دیوانِ غالب
ردیف “ن” کی ابتدائی پانچ غزلیں
Diwan e Ghalib: Radeef Noon ki ibtedai 5 Ghazlen
پہلی غزل
یہ صرف ایک شعر کی غزل ہے۔
لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں
دوسری غزل
آٹھ اشعار پر مشتمل غزل ہےاس کا قافیہ وصال، سال، جمال، خال، خیال، حال، مال، وبال اور اعتدال ہے اور ردیف “کہاں” ہے۔
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصت کاروبار شوق کسے
ذوق نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شور سودائے خط و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں
ہم سے چھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں گرہ میں مال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
تیسری غزل
نو اشعار پر مشتمل غزل ہےاس کا قافیہ جفا، برا، کیا، ربا، رسا، نما، گیا، ہوا، خدا اور نواہے اور ردیف “کہتے ہیں” ہے۔
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خار رہ کو ترے ہم مہر گیا کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں
وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں
چوتھی غزل
گیارہ اشعار پر مشتمل غزل ہےاس کا قافیہ گلشن، دامن، تن، دامن، روزن، روزن، خرمن، سوزن، مدفن، تن، گردن، تن اور گلخن ہے اور ردیف “میں نہیں” ہے۔
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگ پیراہن جو دامن میں نہیں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا جو خوں کہ دامن میں نہیں
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہ آفتاب
ذرے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
کیا کہوں تاریکی زندان غم اندھیر ہے
پنبہ نور صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں
بسکہ ہیں ہم اک بہار ناز کے مارے ہوئے
جلوۂ گل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خوں بھی ذوق درد سے فارغ مرے تن میں نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موج مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں
ہو فشار ضعف میں کیا ناتوانی کی نمود!
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلف ہوں وہ مشت خس کہ گلخن میں نہیں
پانچویں غزل
چار اشعار پر مشتمل غزل ہےاس کا قافیہ قضا، سا،کیا، اور وفاہے اور ردیف “کہوں” ہے۔
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آ سکا
گر اک ادا ہو تو اسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بہ سوئے دل
ہر تار زلف کو نگۂ سرمہ سا کہوں
میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو اور ایک وہ نا شنیدن کہ کیا کہوں
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بے وفا کہوں
Diwan e Ghalib: Radeef Noon ki ibtedai 5 Ghazlen