افسانہ (11) غم نداری بز بخر

پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل گیارہواں افسانہ “غم نداری بز بخر”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

غم نداری بز بخر

منشی پریم چند

 ان دنوں دودھ کی تکلیف تھی ۔ کئی ڈیری فارموں کی آزمایش کی ،اہیروں کا امتحان لیا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ دو چار دن تو دودھ اچھا ملتا، پھر آمیزش شروع ہو جاتا۔ کبھی شکایت ہوتی دودھ پھٹ گیا، کبھی اس میں سے ناگوار بو آنے لگتی ، کبھی کبھی مکھن کے ریزے نکلتے ۔آخر ایک دن ایک دوست سے کہا:’’ بھئی،آؤ ساجھے میں ایک گائے لے لیں۔ تمھیں بھی دودھ کا آرام ہو جائے گا، مجھے بھی ۔لاگت آدھی آدھی،خرچ آدھا آدها، دودھ بھی آدھا آدھا۔‘‘ دوست صاحب راضی ہو گئے۔ میرے گھر میں جگہ نہ تھی اور گوبر وغیرہ سے مجھے نفرت ہے ۔ ان کے مکان میں کافی جگہ تھی۔ اس لیے تجویز ہوئی کہ گائے انہیں کے گھر رہے ۔ اس کے عوض انھیں گو بر پر بلاشرکت غیرے اختیار ہے ۔ وہ اسے کامل آزادی سے تھاپیں  ، اپلے بنائیں ، گھر لیپیں ، پڑوسیوں کو دیں یا اسے کسی طبی مصرف میں لائیں ،منمقر کو اس میں کسی قسم کا اعتراض، احتجاج یا قیل وقال نہ ہوگا اور منمقر بہ صحت ہوش وحواس و بہ اصابت عقل اقرار کرتا ہے کہ وہ گوبر پر کبھی دستِ تصرُّف دراز نہ کرے گا اور نہ کسی کو تصرُّف کے لیے آمادہ کرے گا۔

  دودھ آنے لگا۔ روز روز کی ضیق سے نجات ملی ۔ ایک ہفتہ تک کسی قسم کی شکایت نہ پیدا ہوئی۔گرم گرم دودھ پیتا تھا اور خوش ہو کر گا تا تھا۔

  جس نے ہماری گائے بنائیرب کا شکر ادا کر بھائی
لطف حیات چکھایا اُس نےتازه دودھ پلایا  اس  نے
اس کے کرم نے بخشی سیریدودھ میں بھیگی روٹی میری
   کیسی بھولی بھالی صورتخدا کی رحمت کی ہے مورت

     مگر  رفتہ رفتہ یہاں بھی پرانی شکایتیں پیدا ہونے لگیں۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ دودھ صرف نام کا دودھ رہ گیا۔ کتناہی ابالو، نہ کہیں ملائی کا پتا، نہ مٹھاس کا۔ پہلے تو شکایت کرلیا کرتا تھا۔ اس سے دل کا بخار نکل جاتا تھا۔ شکایت سے اصلاح نہ ہوئی تو دودھ بند کر دیتا تھا۔ اب تو شکایت کا بھی موقع نہ تھا۔ بند کر دینے کا ذکر ہی کیا۔ قہر درویش بر جانِ درویش ، پیویا  نالی میں ڈال دو۔آٹھ روز کانسخہ نوشتہ قسمت تھا۔ بچہ دودھ کومنہ نہ لگاتا، پینا تو دور رہا۔ آدھوں آدھ شکر ڈال کر کچھ دنوں دودھ پلایا تو پھوڑے نکلنے شروع ہوئے اور میرے گھر میں روز بم چخ مچی رہتی تھی ۔ بیوی نوکر سے فرماتیں:” دودھ لے کر جا انھیں کے سر پٹک آ ۔‘‘ میں نوکر کومنع کرتا۔ وہ کہتیں: “اچھے دوست ہیں تمہارے،اسے شرم نہیں آتی ۔ کیا اتنا احمق ہے کہ اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ دودھ دیکھ کر کیا کہیں گے؟ گائے کو اپنے گھر منگوالو۔ بلا سے بد بو آئے گی ، مچھر ہوں گے، دودھ تو اچھا ملے گا۔ روپئے خرچے ہیں تو اس کی لذت تو ملے گی ۔‘‘ چڈھا صاحب میرے پرانے مہربان ہیں۔خاصی بے تکلفی ہے۔ ان سے یہ حرکت ان کے علم میں ہوتی ہوا سے قیاس باور نہیں کرتا ۔ یا تو ان کی بیوی کی شرارت ہے، یا نوکر کی لیکن ذکر کیسے کروں اور پھر ان کی بیوی سے بھی تو راہ ورسم ہے۔ کئی بار میرے گھر آ چکی ہیں ۔ میری دیوی جی بھی ان کے ہاں کئی بار مہمان جا چکی ہیں۔ کیا وہ یکا یک اتنی بے وقوف ہو جائیں گی۔ صریح آنکھوں میں دھول جھونکیں گی اور پھر چاہے کسی کی شرارت ہو، میرے لیے یہ غیر ممکن تھا کہ ان سے دودھ کی خرابی کی شکایت کرتا۔ خیر یت یہ ہوئی کہ تیسرے مہینے چڈھا کا تبادلہ ہو گیا۔ میں تنہا گائے نہ رکھ سکتا تھا۔ سا جھا  ٹوٹ گیا۔گائے آدھے داموں میں بیچ دی گئی ۔ میں نے اس دن اطمینان کا سانس لیا ۔

       آخر یہ صلاح ہوئی کہ ایک بکری رکھ لی جائے ۔ وہ بیچ آنگن میں ایک گوشے میں پڑی رہ سکتی ہے ۔ اسے رکھنے کے لیے نہ گوالے کی ضرورت ہے، نہ اس کا گو بر اٹھانے ، نا ند دھو نے ، چارہ بھوسا ڈالنے کے لیے کسی اہیرن کی ضرورت ۔ بکری تو میرا ملازم بھی آسانی سے دوہ لے گا۔ تھوڑی سی چوکر ڈال دی ، چلیے قصہ تمام ہوا۔ پھر بکری کا دودھ مفید بھی زیادہ ہے۔ بچوں کے لیے خاص طور پر زودہضم ، معتدل ، صحت بخش حسن اتفاق سے میرے یہاں جو پنڈت جی میرے مسو د ے نقل کرنے آیا کرتے تھے ان معاملات میں کافی تجربہ کار تھے ۔ ان سے ذکر آیا تو انھوں نے ایک بکری کی ایسی قصیدہ خوانی کی کہ میں اس کا نادیدہ عاشق ہو گیا۔ پچھائیں  نسل کی بکری ہے، اونچے قد کی ، بڑے بڑے تھن جو زمین سے لگے چلتے ہیں ۔ بے حدکم خورلیکن بے حد دودھ ہا ر۔ ایک وقت میں دو ڈھائی سیر دودھ لے لیجے ۔ ابھی پہلی مرتبہ ہی بیاہی ہے ۔ ۲۵ روپے میں آ جائے گی ۔ مجھے دام کُچھ زیادہ معلوم ہوئے۔ لیکن پنڈت جی پر مجھے اعتبار تھا۔ فرمائش کر دی گئی اور تیسرے دن بکری آ پہنچی ۔ میں دیکھ کر چل پڑا۔ جو اوصاف بیان کیے گئے تھے ان سے کچھ زیادہ ہی نکلے۔ ایک چھوٹی سی مٹی کی ناند منگوائی گئی۔ چوکر کا بھی انتظام ہو گیا۔ شام کو میرے خدمت گار نے دودھ نکالا تو سچ مچ ڈھائی سیر ۔ میری چھوٹی پتیلی لبریز ہوگئی تھی ۔اب موسلوں ڈھول بجائیں گے ۔ یہ مسئلہ اتنے دنوں کے بعد جا کے کہیں حل ہوا ہے۔ پہلے ہی یہ بات سوجھتی تو کیوں اتنی پریشانی ہوتی۔ پنڈت جی کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ مجھے علی الصبح اور شام کوسینگ پکڑنے پڑتے تھے تب آدمی دودھ نکالتا تھا لیکن یہ تکلیف اس دودھ کے مقابلے میں کچھ نہ تھی ۔ بکری کیا ہے کام دھین ہے۔ بیوی نے سوچا اسے کہیں نظر نہ لگ جائے اس لیے اس کے تھن کے لیے غلاف تیار ہوا۔ اس کی گردن میں نیلے چینی کے دانوں کی ایک مالا پہنائی گئی۔گھر میں جو کچھ جھوٹا بچتا دیوی جی خود جا کر اسے کھلا آتی تھیں ۔

لیکن ایک ہفتے میں دودھ کی مقدار کم ہونے لگی ۔ضرور نظر لگ گئی ۔ بات کیا ہے؟ پنڈت جی سے حال کہا تو انھوں نے کہا:’’ صاحب دیہات کی بکری ہے زمیندار کی! بے دریغ اناج کھاتی تھی اور سارے دن باغ میں گھو ما چرا کرتی تھی۔ یہاں بندھے بندھے دودھ کم ہو جائے تو تعجب نہیں ۔اسے ذرا ٹہلا دیا کیجیے۔“

    لیکن شہر میں بکری کو ٹہلاۓ۔ کون اور کہاں؟ اس لیے یہ طے ہوا کہ مضافات میں مکان لیا جائے۔ وہاں بستی سے ذرا دور نکل کر کھیت اور باغ ہوں گے ۔ کہار گھنٹے دو گھنٹے ٹہلایا  کرے گا۔ جھٹ پٹ مکان تبدیل کیا اور ہر چند مجھے دفتر آنے جانے میں تین میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا لیکن اچھا دودھ ملے تو میں اس کا دو گنا فاصلہ طے کرنے کو تیار ۔ یہاں مکان کشادہ تھا۔ مکان کے سامنے صحن تھا۔ ذرا اور بڑھ کر آم اور مہوے وغیرہ کے باغ ۔ باغ سے نکلیے تو کا چھیوں کے کھیت تھے۔ کسی میں آلو کسی میں گوبھی ۔ایک کاچھی سے طے کر لیا کہ روزانہ بکری کے لیے ہریالی دے جایا کرے، مگر اتنی کوشش کرنے پر بھی دودھ کی مقدار میں کوئی خاص بیشی نہ ہوئی ۔ ڈھائی سیر کی جگہ مشکل سے سیر بھر دودھ نکلتا تھا لیکن یہ تسکین تھی کہ دودھ خالص ہے ۔ یہی کیا کم ہے ۔

   میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ خدمت گاری کے مقابلے میں بکری چَرانا زیادہ ذلیل کام ہے۔ ہمارے دیوتاؤں اور نبیوں کا نہایت معزز طبقہ گلہ بانی کیا کرتا تھا۔ کرشن جی گائیں چراتے تھے ۔کون کہہ سکتا ہے کہ اس گلے میں بکریاں نہ رہی ہوں گی ۔ حضرت عیسی اور حضرت محمد ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) دونوں ہی بھیٹر یں  چراتے تھے۔لیکن انسان روایات کا غلام ہے ۔ جو بزرگوں نے نہیں کیا اسے وہ کیسے کرے۔ نئے راستے پر چلنے کے لیے جس عزم اور پختہ یقین کی ضرورت ہے وہ ہر ایک میں تو ہوتا نہیں ۔ دھوبی آپ کے غلیظ کپڑے دھولے گا لیکن آپ کے دروازے پر  جھاڑو لگانے میں اپنی ہتک سمجھتا ہے۔ جرائم پیشہ اقوام کے فرد بازار سے قیمتاً کوئی چیز خریدنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ میرے خدمت گار کو بکری لے کر باغ میں جانا برامعلوم ہوتا تھا۔ گھر سے تو لے جاتا لیکن باغ میں اسے چھوڑ کر خود کسی درخت کے نیچےسو جاتا۔ بکری پتیاں چر لیتی تھی ۔ مگر ایک دن اس کے جی میں آیا کہ ذرا باغ سے نکل کر کھیتوں کی سیر کرے ۔ یوں وہ بہت ہی شستہ مزاج اور وضع دار بکری تھی ۔ اس کی صورت سے متانت اور تحمل جھلکتا تھا۔ لیکن باغ اور کھیت میں اسے یکساں آزادی نہیں ہے ۔اسے وہ شاید نہ بجھ سکی۔ایک روز کسی کھیت میں گھس گئی اور گوبھی کی کئی کیاریاں صاف کر گئی ۔  کاچھی نے دیکھا تو اس کے کان پکڑ لیے اور میرے پاس آ کر بولا: ’’بابو جی اس طرح آپ کی بکری ہمارے کھیت میں چرے گی تو ہم تو تباہ ہو جائیں گے۔ آپ کو بکری رکھنے کا شوق ہے تو اسے باندھ کر رکھیے۔ آج تو ہم نے تمہارالحاظ رکھ لیا لیکن پھر ہمارے کھیت میں گئی تو ہم یا تو اس کی ٹانگ توڑ دیں گے یا کا نجی ہاؤس میں بھیج دیں گے ۔ ابھی وہ اپنی تقریر ختم نہ کرنے پایا تھا کہ اس کی بیوی آ پہنچی اور اس نے اسی خیال کو زیادہ پر زور الفاظ میں ادا کیا: ’ہاں ہاں کرتی رہی مگر رانڈ کھیت میں گھس گئی اور سارا کھیت چوپٹ کر دیا۔ اس کے پیٹ میں بھوانی بیٹھیں ۔ یہاں کوئی تمہارادبیل نہیں ہے۔ حاکم ہو گے اپنے گھر کے ہوگے۔ بکری رکھنا ہے تو باندھ کر کھو نہیں گلا اینٹھ دوں گی۔ میں بھیگی بلی بنا ہوا کھڑا تھا۔ جتنی فٹکار  آج سہنی پڑی، اتنی زندگی میں کبھی نہ سہی تھی۔ اور جس تحمل سے آج کام لیا اگر اس سے دوسرے موقعوں پر کام لیا ہوتا تو آج آدمی ہوتا۔ کوئی جواب ہی نہ سوجھتا تھا۔ بس یہی جی چاہتا تھا کہ بکری کا گلا گھونٹ دوں اور خدمت گار کے ڈیڑھ سو ہنٹر جماؤں ۔ میری خموشی سے وہ خاتون اور بھی شیر ہوئی جاتی تھی ۔ آج مجھے معلوم ہوا کہ بعض موقعوں پر خاموشی مضر ثابت ہوتی ہے ۔ بارے میری اہلیہ نے یہ غل  گپاڑہ سنا تو دروازے پرآ گئیں اور ہیکٹری سے بولیں: ’تو کانجی ہاؤس پہنچا دے اور کیا کرے گی ۔ ناحق بڑ بڑ کر رہی ہے گھنٹے بھر سے ۔ جانورہی ہے ایک دن کھل گئی تو کیا اس کی جان لے گی ۔خبر دار جو اب ایک بات بھی منہ سے نکالی ہوگی ۔ کیوں نہیں کھیت کے چاروں طرف جھاڑ لگا دیتی ۔ کانٹوں سے روندھ دے۔ اپنی غلطی تو مانتی نہیں ، او پر سے لڑنے آتی ہے۔ ابھی پولیس کو اطلاع کر دیں تو بند ھے بند ھے پھرو۔”

         اس تحکمانہ انداز بیان نے ان دونوں کو ٹھنڈا کر دیا۔ لیکن ان دونوں کے چلے جانے کے بعد میں نے دیوی جی کی خوب خبر لی: ’’غریبوں کا نقصان بھی کرتے ہو اوپر سے رعب جماتی ہو۔ اس کا نام انصاف ہے؟‘‘ دیوی جی نے انداز تفاخر سے جواب دیا: ’’میرا احسان تو نہ مانو گے کہ شیطان کو کتنی آسانی سے دفع کر دیا، لگے الٹے ڈانٹنے۔ گنواروں کو راہ پر لانے کا سختی کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ۔ شرافت یا فیاضی ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔اسے یہ لوگ کمزوری سمجھتے ہیں اور کمزور کوکون نہیں دبانا چاہتا۔؟‘‘

        خدمت گار سے جواب طلب کیا تو اس نے صاف کہہ دیا:’’ صاحب بکری چَرانا میرا کام نہیں ہے ۔

میں نے کہا: ’’ تم سے بکری چرانے کوکون کہتا ہے۔ ذرا اسے دیکھتے رہا کرو کہ کسی کھیت میں نہ جائے ۔ اتنا بھی تم سے نہیں ہوسکتا۔“

  ”        میں بکری نہیں  چرا سکتا صاحب! کوئی دوسرا آدمی رکھ لیجیے۔ “

             آخر میں نے خود شام کو اسے باغ میں چرانے کا فیصلہ کیا۔اتنے ذرا سے کام کے لیے ایک نیا آدمی رکھنا میری حیثیت سے باہر تھا اور اپنے خدمت گار کو بھی جواب دینانہیں چاہتا تھا، جس نے کئی سال تک وفاداری سے میری خدمت کی تھی اور ایمان دار تھا۔ دوسرے دن میں دفتر سے ذرا جلد چلا آیا اور چٹ پٹ بکری کو لے کر باغ میں جا پہنچا۔ جاڑوں کے دن تھے ۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ درختوں کے نیچے سوکھی پتیاں گری ہوئی تھی ۔ بکری پتیوں پرٹوٹی پڑتی تھی ، گویا مہینوں کی بھوکی ہو۔ ابھی اس درخت کے نیچے تھی۔ایک پل میں وہ دوسرے درخت کے نیچے جا پہنچی ۔میری دلیل ہو رہی تھی ۔ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا پھرتا تھا۔ دفتر سے لوٹ کر ذرا آرام کیا کرتا تھا، آج یہ قواعد کرنا پڑی، تھک گیا۔ مگر محنت سپھل ہوگئی ۔آ ج بکری نے کچھ زیادہ دودھ دیا۔ یہ خیال آیا  اگر سوکھی پتیاں کھانے سے دودھ کی مقدار بڑھ گئی تو یقینا ہری پتیاں کھلائی جائیں تو اس سے کہیں بہتر نتیجہ نکلے لیکن ہری پتیاں آئیں کہاں سے؟ درختوں سے تو ڑوں تو باغ کا ما لک ضرور اعتراض کرے گا ۔قیمتاً ہری پتیاں مل نہ سکتی تھیں۔ سوچا کیوں نہ ایک بار بانس کے لگےّ سے پتیاں توڑیں۔ مالک نے شور مچایا تو اس سے منتیں کر لیں گے۔ راضی ہو گیا تو خیر نہیں دیکھی جائے گی تھوڑی سی پتیاں توڑ لینے سے درخت کا کیا بگڑا جا تا تھا۔ چنانچہ ایک پڑوسی سے ایک پتلا لمبا بانس ما نگ لایا ۔ اس میں ایک انکس باندھا اور شام کو بکری کو ساتھ لے کر پتیاں توڑنے لگا۔ چور آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتا جاتا تھا، کہیں مالک تو نہیں آرہا ہے ۔ دفعتا وہی کا چھی  ایک طرف سے آنکلا اور مجھے پتیاں توڑتے دیکھ کر بولا:” یہ کیا کرتے ہو بابو جی؟ آپ کے ہاتھ میں یہ لگا اچھا نہیں لگتا۔ بکری پالنا ہم غریبوں کا کام ہے کہ آپ جیسے سریفوں کا ۔‘‘ میں کٹ گیا۔ کچھ جواب نہ سوجھا۔ اس میں کیا برائی ہے، اپنے ہاتھ سے اپنا کام کرنے میں کیا شرم، وغیرہ جوابات ہلکے، بے حقیقت ، مصنوعی معلوم ہوئے۔ سفید پوشانہ خودداری نے زبان بند کر دی۔ کا چھی نے قریب آ کر میرے ہاتھ سے لگا لے لیا اور آن واحد میں پتیوں کا ڈھیر لگا دیا پوچھا: ’پتیاں کہاں رکھ آؤں۔؟“

      میں نے جھینپتے ہوئے کہا:’’ تم رہنے دو ۔ میں اٹھا لے جاؤں گا ۔“

 اس نے تھوڑی سی پتیاں بغل میں اٹھا لیں اور بولا:’’ آپ کیا پتیاں رکھنے جائیں گے۔ چلیےمیں رکھ آؤں ۔

          میں نے برآمدے میں پتیاں رکھوا دیں ۔اس درخت کے نیچے اس کی چوگنی پتیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ کاچھی نے ان کا ایک گٹھا بنایا اور سر پر لاد کر چلا گیا ۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ یہ دہقاں کتنے چالاک ہوتے ہیں ۔ کوئی بات مطلب سے خالی نہیں ۔

         مگر دوسرے دن بکری کو باغ میں لے جانا میرے لیے دشوار ہوگیا ۔ کا چھی پھر دیکھے گا اور نہ جانے کیا کیا فقرے چست کر ے ۔اس کی نظروں میں گر جانا ، روسیاہ ہو جانے سے کم شرمسار نہ تھا۔ ہماری عزت اور تو قیر کا جو معیار عوام نے قائم کر رکھا ہے ہم کو اس کا احترام کرنا پڑے گا۔ نکو بن کر رہے تو کیار ہے ۔

       لیکن بکری اتنی آسانی سے آزاد نہ چہل قدمی سے دست بردار ہونا نہ چاہتی تھی جسے اس نے اپنا معمول سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ شام ہوتے ہی اس نے اتنے زور وشور سے صدائے احتجاج بلند کی کہ گھر میں بیٹھنا مشکل ہو گیا۔ گٹکری دار میں میں کی پیہم آواز میں آ آ کر کان کے پردوں کو مجروح کرنے لگیں ۔ کہاں بھاگ جاؤں؟ بیوی نے اسے گالیاں دینا شروع کیں ۔ میں نے غصے میں آ کر کئی ڈنڈے رسید کیے مگر اس نے ستیا گرہ ملتوی کرنا تھا نہ کیا ۔ عجیب عذاب میں جان تھی آخر مجبور ہو گیا۔’’ خود کردہ را علاجے نیست‘‘۔ آٹھ بجے رات، جاڑوں کے دن گھر سے منہ نکالنا مشکل اور میں بکری کو باغ میں ٹہلا رہا اور اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔ اندھیرے میں پانو رکھنے میری روح کا نپتی ہے۔ ایک بار میرے سامنے سے ایک سانپ نکل گیا تھا۔ اگر اس کے اوپر پیر پڑ جا تا تو ضرور کاٹ لیتا۔ تب سے میں اندھیرے میں بھی نہ نکلتا تھا۔ مگر آج اس بکری کے کارن مجھے اس خطرے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ذرا بھی ہوا چلتی اور پتے کھڑکتے تو میری آنتیں سکڑ جاتیں اور پنڈلیاں کانپنے لگتیں ۔ شاید اس جنم میں میں بکری رہا ہوں گا اور یہ بکری میری آقارہی ہوگی ۔ وہی کفارہ اس زندگی میں ادا کر رہا تھا۔ برا ہو اس پنڈت کا جس نے یہ بلا میرے سرمنڈھی ۔ گرہستی ہی جنجال ہے ۔ بچہ نہ ہوتا تو کیوں اس موذی جانور کی اتنی خوشامد کرنی پڑتی۔ اور یہ بچہ بڑا ہو جائے گا تو بات نہ سنے گا۔ آپ نے میرے لیے کیا کیا ہے ،کون سی جائیداد چھوڑی ہے۔ یہ  سزا بھگت کرنو بجے رات کولوٹا ، اگر رات کو بکری مر جاتی تو مجھے مطلق غم نہ تھا۔

          دوسرے دن صبح ہی سے مجھے فکر دامن گیر ہوئی کہ کس طرح رات کی بے گاری  سے چھٹی ملے ۔ آج دفتر میں تعطیل تھی ۔ میں نے ایک لمبی سی رسّی منگوائی اور شام کو بکری کے گلے میں رسّی ڈالی۔ ایک درخت کی جڑ سے باندھ کر چھوڑ دیا۔ اب چَرے جتنا چا ہے ۔ اب چراغ جلتے جلتے کھول لاؤں گا۔ تعطیل تھی ہی ۔ شام کو سینما دیکھنے کی ٹھہری۔ ایک اچھا کھیل آیا ہوا تھا۔ نوکر کو بھی ساتھ لیا اور نہ بچے کو کون سنبھالتا۔ جب نو بجے رات کو گھر لوٹے اور میں لالٹین لے کر بکری لینے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے رسّی کو دو تین درختوں میں لپیٹ کر ایسا الجھا ڈالا ہے کہ سلجھنا مشکل ہے ۔   رسّی بھی نہ بچی کہ وہ ایک قدم بھی چل سکتی ، لاحول ولاقو ۃ۔ جی میں آیا کمبخت کو یہیں چھوڑ دوں ۔ مرتی ہے تو مر جائے ۔اب اتنی رات کو لالٹین کی روشنی سے کون رسّی سلجھانے بیٹھے ۔لیکن دل نہ مانا۔ پہلے اس کی گردن سے رسّی کھولی ۔ پھر اس کی پیچ در پیچ اینٹھن چھٹرائی ، ایک گھنٹہ وقت صرف ہو گیا۔ مارے سردی کے ہاتھ ٹھٹھرے جاتے تھے اور جی جل رہا تھاوہ الگ۔ یہ ترکیب اور بھی تکلیف دہ ثابت ہوئی ۔

        اب کیا کروں! کچھ عقل کام نہ کرتی تھی ۔ دودھ کا خیال نہ ہوتا تو کسی کو مفت دے دیتا۔ شام ہوتے ہی چڑیل اپنی صدائےبے ہنگام شروع کر دے گی اور گھر میں رہنا مشکل ہو جائے گا اور آواز بھی کتنی کر یہہ اور منحوس ہوتی ہے۔  شاستروں میں لکھا بھی ہے جتنی دور اس کی آواز جاتی ہے اتنی دور دیوتا نہیں آتے ۔ سورگ کی بسنے والی ہستیاں جو اپسراؤں کے نغمے سننے کی عادی ہیں اس کی مکروہ آواز سے نفرت کر یں تو کیا تعجب! مجھ پر اس کی سمع خراش صداؤں کی ایسی ہیبت سوار تھی کہ دوسرے ون دفتر سے آتے ہی میں گھر سے نکل بھا گا۔ لیکن ایک میل نکل جانے پر بھی ایسا گمان ہورہا تھا کہ اس کی آواز میرا پیچھا کیے چلی آتی ہے ۔ اپنی تنگ ظرفی پر شرم بھی آرہی تھی ۔ جسے ایک بکری رکھنے کی بھی توفیق نہ ہو، وہ اتنا نازک دماغ کیوں بنے ۔ اور پھر تم ساری رات تو گھر سے باہر رہوگے نہیں ، آٹھ بجے پہنچو گے تو کیا وہ گوسفندانہ نغمہ تمہا را خیر مقدم نہ کرے گا ۔

دفعتاً ایک نیچی شاخوں والا درخت دیکھ کر مجھے بے اختیار اس پر چڑھنے کی تحریک ہوئی ۔ سپاٹ تنوں پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے، یہاں تو ۷,۶فٹ کی اونچائی پر شاخیں پھوٹ گئیں تھیں ، ہری ہری پتیوں سے درخت لدا کھڑا تھا۔ اور درخت بھی تھا گولر کا ، جس کی پتیوں سے بکریوں کو خاص رغبت ہے۔ میں ادھر تیس سال سے کسی روکھ پر نہیں چڑھا، وہ عادت جاتی رہی۔ اس لیے آسان چڑھائی کے باوجود میرے پانو کانپ رہے تھے، پر میں نے ہمت نہ ہاری اور پتیاں توڑ توڑ کر نیچے گرانے لگا۔ یہاں اکیلے میں کون مجھے دیکھتا ہے کہ پتیاں توڑ رہا ہوں ۔ ابھی اندھیرا ہوا جاتا ہے۔ پتیوں کا ایک گٹھر بغل میں دباؤں گا اور گھر جا پہنچوں گا۔اگر  اتنے پر بھی بکری نے کچھ چیں چپڑ کی تو اس کی شامت ہی آ جائےگی ۔

         میں ابھی او پر ہی تھا کہ بکریوں اور بھیٹروں کا ایک غول نہ جانے کدھر سے آنکلا اور پتیوں پر پل پڑا۔ میں اوپر سے چیخ رہا ہوں، مگر کون سنتا ہے۔ چرواہے کا کہیں پتانہیں کہیں دبک رہا ہوگا کہ تمہیں دیکھ لیا جاؤں گا تو گالیاں پڑیں گی ۔ جھلا کر نیچے اتر نے لگا ۔ ایک ایک پل میں پتیاں غائب ہوتی جاتی تھیں ۔اتر کر ایک ایک کی ٹانگ توڑ دوں گا۔

         یکا یک پانو پھسلا اور میں دس فٹ کی اونچائی سے نیچے آرہا۔ کمر میں ایسی چوٹ آئی کہ پانچ منٹ تک آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ خیر یت ہوئی کہ اور اوپر سے نہیں گرا نہیں تو یہیں شہید ہو جا تا۔ بارے میرے گرنے کے دھماکے سے بکریاں بھاگیں اور تھوڑی سی پتیاں بچ رہیں ۔ جب ذرا ہوش بجا ہوئے تو میں نے ان پتیوں کو جمع کر کے ایک گٹھا بنایا اور مجبوروں کی طرح اسے کندھے پر رکھ کر شرم کی طرح چھپائے گھر چلا۔ راستے میں کوئی حادثہ نہ ہوا۔ جب مکان کوئی چارفرلانگ رہ گیا اور میں نے قدم تیز کیے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے تو وہ کا چھی سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ کچھ نہ  پوچھو اس وقت میری کیا حالت ہوگی ۔ راستے کے دونوں طرف کھیتوں کی اونچی مینڈیں تھیں جن کے اوپر ناگ پھنی کے کانٹے لگے ہوئے تھے۔ اگر رستے رستے جاتا ہوں وہ ظالم میری بغل سے ہوکر گزرے گا اور خدا معلوم کیا ستم ڈھائے ۔ کہیں مڑنے کا راستہ نہیں اور وہ مردود بلائے بے در ماں کی طرح چلا آ تا تھا ۔ میں نے دھوتی او پر سرکائی ، چال بدل لی اور سر جھکا کر اس طرح نکل جانا چاہتا تھا کہ کوئی مزدور ہے ۔ تلے کی سانس تلے تھی اوپر کی او پر جیسے وہ کا چھی کوئی خوں خوار شیر ہو۔ بار بارخدا کو یاد کر رہا تھا یا الٰہی! تو ہی آفت زدوں کا والی و مددگار ہے ۔ اس مردود کی زبان بند کر دے۔ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھوں کا نور غائب کر دے ‘‘ آہ وہ جاں گسل لمحہ جب میں اس کے برابر ایک گز کے فاصلے سے نکالا ۔ایک ایک قدم تلوار کی دھار پر تھا کہ شیطانی آواز کان میں آئی:

”کون ہے رے؟ کہاں سے پیتاں تو ڑے لاتا ہے؟‘‘

               مجھے معلوم ہوا کہ نیچے کی زمین نکل گئی ہے اور میں اس کے گہرے شکم میں جا پہنچا ہوں ۔روئیں برچھیاں بنے ہوئے تھے، دماغ میں ابال سا آ رہا تھا ، اعضا مفلوج ہو رہے تھے۔ جواب دینے کا ہوش نہ رہا۔ تیزی سے دو تین قدم آگے بڑھ گیا۔ مگر وہ ارادی فعل نہ تھا، حفظ جان کا اضطراری عمل تھا ۔ ایک ظالم ہاتھ گٹھے پر پڑا اور گٹھا نیچے گر پڑا۔ پھر مجھے یاد نہیں کیا ہوا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنے دروازے پر پسینے میں تر کھڑا تھا۔ گویا مرگی کے دورے کے بعد اٹھا ہوں ۔اس وقفے میں روح پر شعور ثانی کی حکومت تھی اور بکری کی وہ مکروہ آواز ، وہ دلخراش آواز ، وہ ہمت شکن آواز ، وہ ساری دنیا کی نحوستوں کا خلاصہ، وہ دنیا کی ساری لعنتوں کی روح ، کان میں چبھی جارہی تھی ۔

 بیوی نے پوچھا:’’ آج کہاں چلے گئے تھے؟ اس چڑیل کو ذرا باغ میں بھی نہ لے گئے ۔ جینا محال کیے دیتی ہے۔ گھر سے نکل کر کہاں چلی جاؤں؟”

 میں نے تشفی دی ’’ آج چلا نے دو کل سب سے پہلا کام یہ کروں گا کہ اسے گھر سے نکال باہر کروں چاہے قصاب ہی کو دینا پڑے۔”

      ” اور لوگ نہ جانے کیسے بکری پالتے ہیں ۔ “

      “بکریاں پالنے کے لیے کُتّے کا دماغ ہونا چاہیے۔”

                  صبح کو بستر سے اٹھ کر اس فکر میں بیٹھا تھا کہ اس کالی بلا سے کیوں کر نجات حاصل کروں کہ دفعتا ایک گڈر یہ بکریوں کا ایک گلہ چراتا ہوا آ نکلا۔ میں نے اسے پکارا اور اس سے اپنی بکری کو چرانے کی تجویز پیش کی ۔گڈریہ  راضی ہو گیا۔ یہی اس کا کام تھا۔

میں نے پوچھا: “کیا لو گے؟‘‘

 “آٹھ آنے بکری ملتے ہیں ، ہجور ‘‘

“ایک روپیہ دوں گا،لیکن بکری میرے سامنے نہ آئے۔”

گڈریہ حیرت میں پڑ گیا۔”مرکھنی ہے کیا بابو جی۔”

“نہیں نہیں۔بہت سیدھی ہے۔بکری کیا مارے گی لیکن میں اس کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا ۔”

” ابھی دودھ دیتی ہے۔”

 ’’ہاں سیرسواسیر دودھ دیتی ہے۔”  

 “دودھ آپ کے گھر میں پہنچ جایا کرے گا۔‘‘

” تمھاری مہربانی۔“

جس وقت بکری گھر سے نکلی ہے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میری نحوست نکلی جارہی ہے ۔ بکری بھی خوش تھی گویا قید سے چھوٹی ہو۔

             گڈریے نے اس وقت دودھ نکالا اور گھر میں رکھ کر بکری کو لیے چلا گیا۔ ایسا بے غرض گا ہک اسے زندگی میں شاید پہلی ہی بار ملا ہوگا۔

          ایک ہفتے تک تو دودھ تھوڑا بہت آتا رہا۔ پھر اس کی مقدار کم ہونے لگی۔ یہاں تک کہ ایک مہینہ ختم ہوتے ہوتے دودھ بالکل ختم ہو گیا ۔ معلوم ہوا کہ بکری گابھن ہوگئی ہے۔ میں نے ذرا بھی اعتراض نہ کیا ۔كاچھی کے پاس گائےتھی ۔اس سے دودھ لینے لگا۔میرا   نوکر خود جا کر  دہا لا تا تھا۔ کئی مہینے گزر گئے ۔ گڈریہ مہینے میں ایک بارآ کر اپنا رو پیہ لے جاتا۔ میں نے بھی اس سے بکری کا ذکر نہ کیا۔ اس کے خیال ہی سے میری روح کو دہشت ہوتی ہے۔اگر قیافہ شناس ہوتا تو بڑی آسانی سے اپناحق الخدمت دو گنا کر سکتا تھا۔

          ایک دن میں دروازے پر بیٹھا ہوا تھا کہ گڈریہ  اپنی بکریوں کا گلہ لیے آنکلا۔ میں اس کا روپیا لا نے اندر گیا کہ کیا دیکھتا ہوں میری بکری دو بچوں کے ساتھ مکان میں آ پہنچی۔وہ پہلے سیدھی اس جگہ گئی جہاں بندھا کرتی تھی۔ پھر وہاں سے آنگن میں آئی اور شاید تعارف کے اظہار کے لیے میری طرف تا کنے لگی ۔ انھوں نے دوڑ کر ایک بچے کو گود میں لے لیا اور کوٹھری میں جا کر مہینوں کا جمع چو کرلا ئیں اور ایسی محبت سے بکری کو کھلانے لگیں گویا بہت دنوں کی بچھڑی ہوئی سہیلی آگئی ہو۔  نہ وہ پرانی تلخی تھی ، نہ وہ کدورت ۔ کبھی بچے کو چمکارتی تھیں کبھی بکری کو سہلاتی تھیں اور بکری ڈاک کی رفتار سے چوکر اڑارہی تھی ۔

 تب مجھ سے بولیں :” کتنے خوب صورت بچے ہیں ۔”

 ’’ہاں بہت خوب صورت۔ ‘‘

’’ جی چاہتا ہے ایک پال لوں ۔”

’’ابھی طبیعت سیر نہیں ہوئی؟‘‘

” تم بڑے نرموہے ہو ۔ “

          چوکر ختم ہو گیا۔ بکری اطمینان سے رخصت ہوگئی۔ دونوں بچے بھی اس کے پیچھے پھدکتے ہوئے چلے گئے ۔ دیوی جی آنکھوں میں آنسو بھرے یہ تماشا دیکھتی رہیں ۔

               گڈریے نے چلم بھری اور گھر میں آگ ما نگنے آیا۔ چلتے وقت بولا:” کل سے دودھ پہنچا دیا کروں گا مالک ۔‘‘

دیوی نے کہا:’’ اور دونوں بچے کیا پئیں گے۔؟‘‘

بچے کہاں تک پئیں گے بہو جی! دوسیر دودھ دیتی ہے ۔ ابھی دودھ اچھا نہ ہوتا تھا اس مارے نہیں لایا ۔”

    مجھے رات کا وہ روح شکن واقعہ یا دآ گیا۔

 میں نے کہا: دودھ لاؤ یا نہ لاؤ تمھاری خوشی لیکن بکری کو ادھر نہ لانا۔”

             اس دن سے وہ گڈریہ نظر آیا  اور نہ وہ بکری ۔ اور نہ میں نے سراغ لگانے کی کوشش کی لیکن دیوی جی اس کے بچوں کو یادکر کے کبھی کبھی آنسو بہا لیتی ہیں ۔

*****

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks