئی آنکھیں اور متعجب چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ میں ان کی نگاہ میں کتنا اونچا اٹھ گیا ہوں۔
بچوں میں جھوٹ کو سچ بنالینے کی وہ طاقت ہوتی ہے جسے ہم جو سچ کو جھوٹ بنادیتے ہیں۔
میں تمہارا غلام ہوں ؟”
ہاں تم میرے غلام ہو؟”
“میں گھر جاتا ہوں” دیکھوں تم میرا کیا کر لیتے ہو ؟
” گھر کیسے جاوگے ؟کوئی دل لگی ہے۔
رشوت دے کر تو لوگ خون چھپا جاتے ہیں وہ میرامرود یوں ہی ہضم کر جائے گا امرود پیسے کے پانچ والے تھے۔ جو گیا کے باپ کو بھی نصیب نہ ہوں گے یہ سراسر نانصافی ہے۔
میں سمجھتا تھا انصاف میری طرف ہے آخر میں نے کسی غرض کے لئے ہی اسے امرودکھلایا ہوگا کون کسی کے ساتھ بے غرضانہ سلوک کرتا ہے۔ بھیک تک توغرض کے لئے دیتے ہیں
دبلا، لمبا، بندروں کی سی پھرتی ، بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی سی جھپٹ گلی کیسی ہو اس پر اس طرح لپکتا تھاجس طرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے ۔
میں کھیل میں نہ تھا ، مگر دوسروں کے اس کھیل میں مجھے وہی لڑکپن کا لطف آرہا تھا جب ہم سب کچھ بھول کر کھیل میں مست ہوجاتے تھے۔
میں اب اس کا لحاظ پا سکتا ہوں ، ادب پاسکتا ہوں، لیکن اس کا ہمجولی نہیں بن سکتا۔ لڑکپن تھا، تب میں اس کا ساتھی تھا ہم میں کوئی بھید نہ تھا یہ عہدہ پا کر اب میں اس کے رحم کے قابل ہوں وہ اب مجھے اپنا جوڑ نہیں سمجھتا وہ بڑا ہوگیا ہے میں چھوٹا ہوگیا ہوں ۔
آپ حضرات نے خلاصہ پڑھا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہوگا۔ مزید ویب سائٹ پر موجود مواد سےفائدہ اٹھائیں۔ اور اپنے دوستوں تک بھی پہنچائیں۔