افسانہ (08) گِلّی ڈنڈا

پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل آٹھواں افسانہ “گِلّی ڈنڈا”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

گِلّی ڈنڈا

منشی پریم چند

ہمارے انگریزی خوان دوست مانیں یانہ مانیں میں تو یہی کہوں گا کہ گلی ڈنڈا سب کھیلوں کا راجہ ہے۔ اب بھی جب کبھی لڑکوں کو گِلّی ڈنڈا کھیلتے دیکھتا ہوں تو جی لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ جا کر کھیلنے لگوں۔ نہ لان (میدان) کی ضرورت ہے،نہ شن گارڈ کی نہ نیٹ کی نہ بلے کی مزے سے کسی درخت کی ایک شاخ کاٹ لی، گلی بنائی اور دو آدمی بھی آگئے تو کھیل شروع ہوگیا۔ ولایتی کھیلوں میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ان کے سامان بہت مہنگے ہوتے ہیں جب تک کم از کم ایک سو خرچ نہ کیجئے کھلاڑیوں میں شمار ہی نہیں ہوسکتا یہاں گِلّی ڈنڈا ہے کہ بغیر ہینگ پھٹکری لگے چوکھا رنگ دیتا ہے۔ لیکن ہم انگریزی کھیلوں پر ایسے دیوانے ہورہے ہیں کہ اپنی سب چیزوں سے ہمیں نفرت سی ہوگئی ہے ہمارے اسکولوں میں ہر ایک لڑکے سے تین چار روپے سالانہ صرف کھیلنے کی فیس لی جاتی ہے کسی کو یہ نہیں سوجھتا کہ ہندوستانی کھیلیں کھلائیں جو بغیر پیسے کوڑی کے کھیلے جاتے ہیں۔انگریزی کھیل ان کے لئے ہیں جن کے پاس روپیہ ہے۔ بیچارے غریب لڑکوں کے سر پر فضول خرچیاں کیوں منڈھتے ہو، ٹھیک ہے گلی سے آنکھ پھوٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے تو کیا کرکٹ سے سرپھوٹ جانے، تلی پھوٹ جانے، ٹانگ ٹوٹ جانے کا خدشہ نہیں رہتا؟ اگر ہمارے ماتھے میں گلی کا داغ آج تک لگا ہوا ہے تو ہمارے کئی دوست ایسے بھی ہیں جو بلے سے گھائل ہونے کا سرٹیفکیٹ رکھتے ہیں ۔خیر یہ تو اپنی اپنی پسند ہے مجھے گلی ڈنڈا سب کھیلوں سے زیادہ پسند ہے اور بچپن کی یادوں میں گلی ڈنڈا ہی سب سے زیادہ شیریں یاد ہے وہ علی الصباح گھر سے نکل جانا، وہ درخت پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹنا، اور گلی ڈنڈے بنانا۔

وہ جوش وخروش، وہ لگن، کھلاڑیوں کے لئے وہ پدنا اور پدانا ، وہ لڑائی جھگڑے ، وہ بے تکلف سادگی  میں چھوت چھات اور غریب امیر کی کوئی تمیز نہ تھی جس میں امیرانہ چونچلوں کی غرور اور خود نمائی کی گنجائش ہی نہ تھی، اسی وقت بھولے گا۔۔۔۔ جب گھر والے بگڑ رہے ہیں۔ والد صاحب چوکے پر بیٹھے ہوئے روٹیوں پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں، اماں کی دوڑ صرف دروازے تک ہے، لیکن ان کے خیال میں میرا تاریک مستقبل ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح ڈگمگا رہا ہے اور میں ہوں کہ پدانے میں مست ہوں نہ نہانے کا خیال ہے نہ کھانے کا۔  گلی ہے تو ذرا سی مگر اس میں دنیا بھر کی مٹھائیوں کی مٹھاس اور تماشوں کا لطف بھرا ہوا ہے۔

میرے ہمجولیوں میں ایک لڑکا  گیا نام کا تھا ۔مجھ سے دو تین سال بڑا ہو گا ۔ دبلا، لمبا، بندروں کی سی پھرتی ، بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی سی جھپٹ گلی کیسی ہو اس پر اس طرح لپکتا تھاجس طرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے ۔معلوم نہیں اس کے ماں باپ کون تھے،  کہاں رہتا تھا،  کیا کھاتا تھا۔ پرتھا ہمارے گلی کلب کا چیمپئن ۔ جس کی طرف وہ آجائے اس کی جیت یقینی تھی۔ ہم سب اسے دور سے آتا دیکھ اس کا استقبال کرتے اور اسے اپنا گوئیاں بنا لیتے تھے۔

ایک دن ہم اور گیا دو ہی کھیل رہے تھے۔ وہ پدا رہا تھا اور میں پد رہا تھا، لیکن کچھ عجیب بات ہے کہ پدانے میں ہم دن بھرمست رہ سکتے ہیں۔ پدنا ایک منٹ کا بھی سہا نہیں جاتا میں نے گلا چھڑانے کے لئے وہ سب چالیں چلیں جو ایسے موقع پر خلاف قانون ہوتے ہوئے بھی قابل معافی ہیں ، لیکن گیا اپنا داؤں لئے بغیر میرا پیچھا نہ چھوڑتا تھا ۔ میں گھر کی طرف بھاگا۔ منت سماجت اور خوشامد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ گیا نے مجھے دوڑ کر پکڑ لیا اور ڈنڈا تان کر بولا ” میرا داؤں دے کر جاؤ۔ پدایا تو بہادر بن کر ۔ پدنے کے وقت کیوں بھاگے جاتے ہو؟

” تم دن بھر پداو تو میں دن بھر پدتا رہوں “؟

“ہاں تمہیں دن بھر پدنا پڑے گا” ؟

” نہ کھانے جاؤں نہ پینے جاؤں ؟”

 “ہاں میرا داؤں دیے بغیر کہیں نہیں جا سکتے۔”

” میں تمہارا غلام ہوں ؟”

 ہاں تم میرے غلام ہو؟”

 “میں گھر جاتا ہوں” دیکھوں تم میرا کیا کر لیتے ہو ؟

” گھر کیسے جاوگے ؟کوئی دل لگی ہے۔ داؤں دیا ہے ۔داؤں لیں گے ۔”

 اچھا کل میں نے تمہیں امرود کھلایا تھا ۔ وہ رکھ دو”

 “وہ پیٹ میں چلا گیا ہے”

 نکالو پیٹ سے ۔تم نے کیوں کھایا میرا امرود؟”

“امرود تم نے دیا تب میں نے کھایا میں تم سے مانگنے نہ گیا تھا۔”

“جب تک میرا امرود نہ دوگے، میں داؤں نہ دوں گا ۔

میں سمجھتا تھا انصاف میری طرف ہے آخر میں نے کسی غرض کے لئے ہی اسے امرودکھلایا ہوگا کون کسی کے ساتھ بے غرضانہ سلوک کرتا ہے۔ بھیک تک توغرض کے لئے دیتے ہیں جب گیا نے میرا امرود کھایاتو پھر اسے مجھ سے داؤں لینے کا کیا حق حاصل ہے۔ رشوت دے کر تو لوگ خون چھپا جاتے ہیں وہ میرامرود یوں ہی ہضم کر جائے گا امرود پیسے کے پانچ والے تھے۔ جو گیا کے باپ کو بھی نصیب نہ ہوں گے یہ سراسر نانصافی ہے۔

گیا نے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا ،میرا داؤں دے کر جاؤ امرود سمرود نہیں جانتا۔”

مجھے انصاف کا زور تھا۔ میں ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے جانے نہ دیتا تھا۔

میں نے گالی دی۔ اس نے اس سے بھی سخت گالی دی اور گالی ہی نہیں دی ایک چانٹا جما دیا ۔ میں نے اسے دانت سے کاٹ لیا۔ اس نے میری پیٹھ پر ڈنڈا جما دیا۔ میں رونے لگا۔ گیا میرے اس ہتھیار کا مقابلہ نہ کرسکا، بھاگا میں نے فوراً آنسو پوچھ ڈالے ۔ڈنڈے کی چوٹ بھول گیا اور ہنستا ہوا گھر جا پہنچا۔ میں تھانے دار کا لڑکا ایک نیچ ذات کے لونڈے کے ہاتھوں پیٹ گیا۔یہ مجھے اس وقت بھی بے عزتی کا باعث معلوم ہوا  لیکن  گھر میں کسی سے شکایت نہ کی۔

ان ہی دنوں والد صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہوگیا۔ نئی دنیا دیکھنے کی خوشی میں ایسا پھولا کہ اپنے ہمجولیوں سے جدا ہو جانے کا بالکل افسوس نہ ہوا ۔ والد صاحب افسوس کرتے تھے ۔ یہ بڑی آمدنی کی جگہ تھی ۔ اماں جی بھی بہت افسوس کرتی تھیں یہاں سب چیزیں بہت سستی تھیں اور محلے کی عورتوں سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ لیکن میں مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا۔ لڑکوں سے شیخی بگھارتا تھا۔ وہاں ایسے گھر تھوڑے ہی ہیں ایسے ایسے اونچے مکان ہیں کہ آسمان سے باتیں کرتے ہیں وہاں کے انگریزی اسکول میں کوئی ماسٹر لڑکوں کو پیٹے  تو قید ہو جائے۔ میرے دوستوں کی حیرت سے پھیلی ہوئی آنکھیں اور متعجب چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ میں ان کی نگاہ میں کتنا اونچا اٹھ گیا ہوں۔ بچوں میں جھوٹ کو سچ بنالینے کی وہ طاقت ہوتی ہے جسے ہم جو سچ کو جھوٹ بنادیتے ہیں۔ نہیں سمجھ سکتے۔ دوست کہہ رہے تھے تم خوش  قسمت ہو ۔بھائی جاؤ ۔ہمیں تو اسی گاؤں میں جینا بھی ہے اور مرنا بھی۔”

بیس سال گزر گئے میں انجینئری پاس کی اور کسی ضلع کا دورہ کرتا ہوا اسی قصبے میں پہنچا اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرا۔ اس جگہ کو دیکھتے ہی اس قدر دلکش اور شیریں یاد تازہ ہواٹھی کہ میں نے چھڑی اٹھائی اور قصبے کی سیر کو نکلا۔ آنکھیں کسی پیاسے مسافر کی طرح بچپن کے ان مقامات کو دیکھنے کے لئے بیتاب تھیں جن کے ساتھ کتنی ہی یادگاریں وابستہ تھیں۔لیکن اس مانوس نام کے علاوہ وہاں کوئی شناسا نہ ملا ۔جہاں کھنڈر تھے وہاں پکے مکانات کھڑے تھے جہاں برگد کا پرانا درخت تھا وہاں اب ایک خوبصورت باغیچہ تھا۔ اس جگہ کی کایا پلٹ ہو گئی تھی ۔ اس کے نام ونشان کا علم نہ ہوتا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکتا۔ وہ پرانی یادگاریں باہیں پھیلا پھیلا کر اپنے پرانےدوستوں کے گلے لپیٹنے کے لیے بے قرار ہورہی تھیں۔ مگر دنیا بدل گئی تھی جی چاہتا تھا کہ اس زمین سے لپٹ کر روؤں اور کہوں :”تم مجھے بھول گئیں لیکن میرے دل میں تمہاری یاد تازہ ہے ۔”

اچانک ایک کھلی جگہ میں میں نے دو تین لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھلتے دیکھا ایک لمحے کے لئے میں اپنے آپ کو بالکل بھول گیا۔ بھول گیا کہ میں ایک اونچا افسر ہوں، صاحبی ٹھاٹ میں، رعب اور اختیار کے لباس میں ۔ جا کر ایک لڑکے سے پوچھا “کیوں بیٹے یہاں کوئی گیا نام کا آدمی رہتا ہے؟

 ایک لڑکے نے گلی ڈنڈا سمیٹ کر سہمے ہوے لہجے میں کہا،” کون گیا” گیا چمار ؟”

میں نے یوں ہی کہا “ہاں ہاں وہی گیا نام کا کوئی آدمی ہے تو شاید وہی ہو ۔”

ہاں ہے تو ؟

ذرا اسے بلا سکتے ہو؟

 لڑکا دوڑا گیا اور جلد ایک پانچ ہاتھ کے کالے دیو کو ساتھ لیے آتا دکھائی دیا۔ میں نے دور سے ہی پہچان لیا۔ اس کی طرف لپکنا چاہتا ہی تھا کہ اس کے گلے لپٹ جاؤں مگر کچھ سوچ سمجھ کر رہ گیا۔

بولا ۔”کہو مجھے پہچانتے ہو؟؟

گیا نے جھک کر سلام کیا : “ہاں مالک بھلا پہچانوں گا نہیں۔ آپ مزے میں رہے؟”

“بہت مزے میں ۔تم اپنی کہو ؟”

“ڈپٹی صاحب کا سائیس ہوں۔”

” مانا، موہن، درگا یہ سب کہاں ہیں کچھ خبر ہے؟”

 “مانا تومرگیا ، موہن اور درگا دونوں ڈاکئے ہو گئے ہیں۔ آپ ؟ “

“میں ضلع کا انجنیئر ہوں”

 “سرکار تو پہلے ہی بڑے جہین تھے۔”

 “اب کبھی گلی ڈنڈا کھیلتے ہو؟”

گیانے میری طرف سوال کی آنکھوں سے دیکھا۔” گلی ڈنڈا کیا کھیلوں گا سرکار ۔اب تو پیٹ کے دھندے سے ہی چھٹی نہیں ملتی ہے۔”

 آؤ آج ہم تم کھیلیں ۔تم پدانا ہم پدیں گے۔ تمہارا ایک داؤں ہمارے اوپر ہے، وہ آج لے لو۔”

گیا بڑی مشکل سے راضی ہوا۔ وہ ٹھہرا ٹکے کا مزدور، میں ایک بڑا افسر۔ میرا اور اس کا کیا جوڑ۔ بیچارہ جھینپ رہا تھا۔ لیکن مجھے بھی کم جھینپ نہ تھی۔ اس لئے نہیں کہ میں گیا کے ساتھ کھیلنے جا رہا تھا بلکہ لوگ اس کھیل کو عجوبہ سمجھ کر اس کا تماشا بنائیں گے اوراچھی خاصی بھیڑ لگ جائے گی۔اس بھیڑ میں وہ لطف کہاں رہے گا لیکن کھیلے بغیر تو رہا نہیں جاتا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ دونوں بستی سے دور تنہائی میں جاکر کھیلیں۔ وہاں کون دیکھنے والا بیٹھا ہوگا مزے سے کھیلیں گے اور بچپن کی اس مٹھائی کو خوب مزے لے کر کھائیں گے۔ میں گیا کو لے کر ڈاک بنگلے پر آیا اورموٹر میں بیٹھ کر دونوں میدان کی طرف چلے۔ ساتھ ایک کلہاڑی لے لی۔ میں متانت کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا تھا مگر گیا ابھی تک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی اور ولوے کا کوئی نشان نہ تھا شاید ہم دونوں میں جو فرق ہو گیا تھا ۔ وہ اسے سوچنے میں محو تھا۔

میں نے پوچھا۔” تمہیں کبھی ہماری یاد آئی تھی گیا ؟ سچ کہنا!”

گیا جھینپتا ہوا بولا: ” میں آپ کو کیا یاد کرتا حضور، کس لائق ہوں۔قسمت میں کچھ دن آپ کے ساتھ کھیلنا لکھا تھا نہیں تو میری کیا گنتی۔”

     میں نے کچھ اداس ہوکر کہا۔ “لیکن مجھے تو تمہاری یاد برابر آتی تھی تمہارا وہ ڈنڈا جوتم نے تان کر جمایا تھا ، یاد ہے نا۔”

گیا نے شرماتے ہوئے کہا:”وہ لڑکپن تھا سرکار اس کی یاد نہ لاؤ۔”

“واہ، وہ میرے ان دنوں کی سب سے رسیلی یاد ہے۔ تمہارے اس ڈنڈے میں جو رس تھا۔ وہ اب نہ عزت اور بڑائی میں پاتا ہوں، نہ دولت میں۔ کچھ ایسی مٹھاس تھی اس میں کہ آج تک من میٹھا ہوتا رہتا ہے۔”

       اتنی دیر میں ہم بستی سے کوئی تین میل نکل آئے تھے۔ چاروں طرف سناٹا تھا مغرب کی طرف سے کوسوں تک بھیم تال پھیلا ہوا تھا۔ جہاں آکر ہم کسی وقت کنول کے پھول توڑنے جاتے تھے اور اس کے جھمکے بنا کر کانوں میں ڈال لیتے تھے جون کی شام کیسر میں ڈوبی چلی آرہی ہے۔ میں لپک کر ایک درخت پر چڑھ گیا اور ایک شاخ کاٹ لایا۔ جھٹ پٹ گلی ڈنڈا بن گیا۔ کھیل شروع ہوگیا۔ میں نے راب میں گلی رکھ کر اچھالی۔ گلی گیا کے سامنے سے نکل گئی۔ اس نے ہاتھ لپکایا جیسے مچھلی پکڑ رہا ہو۔ گلی اس کے پیچھے جاگری یہ وہی گیا تھا جس کے ہاتھوں میں گلی جیسے آپ ہی آپ جا کر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ اپنے دائیں بائیں کہیں ہو گلی اس کی ہتھیلی میں پہنچتی تھی جیسے گلیوں پر اس نے جادو کر کے انہیں بس میں کر لیا۔ نئی گلی، پرانی گلی، چھوٹی گلی، بڑی گلی ،نوک دار گلی سبھی اس سے مل جاتی تھیں۔ گویا اس کے ہاتھوں میں کوئی مقنا طیسی طاقت ہے جو گلیوں کو کھینچ لیتی ہے ۔ لیکن آج گلی کو اس طرح سے وہ محبت نہیں رہی پھر تو میں نے پدانا شروع کیا۔ میں طرح طرح کے فریب کر رہا تھا مشق کی کمی بے ایمانی سے پوری کررہا تھا۔ داؤں پورا ہونے پر بھی میں کھیلے جاتا تھا۔ حالانکہ قاعدے کےمطابق گیا کی باری آنی چاہیے تھی ۔ گلی پر ہلکی چوٹ پڑتی اور وہ ذرا ہی دور پر گر پڑتی تو میں لپک کر اسے خود ہی اٹھا لاتا، اور دوبارہ ٹل لگاتا۔ گیا یہ ساری بے قاعدگیاں دیکھ رہا تھا۔ مگر کچھ نہ بولتا تھا۔ گویا اسے وہ تمام قاعدے قانون بھول گئے ہوں اس کانشانہ کتنا بے خطا تھا۔ گلی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر اس کا کام تھا ڈنڈے سے ٹکرا جانا لیکن آج وہ گلی ڈنڈے میں لگتی ہی نہیں ۔کبھی داہنے جاتی ہے کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے۔

 آدھ گھنٹہ پدانے کے بعد ایک بار گلی ڈنڈے میں آ لگی میں نے دھاندلی کی: ” گلی ڈنڈے میں نہیں لگی پاس سے گئی۔ لیکن لگی نہیں۔

گیا نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا “نہ لگی ہو گی۔”

 ڈنڈے میں لگتی تو کیا میں بے ایمانی کرتا !؟

“نہیں بھیا تم بھلا بے ایمانی کروگے!”

بچپن میں مجال تھی کہ میں ایسا گھپلا کرکے بچتا۔یہی گیا میری گردن پر چڑھ بیٹھتا لیکن آج میں اسے کتنی آسانی سے دھوکا دیے چلے جاتا تھا۔گدھا ہے ساری باتیں بھول گیا۔

 اچانک گلی ڈنڈے میں لگی اور اتنے زور سے لگی جیسے بندوق چھوٹی ہو اس ثبوت کے مقابل اب کسی طرح کا فریب چلنے کا مجھے اس وقت بھی حوصلہ نہ ہوسکا لیکن کیوں نہ ایک بار سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کروں میرا ہرج ہی کیا ہے ۔ مان گیا تو واہ واہ ورنہ دو چار ہا تھ پدنا ہی پڑے گا۔ اندھیرے کا بہانہ کرکے گلا چھڑا لوں گا۔پھر کون داؤں دینے آتا ہے۔

گیا نے فاتحانہ انداز سے کہا:”لگ گئی لگ گئی ٹن سے بولی۔”

میں نے انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ تم نے لگتے دیکھا میں نے تو نہیں دیکھا۔”

“ٹن سے بولی ہے سرکار”

“اور جو کسی اینٹ میں لگ گئی ہو”

 میرے منہ سے یہ فقرہ اس وقت کیسے نکل گیا۔ اس پر مجھے خود حیرت ہے اس سچائی کا جھٹلانا ایسا ہی تھا۔ جیسے دن کو رات بتانا۔  ہم دونوں نے گلی ڈنڈے میں زور سے لگتے دیکھا تھا لیکن گیا نے میرا کہنا مان لیا۔

 ” ہاں سرکارکسی اینٹ میں لگی ہوگی ڈنڈے میں لگتی تو اتنی آواز نہ آتی۔”

 میں نے پھر پدانا شروع کیا لیکن اس قدر صاف اور صریح دھوکا دینے کے بعد گیا کی سادگی پر مجھے رحم آنے لگا۔ اس لئے جب تیسری بار گلی ڈنڈے میں لگی تو میں نے بڑی فراخ دلی سے داؤں دینا طے کرلیا۔

 گیا نے کہا “اب تو اندھیرا ہوگیا ہے بھیا کل پر رکھو۔”

 میں نے سوچا کل بہت سا وقت ہو گا۔ یہ نہ جانے کتنی دیر پدائے اس لئے اسی وقت معاملہ صاف کرلینا اچھا ہو گا۔” نہیں نہیں بہت اجالا ہے تم اپنا داؤں لے لو”

” گلی سوجھے گی نہیں۔”

“کچھ پرواہ نہیں”

 گیا نے پدانا شروع کیا لیکن اسے بالکل مشق نہ تھی۔ اس نے دو بار ٹل  لگانے  کا ارادہ کیا۔ لیکن دونوں ہی بار چک گیا۔ ایک منٹ سے کم میں وہ اپنا داؤں پورا کر چکا بےچارہ گھنٹہ بھر پدا لیکن ایک منٹ ہی میں اپنا داؤں کھو بیٹھا میں نے اپنے دل کی وسعت کا ثبوت دیا۔ ایک داؤوں اور لےلو۔ تم تو پہلے ہی ہاتھ میں ہیچ گئے ۔

“نہیں بھیا۔ اب اندھیرا ہو گیا ہے۔”

 “تمہاری مشق چھوٹ گئی ۔ کبھی کھیلتے نہیں ہو ؟” “کھیلنے کا وقت ہی کہاں ملتا ہے بھیا ۔”

ہم دونوں موٹر پر جا بیٹھے اور چراغ جلتے جلتے پڑاؤ پر پہنچ گئے۔

 گیا چلتے چلتے بولا۔ کل گلی ڈنڈا ہو گا۔ سبھی پرانے کھلاڑی کھیلیں گے تم بھی آؤگے ۔ جب تمہیں فرصت ہو سبھی کھلاڑیوں کو بلا لوں۔

            میں نے شام کا وقت دیا اور دوسرے دن میچ دیکھنے گیا۔کوئی دس آدمیوں کی منڈلی تھی ۔ کئی میرے لڑکپن کے ساتھی نکلے۔ مگر بیشتر نوجوان تھے، جنہیں میں پہچان نہ سکا۔ کھیل شروع ہوا میں موٹر پر بیٹھا تماشا دیکھنے لگا۔ آج گیا کا کھیل اور اس کی کرامات دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ وہ ٹل لگاتا تو گلی آسمان سے باتیں کرتی۔ کل کی وہ جھجھک ،وہ ہچکچاہٹ ، وہ بے دلی آج نہ تھی ۔ لڑکپن کی جو بات تھی آج اس نے اسے کمال معراج تک پہنچا دیا ۔کہیں کل اس نے مجھے اس طرح پدانا ہوتا تو میں ضرور رونے لگتا ۔ اس کے ڈنڈے کی چوٹ کھاکر گلی دوسو گز کی خبرلاتی ۔

پدانے والوں میں ایک نوجوان نے کچھ بےعنوانی کی اس کا دعویٰ تھا کہ میں نے گلی دبوچ لی ہے ۔گیا کا کہنا تھا کہ گلی زمین سے لگ کر اچھلی ہے ۔ اس پر دونوں میں تال ٹھونکنے کی نوبت آئی، نوجوان دب گیا۔گیا کا تمتمایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ ڈر گیا ۔میں کھیل میں نہ تھا ، مگر دوسروں کے اس کھیل میں مجھے وہی لڑکپن کا لطف آرہا تھا جب ہم سب کچھ بھول کر کھیل میں مست ہوجاتے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ گیا نے کل میرے ساتھ کھیلا نہیں صرف کھیلنے کا بہانہ کیا۔ اس نے مجھے قابل رحم سمجھا میں نے دھاندلی کی ، بے ایمانیاں کیں، اسے ذرا بھی غصہ نہ آیا ۔ اس لئے کہ وہ کھیل نہ رہا تھا مجھے کھلا رہا تھا میرا جی رکھ رہا تھا۔ وہ پدا کر میرا کچومر نکالنا نہیں چاہتا تھا میں اب افسر ہوں۔ یہ افسری میرے اور اس کے درمیان اب دیوار بن گئی ہے ۔ میں اب اس کا لحاظ پا سکتا ہوں ، ادب پاسکتا ہوں، لیکن اس کا ہمجولی نہیں بن سکتا۔ لڑکپن تھا، تب میں اس کا ساتھی تھا ہم میں کوئی بھید نہ تھا یہ عہدہ پا کر اب میں اس کے رحم کے قابل ہوں وہ اب مجھے اپنا جوڑ نہیں سمجھتا وہ بڑا ہوگیا ہے میں چھوٹا ہوگیا ہوں ۔

*****

3 thoughts on “افسانہ (08) گِلّی ڈنڈا”

  1. Pingback: 08 پریم چند کا افسانہ :گِلّی ڈنڈا Urdu Literature

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks