پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل تیرہواں اور آخری افسانہ “قاتل کی ماں”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
قاتل کی ماں
منشی پریم چند
(1)
رات کو رامیشوری سوئی تو کیا خواب دیکھتی ہے کہ ونود نے کسی آفیسر کو مار ڈالا ہے اور کہیں روپوش ہو گیا ہے۔ پولیس اس کی تلاش میں بے گناہوں کو زود کوب کر رہی ہے اور تمام شہر میں شور وشر بپا ہے ۔ اسی گھبراہٹ میں اس کی آنکھ کھل گئی ۔دیکھا تو ونود سور ہا تھا۔اٹھ کر ونود کے پاس گئی ۔ پیار سے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی اور سوچنے لگی میں نے کیا بے سر پیر کا خواب دیکھا ۔ اس کے ساتھ کچھ تفکر بھی ہوگئی پھر لیٹی ۔مگر نیند نہ آئی ۔ دل میں ایک خوف سما گیا تھا۔
صبح کو ونود نے ماں کو تفکر دیکھ کر پوچھا:’’اماں آج اداس کیوں ہو؟‘‘
ماں ونود کو محبت سے لبریز آنکھوں سے دیکھ کر بولی ” بیٹا! تم سے کیا کہوں ،رات کو میں نے ایک بہت برا خواب دیکھا ہے، جیسے تم کسی افسر کو مار کر بھاگ گئے ہو اور بے گناہوں پر مار پڑ رہی ہے ۔”
ونود نے ہنس کر کہا: کیا تم چاہتی تھیں کہ میں پکڑ لیا جاتا؟‘‘
ماں نے کہا: میں تو چاہتی ہوں کہ تم ایسے کاموں کے نزدیک ہی نہ جاؤ ۔ پکڑے جانے کا سوال ہی کیوں اٹھے ۔ ہمارا دھرم ہے کہ خود جییں اور دوسروں کو بھی جینے دیں ۔ دوسروں کو مار کر خود جینا میرے دھرم کے خلاف ہے۔”
ونود : “دھرم اور نیتی کا زمانہ نہیں ہے ۔
ماں: ’’دھرم اور نیتی کو ہمیشہ فتح حاصل ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوگی ۔سوراجیہ قتل ،خون سے نہیں ملتا۔ ،تپ اور آتم شد ہی سے ملتا ہے ۔ لالچ چھوڑتے نہیں ، بری خواہشات چھوڑتے نہیں ، اپنی برائیاں دیکھتے نہیں ۔ اس پر دعوا ہے سوراجیہ لینے کا! یہ سمجھ لو جو سورا جیہ قتل وخون سے ملے گا، وہ ملک کی چیز نہ ہوگی ۔ افراد کی چیز ہوگی اور تھوڑے سے آدمیوں کا ایک گروہ تلوار کے زور سے انتظام کرے گا ۔ ہم عوام کا سوراجیہ چاہتے ہیں، قتل وخون کی طاقت رکھنے والے گروہ کا نہیں ۔”
ونود نے کہا: ”تم تو اسٹیج پر کھڑی ہو کر بولتی ہو۔ یہاں کون سننے والا ہے۔”
ماں نے کہا: بیٹا! تم ہنستے ہو اور میرا جی دکھی ہے ۔ کئی دن سے دائیں آنکھ برابر پھڑک رہی ہے ۔ یقیناً کوئی مصیبت آنے والی ہے ۔”
ونود نے کہا: میں مصیبت سے نہیں ڈرتا ۔ ابھی کون ساسکھ بھوگ رہی ہو جو مصیبتوں سے ڈریں ۔”
یہ کہتا ہوا ونود باہر چلا گیا۔
(۲)
آج صبح سے ہی ونود کا پتہ نہ تھا۔ معلوم نہیں کہاں گیا۔ رامیشوری نے پہلے تو سمجھا کہ کانگریس کے دفتر میں ہوگا۔ لیکن جب ایک بج گیا اور وہ لوٹ کر نہ آیا تو اسے فکر ہوئی ۔ دس بجے کے بعد وہ کہیں نہ رکتا تھا ۔ پھر سوچا شاید کسی کام سے چلا گیا ہو۔ رات کا خواب اسے بے چین و پریشان کرنے لگا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ بے چینی بھی بڑھنے لگی ۔ جب شام ہوگئی تو اس سے نہ رہا گیا۔ کانگریس کے دفتر گئی۔
وہاں دریافت کر نے پر معلوم ہوا کہ آج دنودصبح سے ایک بار بھی نہ آیا۔
را میشوری کا دل کسی نامعلوم خوف سے پریشان ہو گیا اور وہ خواب مجسم بن کر اسے ڈرانے لگا۔ کچھ دیر تک وہ حواس باختہ چپ چاپ کھڑی رہی۔ پھر خیال آیا شاید گھر گیا ہو۔ فورا گھرلوٹی لیکن یہاں ونود کا اب تک پتا نہ تھا۔
جوں جوں اندھیرا ہوتا جاتا تھا اس کی جان خشک ہوتی جاتی تھی ۔ اس پر دائیں آنکھ بھی پھڑکنے لگی ۔ خیالات اور بھی خوف ناک صورت اختیار کرنے لگے۔ کوئی دیوی یا دیوتا نہ بچا جس کی اس نے منت نہ مانی ہو۔ کبھی صحن میں آ کر بیٹھ جاتی ۔کبھی دروازے پر جا کر کھڑی ہوتی ۔ اس کا دل کسی خوف زدہ طائر کی مانند بھی نشیمن میں آ بیٹھتا اور بھی شاخ پر ۔ کھانا پکانے کا خیال کسے تھا۔ بار بار یہی سوچتی: “بھگوان میں نے ایسا کیا قصور کیا ہے جس کی سزا دے رہے ہو۔ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہوتو معاف کرو۔ میں تو خود ہی مصیبت زدہ ہوں ، اب اور برداشت کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے ۔ “
رامیشوری سر پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی ۔ آسمان پر سیاہ بادل گھرے ہوۓ تھے۔ ننھی ننھی بوندیں پڑ رہی تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بے کس کے ساتھ کوئی رونے والا نہ دیکھ کر اس کا ساتھ دیتی ہوں۔
(3)
نصف شب گزر چکی تھی ۔ رامیشوری ابھی تک دروازے پر کھٹری ونود کا راستہ دیکھ رہی تھی ۔ اتنے میں کوئی شخص نہایت تیزی سے دوڑا ہوا آیا اور دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ اس کے جسم پر ایک سیاہ کمبل تھا جسے اس نے اس طرح اوڑھ لیا تھا کہ منہ کا بڑا حصہ چھپ گیا تھا ۔
رامیشوری نے ڈرکر پوچھا: ” کون ہے؟‘‘
وہ ونود تھا ۔ جلدی سے اندر داخل ہو کر ماں سے دروازہ بند کرنے کو کہا ، پھر آنگن میں آ کر کمبل کو رکھ دیا اور کھانے کو مانگا۔
رامیشوری نے خائف ہو کر پوچھا: ’’ تم آج دن بھر کہاں تھے؟ میں تمام دن تمھیں ڈھونڈتی رہی ۔‘‘
ونود نے قریب آ کر کہا:’’ میں ایک نہایت ضروری کام سے گیا تھا اور ابھی پھر لوٹ جاتا ہے ۔ صرف تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ اب دو چار مہینے میں یہاں نہ رہ سکوں گا۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ میں نے وہی کیا جو میں اپنا دھرم سمجھتا تھا۔ حفاظت جان کی خاطر مجھے یہاں سے بھاگ جانا ضروری ہے ۔”
رامیشوری کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ بولی:” کیوں بیٹا! تم نے وہی کیا جس کا مجھے خوف تھا۔ایشور نے تمہاری بدھی کیوں ہر لی؟‘‘
ونود نے کہا: ” نہ ایشور نے میری بدھی ہری ہے ، نہ مجھ پر کوئی آفت آئی ہے ۔ میں نے آج چھاؤنی میں ایک آفیسر کو مار ڈالا ہے ۔ایسا نشانہ مارا ایک ہی گولی میں ٹھنڈا ہو گیا۔ ہلا تک نہیں۔ ‘‘
” کیا وہاں کوئی اور نہ تھا؟‘‘
“کوئی نہیں، بالکل سناٹا تھا۔‘‘
“پولیس کو خبر تو ہو گئی ہوگی ۔‘‘
’’ہاں کئی شخص پکڑے گئے ہیں ۔ میں تو صاف بچ نکلا ۔‘‘
رامیشوری کی حالت بدل گئی۔ بیٹے کی محبت میں اشکبار آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئیں ۔ بولی:” میں اسے بچنا نہیں کہتی ۔ مجرم تو منہ چھپا کر بھاگ جائے اور بے گناہوں کو سزا ملے ۔تم خونی ہو۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری کوکھ سے ایسا سپوت پیدا ہوگا ورنہ پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دیتی ۔اگر مرد ہے تو جا کر عدالت میں اپنا قصور تسلیم کر لے ورنہ ان بے گناہوں کا خون بھی تیرے سر پر ہوگا۔‘‘
یہ پھٹکار سن کر ونودکوغصہ آ گیا۔ بولا ”تمھارے کہنے سے میں خونی نہیں ہو جا تا ۔ اورلوگ یہی کام کرتے ہیں تو لیڈر ہو جاتے ہیں،ان کی جے کار ہوتی ہے،لوگ ان کی پوجا کرتے ہیں ۔میں نے کیا تو ہتیارا ہو گیا۔”
رامیشوری: ہتیارا تو تو ہے ہی اور جو دوسروں کی ہتیا کرتے ہیں وہ تمام کے تمام ہتیارے ہیں ۔ تیری ماں ہو کر میں بھی پاپ کی حصے دار ہوگئی ۔میرے منہ پر بھی سیاہی لگ گئی ۔لیڈر وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے مرتے ہیں ۔ جو دوسروں کی حفاظت کرے وہی بہادر اورسورما ہے۔ انھیں کا جنم مبارک ہے ، انھیں کی مائیں خوش نصیب ہیں ۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو خون کر کے اپنی بڑائی کر رہا ہے ۔”
ونود نے پھر کمبل اٹھالیا اور بولا :” تم میری ماں نہ ہوتیں تو اسی وقت لگے ہاتھ تمھارا کام بھی تمام کر دیتا۔ جیتے جی پھر تمھارا منہ نہ دیکھوں گا ۔‘‘
یہ کہتا ہوا وہ جوش میں گھر سے نکل پڑا۔
(4)
دم بھر بعد رامیشوری بھی اس جوش میں گھر سے نکلی:” بیٹا ہےتو کیا، وہ یہ ناانصافی نہیں گوارا کرسکتی ، وہ اس وقت کوتوالی میں جا کر اس خون کی خبر دے دے گی ۔ ونود کا پھانسی پر چڑھنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ بے گناہوں کو پھانسی ہو ۔“
لیکن کچھ دور چلنے کے بعد ماں کا دل بے چین ہو گیا۔ وہ لوٹ پڑی اور گھر آ کر خوب روئی ۔ جس بیٹے کو اس نے ایسی ایسی مصیبتیں جھیل کر پالا ، کیا اسے پھانسی دلا دے گی ۔
لیکن پھر خیال آیا ان بیچاروں کی مائیں بھی تو ہوں گی جو بے گناہ پھانسی پائیں گے۔ انھیں بھی اپنے بیٹے اتنے ہی پیارے ہوں گے۔ نہیں نہیں وہ ظلم نہیں کر سکتی۔ اسے بغیر بیٹے کے ہونا منظور ہے مگر اس کے دیکھتے بے گناہوں کا خون نہ ہوگا۔
رامیشوری اس الجھن میں پڑی ہوئی تھی ۔ جب کوئی راستہ نہ نظر آتا تو وہ رونے لگ جاتی تھی ۔ پھر سوچتی، کیوں نہ خودکشی کرلوں کہ تمام دکھوں سے نجات مل جاۓ ۔ لیکن اس کی موت سے ان بے گناہوں کی جان تو نہ بچے گی ۔ان ماتاؤں کا کلیجہ تو نہ ٹھنڈا ہوگا۔ وہ اس پاپ سے تو نہ آزاد ہوں گے ۔ وہ اپنے آپ ہی بول اٹھی :” خواہ کچھ ہو میں بے گناہوں کا خون نہ ہونے دوں گی ۔ اجلاس میں جا کر صاف صاف کہہ دوں گی کہ گنہ گار میں ہوں کیونکہ میرے بیٹے نے یہ خون کیا ہے ۔ ہم دونوں ہی قصوروار ہیں ۔ دونوں کو پھانسی دیجے۔ میں اپنے دھرم سے منحرف نہ ہوں گی ۔خواہ میری آنکھوں کے سامنے ہی ونود کی بوٹی بوٹی کیوں نہ کر ڈالی جائے۔ہاں! میں اپنی آنکھوں سے اس کو پھانسی پر چڑھتا دیکھوں گی کیوں کہ میں نے اس کوجنم دیا ہے ۔ بھگوان! مجھے طاقت دو کہ اپنے فرض پر ڈٹی رہوں ۔ میں کمزور ہوں ، پاپن ہوں ، ہتیاری ہوں۔ “
رامیشوری بے ہوش ہو کر گر پڑی۔
جب رامیشوری کو ہوش آیا تو اس کا ارادہ مستحکم ہو چکا تھا مگر دلی تکلیف ہو رہی تھی ۔ کیا اس لیے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ اس لیے پالا پوسا تھا کہ ایک دن اسے پھانسی پر چڑھتے دیکھوں گی ۔ونود اس کی زندگی کا سہارا تھا۔ آج اسی ونود سے اس کا ناتا ٹوٹ رہا ہے ۔ ونود کی صورت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی ۔ ایک دن وہ تھا کہ وہ اسے چھاتی سے لگائے پھرتی تھی ، بڑے دکھ جھیل کر بھی خوش تھی۔ ایک دن یہ ہے کہ اسے پھانسی دلانے جارہی ہے ۔ ونود کی کتابیں اور کپڑے کمرے میں رکھے تھے۔ اس نے ایک ایک چیز کو چھاتی سے لگایا۔ آہ! فرض کا راستہ کس قدر دشوار گزار ہے ۔ ونود کو آخری بار گلے لگانے اور اس کا آخری بوسہ لینے کے لیے اس کا دل بے چین ہو گیا۔ کیا لڑ کے کو سزا دیتے ہوئےماں محبت چھوڑ دیتی ہے؟
رامیشوری ونود کو سزا دینے جارہی تھی ۔ جوش محبت سے بھری ہوئی ۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ پولیس نے سازش کا پتا لگا لیا۔ شہر کے دس جوان گرفتار کر لیے گئے۔ انھیں میں سے ایک سرکاری گواہ بھی بن گیا اور مجسٹریٹ کے اجلاس میں مقدمہ دائر ہوگیا۔
ونود کا اسی دن سے پتا نہ تھا۔ رامیشوری فرض اور محبت کے درمیان اس کشتی کی مانند ڈانوا ڈول ہورہی تھی جس کے اوپر طوفانی آسمان ہو اور نیچے طوفانی سمندر! کبھی فرض کلیجے کومضبوط کر دیتا ،کبھی محبت دل کو کمزور کر دیتی ۔لیکن جوں جوں دن گزرتے تھے فرض پسپا ہوتا جاتا تھا۔ نئی نئی دلیلیں اس کے احساس فرض کو کمزور کرتی جاتی تھیں ۔ جب تمام کام ایشور کی مرضی سے ہوتا ہے تو اس میں بھی اس کی مرضی ہوگی ۔ یہی سب سے زبردست دلیل تھی۔ ان سات دنوں میں اس نے صرف پانی پی کر دن کاٹے تھے اور وہ پانی بھی آنکھوں کے راستے نکل جاتا تھا۔ ایسی ہو گئی تھی جیسے برسوں کی مریضہ ۔
دس بجے کا وقت تھا۔ وہ کانگریس کے دفتر کی طرف چلی ۔اسی وقت روزانہ ایک بار ونود کا پتا لینے کے لیے یہاں آیا کرتی تھی ۔
ناگہاں اس نے نو دس جوانوں کو ہتھکڑیاں پہنے ایک درجن مسلح پولیس کے سپاہیوں کے پنجے میں گرفتار دیکھا۔ پیچھے تھوڑی دور پر کچھ عورتیں سر جھکاۓ رنج و یاس کی تصویر بنی آہستہ آہستہ چلی جا رہی تھیں ۔
رامیشوری نے دوڑ کر ایک سپاہی سے پوچھا: کیا یہ کانگریس کے آدمی ہیں؟‘‘
سپاہی نے کہا:” کانگریس والوں کے سوا انگریزوں کو کون مارےگا؟”
“کون مارا گیا؟”
ایک پولیس سارجنٹ کو ان سب نے قتل کر دیا ۔ آج آٹھواں دن ہے ۔”
“کانگریس کے آدمی ہتیا نہیں کرتے ۔”
“قصور نہ ثابت ہو گا تو آپ چھوٹ جائیں گے۔“
رامیشوری دم بھر وہیں کھڑی رہی۔ پھر انھیں لوگوں کے پیچھے پیچھے کچہری کی طرف چلی ۔ فرض یہ نئی طاقت پا کر سنبھل گیا۔ نہیں! وہ اتنے بے قصور نو جوانوں کو موت کے منہ میں نہ جانے دے گی ۔اپنے خونی بیٹے کی حفاظت کے لیے اتنے بے گناہوں کا خون نہ ہونے دے گی ۔ کچہری میں بہت بڑا مجمع تھا۔ رامیشوری نے ایک اردلی سے پوچھا ” کیا صاحب آ گئے۔”
اس نے جواب دیا ” ابھی نہیں آۓ آتے ہی ہوں گے ۔”
” بہت دیر سے آتے ہیں ، بارہ تو بجے ہوں گے۔”
اردلی نے جھنجھلا کر کہا :”تو کیا وہ تمھارے نوکر ہیں کہ جب تمھاری مرضی ہو آ کر بیٹھ جائیں۔ بادشاہ ہیں جب مرضی ہوگی آئیں گے ۔”
رامیشوری چپ ہو گئی ۔
اس کے پاس ہی کئی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ایک نے پوچھا:”کیوں بہن! تمھارے گھر کا بھی کوئی لڑکا پکڑا گیا ہے؟”
رامیشوری اپنی فکروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔کچھ نہ بولی۔
اس عورت نے پھر کہا:”کیا کہوں،نہ جانے کس پاپی نے خون کیا۔آپ تو منہ پر سیاہی لگا کر چھپ رہا اور ہم لوگوں کے متھے گئی۔”
کئی عورتیں رو رہی تھیں رامیشوری بھی رونے لگی۔
ایک ضعیف عورت اسے سمجھانے لگی:”بہن چپ ہو جاؤ۔جو ہماری قسمت میں لکھا ہے وہی ہوگا۔میرا بیٹا بالکل بے قصور پکڑا گیا ہے۔کانگریس میں کام کرتا تھا۔تمھارا کون گرفتار ہے؟”
رامیشوری نے اسے بھی کوئی جواب نہ دیا۔ بار بار لوگوں سے پوچھتی تھی:” صاحب کب تک آئیں گے؟”دو بجے صاحب کی موٹر آئی۔اجلاس میں ہل چل مچ گئی۔جوں ہی صاحب کرسی پر بیٹھے سرکاری وکیل نے یہ خون کا مقدمہ پیش کر دیا۔ پولیس کے افسر آ گئے ۔ملزم بھی سامنے کھڑے کر دیے گئے۔
عین اسی وقت رامیشوری نے اجلاس کے رو برو آ کر سلام کیا اور صاف لفظوں میں بولی: “حضور! اس مقدمے کے پیش ہونے سے پہلے میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں ۔“
سب کے سب اس کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے کمرے میں سناٹا چھا گیا۔
صاحب نے اس کی طرف تیز نگاہوں سے دیکھ کر کہا: ” کیا بات ہے ۔
رامیشوری: ’’ میں اس لیے آپ کے سامنے آئی ہوں کہ اس مقدمے کا سچا حال بیان کروں ۔
سارجنٹ کا خون کر نے والا میرا بیٹا ہے ۔ یہ تمام ملزم بے گناہ ہیں ۔
صاحب نے متحیر ہو کر پوچھا: تم اپنے ہوش میں ہو یا نہیں؟‘‘
رامیشوری نے کہا: میں اپنے ہوش میں ہوں اور بالکل سچ کہتی ہوں ۔ سارجنٹ کو میرے بیٹے نے مارا ہے ۔ اس کا نام ونود بہاری ہے ۔ میرے گھر میں اس کا فوٹو رکھا ہوا ہے ۔ وہ اسی دن سے لا پتا ہو گیا ہے ۔ میں اپنے ہوش میں ہوں۔ اپنے بیٹے سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے ۔ میں اسے اسی طرح پیار کرتی ہوں جیسے ہر ایک بیوہ اپنے اکلوتے بیٹے کو۔ ایک ہفتے پیشتر وہی میرا سب کچھ تھا لیکن جب میرے ہر چند منع کرنے پر بھی اس نے یہ خون کیا تو میں نے سمجھ لیا میرے کوئی بیٹا نہ تھا۔ اس کی جان بچانے کے لیے میں اتنے گھر برباد نہ ہونے دوں گی ۔ میری ان بہنوں کو بھی تو اپنی اولاد اتنی ہی پیاری ہے ۔ انھیں بے اولاد بنا کر میں اولاد والی نہیں رہنا چاہتی ۔ میں نے اصل واقعہ بیان کر دیا۔ انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے ۔“
کمرے میں ہل چل مچ گئی ۔ مرد عورت سب نے رامیشوری کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ کئی عورتیں اس کے قدموں پر سر رکھ کر رونے لگیں ۔ اپنی خوشی میں کسی کو اس بات کا خیال نہ رہا کہ اس بدنصیب کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ بے حس و حرکت درمیان میں کھڑی تھی ، نہ کچھ سوجھتا تھا نہ کچھ سنائی دیتا تھا۔ بس ونود کی صورت آنکھوں کے سامنے تھی۔
یکا یک مجمع میں سے ایک آدمی نکل کر رامیشوری کے سامنے آیا اور اس کے سینے میں خنجر اتار دیا۔ رامیشوری چیخ مار کر گر پڑی اور حملہ آور کے چہرے کی طرف دیکھ کر چونک پڑی۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا:” ارے تو ہے ونود!‘‘
اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے نکلے اور آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں ۔