پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل نواں افسانہ “سَوانگ”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
سَوانگ
منشی پریم چند
(1)
راجپوت خاندان میں پیدا ہو جانے ہی سے کوئی سور ما نہیں بن جاتا اور نہ نام کے پیچھے “سنگھ” کی دُم لگا لینے ہی سے بہادری آتی ہے ۔ گجندرسنگھ کے بزرگ کسی زمانے میں راجپوت تھے۔ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں لیکن ادھر تین پشتوں سے تو نام کے سوا ان میں راجپوتی کی کوئی علامت نہ تھی۔ گجندرسنگھ کے جد بزرگوار وکیل تھے اور جرح یا بحث میں کبھی کبھی راجپوتی کا مظاہرہ کر جاتے تھے۔ پدر بزرگوار نے کپڑے کی دکان کھول کر اس مظاہرے کی بھی گنجایش نہ رکھی اور گجندر نے تو لٹیا ہی ڈبودی ۔ قد و قامت میں بھی فرق آتا گیا ۔ بھوپندرسنگھ کا سینہ فراخ تھا ۔ نریندرسنگھ کا شکم فراخ تھا۔ لیکن گجندرسنگھ کا کچھ بھی فراخ نہ تھا۔ وہ ہلکے پھلکے ، گورے چٹے ، عینک باز ، نازک بدن ، فیشن ایبل بابو تھے ۔ انھیں علمی مشاغل سے دلچسپی تھی ۔
مگر راجپوت کیسا ہی ہو، اس کی شادی تو راجپوت خاندان ہی میں ہوگی ۔ گجندرسنگھ کی شادی جس خاندان میں ہوئی تھی اس خاندان میں راجپوتی جو ہر بالکل فنا نہیں ہوا تھا ۔ ان کے خسر پنشنر صوبے دار تھے ۔ سالے شکاری اور کُشتی باز ۔ شادی ہوۓ دوسال ہو گئے تھے لیکن ابھی تک ایک باربھی سسرال نہ آ سکا تھا ۔ امتحانات سے فرصت ہی نہ ملتی تھی۔ لیکن اب تعلیم ختم ہو چکی تھی ۔ ملازمت کی تلاش تھی ۔ اس لیے اب کی ہولی کے موقع پر سسرال سے بلاوا آیا تو اس نے کوئی حیل و حجت نہ کی صوبے دار کی بڑے بڑے افسروں سے شناسائی تھی ۔فوجی افسروں کی حکام کتنی قد رو منزلت کرتے ہیں ، یہ اسے خوب معلوم تھا ۔ ممکن ہے صوبے دار صاحب کی سفارش سے نائب تحصیل داری میں نامزد ہوجاؤں ۔ادھر شیام دلاری سے بھی سال بھر سے ملاقات نہ ہوئی تھی ۔ایک نشانے سے دو شکار ہور ہے تھے ۔ نیا ریشمی کوٹ بنوایا اور ہولی کے ایک دن پہلے سسرال جا پہنچا۔ اپنے گرانڈ یل سالوں کے سامنے بچہ سا معلوم ہوتا تھا۔
تیسرے پہر کا وقت تھا۔ گجند رسنکھ اپنے سالوں سے زمانہ طالب علمی کے کارنامے بیان کر رہا تھا ۔ فٹ بال میں کس طرح ایک دیو قامت گورے کو پٹخنی دی۔ ہا کی میچ میں کس طرح تنہاگول کر لیا ۔کہ صوبے دار صاحب دیو کی طرح آ کر کھڑے ہو گئے اور بڑے لڑکے سے بولے” ارے سنو ! تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ بابو جی شہر سے آۓ ہیں ۔ انھیں لے جا کر سیر کرالا ؤ۔ کچھ شکار وکار کھلاؤ۔ یہاں تھیٹھر ویٹر تو ہے نہیں ، ان کا جی گھبرا تا ہوگا ۔ وقت بھی اچھا ہے ، شام تک لوٹ آؤ گے ۔
شکار کا نام سنتے ہی گجندر سنگھ کی نانی مرگئی ۔ بے چارے نے عمر بھر کبھی شکار نہ کھیلا تھا۔ دیہاتی اجڈ لونڈے اُسے نہ جانے کہاں کہاں دوڑائیں گے۔ کہیں کسی جانور کا سامنا ہوگیا تو کہیں کے نہ رہے ۔ کون جانے ہرن ہی چوٹ کر بیٹھے ۔ ہرن بھی راہ فرار نہ پا کر کبھی کبھی پلٹ پڑتا ہے ۔ کہیں بھیڑ یا نکل آئے تو کام ہی تمام کر دے ۔
بولے ۔’’میرا تو اس وقت شکار کھیلنے کو جی نہیں چاہتا۔ بہت تھک گیا ہوں ۔”
صوبے دار صاحب نے فرمایا ۔”تم گھوڑے پر سوار ہولینا۔ یہی تو دیہات کی بہار ہے ۔ چنّو جا کر بندوق لا ۔ میں بھی چلوں گا ۔کئی دن سے باہر نکلا نہیں ۔ میری رائفل بھی لیتے آنا ۔‘‘
چنّو اورمنّوخوش خوش بندوق لینے دوڑے ۔ادھر گجندرسنگھ کی جان سو کھنے لگی ۔ پچھتار ہاتھا کہ ناحق ان لونڈوں کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا ۔ جانتا کہ یہ بلا سر پر آنے والی ہے تو آتے ہی فوراً بیمار بن کر چار پائی پر پڑارہتا۔ اب تو کوئی حیلہ بھی نہیں کرسکتا۔ سب سے بڑی مصیبت گھوڑے کی سواری تھی ۔ دیہاتی گھوڑے یوں ہی تھان پر بند ھے بندھے ٹّرے ہو جاتے ہیں، اور آسن کا کچا سوار د یکھ کر تو وہ اور بھی شوخیاں کرنے لگتے ہیں ۔ کہیں الف ہو گیا یا مجھے لے کر کسی نالے کی طرف بے تحاشا بھاگا تو خیر یت نہیں ۔
دونوں سالے بندوقیں لے کر آ پہنچے۔ گھوڑا کھنچ کر آ گیا۔ صوبے دار صاحب شکاری کپڑے پہن کر تیار ہو گئے ۔ اب گجندر کے لیے کوئی حیلہ نہ رہا۔ اس نے گھوڑے کی طرف کنکھیوں سے دیکھا۔ بار ہا زمین پر پیر پٹکتا تھا ، ہنہنا تا تھا ، اٹھی ہوئی گردن، لال لال آنکھیں ، کنوتیاں کھڑی، بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی ۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ گجندر دل میں سہم اٹھا ۔مگر بہادری دکھانے کے لیے گھوڑے کے پاس جا کر اس کی گردن میں اس طرح تھپکیاں دیں گو یا پکا شہسوار ہے اور بولا :” جانورتو جاندار ہے، مگر مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ آپ لوگ تو پیدل چلیں اور میں گھوڑے پر بیٹھوں۔ ایسا بھی تھکا نہیں ہوں ۔ میں بھی پیدل ہی چلوں گا۔ اس کی مجھے مشق ہے۔‘‘
صوبے دار نے کہا۔ بیٹا!” جنگل دور ہے، تھک جاؤ گے ۔ بڑا سیدھا جانور ہے ، بچہ بھی سوار ہو سکتا ہے۔”
گجندر نے کہا: “جی نہیں ، مجھے یوں ہی چلنے دیجیے ۔ گپ شپ کر تے ہوۓ چلے چلیں گے۔ سواری میں وہ لطف کہاں ۔ آپ بزرگ ہیں سوار ہو جائیں۔ ‘‘
چاروں آدمی پیادہ چلے ۔لوگوں پر گجندر کے اس انکسار کا بہت اچھا اثر ہوا۔ تہذیب اور اخلاق تو شہر والے ہی جانتے ہیں ۔اس پر علم کی برکت !
تھوڑی دیر بعد پتھریلا راستہ ملا، ایک طرف ہرا بھرا میدان ، دوسری طرف پہاڑ کا سلسلہ، دونوں کی طرف ببول، کریل، کروندے اور ڈھاک کے جنگل تھے ۔صوبے دار صاحب اپنی فوجی زندگی کے پامال قصے کہتے چلے آتے تھے۔ گجند رتیز چلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بار بار پچھڑ جاتا تھا اور اسے دو چار قدم دوڑ کر ان کے برابر ہونا پڑتا تھا۔ پسینے میں تر ، ہانپتا ہوا اپنی حماقت پر پچھتاتا چلا جا تا تھا۔ یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ابھی سے یہ حال ہے ۔ شکار نظر آیا تو نہ معلوم کیا آفت آۓ گی۔ میل دومیل کی دوڑ تو ان کے لیے معمولی بات ہے مگر یہاں تو کچومر ہی نکل جائے گا۔ شاید بے ہوش ہو کر گر پڑوں ۔ پیر ابھی سے نونومن کے ہورہے ہیں ۔”
یکا یک راستے میں سیمل کا ایک درخت نظر آیا۔ نیچے لال لال پھول بچھے ہوۓ تھے، او پر سارا درخت گلنار ہورہا تھا۔ گجند ر وہیں کھڑا ہو گیا اوراس لالہ زار کومستانہ نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔
“چنو نے پوچھا کیا ہے جیجاجی ، رک کیسے گئے؟‘‘
گجندر نے عاشقانہ وارفتگی سے کہا:” کچھ نہیں ۔اس درخت کا حسن دل آویز دیکھ کر دل باغ باغ ہوا جار ہا تھا ۔ اہا! کیا بہار ہے، کیا مذاق ہے، کیا شان ہے گو یا جنگل کی دیوی نے شفق کو شرمندہ کرنے کے لیے زعفرانی جوڑا زیب تن کیا ہو، یا رشیوں کی پاک روحیں سفر جاوداں میں یہاں آرام کر رہی ہوں، یا قدرت کا نغمہ شیریں شکل پذیر ہوکر دنیا پر موہنی منتر ڈال رہا ہو۔ آپ لوگ شکار کھیلنے چلیے مجھے اس آب حیات سے شاد کام ہونے دیجیے۔
دونوں نو جوان فرطِ حیرت سے گجند رکا منہ تکنے لگے ۔ ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ حضرت کیا کہہ رہے ہیں ۔ دیہات کے رہنے والے ، سیمل ان کے لیے کوئی انوکھی چیز نہ تھی ۔اسے روز دیکھتے تھے، کتنی بار اس پر چڑھے تھے، اس کے نیچے دوڑے تھے ۔ اس کے پھولوں کی گیند بنا کرکھیلتے تھے۔ ان پر مستی کبھی نہ طاری ہوئی تھی ۔حسن پرستی وہ کیا جانیں ۔
صوبے دار صاحب آگے بڑھ گئے تھے۔ ان لوگوں کو ٹھہرا ہوا دیکھ کر لوٹ آۓ اوربولے!” کیوں بیٹا ٹھہر کیوں گئے ۔‘‘
گجندر نے دست بستہ گزارش کی ’’ آپ لوگ مجھے معاف فرمائیں ۔ میں شکار کھیلنے نہ جاسکوں گا۔ اس گلزار کودیکھ کر مجھ پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی ہے میری روح نغمہ ِ جنت کا مزالے رہی ہے۔ آہا یہ میرا ہی دل ہے جو پھول بن کر چمک رہا ہے ۔ مجھ میں بھی وہی سُرخی ہے ، وہی حسن ہے ، وہی لطافت ہے، میرے دل پر صرف گیان کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔ کس کا شکار کریں۔؟ جنگل کے معصوم جانوروں کا! ہمیں تو جانور ہیں ، ہمیں تو پرند ہیں ۔ یہ ہمارے ہی تصورات کا آئینہ ہے جس میں عالم ِاجسام کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ کیا اپنا ہی خون کریں! نہیں ۔ آپ لوگ شکار کھیلنے جائیں ، مجھے اس مستی و بہار میں محو ہو نے دیں، بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ آپ بھی شکار سے باز آئیں ۔ زندگی مسّرت کا خزانہ ہے۔ اس کا خون نہ کیجیے۔ نظارہ ہاۓ قدرت سے چشم باطن کو مسرور کیجیے۔ قدرت کے ایک ایک ذرے میں ، ایک ایک پھول میں ، ایک ایک بستی میں مسّرت کی شعائیں چمک رہی ہیں ۔خوں ریزیوں سے مسّرت کے اس لازوال چشمے کو نا پاک نہ کیجیے ۔‘‘
اس تصوف آمیز تقریر نے سب ہی کو متاثر کر دیا ہے ۔صوبے دار صاحب نے چنّو سےآہستہ سے کہا:’’ عمرتو کچھ نہیں ہے لیکن کتنا گیان بھرا ہوا ہے ۔‘چنّو نے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کیا:”علم سے روح بیدار ہو جاتی ہے ۔ شکارکھیلنا بُرا ہے ۔“
صوبے دار نے عارفانہ انداز سے کہا: ہاں بُرا تو ہے ۔ چلولوٹ چلیں ۔ جب ہرایک چیز میں اس کا جلوہ ہے تو شکاری کون اور شکارکون ۔اب کبھی شکار نہ کھیلوں گا۔‘‘
پھر وہ گجندرسے بولے !’’بھیا تمھارے اُپدیش نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ قسم کھاتے ہیں اب کبھی شکار نہ کھیلیں گے ۔
گجندر پر مستانہ کیفیت طاری تھی ۔اس سرور کے عالم میں بولے : ایشور کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے آپ لوگوں کو یہ توفیق عطا کی ۔ مجھے خود شکار کا کتنا شوق تھا عرض نہیں کر سکتا ۔ ان گنت جنگلی سور ، تیندوے ، نیل گائیں ہلاک کیے ہوں گے ۔ایک بار چیتے کو مارڈالا تھا مگر آج سے عرفاں کا وہ نشہ ہوا کہ ماسوا کا کہیں وجود ہی نہیں رہا۔‘‘
(2)
ہولی جلنے کی مہورت نو بجے رات کو تھی ۔آٹھ ہی بجے سے گاؤں کے عورت ،مرد، بوڑھے، بچے گاتے بجاتے عبیر یں اُڑاتے ہولی کی طرف چلے صوبے دار بھی بال بچوں کو لیے ہوۓ مہمان کے ساتھ ہو لی جلانے چلے ۔
گجندر نے ابھی تک کسی بڑے گاؤں کی ہولی نہ دیکھی تھی ۔اس کے شہر میں تو ہر محلے میں لکڑی کے موٹے موٹے دو چار کندے جلا دیے جاتے تھے جو کئی کئی دن چلتے رہتے تھے ۔ یہاں کی ہولی ایک وسیع میدان میں کسی کو ہسار کی بلند چوٹی کی طرح آسمان سے باتیں کر رہی تھی ۔ جوں ہی پنڈت جی نے منتر پڑھ کر نئے سال کا خیر مقدم کیا آتش باز چھوٹنے لگی ۔ چھوٹے بڑے سب ہی پٹاخے، چھچھوندریں، ہوائیاں چھوڑنے لگے۔گجندر کے سر سے کتنی چھچھوندریں سنسناتی ہوئی نکل گئیں۔ہر ایک پٹاخے پر بیچارہ دو چار قدم پیچھے ہٹ جاتا تھا۔اور دل میں ان اُجڈ دیہاتیوں کو بد دعائیں دیتا تھا۔یہ کیا بے ہودگی ہے بارود کی کپڑے میں لگ جائے کوئی اور واردات ہو جائے تو ساری شرارت نکل جائے۔ روز ہی تو ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، مگر ان دہقانوں کو کیا خبر۔یہاں تو دادا نے جو کچھ کیا وہی کریں گے چاہے اس میں کچھ ُتک ہو یا نہ ہو۔
دفعتاً نزدیک سے ایک بم گولے چھوٹنے کی فلک شگاف آواز آئی گویا بجلی کڑکی ہو، گجندر سنگھ چونک کر کوئی دو فٹ اونچے اچھل گئے۔اپنی زندگی میں وہ شاید کبھی اتنا نہ کودے تھے۔دل دھک دھک کرنے لگا گویا توپ کے نشانے کے سامنے کھڑے ہوں۔ فوراً دونوں کان انگلیوں سے بند کر لیے۔اور دس قدم پیچھے ہٹ گئے۔
چنّو نے کہا: جیجاجی ،آپ کیا چھوڑ یں گے ۔ کیالاؤں؟‘‘
منّو بولا :” ہوائیاں چھوڑئے جیجا جی ۔ بہت اچھی ہیں ۔آسمان میں نکل جاتی ہیں ۔‘‘
چنو۔ ہوائیاں بچے چھوڑتے ہیں کہ یہ چھوڑیں گے۔ آپ بم گولا چھوڑیئے بھائی صاحب۔
گجندر۔ ” بھئی ان چیزوں کا شوق نہیں ۔ مجھے تو تعجب ہو رہا ہے کہ بوڑ ھے بھی کتنی دلچسپی سے آتش بازی چھوڑ رہے ہیں۔”
منو۔ ’’دو چار ماہتابیاں تو ضرور چھوڑ یئے ۔‘‘
گجندر کو ماہتابیاں بے ضررمعلوم ہوئیں ۔ان کی سرخ سبز سنہری چمک کے سامنے ان کے گورے چہرے اور خوبصورت بالوں اور ریشمی کرتے کی دلفریبی کتنی بڑھ جائے گی ۔ کوئی خطرے کی بات نہیں ، مزے سے ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں ۔ گل ٹپ ٹپ نیچے گر رہا ہے اور سب کی نگاہیں ان کی طرف لگی ہوئی ہیں ۔ان کافلسفی دماغ بھی خودنمائی کے شوق سے خالی نہ تھا۔ فورا ماہتابی لے لی ، گویا ا یک شان بے نیازی کے ساتھ مگر پہلی ہی ماہتابی چھوڑ نا شروع کی تھی کہ دوسرا بم گولہ چھوٹا۔آسمان کانپ اٹھا۔ گجندر کو ایسا معلوم ہوا کہ گویا کان کے پردے پھٹ گئے یا سر پر کوئی ہتھوڑا سا گر پڑا۔ ماہتابی ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی اور سینے میں اختلاج ہونے لگا ۔ ابھی اس دھماکے سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ تیسرا دھما کہ ہوا، جیسے آسمان پھٹ پڑا ہو۔ ساری فضا متلاطم ہوگئی ۔ چڑیاں گھونسلوں سے نکل نکل کر شور مچاتی ہوئی بھاگیں، جانور رسیاں تڑا تڑا کر بھاگے اور گجندر بھی سر پر پانو رکھ کر بھاگے، سر پٹ اور گھر پر آ کر دم لیا۔ چنو اور منو دونوں گھبرا گئے ۔صوبے دار صاحب کے ہوش اڑ گئے ۔ تینوں آدمی بکٹٹ دوڑے ہوۓ گجندر کے پیچھے چلے ۔ دوسروں نے جو انھیں بھاگتے دیکھا توسمجھے کوئی شدید واردات ہوگئی ۔ سب کے سب ان کے پیچھے ہولیے ۔ گاؤں میں ایک معززمہمان کا آنا معمولی بات نہ تھی ۔ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ’’ مہمان کو ہو کیا گیا؟ ماجرا کیا ہے؟ کیوں یہ لوگ دوڑے جار ہے ہیں؟‘‘ ایک لمحے میں سیکڑوں آدمی صوبے دار صاحب کے دروازے پر پرسش حال کے لیے جمع ہو گئے ۔ گاؤں کا دامادکم رو ہونے پر بھی قابل زیارت اور بدحال ہوتے ہوئے بھی منظور نظر ہوتا ہے ۔
صوبے دار نے سہمی ہوئی آواز سے کہا:’’ تم وہاں سے کیوں آ گئے بھّیا؟‘‘
گجندرکو کیا معلوم تھا کہ اس کے چلے آنے سے یہ تہلکہ مچ جائے گا ۔ مگر اس کے حاضر دماغ نے جواب سوچ لیا تھا اور جواب بھی ایسا کہ گاؤں والوں پر اس کا خدا رسّی کاسکہ بٹھا دے ۔ بولا کوئی خاص بات نہ تھی ۔ دل میں کچھ ایسا ہی آیا کہ یہاں سے بھاگ جانا چا ہیے ۔‘‘
” نہیں ، کوئی بات ضر ورتھی‘‘۔
’’ آپ پوچھ کر کیا کر یں گے ؟ میں اسے ظاہر کر کے آپ کے جشن میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا۔
’’ جب تک بتلا نہ دو گے بیٹا ہمیں تسلی نہ ہوگی۔ سارا گاؤں گھبرایا ہوا ہے۔”
گجندر نے پھر صوفیوں کا سا چہرہ بنایا، آنکھیں بند کر لیں ، جمائیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولے: ’’بات یہ ہے کہ جوں ہی میں نے ماہتابی ہاتھ میں لی ، مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے اسے میرے ہاتھ سے چھین کر پھینک دیا۔ میں نے کبھی آتش بازیاں نہیں چھوڑیں۔ میں ہمیشہ اس کی مذمت کرتا ہوں ۔ آج میں نے وہ فعل کیا جو میرے ضمیر کے خلاف تھا۔ بس غضب ہی تو ہو گیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میری روح مجھ پر نفر یں کر رہی ہے ۔ شرم سے میری گردن خم ہو گئی۔ اور میں اس عالم میں وہاں سے بھا گا۔ اب آپ لوگ مجھے معاف فرمائیں ، میں آپ کے جشن میں شریک نہ ہوسکوں گا ۔”
صوبے دار صاحب نے اس انداز سے گردن ہلائی گویا ان کے سوا کوئی وہاں اس تصوف کا راز نہیں سمجھ سکتا۔ ان کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ’’ آتی ہیں تم لوگوں کی سمجھ میں یہ باتیں، تم بھلا کیا سمجھو گے۔ ہم بھی کچھ ہی کُچھ سمجھتے ہیں ۔”
ہولی تو وقت معینہ پر جلائی گئی مگر آتش بازیاں دریا میں ڈال دی گئیں ۔ شریر لڑکوں نے کچھ اس لیے چھپا کر رکھ لیں کہ گجندر چلے جائیں گے تو مزے سے چھوڑ یں گے ۔
شیام دلاری نے تخلیے میں کہا:’’ تم تو وہاں سے خوب بھاگے ۔
گجندر اکڑ کر بولے” بھاگتا کیوں ، بھاگنے کی تو کوئی بات نہ تھی ۔”
میری تو جان نکل گئی کہ نہ معلوم کیا ہو گیا۔ تمھارے ہی ساتھ میں بھی دوڑی آئی ۔ ٹوكری بھر آتش بازی پانی میں پھینک دی گئی ۔‘‘
” یہ تو روپے کو آگ میں پھونکنا ہے ۔‘‘
” ہولی میں بھی نہ چھوڑیں تو کب چھوڑیں ۔ تیوہار اسی لیے تو آتے ہیں۔”
تیوہار میں گاؤ بجاؤ ، اچھی اچھی چیزیں پکاؤ ،خیرات کرو، عزیزوں سے ملو، سب سے محبت سے پیش آؤ ۔ بارود اڑانے کا نام تیوہارنہیں ہے ۔”
رات کے بارہ بج گئے تھے ۔ کسی نے دروازے پر دھکّا مارا۔
گجندر نے چونک کر پوچھا:’’ یہ دھکّا کس نے مارا؟‘‘
شیاما نے لا پروائی سے کہا: “بلِّی وِلی ہوگی ۔“
کئی آدمیوں کے کھٹ پٹ کرنے کی آواز یں آئیں۔ پھر کواڑ پر دھکا مارا۔ گجندر کولرزہ آ گیا ۔ لالٹین لے کر دروازے سے جھانکا تو چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ چار پانچ آدمی کرتے پہنے، پگڑیاں باندھے ، داڑھیاں لگاۓ ، شانے پر بندوقیں رکھے کواڑ کو توڑ ڈالنے کی سرگرم کوشش میں مصروف تھے۔ گجندر کان لگا کر ان کی باتیں سننے لگا۔’’ دونوں سو گئے ہیں ۔ کواڑ توڑ ڈالو۔ مال الماری میں ہے ۔‘‘
” اوراگر دونوں جاگ گئے ۔‘‘
’’ عورت کیا کر سکتی ہے۔ مرد کو چار پائی سے باندھ دیں گے۔“
” سنتے ہیں گجندرسنگھ کوئی بڑا پہلوان ہے ۔‘‘
“کیسا ہی پہلوان ہو۔چار ہتھیار بند آدمیوں کے سامنے کیا کر سکتا ہے ۔”
گجندر کے کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔ شیام دلاری سے بولے:’’ یہ ڈاکومعلوم ہوتے ہیں ۔اب کیا ہوگا۔ میرے تو ہاتھ پانو کانپ رہے ہیں ۔ “
’’چور چور پکارو۔ جاگ ہو جاۓ گی ۔ آپ بھاگ جائیں گے نہیں میں چلاتی ہوں ،چور کا دل آدھا۔‘‘
” نا نا کہیں ایسا غضب نہ کرنا ۔ ان سبھوں کے پاس بندوقیں ہیں ۔ گاؤں میں اتنا سناٹا کیوں ہے ۔ گھر کے آدمی کیا ہوۓ ۔ “
بھّیا اورمنّو دادا کھلیان میں سونے گئے ہیں ۔ کا کا دروازے پر پڑے ہوں گے۔ ان کے کانوں پر توپ چھوٹے تب بھی نہ جاگیں گے ۔
’’اس کمرے میں کوئی دوسری کھڑ کی بھی تو نہیں ہے کہ باہر آواز پہنچے۔ مکان میں یاقیدخانے؟‘‘
”میں تو چلاتی ہوں ۔”
’’ارے نہیں بھائی ۔ کیوں جان دینے پر آمادہ ہو۔ میں تو سوچتا ہوں ہم دونوں چپ سادھ کر لیٹ جائیں اور آنکھیں بند کر لیں ۔ بدمعاشوں کو جو کچھ لے جانا ہو لے جائیں ، جان تو بچے ۔ دیکھوکِواڑ ہل رہے ہیں ۔ کہیں ٹوٹ نہ جائیں۔ یا ایشور کہاں جاؤں اس مصیبت میں تمھارا ہی بھروسا ہے۔ کیا جانتا تھا کہ یہ آفت آنے والی ہے ۔ نہیں تو آ تا ہی کیوں بس چپ ہی سادھ لو۔ اگر ہلائیں ولائیں تو بھی سانس مت لینا ۔‘‘
’’مجھ سے تو چپی سادھ کر پڑا نہ رہا جاۓ گا ۔”
” زیورا تارکر رکھ کیوں نہیں دیتیں ۔شیطان زیور ہی تو لیں گے ۔“
“زیور تو نہ اتاروں گی چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے ۔‘‘
” کیوں جان دینے پر تلی ہوئی ہو؟‘‘
” خوشی سے تو زیور نہ ا ُتاروں گی، زبردستی کی اور بات ہے ۔‘‘
“خاموش ۔سنوسب کیا باتیں کر رہے ہیں ۔”
” باہر سے آواز آئی ’’ کواڑ کھول دو نہیں تو ہم کواڑ توڑ کر اندر آ جائیں گے ۔”
گجندر نے شیام دلاری کی منّت کی :” میری بات مانو تو شیا ما ، زیورا تار کر رکھ دو ۔ میں وعدہ کرتا ہوں بہت جلد نئے زیور بنوا دوں گا۔“
باہر سے آواز آئی ” کیوں شامتیں آئی ہیں ۔ بس ایک منٹ کی مہلت اور دیتے ہیں اگر کواڑ نہ کھلے تو خیر یت نہیں۔”
گجندر نے شیام دلاری سے پوچھا:’’ کھول دوں؟‘‘
’’ہاں بلا لو تمھارے بھائی بند ہیں نا۔ وہ دروازے کو باہر سے ڈھکیلتے ہیں تم اندر سےباہر کوٹھیلو۔‘‘
’’اور جو دروازہ میرے اوپر گر پڑے۔ پانچ پانچ جوان ہیں ‘‘
” وہ کونے میں لاٹھی رکھی ہے، لے کر کھڑے ہوجاؤ۔“
’’ تم پاگل ہوگئی ہو!‘‘
’’چنّو دادا ہوتے تو پانچوں کوگرادیتے ۔‘‘
”میں لٹھ باز نہیں ہوں ۔“
” تو آؤ منہ ڈھانپ کر لیٹ جاؤ۔ میں ان سب کو سمجھ لوں گی ۔‘‘
” تمھیں تو عورت سمجھ کر چھوڑ دینگے ۔ماتھے میری جائیگی ۔”
“میں تو چلاتی ہوں ۔‘‘
’’ تم میری جان لے کر چھوڑو گی ۔‘‘
” مجھ سے تو اب صبر نہیں ہوتا ۔ میں کواڑ کھولے دیتا ہوں۔”
اس نے دروازہ کھول دیا۔ پانچوں چور کمرے میں پھڑ پھڑا کر گھس آئے ۔ایک نے اپنےساتھی سے کہا: میں اس لونڈے کو پکڑے ہوۓ ہوں تم عورت کے سارے گہنےا تا رلو ۔”
دوسرابولا: ’’اس نے تو آنکھیں بند کر لیں ۔ارے تم آنکھیں کیوں نہیں کھولتے جی؟‘‘
تیسرا “عورت تو حسین ہے۔”
چوتھا: سنتی ہے او مہریا! زیور دے دے نہیں گلا گھونٹ دوں گا۔‘‘
گجندر دل میں بگڑ رہے تھے کہ یہ چڑیل زیور کیوں نہیں اتاردیتی۔
شیام دلاری نے کہا: ’’ گلا گھونٹ دو چاہے گولی ماردو۔ زیور نہ اتاروں گی۔ ‘‘
پہلا: ’’اسے اٹھا لے چلو۔ یوں نہ مانے گی ۔مندر خالی ہے ۔
دوسرا: ”بس یہی مناسب ہے ۔ کیوں ری چھوکری ہمارے ساتھ چلے گی ۔”
شیام دلاری: “تمھارے منہ میں کا لک لگا دوں گی ۔ “
تیسرا : “نہ چلے گی تو اس لونڈے کو لے جا کر بیچ ڈالیں گے۔“
شیام دلاری: ’’ایک ایک کے ہتھکڑی ڈلوا دوں گی۔‘‘
چوتھا: ” کیوں اتنا بگڑتی ہے مہارانی ۔ ذرا ہمارے ساتھ چلی کیوں نہیں چلتی ۔ کیا ہم اس لونڈے سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ کیا رہ جاۓ گا اگر ہم تجھے زبردستی اٹھالے جائیں گے۔ یوں سیدھی طرح نہیں مانتی ہو ۔ تم جیسی ماہرو پر ظلم کرنے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘
پانچواں: “یا تو سارے زیورا تار کر دے یا ہمارے ساتھ چل۔”
شیام دلاری: ’’ کا کا آجائیں گے تو ایک ایک کی کھال اُدھیڑ ڈالیں گے ۔”
پہلا: ” یہ یوں نہ مانے گی ۔اس لونڈے کواٹھالے چلو ۔تب آپ ہی پیروں پر پڑے گی ۔‘‘
دو آدمیوں نے ایک چادر سے گجندر کے ہاتھ پانو باند ھے۔ گجندر بے حس وحرکت پڑے ہوئے تھے۔ سانس تک نہ آتی تھی ۔ دل میں جھنجھلا رہے تھے :’’ہاۓ ! کتنی بے وفا عورت ہے ۔ زیور نہ دے گی چاہے یہ سب مجھے جان سے مارڈالیں ۔ اچھا زندہ بچوں گا تو دیکھوں گا۔ بات تک تو پوچھوں نہیں ۔
جب ڈاکوؤں نے گجند رکواٹھا لیا اور لے کر آنگن میں جا پہنچے تو شیام دلاری دروازے پرکھڑی ہوکر بولی:’’ انھیں چھوڑ دوتو میں تمھارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں ۔”
پہلا: “پہلے ہی کیوں نہ راضی ہوگئی ، چلے گی نا؟‘‘
شیام دلاری: ’’چلوں گی کہتی تو ہوں ۔‘‘
تیسرا:” اچھا تو چل۔ ہم اسے چھوڑے دیتے ہیں ۔”
دونوں چوروں نے گجند رکو لا کر چار پائی پرلٹا دیا اور شیام دلاری کو لے کر چل دیے۔ کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ گجندر نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں ۔ کوئی نظر نہ آیا۔ اٹھ کر دروازے سے جھانکا۔ صحن میں بھی کوئی نہ تھا۔ تیر کی طرح نکل کر صدر دروازے پر آۓ ۔ لیکن باہر نکلنے کا حوصلہ نہ ہوا ۔ چاہا کہ صوبے دار صاحب کو جگائیں مگر منہ سے آواز نکلی ۔
اس وقت قہقہے کی آواز آئی۔ پانچ عورتیں چہل کرتی ہوئی شیام دلاری کو لے کر کمرے میں آ گئیں ۔ گجندر کا وہاں پتہ نہ تھا۔
ایک : “کہاں چلے گئے؟‘‘
شیام دلاری: ’’باہر چلے گئے ہوں گے ۔‘‘
دوسری: ” بہت شرمندہ ہوں گے ۔“
تیسری: ’’مارے خوف کے ان کی سانس تک بند ہوگئی تھی۔”
گجندر نے بول چال سنی تو جان میں جان آئی۔ سمجھے شاید گھر میں جاگ ہوگئی ۔ لپک کر کمرے کے دروازے پر آئے اور بولے: ذرا دیکھیے ،شیاما کہاں ہے؟ میری تو نیند ہی نہیں کھلی ۔ جلد کسی کو دوڑایئے ۔
یکا یک انہیں عورتوں کے بیچ میں شیاما کو کھڑے ہنستے دیکھ کر حیرت میں آ گئے ۔ پانچوں سہیلیوں نے ہنسنا اور تالیاں پیٹنا شروع کر دیا ۔
ایک نے کہا: ’واہ جیجا جی ! دیکھ لی آپ کی بہادری۔‘‘
شیام دلاری: ’’ تم سب کی سب شیطان ہو ۔‘‘
تیسری: بیوی تو چوروں کے ساتھ چلی گئی اور آپ نے سانس تک نہ لی۔ ‘‘
گجندر سمجھ گئے بڑا دھوکا کھایا۔مگر زبان کے شیر تھے ۔فوراً بگڑی بات بنالی۔ بولے:’’ تو کیا تمھارا سوانگ بگاڑ دیتا۔ میں بھی اس تماشے کا لطف اٹھارہاتھا۔ اگر سبھوں کو پکڑ کر مونچھیں اکھاڑ لیتا تو تم کتنی شرمندہ ہوتیں ۔ میں اتنابے رحم نہیں ہوں ۔“
سب کی سب گجند رکا منہ دیکھتی رہ گئیں ۔
*****
Pingback: افسانہ سوانگ : پریم چند 09 Urdu Literature