اردو میں نظم نگاری کا آغاز و ارتقا

اردو میں نظم نگاری کا آغاز و ارتقا

اردو نظم کا ابتدائی دور

اردو شاعری کے دیگر اصناف کی طرح اردو نظم نگاری کی ابتدا دکن ہی میں ہوئی۔ مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ اس سے متعلق احتشام حسین لکھتے ہیں:۔

“جہاں تک اردو میں نظم گوئی کا تعلق ہے عام خیال یہ ہے کہ اس کی ابتدا عہد جدید میں ہوئی ۔ اگر ہم شعوری طور پرایک صنف شاعری کو ترقی دینے کا خیال کریں تو یہ بات غلط نہیں ہےلیکن اگر نظم نگاری کی روایت کی جستجو کریں تو اس کی تاریخ کم وبیش وہی ہوگی جو خود اردو شاعری کی ہے اگر امیر خسرو کو چھوڑ دیں کہ ان کی اُردو یا ہندی شاعری کے متعلق یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے تو دکن میں جہاں اردو شاعری نے ارتقا کے پہلے زینے طے کیے شروع ہی سے مختصر مثنویوں کی شکل میں مذہبی یا صوفیانہ نظمیں ملنے لگتی ہیں۔”۔

(اردو نظم کا تاریخی اور فنی ارتقا ، مشمولہ عکس اور آئینہ:ص؛39)

یقینا اردو ادب کے فروغ میں دکن کی بہمنی سلطنت نے بڑا نمایاں کردار ادا کیا ۔ اور اس کے بعد عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں نے اردو ادب کو مزید جلا بخشا۔ خود بادشاہ بھی شعر و شاعری کاذوق رکھتے تھے۔ ابتدا میں مذہبی اور صوفیانہ نظمیں   بیشتر شعرا کی تخلیقات میں مثنوی کی شکل نظر آتی ہیں۔ ابتدائی دور کے اہم شعرا میں  خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے تصوف کے کچھ رسالے اور نظمیں تخلیق کیں۔ ’چکی نامہ‘ ان کی مشہور نظم ہے۔

عادل شاہی عہد میں تصوف مذہبی اور اخلاقی مضامین شاعری میں غالب نظر آتے ہیں۔ برہان الدین جانم کی نظموں میں مذہبی تعلیمات اور تصوف کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ حجت البقا، وصیت الہادی، بشارت الذکر ان کی اہم نظمیں ہیں۔

اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر سلطان قلی قطب شاہ نے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی اور نظم میں طبع آزمائی کی۔ ان کے فکر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان کے کلام میں مختلف موضوعات پر نظمیں  دیکھی جا سکتی ہیں۔ان سے متعلق احتشام حسین لکھتے ہیں:۔

“سلطان محمد قلی قطب شاہ کا کچھ کلام ایسا ہے جسے نظموں کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا بہت ممکن ہے کہ اس کی نظم گوئی کی روایت تلگو سے رشتہ رکھتی ہو کیوں کہ وہ اس زبان  کا بھی ماہر تھا۔ اس کے پسندیدہ موضوعات ہیں بسنت، عید، شب برات۔ بعض رسوم شادی، اپنی محبوباؤں اور پیاریوں کے حسن وکمال کا بیان، برسات، اپنی خوبصورت تعمیرات اور فتوحات کا ذکر”۔

نظم نگاری کے ابتدائی دور کی نظموں میں بھی موضوعات کے لحاظ سے بڑا تنوع نظر آتا ہے۔

شمالی ہند میں نظم نگاری

شمالی ہند میں اردو نظم نگاری کاآغازسترہویں صدی میں ہوا۔ اردو نظم کے ابتدائی نمونے محمد افضل افضل  اور جعفر زٹلی کے یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ محمد افضل افضل کی ایک اہم تصنیف’بکٹ کہانی، ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔  اس نے ایک عورت کی  زبانی اس کے ہجر کی کیفیات کی تصویر کشی  موثر انداز میں کی ہے۔ اس نظم میں مکمل تسلسل، اثر آفرینی اور بیان میں روانی موجود ہے۔ نظم کا یہ حصہ دیکھیے:۔

کریں عشرت پیا سنگ ناریاں سب
میں ہی کانپوں اکیلی ہائے یارب
اجی ملّا مرا ٹک حال دیکھو
پیارے کے ملن کی فال دیکھو

اس عہد کا اہم شاعر میرجعفر زٹلی ہے۔ اس کی شہرت اپنے پھکڑپن اور فحش کلامی کی و جہ سے ہے  لیکن انھوں نے اپنے عہد کے حقائق کو ایک مخصوص انداز میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔ اس نے طنزیہ اور ہجویہ شاعری کی ایک روایت قائم کی۔ اس عہد کے زوال  اور انحطاط کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس عہد میں نوکری کی صورتِ حال کا بیان دیکھیے:۔

صاحب عجب بیداد ہے، محنت ہمہ برباد ہے
اے دوستاں فریاد ہے، یہ نوکری کا خطر ہے
ہم نام کیوں اسوار ہیں، روزگار سیں بیزاری ہے
یارو ہمیشہ خوار ہیں، یہ نوکری کا خطر ہے
نوکر فدائی خاں کے، محتاج آدھے نان کے
تابع ہیں بے ایمان کے، یہ نوکری کا خطر ہے
(نوکری)

اٹھارویں صدی میں اردو شاعری کا ایک اہم دور شروع ہوتا ہے۔احتشام حسین کے بقول:۔

“لیکن شمالی ہند میں باقاعدہ اردو شاعری فرخؔ سیر اور محمد شاہؔ کے عہد سے شروع ہوئی اور متعدد شعرا نے فارسی گوئی ترک کرکےامیرخسرو کے جلائے ہوئے چراغ کی لو تیز کی اور افضل جھنجھانوی اور میرجعفر زٹلی کے بنائے ہوئے راستہ پر چل کر اپنی بول چال کی زبان کو تہذیبی اورادبی کاموں کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کیا۔”

بحوالہ عکس اور آئینے۔احتشام حسین:ص: 44

 نواب صدرالدین محمد خاں فائز اور شاہ ظہورالدین حاتم کے دور میں اردو نظم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ ان شعرا کے یہاں غزلو ں کے ساتھ مسلسل نظمیں بھی بہت ہیں۔ فائز کے یہاں مختلف عنوانات کی نظمیں ہیں۔مسعود حسن رضوی ادیب فائز کی نظموں سے متعلق لکھتے ہیں:۔

“جس طرح فائز ہماری موجودہ معلومات کی بناپر دہلی کے پہلے غزل گو قرار پاتے ہیں اسی طرح وہ دہلی کے پہلے اُرد و نظم گو بھی ٹھہرتے ہیں۔

بحوالہ عکس اور آئینے۔احتشام حسین:ص: 44۔45

اس عہد کے شعرا میں شاہ ظہورالدین حاتم کا مرثیہ بہت بلند ہے۔ ان کے یہاں کثیر تعداد میں نظمیں موجود ہیں۔ ان کے موضوعات میں بڑی وسعت اور رنگارنگی ہے۔ ان کی نظموں میں حمد ونعت، حقہ، قہوہ، نیرنگیِ زمانہ، حال دل وغیرہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔

محی الدین قادری زور اپنی کتاب سرگذشتِ حاتم بعنوان نظم گوئی لکھتے ہیں:۔

“حاتم کو ایک نظم گو شاعرکی حیثیت سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ میرو سوداسے قبل شمالی ہندی کے جس شاعر کے کلام میں مسلسل نظموں کے وافر نمونے ملتے ہیں وہ حاتمؔ ہی ہیں۔ ان کے ہم عصروں میں ناجیؔ اور آبروؔنے بھی مسلسل نظمیں لکھیں لیکن ان کے موضوع اتنے وسیع نہیں تھے جتنے حاتم کے تھے اور نہ ان کی نظمیں اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں “

سرگذشتِ حاتم۔ محی الدین قادری زور۔ ص: 93

آگے لکھتے ہیں:۔

“شاہ حاتم کی جو نظمیں خاص کر قابل ذکر ہیں اُن کے نام یہ ہیں:۔

حمدونعت، حقہ، قہوہ، نیرنگئ زمانہ، عرضی استعفا، بنامِ فاخرخاں، بارھویں صدی، حالِ دل

اس عہد میں بعض دوسرے شاعروں کے یہاں بھی نظم کے نمونے ملتے ہیں جس سے ان کی قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس دورکے بعد  اردو شاعری کا وہ دور آتا ہے جسے ہم میر و سودا کا دور کہتے ہیں۔ گوکہ میر و سودا کی حیثیت نظم نگارکی نہیں ہے لیکن ان کی مثنویوں، قطعات، ہجو اور شہر آشوب کو ان کے روایتی مفہوم سے الگ کرکے دیکھیں تو اس عہد کے مسائل اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی کشمکش کاا ندازہ ہوتا ہے۔

اس عہد میں نظم کے حوالے سے نظیر اکبرآبادی کا کوئی مدمقابل نظر نہیں آتا۔ نظیر کی شاعری اس عہد کے مجموعی مزاج سے بالکل الگ ایک نئی روایت قائم کرتی ہے۔ احتشام حسین لکھتے ہیں:۔

“اس سلسلہ کی تکمیل ہی نہیں بلکہ ایک نئی روایت کی ابتدا بھی نظیرؔاکبرآبادی سے ہو جاتی ہے جنہوں نے نظم نگاری کو غزل گوئی پر ترجیح دی اور نظموں ہی کو اپنی شخصیت اور اپنے عہد کی ترجمانی کا ذریعہ قرار دیا۔ان کی غزل گوئی بڑی حد تک روایتی اور رسمی ہے لیکن نظمیں اچانک زندگی کی لاتعداد راہیں روشن کر دیتی ہیں۔انھوں نے عشق، مذہب، موسم، تیوہار، کھیل کود، تفریحات، فلسفہ حیات ومرگ، تغیراتِ زمانہ، بچپن، جوانی، بڑھاپا، افلاس، امارت ہرموضوع پر نظمیں لکھیں”

بحوالہ عکس اور آئینے۔احتشام حسین:ص: 49

دراصل نظیر کی شاعری کو کسی دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ اردو نظم نگاری میں وہ اپنی طرزِ فکر کا تنہا شاعر  ہیں جن کے یہاں لامتناہی موضوعات پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے عوامی موضوعات کو عوامی زبان میں اس خوش اسلوبی سے پیش کیا کہ ان کی شاعری لوگوں کی زبان بن گئی۔نظیر کی نظم نگاری کا ایک نمونہ دیکھیے:۔

جب روٹیوں کے بٹنے کا آ کر پڑے شمار
مفلس کو دیویں ایک تونگر کو چار چار
گر اور مانگے وہ تو اسے جھڑکیں بار بار
مفلس کا حال آہ بیاں کیا کروں میں یار
مفلس کو اس جگہ بھی چباتی ہے مفلسی
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہیں اک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
(مفلسی)

1830 میں نظیر کا اتنقال ہوا اس کے بعد عرصے تک نظم کی دنیا سونی رہی۔ ہاں اس درمیان بعض شعرا کے یہاں نظم نگاری کی جانب کوشش  ملتی ہے اس سلسلے میں احتشام حسین رقم طراز ہیں:۔

“انشاء کی بعض نظمیں بھی اپنے ندرتِ بیان کے لحاظ سے خاصے کی چیز کہی جاسکتی ہیں۔ غالبؔ کی چکنی ڈلی، بیسنی روٹی اور آم کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک علیحدہ صنف کی حیثیت سے نظم کو پوری طرح پھلنے پھولنے کے لیے اس دور جدید کا انتظار کرنا پڑاجس نے انیسویں صدی کے وسط میں زندگی کی بنیادوں میں تبدیلی پیدا کردی۔”

1857 میں ہندستان پر انگریزوں کے مکمل تسلط کے بعد حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کے لیے کئی شہروں میں ا نجمنیں قائم کی گئیں۔ ان کے مقاصد میں علوم و فنون کی ترویج واشاعت بھی تھا۔ 21 جنوری 1865 کو انجمن اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ یہی انجمن ’انجمن پنجاب‘ کے نام سے مقبول ہوئی۔ محمد حسین آزاد اس انجمن سے وابستہ تھے۔

پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر ڈولنڈ میکلوڈ کی نظر سے اُس زمانے کی منظور شدہ اردو درسی کتابیں گزریں تو ان کتابوں میں نظموں کی کمی محسوس ہوئی، اور انہوں نے کہا کہ جدید نظمیں شامل کی جائے گی تو مفید مطلب ہوگا۔ اس کی اطلاع ڈی پی آئی کرنل ہالرائڈ کودی گئی تو انہوں نے محمد حسین آزاد سے تبادلہ خیال کرکے ایک جلسہ منعقدکیا، یہ جلسہ 19 اپریل 1874ء کو سکھشا “سبھا” کی عمارت میں بلایا گیا جس میں کرنل ہالرائڈ نے تقریر کی تھی اور آزاد نے ایک عمدہ لکچر دیا۔ اور شب قدر کے عنوان سے ایک مثنوی وقت کے تقاضے کے مطابق پڑھی تھی اور اس جلسے میں موضوعاتی مشاعرہ ہونا طے پایا اور پہلے مشاعرے کے لیے “برسات” کے موضوع پرنظمیں لکھنے کی تجویز پیش کی گئی۔ چنانچہ 30مئی 1874 میں کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں موضوعاتی مشاعرہ منعقدہوا جس میں مصرع طرح کے بہ جائے  موضوعاتی نظمیں پڑھی گئیں۔  اس کے تحت دس موضوعاتی مشاعرے ہوئے پھر یہ سلسلہ ختم ہوگیا لیکن انجمن پنجاب کے اسی رجحان کی بنیاد پر جدید نظمیہ شاعری کی عمارت تعمیر ہوتی رہی۔

ان مشاعروں سے متعلق مختصر معلومات درج ذیل ہیں:۔

نظم نگار اور ان کی نظمیںموضوعتاریخ انعقادشمار نمبر
برکھارُت:الطاف حسین حالیؔ ، ابرِ کرم: آزادبرساتتیس مئی 1874پہلا
آزادؔ ، انور حسین ہما ،مرزا اشرف بیگ دہلوی، مولاقادر بخش ،الٰہی بخشزمستانتیس جون 1874دوسرا
صبح امید: آزاد، نشاطِ امید: حالیاُمیدتین اگست 1874تیسرا
حبِ وطن:آزاد، حالیحبِ وطنیکم ستمبر1874چوتھا
خوابِ امن: آزادامننو اکتوبر1874پانچواں
مناظرہ رحم و انصاف: حالی، دادِ انصاف: آزادانصافچودہ نومبر1874چھٹا
وداعِ انصاف: آزادمروتانیس دسمبر1874ساتواں
گنجِ قناعت: آزادقناعتتیس جنوری 1875آٹھواں
مصدرِ تہذیب: آزادتہذیب13 مارچ 1875نواں
شرافتِ حقیقی: آزادؔشرافت3 جولائی1875دسواں

اگرچہ مشاعروں کا یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا لیکن نظم نگاری کی انھیں کوششوں سے اردو نظم نگاری کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔چنانچہ محمد حسین آزاد اورمولانا الطاف حسین حالی نظم نگاری کی تحریک کے روحِ رواں قرار پائےکیوں کہ ان حضرات نے نہ صرف یہ کہ عملی طور پر نظم نگاری پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ فکری اعتبار سے بھی نظم نگاری کے لیے ایک سازگار ماحول بنایا۔ آزاد کے انجمن پنجاب کے جلسوں میں دیئے ہوئے لکچر نظم نگاری کے لیے ایک منشور ثابت ہوادرجہ رکھتے ہیں اور حالی کی نظمیں زبان کی سادگی اور صفائی کے اعتبار سے بلند مقام رکھتی ہیں۔ اس موضوعاتی مشاعرے کے اثرات اردو نظم نگاری پر بہت گہرے مرتب ہوئے۔

انیسویں صدی کے اخیر میں غیرمعمولی تبدیلیوں رونماہوئیں۔اردو ادب میں کئی اصناف کا ظہور ہوا۔ ناول نگاری، تنقید نگاری، سوانح نگاری، مضمون نگاری وغیرہ۔ شاعری کے حوالے سے اردو نظم میں فکری اور فنی اعتبارسے  تبدیلی کا رجحان پیدا ہوا۔ حالی اور آزاد انگریزی شاعری کی طرز پر اردو نظم میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔  ا ٓزاد اور حالی کی تحریروں میں انگریزی شاعری سے استفادے پر بہت زور رہا ہے۔ آزاد کی نظم ’ جغرافیہ طبعی کی پہیلی‘ ہیئت و اسلوب کے تجربے کا اوّلین نمونہ قرار دی جاسکتی ہے۔ انگریزی نظموں کے تراجم اور انگریزی نظموں سے ماخوذ خیالات کو نظم کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس ضمن میں نظم طباطبائی کا  ترجمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے گرے کی نظم ایلچی کا ترجمہ بعنوان ’گورِ غریباں‘ کیا جو بے حد مقبول ہوا۔ عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’دلگداز‘ اور ’سرعبدالقادر نے ’مخزن‘ سے انگریزی شاعری کے تراجم اور استفادے کی حوصلہ افزائی کی۔ نظموں کے تراجم اور اس طرز کی نظمیں تخلیق کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ہیئت میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا۔ نئے اسالیب کی نظمیں منظر عام پرآئیں۔

اس کے علاوہ شبلیؔ نے مسجد کانپور شہادت المیہ اور ترکوں پر توڑے جانے والے مظالم کو اپنی نظموں میں پیش کر اردو نظم کو نئی سمت دی۔ چکبستؔ اور سرور جہاں آبادیؔ نے حب الوطنی کے جذبہ کو اردو نظم میں جگہ دی جب کہ  اکبر الہ آبادیؔ نے اپنی طنز و مزاح آمیز  شاعری سے مغربی تہذیب پر نشتر چلائے۔

اقبالؔ نے اپنی نظموں کے ذریعے سوئی قوم کو جگانے کی کوشش کی اور اپنی گرانقدر نظموں کے ذریعے اردو شاعری کو وزن اور وقار عطا کیا۔ جوشؔ نے اپنی رومانی اور انقلابی نظموں سے اردو شاعری کو نئی جہت سے آشنا کیا۔ ان شعراء کے علاوہ نظم طبا طبائیؔ، شوق قدوئیؔ، صفی لکھنویؔ اور ظفر علی خان وغیرہ نے اردو نظم کے کارواں کو آگے بڑھایا۔

ترقی پسند شعرا نے بھی اپنے مخصوص فلسفے کی ترجمانی کے لئے اردو نظم کا سہارا لیا۔ یہ صحیح ہے کہ زیادہ تر ترقی پسند شعرا جوش میں نظم نگاری کے فنی آداب کو ملحوظ نہیں رکھ سکے پھر بھی ان شعرء کی کاوشوں سے نظم نگاری میں تنوع اور بقلمونی پیدا  ہوئی۔ اور ہر طرح کے موضوعات کو پیش کیا جانے لگا۔فیضؔ، فراقؔ،مجروحؔ، جمیل مظہریؔ، اختر الایمانؔ، احسان دانشؔ اور خلیل الرحمن اعظمی کا نام اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۶۰ ء کے بعد کی دہائی میں تجدید پسندی کی تحریک نے اردو نظم کو ایک نیا موڑ دیا، اس تحریک سے وابستہ شعراء نے نظم کو اپنے اندرونی احساسات اور کوائف کا ترجمان بنایا، انہوں نے علامت نگاری اور انوکھی تشبیہات و استعارات کے ذریعہ اردو نظم کو نیا رنگ و آہنگ دینا چاہا،یہ اور بات ہے کہ ان شعرا کی کوششوں سے اردو نظم کا رشتہ عام قاری سے کٹ گیا، اور اپنی تہہ دار معنویت کی وجہ سے وہ نقادوں اور دانشوروں کے دائرے تک سمٹ کر رہ گئی۔ ان جدید نظم نگاروں میں یوسف ظفرؔ، مجید امجدؔ، کمار پاشیؔ،بلراجؔ، عمیق حنفیؔ اور وزیر آغاؔ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ اردو نظم کا سفر ابھی جاری ہے۔ نظم گو شعراء، طرح طرح کے فنی تجربے کر رہے ہے، یہ صحیح ہے کہ تجربے کے نام پر بہت سی ایسی نظمیں لکھی جا رہی ہے جو نظم کے فنی معیار پر کسی طرح پوری نہیں اترتی لیکن بہت سے شعراء نے اپنے تجربے میں اردو زبان کےمخصوص مزاج کو پیش نظر رکھ اور فن کے سرے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ان شعراء کی نظمیں یقیناً اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ثابت ہونگی۔

ماشاءاللہ آپ صفحہ کے اخیر تک تشریف لائے اور بہتر طریقے سے سمجھنے کی کوشش کیے۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے کے دوسروں تک پہنچائیں۔

3 thoughts on “اردو میں نظم نگاری کا آغاز و ارتقا”

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks