محمد حسین آزاد : حیات و خدمات

محمد حسین آزاد

حیات و خدمات

نام: محمد حسین آزاد(شیخ ابراہیم ذوق نے "ظہورِ اقبال” (1245)تاریخ کہی اور محمد حسین نام رکھا۔

پیدائش:18 ذی الحجہ 1245ھ بمطابق 10/ جون 1830دہلی

خاندان

مولوی محمدحسین آزاد کے آباؤ اجداد میں مولانا محمد شکوہ ، شاہ عالم کے دورِ حکومت میں ہمدان (ایران)سے براہِ کشمیر ہندوستان آئے اور یہیں کے ہورہے۔ ان کے پرداد محمد اشرف اور داد مولانا محمد اکبر دہلی کے نامی گرامی مجتہد تھے ۔ انھوں نے گھر پر ہی مدرسہ قائم کیا تھا جہاں دور دراز سے طلبا آکر دینی تعلیم حاصل کرتے تھے، محمد اکبر تک سب کی گھریلو زبان فارسی تھی۔ اِنہی محمد اکبر کے بیٹے محمد باقر تھے۔وہ بھی اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کیے ، بعد میں کابلی دروازے میں واقع میاں عبدالرزّاق کی درسگاہ میں داخل ہوگئے وہاں شیخ ابراہیم نامی طالب علم سے دوستی ہوئی۔

والد: مولوی محمد باقر (1836ء میں "دہلی اردو اخبار” جاری کیا جو شمالی ہند کا پہلا اردو اخبار تھا، 1857 کی پہلی جنگِ آزادی میں مولوی محمد باقر کے دوست، اور دہلی کالج کے پرنسپل بے قصور ٹیلر کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی۔)

والدہ: امانی بیگم (ان سے آزاد اور ان کی دو بہنیں پیدا ہوئیں، آزاد ابھی چار سال کے ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا، ان کے بعد باقر نے دو شادیاں کی لیکن ان سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔1877ء میں ان کی پھوپھی بھی چل بسیں جنہوں نے ماں کی طرح ان کی پرورش کی تھی۔ )

تعلیم

ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی پھر 1847میں دہلی کالج میں داخلہ لیے، اور تکمیل تعلیم کے بعد اخبار اور پریس کے کاموں میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔

شاعری

آزاد کو شعر و ادب کا شوق تھالہذا شاعری میں انہوں نے خاقانی ہند محمد ابراہیم ذوقؔ کے سامنے زانوے تلمّذ تہہ کیا۔ روزانہ عصربعد حاضر ہوتے اور گئے رات تک استفادہ کرتے، نومبر 1854 میں استاد کی وفات کے بعد حکیم آغا جاں عیشؔ سے اصلاح لینی شروع کی یہ بھی 1857 کے ہنگامے سے قبل چل بسے۔

اولاد: آزاد کے چودہ بچے ہوئے اور صرف ایک آغا محمد ابراہیم بچے ، باپ کے 10 سال بعد 1920ء میں انتقال ہوا، بیٹی امۃ السکینہ تھی۔

حالات و ملازمت

حالات و ملازمت: 1857کے سانحہ کے بعد جب انگریز پھانسی دیناشروع کیے تو آزاد اپنے خاندان کی جان بچانے کے لیے راتوں رات اپنے خاندان کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ ایک عرصے تک اپنی گرفتاری کے ڈر سے وہ اِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے رہے۔ وہ سونی پت گئے۔ لکھنؤ گئے جیسا کہ آزاد نے خود لکھا ہے کہ "راقم آثم 1858ء میں لکھنؤ گیا۔ یہیں میرکلوعرش سے ملاقات ہوئی۔ آب حیات میں لکھا ہے کہ "میر صاحب کے بیٹے میر کلو عرش لکھنؤ میں ملے تھے اور وہاں سے آکر پنجاب کی طرف چلے آئے۔ یہاں کچھ عرصہ جالندھر میں ڈاکٹر لاکرسٹائین کے ملازم رہے اور 1860 ء میں مولوی رجب علی ارسطو جاہ کے اخبار "مجمع البحرین جگراؤں (لدھیانہ) میں نوکر ہوگئے۔ ۔۔اور یہیں سے وہ جنرل پوسٹ آفس لاہور میں 11جولائی 1861ء کو تیس روپیہ ماہوار پر سہ رشتہ دار کی حیثیت سے ملازم ہوگئے۔ 19 دسمبر 1862ء کو ملتان تبادلہ ہوا اور وہی سے مستعفی ہوگئے۔ 1864ء میں اُنھیں پبلک انسٹرکشن کے محکمے میں نائب رشتہ دار کی معمولی سی ملازمت مل گئی لیکن بے قاعدگی کی وجہ سے ہاتھ سے چلی گئی۔اس کے بعد کافی عرصہ بے روزگار رہے ، پھر ان کی ملاقات ڈاکٹر لائٹز سے ہوئی اور قرابت بڑھتی گئی، وہ دیسی زبانوں کو انگریزی خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنانے کے خواہاں تھے۔ 20 جنوری 1865ء کو منشی من پھول نے "سکھشا سبا” کے مکان میں منتخب لوگوں کا جلسہ بلایا اور انجمن پنجاب کے قیام کی تجویز پیش کی اور ساتھ ہی ڈاکٹر لائٹز کا تعارف کرایا۔ اس طرح لاہور میں "انجمن مطالبِ مفیدہ پنجاب” کی بنیاد پڑی جس کے پہلے صدر لائٹز منتخب ہوئے۔ آزاد نے "انجمنِ پنجاب” کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ فروری 1865 سے ستمبر 1868 تک آزاد نے 22 مضامین لکھے۔  لائٹز اور انگریزی حکّام کو آزادؔ پر اتنا اعتماد ہوگیا تھا کہ 1865ء میں اُنھیں ایک خفیہ مشن پر وسط ایشیا بھیجا گیا۔ یہ وفد چار اشخاص پر مشتمل تھا۔ پنڈت من پھول سربراہ تھے اور محمد حسین آزاد، فیض بخش، کرم چند نندرام داس۔انہوں نے اپنا نام بھی تبدیل کیا، من پھول؛ دیوان سنگھ مہاجن، آزاد؛ بہاء الدین، اور فیض بخش: غلام ربانی بن گئے کرم چند اپنا نام نہیں بدلے۔اس سفر میں ایک سال دو مہینے اور چار روز کا عرصہ لگا۔ 1866ء میں وہ واپس آئے۔ پھر ان کو 1866 میں نامعلوم خاص کام کے لیے کلکتہ بھیجا گیا وہاں سےواپسی پر نواب عبداللطیف خان کی 1863ء میں قائم کردہ "محمڈن لٹریری سوسائٹی” کے بارے میں مفصل لیکچر بھی دیا۔ 1867ء میں لائٹز نے انھیں "انجمن پنجاب” کا سیکریٹری بنا دیا۔انجمن کے سیکریٹری کی حیثیت سے 22 جون 1868 تک قائم رہی۔ 16 جولائی 1868کو لیفٹیننٹ گورنر کے حکم سے 75روپے ماہوار پر عارضی طور پر ملازم ہوگئے تاکہ اُردو میں نئی تاریخِ ہند لکھنے میں مسٹر پیٹرسن کی مدد کریں۔ 2 اگست 1869 ء کو ہالرائڈ ڈی پی آئی پنجاب کے حکم سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر تین ماہ کے لیے عربی کا کارگزار مددگار پروفیسر مقرر کردیا گیا اور جب 14 مئی 1870ء کو مولوی علمدار حسین کی وفات کے بعد جگہ مستقل ہوئی۔ جون 1870ء سے "انجمن” کے اخبار "رہنمائے پنجاب” کی ادارتی ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد کر دی گئیں۔    اس دوران سنین الاسلام کے تعلق سے دونوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہوچکے تھے  اور لائٹز نے آزاد کے لیے قدم قدم پر روکاوٹیں پیدا کررہے تھے ۔ اپریل 1877ء میں آزاد نے ایک درخواست دی جس میں طلبہ کی تعداد میں اضافے کے پیشِ نظر تنخواہ میں اضافہ کےلیے کہا گیا تھا نیز حسنِ خدمت کے صلے میں ضلع لاہور میں ایک ہزار ایکڑ اراضی کے لیے درخواست کی تھی ماڈل فارم قائم کرسکیں۔ لائٹز نے اپنی پرنسپلی کا حوالہ دیتے ہوئے ہرایک کام میں روڑا ڈالنے لگا۔

9 جون 1884 کے پنجاب یونیورسٹی سینیٹ کے اجلاس میں طے پایا کہ محمد حسین آزاد اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہوں گے اور شعبہ عربی و فارسی کے تمام طلبہ کو اُردو ترجمہ اور مضمون نویسی کی تعلیم دیں گےاور گورنمنٹ کالج کے سالِ اول و دوم کے طلبہ کو فارسی پڑھائیں گے۔ اب ان کی خدمات گورنمنٹ کالج سے یونیورسٹی اورینٹل کالج منتقل کر دی گئیں۔

سن 1885ء میں آزاد پہلی اور آخری بار ایران گئے۔ آزاد کے بار بار درخواست پر لائٹز کے مخالفت کے باوجود گورنر ایچی سن نے اپنے اختیار ِ خاص سے ان کی چھٹی منظور کی۔ آزاد کا یہ سفر 23 ستمبر 1885ء سے شروع ہوا، اس دن وہ لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے اور 2 اکتوبر 1885 بروز جمعہ کراچی سے بوشہر (ایران) کے لیے بحری جہاز سے تن تنہا روانہ ہوئے۔ اس سفر میں مشہد سے ہرات جاتے ہوئے اونٹ سے سراور گردن کے بل گرے ۔ ایک پسلی ٹوٹ گئی اور دماغ پر بھی چوٹ آئی۔

جولائی 1886ء میں آزاد کم و بیش دس مہینے سفر میں رہ کر خراب صحت اور دماغی چوٹ کے ساتھ لاہور پہنچے۔ ڈاکٹرلائٹز 22 سال پرنسپل رہ کر اپریل 1886ء میں گورنمنٹ کالج سے جاچکے تھے۔ لاہور واپس آنے پر ان کی درخواست پر حکومتِ پنجاب نے انھیں درگار شاہ محمد غوث کے قریب ایک قطعہ اراضی کتب خانہ تعمیر کرنے کے لیے دیا جس پر اپنے خرچ سے ایک عمارت بنوائی۔ 30 جون 1890ء کو ملازمت سے سبک دوش ہوگئے اور 6 جون سے پچاس روپے ماہوار ان کی پنشن مقرر ہوگئی۔30 اگست 1892ء کو گورنر جنرل کی سفارش پر وزیرِ ہند نے 75روپے ماہوار کی خصوصی پیشن اور منظور کی۔

انجمن پنجاب اور آزاد

قیامِ انجمن: ملک کے دیگر علاقے کلکتہ، لکھنؤ، بریلی، بنارس میں انجمن کے قیام کے بعد 20 جنوری 1865ء کو منشی من پھول نے "سکھشا سبا” کے مکان میں منتخب لوگوں کا جلسہ بلایا گیا اور انجمن کے قیام کی تجویز پیش کی اور ساتھ ہی ڈاکٹر لائٹز کا تعارف کرایا۔ اس طرح لاہور میں "انجمن مطالبِ مفیدہ پنجاب” کی بنیاد پڑی جس کے لائٹز پہلے صدر منتخب ہوئے۔ عرفِ عام میں یہ "انجمنِ پنجاب” کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔

افتتاحی اجلاس: پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر ڈولنڈ میکلوڈ کو درسی کتابوں میں جدید نظموں کی خواہش جاری کی، یہ اطلاع ڈی پی آئی پنجاب کرنل ہالرائڈ کو دی گئی تو انھوں نے آزاد سے تبادلہ خیال کرکے طے کیا کہ ایک جلسہ بلایا جائے۔ 19اپریل 1874ء کو یہ جلسہ "سکھشا سبھا” کی عمارت میں بلایاگیا ۔ اس زمانے میں ڈاکٹر لائٹز رُخصت پر ملک سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس جلسہ میں آزاد نے ایک لیکچر دیا، اور ایک مثنوی رات کی حالت کے موضوع بعنوان شبِ قدر پیش کی۔ اس میں موضوعاتی مشاعرہ کے انعقاد کا فیصلہ لیا گیا۔

اور پہلے مشاعرے کے لیے "برسات” کے موضوع پرنظمیں لکھنے کی تجویز پیش کی گئی۔ چنانچہ 30مئی 1874 میں کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں موضوعاتی مشاعرہ منعقدہوا جس میں مصرع طرح کے بہ جائے  موضوعاتی نظمیں پڑھی گئیں۔  اس کے تحت دس موضوعاتی مشاعرے ہوئے پھر یہ سلسلہ ختم ہوگیا لیکن انجمن پنجاب کے اسی رجحان کی بنیاد پر جدید نظمیہ شاعری کی عمارت تعمیر ہوتی رہی۔

ان مشاعروں سے متعلق مختصر معلومات درج ذیل ہیں:۔

نظم نگار اور ان کی نظمیںموضوعتاریخ انعقادشمار نمبر
برکھارُت:الطاف حسین حالیؔ ، ابرِ کرم: آزادبرساتتیس مئی 1874پہلا
آزادؔ ، انور حسین ہما ،مرزا اشرف بیگ دہلوی، مولاقادر بخش ،الٰہی بخشزمستانتیس جون 1874دوسرا
صبح امید: آزاد، نشاطِ امید: حالیاُمیدتین اگست 1874تیسرا
حبِ وطن:آزاد، حالیحبِ وطنیکم ستمبر1874چوتھا
خوابِ امن: آزادامننو اکتوبر1874پانچواں
مناظرہ رحم و انصاف: حالی، دادِ انصاف: آزادانصافچودہ نومبر1874چھٹا
وداعِ انصاف: آزادمروتانیس دسمبر1874ساتواں
گنجِ قناعت: آزادقناعتتیس جنوری 1875آٹھواں
مصدرِ تہذیب: آزادتہذیب13 مارچ 1875نواں
شرافتِ حقیقی: آزادؔشرافت3 جولائی1875دسواں

سن1867ء میں لائٹز نے آزاد کو انجمنِ پنجاب کا سیکریٹری بنا دیا۔انجمن کے سیکریٹری کی یہ حیثیت 22 جون 1868ء تک قائم رہی اس زمانے میں انھوں نے درج ذیل لیکچر دیئے:۔

"اصلیت زبانِ اُردو کی” : جولائی 1867

"خیالات دربابِ نظم اور کلام موزوں کے”: اگست 1867

حالِ شمس ولی اللہ شاعر: اگست1867

حالِ شاہ حاتم استاد مرزا رفیع سوداکا”: ستمبر 1867

حالِ شاہ ہدایت شاعر اُردو کا: ستمبر 1867

رائے بر کتاب عجائب و غرائب: اکتوبر 1867

درباب طرز انشاء فارسی و اُردو مروجہ: 1868

افادیت ملک الشعراء خاقانی ہندشیخ محمد ابراہیم ذوق: 1868

تصانیف

تصانیف کی سب سے عمدہ ترتیب عتیق اللہ صاحب کا مونوگراف والی ہے۔

تخلیقی :۔

نیرنگِ خیال: (حصہ اول 1880، حصہ دوم 1923)

مجموعہ نظمِ آزاد: 1896

ڈرامہ اکبر: (بعد از وفات1922)

لسانیاتی

سخندانِ فارس: (حصہ اول 1887، حصہ دوم 1907)

تاریخی

قصص ہند: (جلد دوم 1868)

تذکرہ سنین الاسلام: (حصہ اول 1874، حصہ دوم 1876)

دربارِ اکبری: 1898

ادبی تاریخ و تذکرہ

آبِ حیات: (1879)

نگارستانِ فارس: 1866 اور 1872 کے درمیان لکھی گئی (مرتبہ آغا محمد طاہر، 1922)

سیاحتی

سیرِ ایران (مرتبہ آغا محمد طاہر)

ترتیب و تدوین

دیوانِ ذوق: (اشاعت 1922)

اخلاقِ آموز

نصیحت کا کرن پھول: (1864میں لکھی گئی ، آغا محمد طاہر نے 1917میں شائع کیا

مابعد الطبیعیاتی

فلسفہ الہیات

مکتوبات

مکتوباتِ آزاد (مرتبہ جالب دہلوی، 1923)

نصابی

اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، اردو کی تیسری کتاب، فارسی کی پہلی کتاب، فارسی کی دوسری کتاب، اردو کا قاعدہ، قواعد اردو، جامع القواعد

تفصیلات

نیرنگِ خیال: حصہ اور  دوم، انگریزی زبان کے مضامین سے اخذو ترجمہ کرکے اردو میں لکھے ہیں، حصہ اول پہلی بار مطبع مفید عام سے 1880ء میں اور دوسری بار1883ء میں شائع ہوا، دوسرے مضامین  جمع کرکے حصہ دوم کے نام سے 1923 میں پہلی بار شائع ہوااس کے بعد شیخ مبارک علی لاہور نے 1944ء میں دونوں حصے شائع کیے۔

نظمِ آزاد: اس کے سرِ ورق پر لکھا ہے کہ "نظمِ آزاد جو حُسن و عشق کی قید سے آزادر ہے "نظم آزاد” پہلی بار 1899ء میں شائع ہوئی۔ اس مجموعہ میں وہ لیکچر جو 15 اگست کو نظم اور کلامِ موزوں کے باب میں خیالات کے موضوع پر انجمن پنجاب کے جلسہ میں دیا گیا تھا، شامل ہے۔ دوسری بار یہ مجموعہ 1910ء میں آزاد بُک ڈپو لاہور سے شائع ہوا۔

ڈرامہ اکبر: شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کی داستان عشق کو ڈرامے کا روپ دیا گیا ہےیہ ڈرامہ آزاد کی وفات کے بعد پہلی بار کریمی پریس لاہور سے آغا محمد طاہرنبیرہ آزاد کے مقدمہ کے ساتھ آزاد بُک ڈپو لاہور سے 1932ء میں شائع ہوا۔

سخن دانِ فارس: یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں لغات اور زبانوں کے فلسفے کے اصول، الفاظ کی پیدائش، وغیرہ کا بیان اور حصہ دوم میں فارسی زبان سے متعلق گیارہ لیکچر شامل ہیں۔ لیکچر 1872ء میں تیارکیے گئے تھے۔ 1907 میں رفاہِ عام پریس لاہور سے آزاد کے بیٹے آغا محمد ابراہیم نے حصہ اول و دوم ایک جلد میں ایک ساتھ شائع کیے۔

قصصِ ہند(حصہ دوم):یہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول ماسٹر پیارے لال آشوب کے زور قلم کا نتیجہ ہے، حصہ سوم 1875ء میں شائع ہوا تھا جسے کرنل ہالرائڈ ڈائریکٹر مدراس ممالک پنجاب کے حکم سے سر رشتہ تعلیم پنجاب کے اراکین نے ترتیب دیاتھا۔حصہ دوم محمد حسین آزاد کی تصنیف ہے جس کی اشاعت غالباً1865ء میں عمل میں آئی۔

دبارِ اکبری: جلال الدین اکبر بادشاہِ ہندوستان اور ان کے دربار کے جلیل القدر اُمرا کے حالات و واقعات ، پہلی بار دارالاشاعت لاہور سے 1898ء میں شائع ہوئی۔

آب حیات: شعرائے اردو کا تذکرہ، پہلا ایڈیشن وکٹوریا پریس لاہور سے 1880ء میں شائع ہوا۔ دوسرا 1883ء میں ، آزاد نے نظرثانی کرکے مفید اضافے کیے۔ کُل صفحات 507 سے بڑھ کر 564 ہوگئےاور 1883ء میں پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہوئی۔

نگارستان فارس: اس میں رودکیؔ سے لے کر نورالعین واقفؔ بٹالوی تک مشاہیر شعرائے فارسی کی سوانح عمری اور انتخابِ کلام درج ہے۔ آزاد بک ڈپو لاہور سے 1932ء میں شائع کیا۔

سیرِ ایران: کریمی پریس لاہورسے پوتے آغا محمد طاہر نے شائع کرایا لیکن سنِ اشاعت درج نہیں ہے۔

دیوانِ ذوق: اس کی ترتیب و تدوین کا کام 1888 میں شروع ہوکر 1889ء میں مکمل ہوا، اور ان کی وفات کے بارہ سال بعد 1922ء میں آزاد بُک ڈپو لاہور سے پہلی بار شائع ہوا۔

نصیحت کا کرن پھول: (1864میں لکھی گئی ، آغا محمد طاہر نے 1917میں شائع کیا، یہ کتاب گورنمنٹ کے انعامی اشتہار کے جواب میں لکھی گئی تھی جس میں "تعلیمِ نسواں” کی اہمیت و ضرورت اُجاگر کی گئی تھی۔

مکاتیب آزاد: خطوط کا مجموعہ جو آزاد نے اپنے معاصرین، دوست احباب اور رشتہ داروں کو لکھے۔

متفرقات

خمکدہ آزاد: اس میں غزلیات، قطعات اور قصائد ہیں جو انھوں نے "نظم آزاد” سے پہلے کہے تھے ، اس میں رنگِ قدیم پایاجاتا ہے، 1932 میں آغا محمد طاہر نے یہ مجموعہ کلام آزاد بُک ڈپور دہلی سے شائع کیا۔

جانورستان: اس میں پرندوں، درندوں، چرندوں کی عادات و خصلت کو بیان کیا ہے۔ 90 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو آغا محمد طاہر 1928ء میں آزاد بُک ڈپو سے شائع کیا۔

کائناتِ عرب، تذکرہ علماء

اعزاز: حکومتِ ہند نے 1887ءمیں شمس العلما کا خطاب عطا کیا۔

وفات: آزاد نے 80 برس کی عمر پائی تھی لیکن آخری بیس برس عالم دیوانگی کی نذر ہوگئے۔ حکیم محمود خاں اور حکیم عبدالمجید کا علاج بھی ہوا لیکن افاقہ نہیں ہوا، اسی عالم جنون میں رہ کر آخر 9 محرم الحرام 1327ھ بمطابق 22جنوری 1910ء کو لاہور میں وفات پائی اور گامے شاہ کی کربلا میں ، داتا گنج بخش کے مزار کے قریب دفن ہوئے۔

نصاب میں شامل آزاد کی نظمیں

شبِ قدر

صبحِ امید

کتابیات

جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو۔ جلد چہارم

ڈاکٹر اسلم فرخی۔محمد حسین آزاد: حیات و تصانیف

جہاں بانو نقوی۔ محمد حسین آزاد

عتیق اللہ ۔مونوگراف محمد حسین آزاد

3 thoughts on “محمد حسین آزاد : حیات و خدمات”

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!