Mirza Ghalib : Hayat-O-Khidmat

مرزا اسد اللّٰہ خاں غالبؔ: حیات و خدمات

Mirza Ghalib : Hayat-O-Khidmat

نام: اسد اللہ

عرف: مرزا نوشہ

تخلص: اسد، غالب، شروع میں اسدؔ تخلص تھا لیکن اس کو چھوڑ کر غالب اختیار کیا۔ اسدؔ تخلص کو ترک کرنے کی وجہ اپنے خطوط میں یہ بتائی کہ سوداؔ کے ایک شاگردِ رشید میر امانی اسدؔ کے شعر ان سے منسوب ہونے لگے تھے۔ منشی شیونرائن آرام نے میر امانی اسد کے ایک شعر کو مرزا اسداللہ خاں اسد کا شعر سمجھ کر پوری غزل کے لیے لکھا تو انھوں نے جواب میں لکھا:”بھائی حاشا، ثم حاشا! اگر یہ غزل میری ہو:؎ اسد اور لینے کے دینے پڑے۔ اس غریب کو میں کچھ کیوں کہوں لیکن اگر یہ غزل میری ہو تو مجھ پر ہزار لعنت۔

جب انہوں نے 1816ء سے فارسی اشعار کہنا شروع کیے تو غالب ہی تخلص استعمال کرنے لگے۔

خاندان: ان کے آباو اجداد ایبک قوم کے ترک تھے۔ ان کے داد ا فوقان بیگ خاں اپنے باپ سے روٹھ کر ، سمر قند سے ترک وطن کرکے سرزمین ہند میں داخل ہوئے، لاہور پہنچے وہاں حاکم وقت معین الملک میر منوکی ملازمت اختیار کرلی۔ نومبر 1753ء میں معین الملک کی وفات کے بعد دہلی آگئے، یہاں اس وقت شاہ عالم ثانی بادشاہِ وقت تھے وہاں نواب ذوالفقارالدولہ مرزا نجف خاں میر بخشی کے عہدے پر فائز تھے ان سے حالات ساز گار کرنے پر پہاسو کا پرگنہ ذات اور رسالے کی تنخواہ کےلیے مقرر کردیا اور یہی دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔ اور یہیں دہلی میں مرزا عبداللہ بیگ خاں پیدا ہوئے۔ ان کی سات اولاد ہوئی چار لڑکے اور تین لڑکیاں۔

Mirza Ghalib : Hayat-O-Khidmat

والد: مرزا عبداللہ بیگ خاں عرف مرزا دولھا(والد کے انتقال کے وقت ان کی عمر صرف پانچ سال تھی)

والدہ:عّزت النسا

ولادت: 8/رجب 1212ھ بمطابق 27 دسمبر 1797ء آگرہ

چچا:نصراللہ بیگ (مرہٹوں کی طرف سے آگرہ کے صوبے دار، اور پھر جنرل لیک سے رسالداری کا منصب ملا)چچا کا انتقال 1806ء میں ہوا، جب غالؔب کی عمر کم و بیش 9 سال تھی۔

تعلیم : مولوی محمد معظّم سے فارسی کی تعلیم ، عبدالصمد ایک فرضی شخص تھا جسے انھو ں نے اپنی فارسی دانی کے ثبوت کے لیے بار بار استعمال کیا ہے۔”تحقیقات” میں غالؔب کے لیے عبدالصمد وہی ہے جو "غیب” شاعری میں ہے۔

شاعری کے استاد:انہوں نے بیدل، اسیر، شوکت کی غزل گوئی کا راستہ اختیار کیا اور بالخصوص مرزا بیدل کا۔خود غاؔلب نے کئی اشعار میں اس کااعتراف بھی کیا ہے۔اور خود بھی اپنے ایک خط بنام عبدالرزاق شاکر مورخہ یکم اگست 1865ء میں لکھا ہے کہ "ابتدائے فکر سخن میں بیدلؔ و اسیرؔ و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتا تھا۔۔۔۔ پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین ِ خیالی لکھا۔ آخر جب تمیز آئی تو اس دیوان کو دور کیا۔ اوراق یک قلم چاک کیے ۔ دس پندرہ اشعار واسطےنمونے کے دیوانِ حال میں رہنے دیئے۔”

غالؔب نے اسی زمانے میں امام بخش ناسخؔ کے رنگ کو بھی اختیار کیا لیکن جلدہی اُسے بھی ترک کردیا اور میرؔ کی طرف آگئے ۔

آغاز شاعری: غالؔب گیارہ بارہ برس کی عمر میں شاعری کاآغاز کر چکے تھے، دیوان فارسی کے خاتمہ میں گیارہ اور قدر بلگرامی کے خط میں بارہ لکھا ہے۔ خود بتاتے ہیں کہ "بارہ برس کی عمر سے نظم و نثر میں کاغذ مانند اپنے نامہ اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں۔”

شادی: 7رجب 1225ھ بمطابق 19اگست 1810کو تیرہ برس کی عمر میں نواب الٰہی بخش معروف کی چھوٹی بیٹی امراؤ بیگم سے ان کی شادی ہوگئئ، جو ان سے دو سال چھوٹی تھیں۔

اولاد: سات اولاد ہوئی لیکن کوئی زندہ نہ رہا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں "بہتر برس کی عمر میں سات بچے پیدا ہوئے ۔ لڑکے بھی لڑکیاں بھی اور کسی کی عمر پندرہ مہینے سے زیادہ نہ ہوئی۔ اپنی بیوی امراؤ بیگم کے بھانجے مرزا زین العابدین خاں عارف کو  گود لے لیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے دونوں لڑکوں باقر علی خاں اور حسین علی خاں کو اپنے ہاں لے آئے تاحیات ان کا ہرطرح سے خیال رکھا۔

Mirza Ghalib : Hayat-O-Khidmat

دہلی کا قیام:1815ء میں اٹھارہ انیس برس کی عمرمیں مستقل طور پر دہلی میں آبسے۔

سفر کلکتہ: 21/ فروری 1828ء کو کلکتہ پہنچے۔ اور 28 فروری 1828ء کو انھوں نے پہلی عرض داشت کلکتہ میں پیش کی۔ اور 29 نومبر 1829 کو دہلی واپس آئے۔ کلکتہ کے سفر کے دوران وہ لکھنو اور بنارس بھی گئے۔

ملازمت سے انکار: 1840 بمطابق کالی داس گپتا اور حالیؔ نے آبِ حیات کے حوالے سے 1842 کا واقعہ لکھا ہے کہ فارسی کے پروفیسری کے لیے بلایا گیا لیکن پہلی ہی ملاقات میں سیکرٹری کے استقبال کے لیے باہر نہ آنے پر اس سے انکار کردیا۔

جوا خانہ و گرفتاری: اگست 1841ء میں ان کے گھر پر چھاپا پڑا اور عدالت نے سو روپیہ جرمانہ کیا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں چار مہینے قید کی سزا سنائی گئی ۔ جرمانہ ادا کردیا گیا اور غالؔب جیل جانے سے بچ گئے۔ اس وقت جوا کھیلنے کی وبا پورے دہلی میں عام تھی ۔ نیا کوتوال شہر فیض الحسن خاں وبا کوختم کرنا چاہتا تھا، جوے کا اڈا چلانے والوں کو تنبیہ کی اور جب غاؔلب کا دیوان خانہ اسی طرح اڈا بنا رہا تو ایک دن کوتوال شہر رتھ میں سوار ہوکر اور سپاہیوں کو ڈولی میں بٹھا کر وہاں پہنچا اور صاحب خانہ مرزا اسد اللہ خاں غالؔب کو گرفتار کر لیا۔ 25/مئی 1847کو ان پرقماربازی کا مقدمہ قائم ہوا۔ مجسٹریٹ کے ہاں پیشی ہوئی اور اس نے چھ ماہ قید بامشقت اور دو سو روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں چھ ماہ مزید قید بھگتنی ہوگی لیکن اگر اصل جرمانے کے علاوہ پچاس روپے اور ادا کردیے جائیں تواس صورت میں مشقت کی سزا معاف ہوجائے گی۔

Mirza Ghalib : Hayat-O-Khidmat

قلعہ سے تعلق: 1266ھ بمطابق 1850میں ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ نے مرزا کو خطاب نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ اور چھ پارچے کا خلعت، مع تین رقومِ جواہرکےدربارِ عام میں مرحمت فرمایا اور خاندان تیمور کی تاریخ نویسی کی خدمت پر بمشاہرہ پچاس روپے ماہورکر لیا۔

1271ھ بمطابق 1854ء ذوق کے انتقال 16نومبر 1854ء کے بعد بادشاہ کے اشعار کی اصلاح بھی مرزاغالؔب سے متعلق ہوگئی تھی۔

حالات غدر: 1857 دستنبو

وظیفہ رامپور: غدر کے بعد دو برس بعد نواب یوسف علی خان مرحوم رئیس رامپور نے سو روپے ماہور ہمیشہ کے لیے مرزا کے واسطے مقرر کردیا۔

تصانیف و تالیفات

الف: اردو

1۔ گلِ رعنا: مولوی سراج الدین احمد جن کے نام سب سے زیادہ فارسی خط ہے۔ انھوں نے غالؔب سے اردو و فارسی کلام کے ایک انتخاب کی فرمائش کی جسے انھوں نے قبول کیا اور "گلِ رعنا” کے نام سے 455 اردو اور 455 فارسی اشعاراسں انتخاب میں شامل کیے اور ایک دیباچہ و خاتمہ لکھ کر اسے مکمل ومرتب کردیا۔ اس وقت غالؔب کی عمر اکتیس سال تھی۔ یہ انتخاب غالب نے 1828ء میں کیا۔

2۔ دیوانِ غالب: غالؔب کی زندگی میں "دیوانِ غالب” پانچ بار شائع ہوا۔ دیوانِ غالب اردو پہلی بار شعبان 1257ھ بمطابق اکتوبر 1841ء میں مطبع سیدالاخبار سے شائع ہوا جس میں غالب کا دیباچہ اور آخر میں نواب ضیاءالدین احمد خاں کی تقریظ شامل ہے۔ اس میں اشعار کی تعداد 1095ہے۔ دوسرا ایڈیشن 1847ء میں مطبع دارالاسلام دہلی سے شائع ہوا جس میں اشعار کی تعداد1111ہے۔ تیسرا ایڈیشن مطبع احمدی باہتمام اموجان، شاہدرہ سے 20 محرم 1278ھ بمطابق جولائی 1861ء اس میں اشعار کی تعداد 1796ہے۔ دیوان غالب کا چوتھا ایڈیشن مطبع نظامی کانپورسے 1862ء میں شائع ہوا۔ اس میں اشعار کی تعداد 1802ہے۔ پانچواں ایڈیشن 1863ء میں منشی شیونرائن کے زیر اہتمام مطبع مفید خلایق آگرہ سے شائع ہوااس میں اشعار کی تعداد 1795ہے۔

3۔ عودِ ہندی: غالؔب کے اردو خطوط، تقریظوں اور متفرق اردو نثروں کا مجموعہ پہلی بارممتاز علی خاں میرٹھی کے زیر اہتمام مطبع مجتبائی میرٹھ سے 10 رجب 1285ھ بمطابق 27 اکتوبر 1867 کو شائع ہوا۔

اردوئےمعلیٰ: اکمل المطابع سے 21 ذیقعدہ 1285ھ بمطابق 6 مارچ1869کو یہ مجموعہ، اردوئے معلیٰ حصہ اوّل کے نام سے غالؔب کی وفات کے 19 دن بعد شائع ہوکر سامنے آیا۔ 1899ء میں مولانا حالؔی نے خطوط کا ایک اور مجموعہ مع حواشی مرتب کیا اور مطبع مجتبائی دہلی سے پہلا اور دوسرا حصہ ایک ساتھ "اردوئےمعلیٰ” ہی کے نام سے شائع کرایا۔

نکاتِ غالب و رقعاتِ غالب: 36صفحات پر مشتمل یہ ایک مختصر سی نصابی کتاب ہےجسے ناظم تعلیمات پنجاب کے ڈائریکٹر میجر فلّر کی فرمائش پر اور ماسٹرپیارے لال آشوب کے توسط سے غالب نے تالیف کیا۔ اس کے دو حصے ہیں: نکاتِ غالب (20 صفحات) فارسی زبان کے علم صرف کو اردو زبان میں؛ رقعاتِ غالب میں پنچ آہنگ کے آہنگ پنجم سے انتخاب کرکے 15 فارسی خطوط شاملِ کتاب کیے ہیں یہ کتاب پہلی بار 1867ء میں دہلی سے شائع ہوئی۔

قادرنامہ: مثنوی قادر نامہ ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالؔب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں ۔ یہ مطبع سلانی واقع قلعہ مبارک 1272ھ بمطابق 1856میں چھپا۔

انشائے غالب: دلی کالج میں عربی کے پروفیسر ضیاالدین خان کی فرمائش پر غالؔب نے دوحصوں میں تیار کیا۔ پہلے حصہ میں دو دیباچے، بارہ خط، دو نقلیں اور ایک لطیفہ اور دوسرے حصے میں اپنے 31 اشعار انتخاب کیے، رشید حسن خان نے "انشائے غالب” کے نام سے ڈاکٹر عبدالستار کے تیار کردہ متن و حواشی، مالک رام کے مقدمہ، اپنے عرضِ مرتب اور خطی نسخے کے عکس کے ساتھ شائع کیا۔

Mirza Ghalib : Hayat-O-Khidmat

نامہ غالب

تیغ تیز      

ب: فارسی

پنچ آہنگ: یہ فارسی دانی و فارسی نویسی کے لیے ایک مفید کتاب ہے، اس سے فارسی مکتوب نویسی کی تعلیم کا ایک نیا باب کھلتا ہے۔

مہرنیم روز: مرزا غالؔب 4 جولائی 1850کو فارسی زبان میں تیموری خاندان کی تاریخ لکھنے پر مامور ہوئے۔ بادشاہِ وقت بہادر شاہ ظفر نے انھیں نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا کیا اور پچاس روپے ماہوار تنخواہ مقرر کی۔ امیر تیمور سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کے حالات لکھے جائیں۔ جنوری 1851ء تک بابر بادشاہ تک اور مارچ 1851ء تک ہمایوں تک کے حالات لکھے جا چکے تھے۔ پھر آدم سے اب تک کی تاریخ لکھنا طے پایا اور حکیم احسن اللہ خاں کو مدد کے لیے مقرر کیا گیا۔

دستنبو: بغاوت 1857ء کا روزنامچہ ہے۔ جس میں غالب نے آغاز شورش مئی 1857ء سے لے کر 31جولائی 1857ء تک کے حالات بیان کیے ہیں۔

کلیاتِ نثر غالب

قاطعِ برہان

درفشِ کاویانی

کلیاتِ فارسی (نظم)

8۔ سَبَدِچین

باغ دو در

10۔ دعاءِصباح

11۔ رسالہ فنِ بانک

شاگرد: ان کے شاگرد بہت سے تھے لیکن منشی ہرگوپال تفتہ، میرمہدی مجروحؔ، مرزا قربان علی بیگ سالکؔ، مرزا حاتم علی مہرؔ، نواب مصطفیٰ شیفتہؔ اور مولانا الطاف حسین حالؔی خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔

بیماری ووفات: مئی 1858ء میں ان پر دردِ گردہ (قولنج) کا حملہ ہوا، 1862میں ہاتھ میں پھوڑا نکل آیا۔1865ء میں انھیں رام پور کا سفر کرنا پڑا۔ نواب یوسف علی خان وفات پا گئے تھے اور نواب کلبِ علی خان مسند نشین ہوئے ۔ اکتوبر 1865ء میں دلی سے روانہ ہوئے 12 اکتوبر کو رام پور پہنچے ۔ 28 دسمبر کو رام پور سے روانہ ہوئے اور 8 جنوری 1866کو واپس دلی پہنچے ۔ سفر کی تھکن اور بیماری سے نقاہت بہت بڑھ گئی۔ 1869کے شروع ہوتے ہی غشی کے دورے پڑنے لگے۔ 3ذیقعدہ 1285ھ بمطابق15فروری 1869کو وفات پاگئے اور بستی نظام الدین میں خاندانِ لوہارروکیہڑواڑ میں دفن کیے گئے۔

Mirza Ghalib : Hayat-O-Khidmat

اختصار : توقیت

تاریخواقعات
27دسمبر 1797پیدائش
1802والد مرزا عبداللہ بیگ کا انتقال
1806چچانصراللہ بیگ کا انتقال
19اگست 1810ءنواب الٰہی بخش معروفؔ کی بیٹی امراؤ بیگم سے شادی
1815 (کم و بیش)مستقل طور پر دہلی میں قیام
اپریل 1828کلکتہ کا سفر اور پنشن کی عرضی
29 نومبر 1829دہلی واپس
1841پہلا دیوان اردو کی اشاعت/ جوا
1847دوسرا ایڈیشن
25مئی 1847جوا کھیلنے اور کھلانے کے جرم میں سزا اور جیل
جولائی 1850شاہانِ تیموری کی تاریخ لکھنے کا کام
اپریل 1852زین العابدین خاں عارفؔ کا انتقال
1854/55مہرنیم روز کی پہلی جلد بادشاہ کے حوالے
16نومبر 1854 کے بعدبادشا کے استاد مقرر ہوئے
5 فروری 1857نواب رام پور کے استاد
مئی 1858دردِ گردہ (قولنج) کا حملہ
15فروری 1869وفات

علامہ اقبال انھیں استاد مانتے ہیں اور گوئٹے سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔  غالب نے غدر کو "رُستاخیزِ بے جا” کہا ہے۔

اردو شاعری کا مطالعہ: مرزا غالؔب اردو و فارسی دونوں زبانوں کے بے مثل شاعر ہیں۔ غالب گیارہ بارہ برس کی عمر میں شاعری کاآغاز کیے ، دیوان فارسی کے خاتمہ میں گیارہ اور قدر بلگرامی کے خط میں بارہ لکھا ہے۔ غالب نے فارسی زبان میں کم و بیش گیارہ ہزار اشعار کہے جب کہ متداول اردو دیوان کے اشعار کی تعداد 1802ہے ۔

غالؔب کی اردو غزل کو دیکھا جائے تو انھوں نے غزل گوئی کی روایت کو قائم رکھا ہے۔ غزل حسن و عشق کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ غالب نے اسے اسی دائرے میں اپنے مخصوص انداز کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ "دیوانِ غالب” کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ ان کے ہاں بھی غزل کے عام موضوعات مثلا عشق، ہجر، وصال، یاس و ناامیدی، جور وجفا، معشوق کی بے وفائی، بے تابی وغیرہ ملیں گی، محبوب کے حُسن کے بیان میں بھی زلف، رخسار، لب، کمر، قد و غیرہ کے حوالے نظر آئیں گے۔ کبھی وہ عشق میں دھول دھبے کی سطح پر آ جاتے ہیں اور ساتھ ہی عشق حقیقی ، وحدت الوجود اور مسائل تصوف کی بات بھی کرتے ہیں۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ جب اردو غزل غالب تک پہنچی تو اُن کے پیش رو شعرا غزل کے بیشتر امکانات کو اپنے تصرف میں لاچکے تھے اور غزل میں کوئی نیا راستہ نکالنا مشکل کام تھا۔ انہوں نے بیدل، اسیر، شوکت کی غزل گوئی کا راستہ اختیار کیا اور بالخصوص مرزا بیدل کا۔ خود غالبؔ نے کئی اشعار میں اس کااعتراف بھی کیا ہے۔اور خود بھی اپنے ایک خط بنام عبدالرزاق شاکر مورخہ یکم اگست 1865ء میں لکھا ہے کہ "ابتدائے فکر سخن میں بیدلؔ و اسیرؔ و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتا تھا۔۔۔۔ پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین ِ خیالی لکھا کیا۔ آخر جب تمیز آئی تو اس دیوان کو دور کیا۔ اوراق یک قلم چاک کیے ۔ دس پندر شعر واسطےنمونے کے دیوانِ حال میں رہنے دیے۔”

غالب نے اسی زمانے میں امام بخش ناسخ کے رنگ کو بھی اختیار کیا لیکن جلد ہی اُسے بھی ترک کردیا اور میرؔ کی طرف آگئے ۔

غالب غزل کو حسن و عشق کے محدود روایتی دائرے سے نکال کر فکر و ذہن کے وسیع میدان میں لانا چاہتے تھے۔ اس سطح پر انھوں نے اردوو فارسی غزل کو، ذہن و فکر کی نئی وسعتوں سے ہم کنار کرکے، نئی زندگی عطا کی اور یہ ان کا اہم و سدا بہار تخلیقی کارنامہ ہے۔ غزل بنیادی طور پر رومانی شاعری ہے۔ غالب نے غم جاناں کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ غم دوراں کا نغمہ چھیڑا ۔

جھجرمیں فرد مایہ سا شخص اسدؔ تخلّص کرتا تھا، ایک دن اس کا مقطع کسی نے پڑھا:۔

اسد تم نے بنائی یہ غزل خوب:: ارے او شیر رحمت ہے خدا کی

یہ سنتے ہی اس تخلّص سے جی بیزار ہوگیا۔۔۔۔۔ چنانچہ 1245ھ بمطابق 1828ء میں اسد اللہ الغالب کی رعایت سے غالب تخلّص اختیار کیا۔ خاندان کا سلسلہ افراسیاب بادشاہ توران سے مِلتاہے، مرزا صاحب کے دادا گھر چھوڑ کر نکلے۔ شاہ عالم کا زمانہ تھا کہ دہلی میں آئے، ان کے والد عبداللہ بیگ خاں لکھنؤ جا کر نواب آصف الدولہ مرحوم کے دربار میں پہنچے ۔ چندروزبعد حیدر آباد میں جا کرنواب نظام علی خاں بہادر کی سرکار میں تین سو سوار کی جمعیت سے ملازم رہے۔۔۔۔ وہاں سے گھر آئے اور الور میں راجہ بختاور سنگھ کی ملازمت اختیار کی۔ یہاں کسی لڑائی میں مارے گئے۔ اُس وقت مرزا کی عمر پانچ برس تھی۔ نصراللہ بیگ خاں حقیقی چچا مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کے صوبہ دار تھے۔

*****

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!