افسانہ (12) مفت کرم داشتن

پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل بارہواں افسانہ “مفت کرم داشتن”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

مفت کرم داشتن

منشی پریم چند

ان دنوں حسن اتفاق سے حاکم ضلع ایک صاحب ذوق بزرگ تھے جنھوں نے تاریخ اور قدیم سکہ جات میں اچھی تفتیش کی ہے۔ خدا جانے کیسے دفتری کاموں سے انہیں ان مشاغل کے لیے فرصت مل جاتی ہے۔ میں نے ان کے کارنامے پڑھے تھے اور ان کا غائبانہ مداح تھا لیکن ان کی افسری مزید تعلقات میں مانع تھی۔ مجھے یہ تکلف تھا کہ اگر میری جانب سے پیش قدمی ہوئی تو عام تجربے کے مطابق وہ میری حکام جوئی پر محمول کی جائے گی اور میں کسی حالت میں بھی یہ الزام اپنے سرنہیں لینا چاہتا تھا۔ میں تو حکام کو دعوتوں اور عام تقریوں میں بھی مدعو کرنے کا مخالف ہوں اور جب بھی سنتا ہوں کسی افسر کو کسی رفاہ عام کے جلسے کا صدر بنایا گیا یا کوئی اسکول یا شفاخانہ یا بدھوا آشرم کسی گورنر کے نام سے منسوب ہوا تو برادران وطن کی غلامانہ ذہنیت پر گھنٹوں افسوس کرتا ہوں مگر جب ایک دن حاکم ضلع نے خود میرے نام ایک رقعہ بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ، کیا آپ میرے بنگلے پر تشریف لانے کی تکلیف گوارا فرمائیں گے تو میں بڑے شش و پنج میں پڑ گیا، کیا جواب دوں؟ اپنے دو ایک دوستوں سے مشورہ لیا۔ انہوں نے کہا صاف کہہ دیجیے مجھے فرصت نہیں ، وہ حاکم ضلع ہوں گے تو اپنے گھر کے ہوں گے ، کوئی سرکاری یا ضابطے کا کام ہوتا تو آپ کا جانا مناسب تھا۔لیکن ذاتی ملاقات کے لیے آپ کا جانا آپ کی شان کے خلاف ہے۔ آخر وہ خود آپ کے مکان پر کیوں نہیں آئے۔ اس سے کیا ان کی شان میں بٹہ لگا جا تا تھا، اس لیے تو خود نہیں آئے اور آپ کو بلایا کہ وہ حاکم ضلع ہیں ۔ ان احمق ہندستانیوں کو بھی یہ سمجھ نہ آئے  گی کہ دفتر کے باہروہ بھی ویسے ہی انسان ہیں جیسے ہم یا آپ ۔ شاید یہ لوگ اپنی بیوی سے بھی افسری جتاتے ہوں گے ۔ انہیں اپنا عہدہ بھی نہیں بھولتا۔

                   ایک صاحب نے جولطیفوں کے خزانچی ہیں ہندستانی افسروں کے کئی پُر مذاق تذکرے سنائے۔’’ ایک افسر صاحب سسرال گئے ، شاید بیوی کو رخصت کرانا تھا جیسا عام رواج ہے۔خسر صاحب نے اس موقع پر رخصت کرنے سے انکار کیا۔ کہا: بیٹا!ا بھی اتنے دنوں کے بعد آئی ہے تین مہینے بھی نہیں ہوئے۔ بھلا اور نہیں تو چھے مہینے تو رہنے دو۔‘‘ادھر بیوی نے بھی نائن کے ذریعے پیغام کہلا بھیجا: ’ابھی میں جانا نہیں چاہتی ۔ آخر ماں باپ سے مجھے بھی تو محبت ہے ۔ کچھ تمہارے ہاتھ بک تھوڑی ہی گئی ہوں ۔‘‘ میاں داماد ڈپٹی کلکٹر تھے، جامے سے باہر ہو گئے۔ خسر پر سمن  جاری کر دیا۔ بیچارا بڈھا آدمی دوسرے دن صاحب زادی کو لے کر داماد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تب جاکے اس کی جان بچی۔ یہ لوگ ایسے خر دماغ ہوتے ہیں، اور پھر تمھیں حاکم ضلع سے لینا کیا ہے، اگر تم کوئی باغیانہ یا اشتعال انگیز قصہ یا مضمون لکھو گے تو فورا گرفتار ہو جاؤ گے۔ مطلق رعایت نہ کی جائے گی ۔اپنے لڑ کے کے لیے قانون گوئی ، نائب تحصیل داری کی فکر تمھیں ہے نہیں۔ پھر خواہ مخواہ کیوں دوڑے جاؤ۔“

لیکن میں نے دوستوں کی صلاح پرکار پیرا ہونا تہذیب کے خلاف سمجھا۔ ایک شریف آدمی قدر افزائی کرتا ہے تو اس سے محض اس بنا پر بے اعتنائی کرنا کہ وہ حاکم ضلع ہے تنگ ظرفی ہے۔بے شک حاکم ضلع صاحب میرے غریب خانے پر آتے تو ان کی شان کم نہ ہوتی ۔ وضع دار آدمی بے تکلف چلا آتا۔ لیکن بھئی ضلع کی افسری بڑی چیز ہے اور قصہ نگارکی ہستی ہی کیا ہے۔ انگلینڈ یا امریکہ میں افسانہ نگاروں کی میز پر مدعو ہونے میں وزیراعظم بھی اپنا اعزاز سمجھتے ہوں گے لیکن یہ ہندستان ہے جہاں ہر ایک رئیس کے دربار میں شاعروں کا ایک انبوہ قصیدہ خوانی کے لیے جمع رہتا تھا۔اوراب بھی تاجپوشی کے موقع پر ہمارے اہل قلم بن بلائے رئیسوں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔ قصیدہ پیش کرتے ہیں۔ انعام پاتے ہیں، تو تم ایسے کہاں کے ہو کہ حاکم ضلع تمہارے گھر پر چلا آئے۔ وہ افسر ہے تم مضمون نگار ہو۔ جب تم میں اس قدرلڑکپن اور تنگ مزاجی ہے تو پھر وہ تو ضلع کا بادشاہ ہے، اگر اسے غرور بھی ہوتو جائز ہے ۔ کمزوری کہو، جہالت کہو،خر دماغی کہو لیکن پھر بھی جائز ہے اور خدا کا شکر کرو کہ افسر صاحب تمہارے گھر نہیں آئے ، ورنہ ان کی خاطر و مدارات کا سامان تمہارے یہاں کہاں تھا۔؟ گت کی ایک کرسی بھی تو نہیں ہے۔ تین پیسے کی چوبیس بیڑیاں پی کر دل خوش کر لیتے ہو، ہے تو فیق روپے کی دوسگار پینے کی ؟ کہاں وہ سگار ملتا ہے، اس کا کیا نام ہے اس کی خبر ہے تمھیں؟ اپنی تقدیر کو سراہو کہ وہ خود نہیں آئے تمھیں بلالیا۔ چار پانچ روپے بگڑ ہی جاتے اور شرمندگی بھی ہوتی ۔خدانخواستہ اورتمہاری شامت اعمال سے کہیں ان کی اہلیہ بھی ہمراہ ہوتیں تو قیامت ہی آجاتی ۔ ان کی مہمان نوازی تم یا تمہاری دھرم پتنی جی کر سکتی تھیں؟ وہ تمہارے گھر میں یقینا جاتیں اور تمہارے لیے موت کا سامان ہوتا۔ تم اپنے گھر میں پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اپنی بے نوائی میں مگن رہ کر زندگی بسر کر سکتے ہو لیکن کوئی بھی خود دار شخص یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ اس کی خستہ حالی دوسروں کے لیے مایہ تفریح ہو۔ ان لیڈی صاحبہ کے سامنے تمہاری تو زبان بند ہو جاتی اور یہی جی چاہتا کہ زمین پھٹ جاتی اور تم اس میں سماجاتے ۔

چنانچہ میں نے حاکم ضلع کی دعوت قبول کی اور باوجود یہ کہ  اس میں کسی قدر نا گوار رعونت تھی لیکن شفقت اور خلوص نے اسے ظاہر نہ ہونے دیا۔ کم سے کم انہوں نے مجھے شکایت کا موقع نہ دیا۔ افسرانہ فطرت کو  تبدیل کر نا ان کے امکان سے باہر تھا۔

میں نے سوچا یہ ذاتی معاملہ ہے۔ انہوں نے مجھے بلایا میں چلا گیا۔ کچھ اد بی گپ شپ کی اور واپس آیا۔ کسی سے اس کا ذکر کر نے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ میں نے اس واقعہ کو ذرا اہمیت نہ دی ۔ گو یا بازار سبزی خرید نے گیا تھا ۔

لیکن مخبروں نے نہ جانے کیسے اس کی خبر لگالی۔خاص خاص حلقوں میں یہ چرچے ہونے لگے کہ افسر ضلع سے میرے بہت دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ میری بڑی عزت کرتے ہیں۔ مبالغے نے میری وقعت میں اور بھی اضافہ کر دیا۔ یہاں تک مشہور ہوا کہ وہ مجھ سے صلاح لیے بغیر کوئی تجویز یا رپورٹ نہیں لکھتے۔

 کوئی ذی ہوش آ دمی اس قسم کی شہرت سے فائدہ اٹھا سکتا تھا ۔اہل غرض باؤلے ہوتے ہیں ، تنکے کا سہارا ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ انہیں اس کا یقین دلا نا کچھ بھی مشکل نہیں تھا کہ میرے ذریعے ان کی مطلب براری ہوسکتی ہے لیکن میں ایسی حرکتوں کو ذلیل سمجھتا ہوں ۔صد ہا اصحاب اپنی اپنی داستانیں لے کر میرے پاس آئے ۔کسی کے ساتھ پولیس نے بے جا زیادتی کی تھی، کوئی انکم ٹیکس والوں کی سختی سے نالاں تھا۔ کسی کو یہ شکایت تھی کہ دفتر میں اس کی حق تلفی ہورہی ہے اور اس کے بعد کے آدمیوں کو ترقیاں مل رہی ہیں ۔اس کا نمبر جب آتا ہے کوئی لحاظ نہیں کیا جا تا علی ہذا اس قسم کی کوئی داستان روز ہی مجھ تک پہنچے گی لیکن میرے پاس ان سب کے لیے ایک ہی جواب تھا۔’’ مجھ سے کوئی مطلب نہیں۔”

             ایک دن میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ میرے بچپن کے ایک ہم جماعت دوست وارد ہوئے ۔ ہم دونوں ایک ہی مکتب میں پڑھنے جایا کرتے تھے ۔ کوئی ۴۵ سال کی پرانی بات ہے ۔ میری عمر ۹،۸ سال سے زیادہ  نہ تھی ، وہ بھی قریب قریب اس عمر کے مگر مجھ سے کہیں توانا اور فربہ تھے ۔ میں ذہین تھا ، وہ حد درجہ کے غبی ۔ مولوی صاحب ان سے عاجز تھے اور انھیں سبق پڑھانے کی ذمے داری مجھ پر ڈال دی تھی۔ میں اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھتا تھا اور مولوی صاحب کی قمچی جہاں لا چارتھی وہاں میری ہمدردی کامیاب ہوگئی ۔ بلد یوچل نکلا اور خالق باری تک آ پہنچا۔ مگر اسی درمیان میں مولوی صاحب کی وفات نے اس مکتب کا خاتمہ کر دیا اورطلبہ بھی منتشر ہو گئے ۔ تب سے بلد یوکو میں نے صرف دو تین بار رات میں دیکھا( میں اب بھی وہی منحنی ہوں، وہ اب بھی دیو قامت ) رام رام ہوئی ۔ایک دوسرے کی خیر و عافیت پوچھی اور اپنی اپنی راہ چلے، میں نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا:’’ آؤ بھئی بلدیو، مزے میں تو ہو ۔ کیسے یاد کیا ، کیا کرتے ہو آج کل؟‘‘

   بلدیو نے دردناک انداز سے کہا:’’ زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور کیا۔ تم سے ملنے کا بہت دنوں سے اشتیاق تھا۔ یادکرو وہ مکتب والی بات جب تم مجھے پڑھایا کرتے تھے تمہاری بدولت چار حرف پڑھ لیا اور اپنی زمینداری کا کام سنبھال لیتا ہوں نہیں مورکھ بنارہتا۔ تم میرے گر و  ہو بھائی ۔ سچ کہتا ہوں مجھ جیسے گدھے کو پڑھانا تمہارا ہی کام تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ مولوی صاحب سے سبق پڑھ کر اپنی جگہ پر آیا نہیں کہ بالکل صاف ، کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔ تم تو تب بھی بڑے ذہین تھے ۔”

                یہ کہہ کر انھوں نے مجھے پُرعزت نظروں سے دیکھا۔ میں نے با چشم تر کہا: “میں تو جب تمھیں دیکھتا ہوں تو یہی جی میں آتا ہے کہ دوڑ کر تمہارے گلے سے لپٹ جاؤں ۔۴۵ سال کی مدت گو یا بالکل غائب ہو جاتی ہے، وہ مکتب آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے اور بچپن ساری دلفریبیوں کے ساتھ تازہ ہو جا تا ہے ۔”

بلدیو نے بھی رقت آمیز لہجے میں جواب دیا۔ میں نے تو بھئی تمھیں ہمیشہ اپنا مربّی  اور رہنما سمجھا ہے۔ جب تمھیں دیکھتا ہوں تو چھاتی گز بھر کی ہو جاتی ہے کہ وہ میرا بچپن کا دوست جا تا ہے جو وقت پڑنے پر بھی دغا نہ دے گا۔تم کچھ کھاتے پیتے کیوں نہیں سوکھتے کیوں جاتے ہو گھی نہ ملتا ہو تو ایک دوکنستر بھجوا دوں ۔اب تم بوڑھے ہوئے، خوب ڈٹ کر کھایا کرو۔ اب تو بدن میں جو کچھ طاقت ہے وہ کھانے پینے کی بدولت ہے۔ میں تو اب بھی سیر بھر دودھ اور پاؤ پھر گھی اڑا جا تا ہوں ۔ ادھر تھوڑ امکھن بھی کھانے لگا ہوں ۔عمر بھر بال بچوں کے لیے مر مٹے ۔ کوئی پوچھتا ہے تمہاری کیا حالت ہے؟ اگر آج کندھا ڈال دوں تو کوئی ایک لوٹا پانی کو نہ پو چھے ۔ اس لیے خوب کھا تا ہوں اور سب سے زیادہ کام کرتا ہوں ۔ وہی جو بڑا لڑکا ہے اس پر پولیس نے ایک جھوٹا مقدمہ چلا دیا ہے۔ اچھاخاصا پہلوان ہے ۔کسی سے دبتانہیں ۔ داروغہ جی سے ایک بار کچھ کہاسنی ہوگئی تب سے اس کی گھات میں لگے ہوئے تھے ۔ ادھر گاؤں  میں ایک ڈاکہ پڑ گیا ، داروغہ جی نے تحقیقات میں اسے بھی پھانس  لیا۔ ایک ہفتے سے حراست میں ہے ۔ مقد مہ  محمد خلیل صاحب ڈپٹی کلکٹر کے اجلاس میں ہے اور محمد خلیل اور داروغہ کی گہری دوستی ہے، ضرور سزا ہو جائے گی ۔ اب تم ہی بچاؤ تو اس کی جان بچ سکتی ہے۔ ہمیں اور کوئی امید نہیں ہے۔ سزا تو ہوگی ہی عزت خاک میں مل جائے گی ۔تم جا کر حاکم ضلع سے اتنا کہہ دو کہ مقدمہ جھوٹا ہے ۔ آپ خود تحقیقات کریں ۔ بس دیکھو بچپن کے ساتھی ہو،انکارمت کرنا۔ جانتا ہوں کہ تم ان معاملات میں نہیں پڑتے اور نہ پڑنا چا ہیے ۔افسر ضلع سے تمہاری دوسری طرح کی ملاقات ہے تم کیوں ان قضیوں میں پڑو گے لیکن یہ گھر کا معاملہ ہے۔ اتنا سمجھ لواور بالکل جھوٹا ہے ، نہیں میں تمہارے پاس نہیں آ تا۔ لڑ کے کی ماں رور وکر جان دے ڈالتی ہے۔ بیوی نے دانہ پانی چھوڑ رکھا ہے ۔ سات دن سے گھر میں چولھا نہیں جلا ۔ میں دودھ پی لیتا ہوں لیکن دونوں ساس بہو بے آب و دانہ پڑی ہوئی ہیں ۔اگر سزا ہوئی تو دونوں مر جائیں گی ۔ میں نے یہی کہہ کر سب کو ڈھارس دی ہے کہ جب تک ہمارا بچپن کا دوست زندہ ہے ، کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ “

                    میں بڑی مشکل میں پڑا۔ میری جانب سے جتنے اعتراضات ہو سکتے تھے ان کا جواب بلد یوسنگھ نے پہلے ہی دے دیا تھا۔ اگر ان کا اعادہ کرتا ہوں تو سر ہو جائے گا۔گلا نہ چھوڑے گا ۔کوئی جواب نہ سوجھا۔ آخر مجھے مجبور ہو کر کہنا پڑا کہ میں جا کر صاحب سے اس کا ذکر کروں گا ۔مگر مجھے امید نہیں کہ اس کا کچھ نتیجہ ہو ۔ حکام ماتحتوں کے معاملے میں بہت کم دخل دیا کرتے ہیں ۔

      ’’ تم جا کر کہہ دو ۔ تقدیر میں جو ہے وہ تو ہو گا ہی ۔”

          ’’اچھی بات ہے ‘‘

        ’’ تو کل جاؤ گے ۔”

      ’’کل ہی جاؤں گا ۔”

            بلد یوسنگھ کو رخصت کر کے میں نے اپنا مضمون ختم کیا اور آرام سے کھانا کھا کر لیٹا ۔ میں نے بلد یوسنگھ کو جھانسا دیا تھا۔ میں پہلے سے بتا چکا تھا کہ عام طور سے پولیس کا اعتبار کرتے ہیں ۔ یہ کہنے کی کافی گنجائش تھی کہ صاحب نے اس معاملے میں دخل دینا مناسب نہ سمجھا ۔ صاحب کےپاس جانے کا میں نے خواب میں بھی خیال نہ کیا تھا۔

                      میں اس واقعہ کو بالکل بھول گیا تھا کہ آٹھویں  دن بلد یوسنگھ اپنے پہلوان بیٹے کے ساتھ میرے کمرے میں داخل ہوئے۔ بیٹے نے میرے قدموں پر سر رکھ دیا اور ایک کنارے کھڑا ہو گیا۔ بلد یوسنگھ بولے’’بالکل بری ہو گیا۔ بھائی صاحب نے داروغہ جی کو بلا کر خوب ڈانٹا کہ تم بھلے آدمیوں کو ستاتے اور بدنام کرتے ہو۔ اگر پھر ایسی شرارت کی تو برخاست کر دیے جاؤ گے ۔ داروغہ بہت پریشان ہوئے۔ جب صاحب نے اسے بری کر دیا تو میں نے دروغہ صاحب کو جھک کر سلام کیا۔ بچارے پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ یہ تمہاری سفارش کی برکت ہے برادر ۔ اگر تم نے مدد نہ کی ہوتی تو ہم تباہ ہو گئے تھے۔ یہ سمجھ لو چار آدمیوں کی جان بچ گئی۔ میں تمہارے پاس ڈرتے ڈرتے آیا تھا۔ لوگوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس ناحق جاتے ہو ۔ وہ بڑا بے مروت آدمی ہے۔ اس کی ذات سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ آدمی وہ کہلاتا ہے جس سے ضرورت مندوں کا کام نکلے۔ وہ کیا آدمی ہے جو کسی کی کچھ سنے ہی نہیں۔ یہی کہے مجھ سے کچھ مطلب نہیں لیکن بھائی ، میں نے کسی کی نہ سنی ۔میرے دل میں میر ارام بیٹھا کہہ رہا ہے تم چاہے کتنے ہی روکھے، بے مروت ہولیکن مجھ پر ضرور رحم کرو گے۔ “

                 یہ کہہ کر بلد یوسنگھ نے اپنے لڑکے کو اشارہ کیا۔ وہ باہر گیا اور ایک بڑا سا گٹھر  اٹھالایا جس میں انواع واقسام کی دیہاتی سوغاتیں بندھی ہوئی تھیں ۔ حالانکہ میں برابر کہے جاتا تھا: ” کوئی ضرورت نہیں ، کوئی ضرورت نہیں ۔“

مگر اس وقت بھی مجھے یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ نہ ہوا کہ میں صاحب کے پاس گیا ہی نہیں ۔ جو کچھ ہوا خود بخو دہوا ۔ مفت کا احسان چھوڑ نا طبیعت نے گوارا نہ کیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks