آپ کے پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل تیسرا افسانہ “بدنصیب ماں۔ آپ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
بدنصیب ماں
منشی پریم چند
(1)
پنڈت اجودھیا ناتھ کا انتقال ہوا تو سب نے کہا:’’ایشورآ دمی کوایسی ہی موت دے ۔‘‘ چار جوان لڑ کے یادگار چھوڑے اور ایک لڑکی ۔ اثاثہ بھی کافی ۔ پختہ مکان ، دو باغ کئی ہزار کے زیور اور بیس ہزار نقد ۔ بیوہ پھول متی کو صدمہ ہونا تو لازمی تھا۔ اور وہ کئی دن تک بے حال رہی ۔ لیکن جو ان بیٹوں کو سامنے دیکھ کر اسے تشفی ہوئی۔ چاروں لڑ کے ایک سے ایک سعادت مند، چاروں بہوئیں ایک سے ایک فرماں بردار ۔ جس وقت پھول متی چارپائی پر لیٹتی تو باری باری سے اس کے پانو د باتیں ۔ وہ اشنان کر کے اٹھتی تو اس کی ساری دھوتیں ۔ سارا گھر اس کے اشارے پر چلتا تھا۔ بڑالڑکا کا متا ناتھ ایک دفتر میں پچاس روپے کا نوکر تھا۔ دوسرا اما ناتھ ڈاکٹری پاس کر چکا تھا اور کہیں مطب کھولنے کی فکر میں تھا۔ تیسراد یا ناتھ بی۔اے میں فیل ہو گیا تھا اور اخباروں میں مضامین لکھ کر اپنا جیب خرچ نکال لیتا تھا۔ سب سے چھوٹا سیتا ناتھ چاروں میں ذہین اور ہونہار تھا اور امسال بی ۔اے اول درجے میں پاس کر کے ایم ۔اے کی تیاری میں مصروف تھا۔ کسی میں وہ لا ابالیاں نہ تھیں، نہ فضول خرچیاں ، نہ کم اندیشیاں جو والدین کو جلاتی ہیں اور خاندان کو تباہ کرتی ہیں ۔ بڑھیا گھر کی مالکن تھی ، اگر چہ کنجیاں بڑی بہو کے پاس رہتی تھیں ۔ پھول متی میں وہ حکومت پسندی نہ تھی جو بڑھاپے کو سخت گیر بنادیا کرتی ہے ۔ مگر اس کی مرضی کے بغیر کوئی لڑکا ناشتہ نہیں منگا سکتا تھا۔
شام کا وقت تھا۔ پنڈت جی کو مرے آج بارہواں دن تھا۔ کل تیرہو یں ہے۔ برہم بھوج ہوگا۔ برادری کی دعوت ہوگی ۔ اس کی تیاریاں ہورہی تھیں ۔ پھول متی حجرے میں بیٹھی دیکھ رہی تھی کہ پلے دار بوروں میں آٹالا کر رکھ رہے ہیں ۔گھی کے ٹین آرہے ہیں ۔ سبزی کے ٹوکرے، شکر کی بوریاں ، دہی کی مٹکیاں سب چلی آ رہی ہیں ۔مہا برہمن کے لیے دان کی چیزیں لائی گئیں۔ برتن ، پلنگ ، بستر ، کپڑے وغیرہ مگر پھول متی کو کوئی چیز نہیں دکھائی گئی۔حسب ضابطہ سب چیز یں اس کے پاس آنی چاہیے تھیں ۔ وہ ہر ایک چیز کو دیکھتی ، انھیں پسند کرتی ، ان کی مقدار میں کمی بیشی کرتی ،تب ان چیزوں کو بھنڈارے میں رکھا جاتا ۔ مگراسے دکھانے کی کسی نے ضرورت نہ سمجھی۔ اچھا! اور آٹاتین ہی بوری کیوں آیا۔ اس نے تو پانچ بوریوں کے لیے کہا تھا۔ گھی کے بھی پانچ کنستر آئے ۔ اس نے دس کنستر منگوائے تھے۔ شاید سبزی ، دہی ،شکر وغیرہ میں بھی کمی کی گئی ہوگی۔کس نے اس کے حکم میں مداخلت کی ۔ جب اس نے بات طے کر دی تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس میں کمی بیشی کرے۔ آج چالیس سال سے گھر کے ہر ایک معاملے میں پھول متی کا فیصلہ ناطق تھا۔ اس نے سو کہا تو سوخرچ کیے گئے ۔ ایک کہا تو ایک ۔ کسی نے مین میکھ نہ کی ۔ یہاں تک کہ پنڈت اجودھیا ناتھ سب کچھ اس کی مرضی پر چھوڑ دیتے تھے ۔ پر آج اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، وہ اسے کیوں کر برداشت کر سکتی تھی ۔
وہ کچھ دیر تک تو ضبط کیے بیٹھی رہی ۔ پر آخر اس سے نہ ر ہا گیا ۔خود پروری اس کی فطرت ثانی بن گئی تھی ۔ غصے میں بھری ہوئی آئی اور کا متا ناتھ سے بولی:’’ کیا آٹا تین بورے لائے، میں نے پانچ بوروں کے لیے کہا تھا اور گھی بھی پانچ کنستر تمھیں یاد ہے میں نے دس کنستر کہے تھے ۔ کفایت کو میں بر انہیں کہتی لیکن جس نے یہ کنواں کھودا اس کی آتما پانی کوتر سے تو کتنے شرم کی بات ہے ۔
کا متا ناتھ نے معذرت نہیں کی ۔عذرِگناہ نہیں کیا۔ نادم بھی نہیں ہوا۔ فورا تقصیر کی تلافی کرنے نہیں دوڑا۔ ایک منٹ تو باغیانہ انداز سے کھڑا رہا۔ پھر بولا :’’ ہم لوگوں کی صلاح تین ہی بوروں کی ہوئی اور تین بوروں کے لیے پانچ کنسترگھی کافی تھا۔ اسی حساب سے اور چیز یں بھی کم کر دی گئیں ۔‘‘
پھول متی تیز ہوکر بولی : کس کی رائے سے آ ٹا کم کیا گیا؟‘‘
’’ہم لوگوں کی رائےسے ۔‘‘
تو میری رائےکوئی چیز نہیں ہے؟‘‘
’’ ہے کیوں نہیں لیکن اپنا نفع نقصان تو ہم بھی سمجھتے ہیں ۔‘‘
پھول متی ہکا بکا ہوکر اس کا منہ تکنے لگی ۔ اس جملے کا مطلب اس کی سمجھ میں نہ آیا، اپنا نفع نقصان ۔ میں اپنا‘‘ کیا بلا ہے؟ اس کا وجود کب سے ہوا؟ اس گھر کے نقصان کی ذمہ داری اس کے سر ہے ، دوسروں کو خواہ وہ اس کے پیٹ کے لڑ کے ہی کیوں نہ ہوں ، اس کے فیصلے میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ لونڈا اس طرح جواب دے رہا ہے گویا گھر اس کا ہے ۔ اس نے مر مر کر یہ گرہستی جمع کی ہے ۔ میں تو غیر ہوں ، ذرا اس کی خودسری تو دیکھو۔
اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا: ” میرے نفع نقصان کے ذمہ دارتم نہیں ہو۔ مجھے اختیار ہے میں جو مناسب سمجھوں وہ کروں ۔ابھی جا کر دو بورے آٹا اور پانچ کنستر گھی اور لاؤ اور آئندہ سے خبر دار جو کسی نے میری بات کاٹی ‘‘
اس نے اپنے خیال میں ضرورت سے زیادہ تنبیہ کر دی تھی اور اب وہاں کھڑے ہونے کی ضرورت نہ سمجھ کر وہ اپنے حجرے میں چلی آئی ۔ حالانکہ کامتا ناتھ ابھی وہیں کھڑا تھا اور اس کے چہرے سے ایسا مترشح ہورہا تھا کہ اسے اس حکم کی تعمیل میں کچھ عذر ہے، مگر پھول متی مطمئن بیٹھی تھی۔ اتنی تنبیہ پر بھی کسی کو اس کی نافرمانی کی جرات ہوسکتی ہے، یہ اس کے ذہن میں نہ آیا۔ مگر رفتہ رفتہ اس پر اب حقیقت کھلنے لگی تھی کہ اس کے گھر میں اس کی وہ حیثیت نہیں رہی جو دس بارہ روز پہلے تھی ۔ رشتہ داروں کے یہاں سے نو ید میں گھی ، شکر ،مٹھائی وغیرہ آرہی تھی۔ بڑی بہوان چیزوں کو خاص انداز سے سنبھال سنبھال کر رکھ رہی تھی ۔ تینوں چھوٹی بہوئیں بھی بھنڈارے میں گھسی ہوئی تھیں ۔کوئی بھی پھول متی سے پوچھنے نہیں آتا۔ برادری کے لوگ بھی جو کچھ پوچھتے ہیں وہ کامتانا تھ سے یا بڑی بہو سے ۔ کامتاناتھ کہاں کا بڑا مہتمم ہے، دن بھر بھنگ پیے پڑارہتا ہے اور بڑی بہوجیسی پھوہڑ عورت بھلا ان باتوں کو کیا سمجھ سکتی ہے۔ بھد ہوگی اور کیا۔ سب کے سب خاندان کی ناک کٹوائیں گے ۔ وقت پر کوئی نہ کوئی چیز کم ہو جائے گی تب ادھر ادھر بھاگے پھریں گے۔ ان کاموں کے لیے بڑا تجربہ اور سلیقہ چاہیے۔ کوئی چیز ضرورت سے زیادہ بن جائے گی اور ماری ماری پھرے گی۔ کوئی چیز اتنی کم بنے گی کہ کسی پتل پر پہنچے گی ،کسی پر نہیں۔آخران سبھوں کو کیا ہو گیا ہے؟ اچھا بڑی بہوسیف کیوں کھول رہی ہے۔ وہ سیف کو میری مرضی کے بغیر کھولنے والی کون ہوتی ہے؟ کنجی اس کے پاس ہے ضرور لیکن جب تک میں روپے نہ نکلاؤں وہ صندوق نہیں کھول سکتی ، آج اس طرح کھول رہی ہے گویا سب کچھ وہ ہے میں کچھ ہوں ہی نہیں ۔ اس نے بڑی بہو کے پاس جا کر تند لہجے میں کہا: ’’سیف کیوں کھولتی ہو بہو؟ میں نے تو کھولنے کونہیں کہا۔‘‘
بڑی بہونے بے باکانہ انداز سے کہا: ’’بازار سے سامان آیا ہے تو دام نہ دیا جائے گا؟ کون چیز کس بھاؤ سے آئی ہے اور کتنی آئی ہے مجھے کچھ معلوم نہیں جب تک حساب کتاب نہ ہو جائےروپے کیسے دیے جائیں؟
’’حساب کتاب سب ہو گیا ہے ۔‘‘
کس نے کیا؟‘‘
’’اب میں کیا جانوں جا کر اپنے لڑکوں سے پوچھو“
پھول متی پھرآکراپنی کوٹھری میں بیٹھ گئی۔ اس وقت بگڑ نے کا موقع نہ تھا۔ گھر میں مہمان بھرے ہوئے تھے۔ اگر اس وقت اس نے لڑکوں کو ڈانٹا تو لوگ یہی تو کہیں گے کہ پنڈت کے مرتے ہی ان کے گھر میں پھوٹ پڑگئی۔ خون کا گھونٹ پی پی کر رہ جاتی ہے، جب مہمان رخصت ہو جائیں تب وہ ایک ایک کی خبر لے گی ۔ دیکھے گی اس وقت لڑ کے کیا باتیں بناتے ہیں۔ اس عرصےمیں وہ کار پردازوں کی بے قاعدگیوں اور فضول کاریوں اور غلطیوں کا مبصرانہ نگاہوں سے مشاہدہ کر رہی تھی ۔ بارہ بجتے بجتے دعوت شروع ہوئی ۔ ساری برادری کے لوگ یک بارگی کھانے کے لیے بلا لیے گئے ۔ پھول متی کھڑی کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی صحن میں مشکل سے ڈھائی سو آ دمی بیٹھ سکتے ہیں ۔ یہ ساری برادری کیسے بیٹھے گی ۔ دوپنکتوں میں لوگ بیٹھتے تو کیا برا تھا۔ یہی تو ہوتا دو کی جگہ چار بجے ختم ہوتی مگر یہاں تو سب کو سونے کی فکر پڑی ہوئی ہے ۔
دفعتا شور مچا۔’’ تر کاریوں میں نمک نہیں ۔“
بڑی بہو جلدی سے نمک پیسنے گئی ۔ پھول متی غصے سے ہونٹ چبا رہی تھی مگر اس موقع پرزبان نہ کھول سکتی تھی ۔ بارے نمک پسا اور پتیلیوں میں ڈالا گیا۔
یکا یک پھر شور مچا۔ پانی گرم ہے ۔‘‘
گھر میں برف نہ تھی۔آدمی بازار دوڑا گیا۔ بازار میں اتنی رات گئے برف کہاں ، آدمی نا کام لوٹ آیا۔ مہمانوں کو وہی نل کا گرم پانی پینا پڑا۔ پھول متی کا بس چلتا تو لڑکوں کا منہ نوچ لیتی ۔ ایسی بد انتظامی اس کے گھر میں کبھی نہ ہوئی تھی ۔ اس پر سب کو مالک اور منتظم بننے کی دھن ہے۔ برف جیسی ضروری چیز منگوانے کی کسی کو بھی سدھ نہ رہی ۔ سدھ کہاں سے آئے جب کسی کو گپ مارنے سے فرصت نہ ملے ۔مہمان اپنے دل میں کیا کہتے ہوں گے ۔ دعوت کرنے چلے تھے اور گھر میں برف تک نہیں ۔ اچھا پھر کیوں گھر میں ہل چل مچی؟ ارے غضب ! کسی کے شوربے میں ایک مری چوہیا نکل آئی ۔ یا بھگوان؟ اب تمھیں آبرور کھیو۔ چھی! اس پھوہرپن کی بھی کوئی حد ہے ۔ سارے مہمان اٹھے جار ہے ہیں ۔ نہ اٹھیں تو کیا کر یں ۔ آنکھوں سے دیکھ کر مکھی کون نکلے گا۔ پھول متی کے دل میں ایسا ابال اٹھ رہا تھا کہ دیوار سے سرٹکرالے۔مجنونانہ حالت میں بار بار سر کے بال نوچتی تھی ۔ابھاگے دعوت کا انتظام کرنے چلے تھے ۔ سارا کر ادھرامٹی میں مل گیا۔سیکڑوں روپے پر پانی پھر گیا۔ بدنامی ہوئی وہ الگ ۔ اب اس سے ضبط نہ ہوسکا۔ مہمان اٹھ چکے تھے۔ پتلوں میں کھانا جوں کا توں پڑا تھا۔ چاروں لڑ کے آنگن میں نادم کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کو الزام دے رہا تھا۔ بڑی بہود یورانیوں پر بگڑ رہی تھیں ۔اسی وقت پھول متی شعلے کی طرح ٹوٹ کر آئی اور بولی ’’ منہ میں کا لک لگ گئی کہ نہیں؟ یا ابھی کچھ کسر ہے۔ ڈوب مروسب کے سب جا کر چلو بھر پانی میں ۔شہر میں کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے ۔ہفتوں اس دعوت کا چرچار ہے گا۔ مذاق اڑایا جائے گا۔ تم لوگوں کو کچھ شرم وحیا تو ہے نہیں تمھیں کیا ، آتما تو اس کی رورہی ہے جس نے زندگی کو گھر کی آبرو بنانے میں تباہ کردیا۔”
کامتا ناتھ کچھ دیرتو کھڑا سنتا رہا۔ آخر جھنجھلا کر بولا:”اچھااب رہنے دو اماں۔ غلطی ہوئی ۔ ہم سب مانتے ہیں بہت بڑی غلطی ہوئی ، لیکن اب کیا اس کے لیے آدمیوں کو حلال کر ڈالوگی؟ سبھی سے غلطیاں ہوتی ہیں ، پچھتانے کے سوا آدمی اور کیا کرتا ہے ۔ کسی کی جان تو نہیں ماری جاتی ۔آدمی غلطیوں ہی سے سیکھتا بھی تو ہے ۔”
بڑی بہو نے فرمایا: ’ہم کیا جانتے تھے کہ بی بی ( نندکملا ) سے اتنا ذرا سا کام نہ ہوگا ۔ چوہیاتر کاری میں بیٹھی ہوگی۔ انھوں نے ٹوکری کو بغیر دیکھے بھالے کڑھاؤ میں ڈال دیا ۔‘‘
کامتاناتھ نے بیوی کو ڈانٹا:’’ اس میں نہ کملا کا قصور ہے، نہ تمھارا، نہ میرا ۔اتفاق ہے ۔ اتنے بڑے بھوج میں ایک ایک مٹھی تر کاری کڑ ھاؤ میں نہیں ڈالی جاتی ۔ ٹوکرے کے ٹوکرے انڈیل دیے جاتے ہیں ۔اس میں کیسی جگ ہنسائی اور کیسی نک کٹائی ۔ تم خواہ مخواہ جلے پر نمک چھڑکتی ہو۔
پھول متی: ’شرماتے تو نہیں ۔الٹے اور بے حیائی کی باتیں کر تے ہو ۔”
کامتا: ”شرماؤں کیوں کسی کی چوری کی ہے؟ چینی میں چیونٹے اور آٹے میں گھن یہ سب تو نہیں دیکھے جاتے ۔ ہماری نگاہ نہ پڑی ۔ بس یہی بات بگڑ گئی ۔ ورنہ چپکے سے چوہیا پکڑ کر نکال دیتے ۔کسی کو خبر تک نہ ہوتی ۔“
پھول متی اس کفر پر استعجاب سے بولی:” کیا سب کو چوہیا کھلا کر ان کا دھرم لے لیتا ؟‘‘
کامتانا تھ ماں کی طرف نگاہ ملامت سے دیکھ کر بولا:” کیا پرانے زمانے کی باتیں کر رہی ہو اماں ۔ان باتوں سے دھرم نہیں جا تا ۔ یہ دھرم ماتما لوگ جو پتل سے اٹھ اٹھ کر گئے ہیں ان میں ایسا کون ہے جو بھیٹر بکری کا گوشت نہ کھا تا ہو۔ تالاب کے کچھوے اور گھونگے تک تو کسی سے بچے نہیں ۔ کیا وہ ذراسی چوہیا ان سب سے نا پاک ہے ۔ پھول متی کے پاس ایسی کٹھ حجتوں کا جواب نہ تھا۔ اپنا سا منہ لے کر چلی گئی ۔
(2)
دو مہینے گزر گئے ہیں ۔ رات کا وقت ہے۔ چاروں بھائی بھنگ پی کر کمرے میں بیٹھے مشورہ کر رہے ہیں ۔ بڑی بہو بھی اس مجلس میں شریک ہیں۔
کامتاناتھ نے مسند پر ٹک کر کہا: میں تو کمد کی شادی میں اپنے حصے کی ایک پائی بھی نہیں دے سکتا ۔آخر میرے بھی تو بال بچے ہیں ۔“
امانا تھ: تو یہاں کس کے پاس فالتو روپے ہیں ۔ پانچ پانچ ہزار ہی تو ایک ایک کے حصے میں آتے ہیں ۔ مجھے اپنامیڈیکل ہال کھولنے کے لیے کم از کم پانچ ہزار کی ضرورت ہے ۔
دیانا تھ: ” مجھے بھی پر یسں اور اخبار کی فکر ہے۔ پانچ ہزار اپنے ہوں گے تو پانچ ہزار کا کوئی سا جھی اور مل جائے گا۔ میں تو اپنے روپے میں سے ایک کوڑی بھی نہیں دے سکتا ۔‘‘
کامتا :دادانے پانچ ہزار جہیزٹھہرایا تھا۔ اس کی ضرورت ہی کیا ہے کہ پنڈت مراری لال کے لڑکے سے شادی ہو۔ لڑ کی قسمت والی ہوتو غریب گھر میں بھی رہ سکتی ہے ۔ بدنصیب ہو تو راجا کے گھر میں روتی رہے گی ۔ یہ تو نصیبوں کا کھیل ہے ۔
سیتا نے شرماتے ہوئے کہا: ’یہ تو مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ طے کی ہوئی سگائی توڑ دی جائے۔ ان سے کہا جائےکہ پانچ ہزار کی جگہ تین ہزار لے لیں ۔ اس طرح پانچ ہزار میں شادی ہوسکتی ہے ۔ میں اپنے حصے کے سب روپے دے دوں گا ۔‘‘
کامتاناتھ نے کھسیا کر بھائیوں سے کہا:’’ سنتے ہواس کی باتیں ‘‘
اما: “جب ٹھوکریں کھائیں گے تو آنکھیں کھلیں گی ‘‘
کامتا: “اتنایا درکھو کہ ہم لوگ تمھاری تعلیم کے ذمہ دارنہیں ہیں ۔‘‘
سیتا: جی ہاں ۔ یاد ہے ۔
اُما: ’’اور جو کہیں تمھیں ولایت جا کر پڑھنے کے لیے کل وظیفہ مل جائے تو سوٹ بوٹ اور سفر خرچ کے لیے رو پیا کہاں سے لاؤ گے؟ اس وقت کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرو گے؟‘‘
کامتا : “اور وظیفہ تمھیں ملے گا ۔ کہو میں آج لکھ دوں ۔‘‘
اس دلیل سے سیتا ناتھ کو بھی تو ڑ لیا ۔ فی الواقعہ اگر اسے سرکاری وظیفہ مل گیا تو چار پانچ ہزار تیاریوں کے لیے درکار ہوں گے ۔ کمد کے لیے وہ اتنی بڑی قربانی ہر گز نہیں کر سکتا کہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی آرزو کو پامال کرے۔ بولا:”ہاں ایسی حالت میں تو مجھے بھی روپے کی ضرورت پڑے گی ۔‘‘
کامتا : “تو اس کی ایک صورت یہی ہے کہ کمد کی شادی کم سے کم خرچ میں کر دی جائے ۔ایک ہزار سے زیادہ ہم کسی طرح خرچ نہیں کر سکتے ۔“
’’ پنڈت دین دیال کیسے رہیں گے؟ ایم ۔اے، بی ۔اے نہ سہی ججمانی سے ان کی آمدنی پچاس روپے ماہوار سے کم نہیں ۔عمر بھی ابھی چالیس سال سے زیادہ نہ ہوگی ۔ پچھلے سال ہی تو بیوی مری ہے ۔ مجھے یقین ہے وہ بغیر جہیز کے راضی ہو جائیں گے ۔“
کامتا : “یہ نہ کہو۔ وہ آج چاہیں تو ہزار دو ہزار پاسکتے ہیں۔ مگر ہمارے ساتھ کچھ دب جائیں گے ۔ تو یہی صلاح کہ مراری لال کو جواب دیا جائے اور دین دیال کے ساتھ سگائی کی جائے ۔
دیا: ’’اماں سے بھی پوچھ لینا چاہیے ۔
کامتا: ” اماں سے پوچھنا بے کار ہے ۔ ان کی تو جیسے عقل گھاس کھا گئی ہے ۔ وہی پرانے وقتوں کی باتیں ! مراری لال کے نام پر ادھار کھائے بیٹھی ہیں۔ یہ نہیں سمجھتیں کہ وہ زمانہ نہیں رہا۔“
اُما: “وہ مانیں گی نہیں ۔اپنے ز یور بیچ کر شادی کر یں گی ۔ دیکھ لیجیے گا‘‘
کامتا: ’’ہاں یہ ممکن ہے ۔ زیوروں پر ان کا پورا اختیار ہے ۔ یہ ان کا استری دھن ہے ۔ وہ جو چاہیں کر سکتی ہیں ۔
دیا ناتھ ’’استری دھن ہے تو کیا اسے لٹاد یں گی؟ آخر وہ بھی تو دادا ہی کی کمائی ہے ۔
کامتا:”کسی کی کمائی ہو۔ استری دھن عورت کی چیز ہے ۔‘‘
اُما: ” یہ سب قانونی گورکھ دھندے ہیں ۔ استری دھن کوئی چیز نہیں ۔ گہنے دس ہزار سے کم کے نہیں ہیں ۔ اتنی بڑی رقم ہم کھو دینے کے لیے تیارنہیں ہیں ۔ کسی بہانے سے یہ گہنے اپنے ہاتھ میں کرنے ہوں گے ۔ابھی دین دیال کا ذکر نہ کرو ورنہ تاڑ جائیں گی ۔ گہنے اپنے پاس آجائیں تو صاف صاف کہہ دو ۔ تب کیا کر لیں گی۔“
دیا: ’’ہاں یہ تر کیب اچھی ہے ۔“
کامتا: ” مجھے دھوکے کی چال مناسب نہیں معلوم ہوتی ۔ جس پر ہمارا حق ہے اس کے لیے ہم لڑ سکتے ہیں ۔ جس پر ہماراحق نہیں اس کے لیے ہم دھوکا دھڑی نہیں کر سکتے ۔“
دیانا تھ: ” تو آپ الگ بیٹھیے ۔ میں جا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک اخبار میں مضمون لکھا تھا اس پر سر کار مقدمہ چلا رہی ہے۔ پانچ ہزار کی ضمانت دینی پڑے گی ۔ آپ اپنے زیور دے د یں تو میری جان بچ جائے گی ۔ آپ لوگ بھی کچھ نمک مرچ ملا دیجیے گا۔”
کامتا: ’’نا بھیا، میں اس کام کے قریب نہ جاؤں گا ۔‘‘ ۔
سیتا: ’’میرا بھی استعفی ہے۔ “
اُما: ’’ان لوگوں کو جانے دو جی ۔ ہم اور تم مل کر رنگ جمالیں گے۔ یہ دھرما تمالوگ ہیں ۔
بھیانو کر ہی ہیں ۔ سیتا کو وظیفہ ملنے والا ہے ۔ضرورت تو ہمیں اور تمھیں ہے ۔“
بڑی بہو نے فرمایا:’’ پچاس روپے کے ہی تو نوکر ہیں یا اور کچھ ۔اتنے دن مجھے آئے ہو گئے ، پیتل کا ایک چھلا بھی نہ بنوایا۔ توفیق ہی نہ ہوئی ۔آج دھرماتما بنے ہیں۔ “
اُما: ’’اماں کے زیور مل جائیں گے تو ان کا ہار تمھیں دے دوں گا۔ بھائی خاطر جمع رکھو۔“
بڑی بہو: ’’مل چکے، وہ گڑ نہیں جو چینٹے کھا جائیں ‘‘
دیا:”اچھا تو اس بات پر ابھی جاتا ہوں ۔ زیور لے کر نہ آ جاؤں تو منہ نہ دکھاؤں ۔‘‘
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دیا ناتھ کی کوڑی چیت پڑی۔ ماں کا مامتا بھرا دل بیٹے کی مصیبت دیکھ کر کیوں نہ پسیجتا۔ پھول متی یہ داستان سنتے ہی باؤلی ہوگئی ۔اس پراماناتھ نے اور بھی ردّا جمایا: ’اگر صبح دس بجے تک روپے داخل نہ ہوئے تو ہتھکڑ یاں پڑ جائیں گی ۔ بنک سے روپے تو ابھی مل نہیں سکتے ۔ مہینوں خط و کتابت ہوگی۔ وراثت کا فیصلہ ہو جائے گا تب کہیں جا کر روپے ملیں گے ۔ پھول متی کو یہ کب برداشت ہوسکتا تھا کہ اس کے زیوروں کے ہوتے اس کے بیٹے کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑ جائیں ۔ سارے زیور نکال کر دیا ناتھ کو دے دیے۔ اس طرح اپنی ماں کی گردن پر خنجر چلا کر دونوں نا خلف خوش خوش بھائیوں کے پاس لوٹ آئے
(3)
دو تین مہینے اور گزر گئے ۔ زیوروں پر تصرف کر کے چاروں بھائی اب ماں کی دلجوئی کرنے لگے ۔ اپنی بیویوں کو سمجھاتے رہتے کہ اماں کا دل نہ دکھائیں ۔ اگر اس کی تشفی تھوڑی سی ظاہر داری سے ہو جاتی ہے تو اس میں کیوں کمی کی جائے ۔ چاروں کرتے اپنے دل کی مگر ماں سے صلاح ‘ لے لیتے یا ایسا جال پھیلا تے کہ وہ ان کی باتوں میں آ جاتی اور ہر ایک بات میں رضا مند ہو جاتی ۔ باغ کا فروخت کرنا اسے بہت ناگوار گزرا تھا، لیکن چاروں نے ایسی بندشیں باندھیں کہ وہ اسے بیع کرنے پر راضی ہوگئی ، ہاں کمد کی شادی کے معاملے میں بیٹوں سے اس کا اتفاق نہ ہوا ۔ وہ کہتی تھی کہ شادی مراری لال کے لڑکے سے ہی ہوگی ۔ چاروں بھائی پنڈت دین دیال سے کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن اس بات پر تکرار کی نوبت آگئی۔
پھول متی نے کہا:’’ ماں باپ کی کمائی میں کیا بیٹی کا حصہ نہیں ہے؟ تمھیں دس ہزار کا ایک باغ ملا۔ پچیس ہزار کا مکان ، بیس ہزار نقد میں سے کیا پانچ ہزار بھی کمد کا حصہ نہیں ہے؟‘‘
کامتاناتھ نے نرمی سے کہا: ”اماں! کمد ہماری بہن ہے اور ہم اپنے مقدور بھر کوئی ایسی بات نہ کر یں گے جس سے اسے نقصان ہو، لیکن حصے کی جو بات کہتی ہو تو کمد کا حصہ کچھ نہیں ہے ۔ دادا جب زندہ تھے تب اور بات تھی ۔ اب تو ہمیں ایک ایک پیسے کی کفایت کرنا پڑے گی ۔ جو کام ایک ہزار سے ہوجائے اس کے لیے پانچ ہزار خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟”
اُما ناتھ نے تصحیح کی:”پانچ ہزارکیوں صاحب۔ دس ہزار کہیے۔ دعوت، ضیافت،رسم، رسوم میں کیا پانچ ہزار بھی خرچ نہ ہوں گے۔”
کامتا:’’ہاں ٹھیک ہے۔ دس ہزار ہی سمجھو۔دس ہزار روپے ایک شادی میں خرچ کرنے کی اب ہماری حیثیت نہیں ہے ۔
پھول متی نے ضد پکڑ کر کہا’’ شادی تو مراری لال کے لڑکے سے ہی ہوگی ۔ چاہے پانچ ہزار خرچ ہوں ، چاہے دس ہزار ۔ میرے شوہر کی کمائی ہے ۔ میں نے مرمر کر جوڑا ہے ۔ اپنی مرضی سے خرچ کروں گی تم سے مانگنے جاؤں تو مت دینا۔
کامتاناتھ کو اب تلخ حقیقت کے اظہار کے سوا چارہ نہ رہا بولے: ’’ اماں تم خواہ مخواہ بڑھاتی ہو۔ جس روپے کواب تم اپنا سمجھتی ہو وہ تمھارانہیں ہے۔ وہ ہمارا ہے ۔ ایک ایک پائی ہماری ہے ۔ تم ہماری مرضی کے بغیر اس میں سے خرچ نہیں کرسکتیں ۔
پھول متی کو جیسے سانپ نے ڈس لیا۔ بولی:” کیا کہا؟ پھر تو کہنا۔ میں اپنے ہی روپے اپنی مرضی سے خرچ نہیں کر سکتی؟‘‘
کامتا: ”وہ روپے تمھارے نہیں ہمارے ہیں؟‘‘
پھول متی: “تمھارے ہوں گے لیکن میرے مرنے کے بعد ۔“
کامتا نہیں دادا کے مرتے ہی سب کچھ ہمارا ہو گیا ۔
اُما: ’’اماں قانون تو جانتی نہیں خواہ مخواہ الجھتی ہیں ۔“
پھول متی کی بے نور آنکھیں شعلے کی طرح دہک اٹھیں ۔ چہرہ لال ہو گیا۔ بولی:” تمھاراقانون بھاڑ میں جائے۔ ایسے قانون میں آگ لگے۔ میں ایسے لچر قانون کو نہیں مانتی۔ یہ قانون ہے کہ گلے پر چھری پھیرنا ہے ۔ تمھارے دادا ایسے کوئی دھنا سیٹھ نہ تھے ۔ میں نے پیٹ اور تن کاٹ کاٹ کر یہ روپے جمع کیے ہیں ۔ نہیں تو آج اس گھر میں دھول اڑتی ہوتی ۔گھر ہی کہاں ہوتا۔ میرے جیتے جی تم میرے روپے چھونہیں سکتے ۔ میں نے تم چاروں کی شادی میں دس دس ہزار خرچ کیے ہیں ۔ تمھاری پڑھائی میں بھی پانچ پانچ ہزار سے کم خرچ نہ ہوئے ہوں گے۔ کمد بھی تو میرے ہی پیٹ سے پیدا ہوئی ہے ۔ اس کی شادی میں بھی دس ہزار خرچ کروں گی ۔ جو کچھ بچے گا ، وہ تم لے لینا ‘‘
اماناتھ نے جھلا کر کہا: ’’ بھائی صاحب! آپ ناحق اماں کے منہ لگتے ہیں ۔ چل کر مراری لال کو خط لکھ دیجیے۔ تمھارے ہاں شادی نہ ہوگی۔ دین دیال کے پاس آج ہی پیغام بھیج دیجیے ۔اماں کو بکنے دیجیے ۔ یہ قانون قاعد ہ تو جانتی نہیں ۔ بیکار بحث کرتی ہیں ۔“
پھول متی نے ضبط کر کے کہا: اچھا کیا قانون ہے ۔ ذرا میں بھی سنوں ‘‘۔
اما: ” قانون یہی ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد ساری جائیداد بیٹوں کی ہو جاتی ہے۔ ماں کا حق صرف گزارہ لینے کا ہے ۔
پھول متی نے پوچھا: ” کس نے بنایا ہے ایسا قانون؟‘‘
اُما:’’ ہمارے رشیوں نے ،مہاراج منو نے اور کس نے؟‘‘
پھول متی ایک لمحہ خاموش رہ کر بولی:”تو میں اس گھر میں تمھارے ٹکڑوں پر پڑی ہوئی ہوں۔“
اُما: “تم جیسا سمجھو ۔‘‘
پھول متی:” گھر میں نے بنوایا ہے۔روپے میں نے جوڑے ، باغ میں نے خریدا اور آج اسی گھر میں میں غیر ہوں؟ منو نے یہی قانون بنا یا ہے؟ اچھی بات ہے اپنا گھر بارلو۔ میری جان چھوڑو ۔ اس طرح محتاج بن کر رہنا مجھے منظور نہیں ۔ اس سے کہیں اچھا ہے کہ مرجاؤں۔واہ رے اندھیر ! میں نے ہی درخت لگایا اور میں ہی اس کا پتا نہیں توڑ سکتی۔ میں نے گھر بنوایا۔ میں ہی اس میں نہیں رہ سکتی۔اگر یہی قانون ہے تو اس میں آگ لگ جائے۔ اگر میں جانتی کہ میری یہ درگت ہونے والی ہے تو ساری جائیداد اپنے نام کرالیتی ۔
چاروں نوجوان پر ماں کی اس تندی کا کوئی اثر نہ ہوا۔ قانون کا فولادی زرہ ان کی حفاظت کر رہا تھا۔ اس کچے لوہے کا ان پر کیا اثر ہوتا ۔
شام ہوگئی تھی ۔ دروازے پر نیم کا درخت سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کے پتوں میں بھی حس نہ تھی۔ رخصت ہونے والے آفتاب کی ٹھنڈی کر نیں جیسے جائے پناہ ڈھونڈتی پھرتی تھیں ۔ پھول متی آہستہ سے اٹھ کر اپنی کوٹھری میں چلی گئی۔
(4)
پھول متی اپنے کمرے میں جا کر لیٹی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی کمرٹوٹ گئی ہے ۔ شوہر کے مرتے ہی اپنے پیٹ کے جنے لڑ کے اس کے دشمن ہو جائیں گے ۔اس کا اسے کبھی خواب میں بھی گمان نہ ہوا تھا۔ جن لڑکوں کو اس نے خونِ جگر پلا پلا کر پالا ،جن پر اسے اتناغر ورتھاوہی آج اسے یوں آنکھیں دکھا رہے ہیں ۔ واہ رے زمانے کی خوبی! اب اس گھر میں رہنا اسے عذاب معلوم ہوتا تھا۔ جہاں اس کی کچھ قدر نہیں ، کچھ گنتی نہیں ، وہاں لاوارثوں کی طرح پڑی روٹیاں کھائے۔ یہ اس کی خوددارطبیعت کے لیے حد درجہ گراں تھا مگر چارہ ہی کیا تھا۔ وہ لڑکوں سے الگ ہوکر ر ہے بھی تو کس کی ناک کٹے گی ۔ زمانہ اسے تھو کے تو کیا اور لڑکوں کو تھو کے تو کیا۔ بدنامی تو اس کی ہے ۔ دنیا تو یہی کہے گی کہ چار جوان بیٹوں کے ہوتے بڑھیا الگ پڑی ہوئی مزدوری کر کے پیٹ پال رہی ہے۔ جسے اس نے ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا وہی اب اس پر ہنسیں گے ۔ نہیں یہ ذلت اس بے کسی کی ذات سے کہیں زیادہ دل شکن تھی ۔ اب اسے اپنے آپ کو ایک نئے طرزعمل کا عادی بنا نا پڑے گا ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ اسے اب نئے ماحول کے اندر زندگی بسر کرنی ہوگی ۔ اب تک مالکن رہی ، اب لونڈی بن کر رہنا پڑے گا ۔ایشور کی یہی مرضی ہے ۔اپنے بیٹوں کی لاتیں اور باتیں ، غیروں کی لاتوں اور باتوں کے مقابلے میں پھر بھی غنیمت ہیں ۔ وہ بڑی دیر تک منہ ڈھانپے اپنی اس بے کسی پر روتی رہی ۔ساری رات اس روحانی کوفت میں گزرگئی ۔
جاڑوں کی صبح آہستہ آہستہ ڈرتی ڈرتی تاریکی کے پردے سے نکلی جیسے کوئی قیدی چھپ کر جیل سے نکل آیا ہو۔ پھول متی آج معمول کے خلاف تڑ کے ہی اٹھی ۔ رات بھر اس کا روحانی تناسخ ہو چکا تھا۔ سارا گھر سور ہاتھا اور وہ آنگن میں جھاڑ ولگارہی تھی ۔ رات بھر شبنم میں بھیگی ہوئی پختہ زمین اس کے ننگے پیروں میں کانٹوں کی طرح چبھ رہی تھی ۔ پنڈت زندہ تھے تب اسے بہت سویرے نہ ا ٹھنے دیتے تھے ۔ٹھنڈاسے بہت مضرتھی مگر اب وہ دن نہیں رہے ۔ جھاڑو سے فرصت پا کر اس نے آگ جلائی اور کنکریاں چنے لگی ۔ رفتہ رفتہ لڑ کے جاگے، بہوئیں اٹھیں۔ سبھوں نے بڑھیا کو سردی سے سکڑے ہوئےکام کرتے دیکھا پر کسی نے یہ نہ کہا کہ اماں کیوں ہلکان ہوتی ہو۔ شاید وہ بڑھیا کی اس بے کسی پر دل میں خوش ہور ہے تھے ۔
آج سے پھول متی کا یہی وطیرہ ہو گیا کہ جو کچھ بن پڑے گھر کا کام کرنا، سارے گھر کی خدمت کرنا اور انتظامی امور سے الگ رہنا۔ اس کے چہرے پر جو ایک خودداری کی جھلک نمایاں تھی اس کی جگہ ایک حسرت ناک بے بسی چھائی ہوئی نظر آتی تھی ۔ جہاں بجلی جلتی تھی وہاں اب تیل کا چراغ ٹمٹمار ہا تھا۔ جس کے بجھانے کے لیے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا کافی تھا۔ بھائیوں نے طے شدہ تجویز کے مطابق مراری لال کو انکاری خط لکھ بھیجا۔ دین دیال سے کمد کی شادی ہوگئی ۔ دین دیال کی عمر چالیس سے کچھ زیادہ تھی اور خاندانی وجاہت میں بیٹھے تھے لیکن روٹی دال سے خوش تھے۔ بغیر کسی قرار کے شادی منظور کر لی ۔ تاریخ مقرر ہوئی ۔ بارات آئی ۔شادی ہوئی ۔ کمد رخصت ہوئی ۔ پھول متی کے دل پر کیا گزر رہی تھی اسے کون جان سکتا ہے ۔ کمد کے دل پر کیا گزررہی تھی اسے بھی کون جان سکتا ہے ۔لیکن چاروں بھائی بے حد خوش تھے ۔ گویا ان کے پہلو سے کانٹا نکل گیا ہو۔ شریف خاندان کی لڑکی گھر والوں کی رضا میں راضی تھی ۔ تقدیر میں آرام لکھا ہوگا آرام کرے گی تکلیف لکھی ہوگی تکلیف اٹھائے گی ۔ گھر والوں نے جس سے شادی کر دی اس میں ہزار عیب ہوں تو یہی اس کا معبود ، اس کا مالک ۔ انحراف اس کے وہم و گمان سے باہر تھا ۔
پھول متی نے کسی کام میں دخل نہ دیا۔ کمد کو کیا دیا گیا ،مہمانوں کی کیا خاطر مدارات کی گئی اس کے ہاں سے نو ید میں کیا آیا ،اسے کسی امر سے سروکار نہ تھا۔ اس سے کچھ صلاح بھی لی گئی تویہی کہا کہ ’’ بیٹاتم لوگ جو کچھ کرتے ہو اچھا ہی کر تے ہو ۔ مجھ سے کیا پوچھتے ہو ۔ جب کمد کے لیے دروازے پر ڈولی آ گئی اور کمد ماں کے گلے لپٹ کر رونے لگی تو وہ اسے اپنی کوٹھری میں لے گئی اور جو کچھ پچاس روپے اور دو چار ز یوراس کے پاس بچ رہے تھے بیٹی کے آنچل میں ڈال کر بولی :’’ بیٹی ! میری تو دل کی دل ہی میں رہ گئی نہیں تو آج کیا تمھاری شادی اس طرح ہوتی ؟ اور تم اس طرح بدا کی جاتیں؟‘‘
کمد نے روپے اور زیور آنچل سے نکال کر ماں کے قدموں پر رکھ دیے اور بولی :’’اماں میرے لیے تمھاری آشیرباد لاکھوں روپوں کے برابر ہے۔ تم ان چیزوں کو اپنے پاس رکھو۔ نہیں معلوم ابھی تمہیں کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے ۔‘‘ پھول متی کچھ کہنا چاہتی تھی کہ اماناتھ نے آ کر کہا:’’ کیا کر رہی ہو؟ کمد چل جلدی کر ۔ ساعت ٹلی جاتی ہے۔ وہ لوگ جلدی مچار ہے ہیں ۔ پھر تو دو چار مہینے میں آئے گی ہی ، جو کچھ لینا دینا ہو لے لینا ۔‘‘ پھول متی نے دل کو سنبھال کر کہا: میرے پاس اب کیا ہے بیٹا جو میں اسے دوں گی ۔ جاؤ بیٹی بھگوان تمھا راسہاگ امر کریں۔‘‘
کمد رخصت ہوگئی ۔ پھول متی پچھا ڑ کھا کر گر پڑی۔
(5)
ایک سال گزر گیا ۔ پھول متی کا کمرہ گھر میں سب کمروں سے وسیع اور ہوا دار تھا۔ اس نے اسے بڑی بہو کے لیے خالی کر دیا اور ایک چھوٹی سی کوٹھری میں رہنے لگی جیسے کوئی بھکارن ہو ۔ لڑکوں اور بہوؤں سے اسے اب کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اب گھر کی لونڈی تھی ۔ گھر کے کسی فرد سے کسی معاملے سے دلچسپی نہ تھی ۔ وہ زندہ صرف اس لیے تھی کہ اسے موت نہ آتی تھی ۔خوشی اور رنج کا اس کے اوپر کوئی اثر نہ تھا۔ اماناتھ کا مطب کھلا ، احباب کی دعوت ہوئی ۔ دیا ناتھ نے اخبار جاری کیا، پھر جلسہ ہوا۔ سیتا نا تھ کو وظیفہ ملا۔ وہ ولا یت پڑھنے گیا ، پھر جشن ہوا۔ کامتاناتھ کے بڑے لڑکے کا یگیوت ہوا، خوب دھوم دھام ہوئی ۔ پھول متی کے چہرے پر مسرت کی خفیف سی جھلک بھی نظر نہ آئی ۔ اماناتھ ٹائیفائڈ میں مہینہ بھر بیمار رہے ۔ دیا ناتھ نے ایک مضمون لکھا اور دفعہ ۱۴۴ میں چھ مہینے کے لیے جیل چلے گئے ۔ اماناتھ نے ایک معاملے میں رشوت لے کر غلط رپورٹ لکھی اور سال بھر کے لیے معطل کر دیے گئے ۔ پر پھول متی کے چہرے پر رنج کی پر چھائیاں تک نہ پڑی ۔ اس کی زندگی میں کسی قسم کی ویسی کوئی آرزو کوئی فکر نہ تھی ۔ بس چوپایوں کی طرح کام کرنا اور کھانا ، یہی اس کی زندگی کے دو کام تھے ۔ جانور مارنے سے کام کرتا ہے، مگر کھا تا ہے دل سے ۔ وہ بے کہے کام کرتی تھی مگر کھاتی تھی زہر کے نوالوں کی طرح مہینوں سر میں تیل نہ پڑتا۔ مہینوں کپڑے نہ دھلتے ۔کچھ پروانہیں ۔ اس میں احساس ہی گو یا فنا ہو گیا تھا۔
ساون کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ ملیریا پھیل رہا تھا ۔ آسمان پر مٹیالے بادل ، زمین پر مٹیالا پانی ۔ نم ہواسینوں میں بلغم اور کف بھرتی پھرتی تھی ۔ مہری اور کہارن دونوں بیمار پڑ گئے ۔ پھول متی نے گھر کے سارے برتن مانجھے۔ پانی میں بھیگ بھیگ کر سارا کام کیا۔ آگ جلائی ، پتیلیاں چڑھا دیں اور گنگا سے پانی لانے چلی ۔کامتاناتھ روزانہ گنگا جل پیتے تھے۔ نل کا پانی انھیں موافق نہ تھا۔
کامتا ناتھ نے چار پائی پر بیٹھے بیٹھے کہا:’’ رہنے دواماں، میں پانی بھر لاؤں گا۔ کہار اورمہری آج دونوں غائب ہیں‘‘۔
پھول متی نے مٹیالے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: تم بھیگ جاؤ گے بیٹا ،سردی ہو جائے گی۔‘‘
” تم بھیگ رہی ہو، کہیں بیمار نہ پڑ جاؤ۔‘‘
” میں بیمار نہیں پڑوں گی ۔ مجھے بھگوان نے امر کر دیا ہے ۔“
اماناتھ بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے مطب میں کچھ نفع نہ ہوتا تھا ، اس لیے بہت پریشان رہتا تھا۔ بولا :’’ جانے بھی دو بھیا۔ بہت دنوں بہوؤں پر حکومت کر چکی ہے اس کا خمیازہ اٹھانے دو ‘‘
گنگا بڑھی ہوئی تھی ۔ معلوم ہوتا تھا سمندر ہے۔افق پانی کے ساحل سے ملا ہوا تھا۔ کنارے کے درختوں کی صرف پھنگیاں پانی کے اوپر نظر آتی تھیں ۔ پھول متی کلسالیے ہوئےسیڑھیوں کے نیچے اتری۔ پانو پھسلا سنبھل نہ سکی ، پانی میں گر پڑی۔ پل بھر ہاتھ پانو چلائے، پھر لہر یں اسے نیچے کھینچ لے گئیں ۔ کنارے پر دو چار بندے چلائے: ’’ارے بڑھیا ڈولی جاتی ہے ۔‘‘ دو چار آدمی دوڑے بھی لیکن پھول متی نہروں میں سما گئی تھی ۔ ان بل کھاتی ہوئی لہروں میں جنھیں دیکھ کر ہی انسان سہم اٹھتا تھا۔ ایک نے پوچھا: ’’ یہ کون بڑھیا تھی؟‘‘
“ارے وہی پنڈت اجودھیا ناتھ کی بیوہ ہے ۔ “
“اجودھیانا تھ تو بہت بڑے آدمی تھے۔ “
’’ہاں اس کی تقدیر میں ٹھوکر کھانا لکھا تھا۔“
“اس کے تو کئی لڑ کے بڑے بڑے ہیں اور سب کماتے ہیں ۔”
’’ہاں سب ہیں بھائی ،مگر تقدیر بھی تو کوئی چیز ہے ۔‘‘
*****