نظم کی صنفی شناخت

نظم کی صنفی شناخت

لفظی مفہوم

نظم عربی زبان کا لفظ ہے۔ لغت میں اس کے معنی ہیں”لڑی میں موتی پرونا”۔ (این سی ای آر ٹی)

نظم کے لغوی معنی لڑی، سلک، موزوں کلام، شعر، بندوبست اور انتظام کے ہیں۔ (فیروزاللغات)

لفظ نظم عموماً نثر کے مقابلے میں استعمال ہوتا آیا ہے جس سے مجموعی طور پر جملہ اصناف شعر مراد ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں:”اس سلسلے میں سب سے بنیادی اور ہر وقت یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ انگریزی لفظ Poemیا فرانسیسی لفظ Poemeکا اردو ترجمہ "نظم” اس صنف سخن کے معنی میں نہیں ہے جسے ہم "نظم” کہتے ہیں اور جو غزل سے مختلف چیز ہےاور صنف سخن کی حیثیت سے اپنا مقام رکھتی ہے۔ انگریزی لفظ Poemیا فرانسیسی لفظ Poemeکا صحیح ترجمہ "منظومہ”ہوگا۔ یعنی وہ تحریرجس میں غزل، نظم، رباعی وغیرہ سب شامل ہےیعنی مغربی نقاد جب Poemeیا Poemکہتا ہے تو اس میں غزل بھی شامل ہوتی ہے۔”                                    (نظم کیا ہے مشمولہ تنقیدی افکار: ص 168)

اس بات کو گیان چندجین لکھتے ہیں:۔

"نظم یا شاعری  اس کلام کو کہتے ہیں جسے اس زبان کے بولنے والے اپنے احساسِ آہنگ و ترنّم کے مطابق موزوں سمجھتے ہیں ۔ ”          (ادبی اصناف؛ گیان چند جین)

ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکمل ادب دوحصّوں میں منقسم ہے نظم (شاعری)اور نثر

نظم یا شاعری الفاظ کے موتیوں کو خاص ترتیب اور نمونے کی لڑیوں میں پرونا ہے جب کہ الفاظ کے ان موتیوں کو کسی مخصوص سانچے یا موزونیت یا پابندی کے بغیر زینت ورق بخشنا نثر کہلائے گا۔

نظم کو شاعری کے مفہوم میں لیتے ہوئےاس کو دو بنیاد موضوع اور ہئیت پر تقسیم کرتے ہیں:۔

اصنافِ نظم بلحاظِ موضوع

حمد، مناجات، نعت، منقبت، قصیدہ، ہجو، غزل، مرثیہ، شہر آشوب، واسوخت، ریختی، تحریف(پیروڈی)، تضمین، گیت، کافی، فخریہ، سہرااور رخصتی وغیرہ

اصنافِ نظم باعتبارِ ہئیت

مثنوی، رباعی، قطعہ، مسمّط(مثلث، مربع،  مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، متسع، معشر)، ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، نظم معرّیٰ، آزاد نظم، نثری نظم، سانیٹ، ہائیکو، ثلاثی وغیرہ

نظم کبھی غزل کے بالمقابل کے طور پربھی مستعمل ہے۔

۔”ہماری کلاسکی تنقید میں”نظم” سے جملہ شاعری مراد لی گئی ہے، ۔۔۔۔۔۔لیکن یہاں ہماری مراد نظم سے وہ مخصوص صنف سخن ہے جسے بالعموم غزل کے مقابلے پر رکھتے ہیں۔”۔

(اصناف سخن اور شعری ہئیتیں: شمیم احمد)

شمس الرحمٰن فاروقی اپنی کتاب "تنقیدی افکار میں شامل مضمون”نظم کیا ہے”میں لکھتے ہیں:”میرا معروضہ یہ ہے کہ نظم اور قصیدہ اور مرثیہ وغیرہ میں کوئی داخلی فرق نہیں ہے جیسا کہ غزل اور غیرغزل (مثلاً غزل اور قصیدہ) میں ہے۔ اس کے برخلاف غزل کے علاوہ تمام دوسری اصناف سخن میں یہ بات مشترک ہے کہ ان کے اشعار میں کسی نہ کسی طرح کا ربط یا ربط کا التباس ہوتا ہے۔”۔

مزید آگے لکھتے ہیں:”غزل کے علاوہ تمام اصناف ِ سخن کو نظم قرار دینے میں ۔۔۔۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہماری قسمیات انتشار سے بچ جائے گی ۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ ہم قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی وغیرہ اصطلاحوں کو منسوخ کردیں۔ نہیں، بلکہ یہ اصطلاحیں ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور انہیں قائم رہنا چاہیے۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ غزل کے مقابل تمام اصناف کو ہم نظم قرار دیں اور جب ہم نظم کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کریں تو ان تمام اصناف کو نظرمیں رکھیں۔”۔

(نظم کیا ہے مشمولہ تنقیدی افکار: ص 167)

شمیم احمد لکھتے ہیں:”غزل کی ہیئت مخصوص ہوتی ہے ۔ نظم کے لیے کسی خاص ہیئت کی تخصیص نہیں۔ غزل کے اشعار میں باہمی تسلسل نہیں ہوتا لیکن نظم کے اشعار موضوع اور خیال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں، چنانچہ یہ وہ صنف سخن ہے جو غزل کے مقابل ہر زمانے میں موجود رہی ہےاور جس کی مثالیں قلی قطب شاہ سے لے کر عہدِ جدید تک بہ کثرت ملتی ہیں۔ "۔

لیکن شاعری کی دیگر اصناف کے مقابلے جب لفظ "نظم” کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے ایک خاص صنف مراد لی جاتی ہے۔ اس طرف شمیم احمد اشارہ کرتے ہیں:”معنوی اعتبار سے "نظم” ایک نہایت بسیط و وسیع اور ہمہ گیر اصطلاح ہے یہاں تک کہ اگر اصناف سخن میں سے غزل کو منہا کر دیا جائے تو دیگر تمام اصناف مثلاً قصیدہ ،مثنوی، مرثیہ، واسوخت اور شہرآشوب درحقیقت نظم ہی کے مختلف موضوعات و اسالیب قرار پائیں گے یعنی ہر وہ شعری تخلیق جو خیال کی ریزہ کاری پر نہیں خیال و فکر کی شیرازہ بندی، تسلسل اور ربط پر مبنی ہے وہ وسیع تر معنوں میں نظم ہے۔ لیکن نظم سے یہاں مراد نہ قصیدہ ہے، نہ مرثیہ، نہ مثنوی، نہ شہر آشوب، نہ واسوخت بلکہ وہ صنف ہے جسے ہم محض "نظم” ہی کہتے ہیں۔

نظم محض یا وزیر آغا کے الفاظ میں(اردو شاعری کا مزاج) خالص نظم کا بہ حیثیت صنفِ سخن زیادہ صحیح تصور جدید تناظر میں واضح ہوگا۔

خلاصہ کے طورپر احتشام حسین کےمجموعہ "عکس اور آئینہ ” میں شامل مضمون ” اردو نظم کا تاریخی اور فنی ارتقا” سے اقتباس نقل کرتا ہوں اس سے مکمل وضاحت ہو جائے گی۔

وہ لکھتے ہیں:”نظم کا لفظ مختلف سلسلوں میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ کبھی نثر کے مقابلہ میں شاعری کا ذکر کرتے ہوئے نظم کہہ کر شاعری مراد لیتے ہیں اور اس میں شاعری کے تمام اصناف شامل ہوتے ہیں ۔ کبھی غزل کو الگ کرکے  باقی تمام اصناف کو نظم کہہ دیتے ہیں لیکن جب نظم کا لفظ شاعری کی ایک مخصوص صنف کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اشعار کا ایسا مجموعہ جس میں ایک مرکزی خیال کی وجہ سے تسلسل کا احساس پیدا ہوسکے، اس کے لیے کسی موضوع کی قید نہیں اور نہ اس کی ہئیت ہی معیّن ہے۔”

آگے لکھتے ہیں:”نظم کا لفظ جب شاعری کی ایک مخصوص صنف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے وہ نظمیں مقصود ہوتی ہیں جن کا کوئی معین موضوع ہو اور جن میں بیانیہ فلسفیانہ یا مفکرانہ انداز میں شاعرنے کچھ خارجی اور کچھ داخلی یا دونوں قسم کے تاثرات پیش  کیے ہوں۔”(اردو نظم کا تاریخی اور فنی ارتقا ، مشمولہ عکس اور آئینہ:ص؛37)

مختصر یہ کہ نظم موضوعات اور ہیئتوں کے لحاظ سے اس قدر متنوع اور ہمہ گیر صنف ہے کہ اس کے ساتھ کسی ایک یا چند موضوعات اور ہیئتوں کو مختص نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کے ہرواقعہ، ہرواردات، ہرمظہر، ہررنگ، ہرجذبہ، ہر احساس، ہرکیفیت کو نظم کا موضوع بنایا جاسکتا ہے لہذا یہ صنف موضوعاً موضوعی اصناف کی صف میں بھی نہیں بٹھائی جاسکتی اور نہ ہیئتی اصناف میں اسے شمار کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ اس کی کوئی مخصوص ہیئت بھی نہیں ہے۔ قدیم زمانے ہی سے یہ مختلف ہیئتوں میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ مسمّط کی جملہ شکلوں یعنی مثلث، مربع، مخمس، مسدّس، مسبّع، مثمن، متسع اور معشر کےعلاوہ غزل(سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا)، مثنوی، ترکیب بند، ترجیع بنداور انگریزی شاعری کے اثر سے اُردو میں رواج پانے والی مغربی ہیئتوں مثلاً نظم معریٰ اور آزاد نظم میں اس صنف کو پیش کیا گیا ہے۔

نظم کے اقسام

موجودہ دور میں ہیئت کے اعتبارسے نظم کی درج ذیل قسمیں ہیں:۔

پابند نظم

ایسی نظم جس میں بحر کے استعمال اور قافیوں کے ترکیب میں مقررہ اصولوں کی پابندی کی گئی ہو۔اور ابتدا میں نظمیں اسی ہئیت میں لکھی جاتی تھیں۔اور نصاب میں بھی شامل اکثر پابند نظمیں ہیں۔

نظمِ معرّی

یہ ہیئت  انگریزی اثر سے اردو میں داخل ہوئی ہے۔ جسے انگریزی میں بلینک ورس کہتے ہیں۔ شروع میں اسے اردو میں "نظم غیر مقفّیٰ” بھی کہا گیا تھا۔ لیکن بعد میں عبدالحلیم شرر نے مولوی عبدالحق کے مشورے سے "نظم معریٰ” کی اصطلاح کی۔کچھ لوگوں نے اسے نظم عاری بھی کہا ہے۔  

عبدالحلیم شررؔ نے دلگداز شمارہ جون 1900کے صفحہ 9 پر لکھا ہے:”انگریزی میں ایک جداگانہ وضع کی نظم ایجاد کی گئی ہے جس کو "بلینک ورس”کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا نام اگر نظم غیر مقفّیٰ رکھا جائے تو شاید مناسب ہوگا۔”

اکبرؔالہ آبادی نے اسے بلا قافیہ اور عظمت اللہ خاں نے بے ردیف و قافیہ ہی کہنا زیادہ درست قرار دیا ہے۔

اردو میں اس کے لیے کوئی بحر ہی مخصوص نہیں کی گئی ہے۔ حالاں کہ عظمت اللہ خاں نے بحر مخصوص کی وکالت کی ۔ فعولن عل 5 بار

ایسی شعری صنف ہے جس میں ارکان کی تعداد برابر ہوتی ہے یعنی نظم کے تمام مصرعوں کا وزن برابر ہوتا ہے لیکن قافیہ وردیف کی پابندی نہیں ہوتی ۔

ڈاکٹر علی محمد خاں، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اپنی کتاب’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ میں لکھتے ہیں:’’معریٰ یا معرا کے لغوی معنی برہنہ یا خالی کے ہیں مگر شاعری کی اصطلاح میں نظم معریٰ ایسی صنفِ نظم کو کہتے ہیں جس کے تمام مصرعوں کے ارکان تو یکساں ہوں مگر ان میں قافیے کا التزام نہ رکھا گیا ہو۔‘‘۔

(ڈاکٹر علی محمد خاں، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اپنی کتاب’’اصنافِ نظم و نثر‘‘: ص: 145)

اس طرح پروفیسر انور جمال ’’ادبی اصطلاحات‘‘ میں رقم طراز ہیں:’’نظمِ معریٰ، نظم کی وہ قسم ہے جس میں تمام مصرعے ایک مخصوص بحر میں ہوتے ہیں۔ البتہ ردیف اور قافیے کی قید سے مکمل آزادی ہوتی ہے۔‘‘               (پروفیسر انور جمال ’’ادبی اصطلاحات: ص:188)

اردو میں نظمِ معرّیٰ کا ابتدائی تجربہ مولاناعبدالحلیم شرر اور اسماعیل میرٹھی نے کیا،بعد میں جدید شعرا نے بھی اس طرف توجہ کی۔ جن میں تصدق حسین خالد، مجیدامجد، میراجی اور ن م راشد کے نام اہم ہیں۔

اسماعیل میرٹھی کی ایک نظم معرّیٰ "تاروں بھری رات” ملاحظہ ہو:۔

کہ چمک دمک رہے ہواے چھوٹے چھوٹے تارو
مجھے کس طرح تحیّرتمھیں دیکھ کر نہ ہووے
جو ہے کُل جہاں سے اعلیٰکہ تم اونچے آسمان پر
کہ کسی نے جڑدئے ہیںہوئے روشن اِس روش سے
گہراور لعل گویا

آزاد نظم

ایسی نظم جس میں نہ قافیے کی پابندی کی گئی ہو اور نہ بحر کے استعمال میں مروّجہ اصولوں کا لحاظ رکھا گیا ہو بلکہ مصرعے چھوٹے بڑے ہوں۔اس کو انگریزی میں Free verseکے نام سے جانا جاتا ہے۔

پروفیسر انور جمال ’’ادبی اصطلاحات” میں لکھتے ہیں:”ردیف، قافیہ اور پورے یونٹ کے لیے ایک "بحر” کی پابندی سے آزاد شاعری کو "نظم آزاد” کہتے ہیں۔

آگے لکھتے ہیں:”نظم آزاد کے ہرمصرعے کی بحراور وزن ہوتا ہے۔ مختلف البحور میں اس کے مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔”

یہ بھی انگریزی اثرات کا مثبت نتیجہ ہے۔ فرانسیسی شعراء نے سب سے پہلے اس ہیئت کا تجربہ کیا۔ پھر بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزی شعرا نے اسے مقبولیت کی سند عطا کر دی۔ ن۔ م۔ راشد۔ میراجی۔ فیض۔ اختر الایمان کو اس ضمن میں اولیت حاصل ہے۔نصاب میں شامل مخدوم محی الدین کی کی نظم”چاند تاروں کابن” اور ن۔ م۔ راشد کی نظم”حسن کوزہ گر” آزاد نظمیں ہیں۔

چاند تاروں کا بن کے چند اشعار ملاحظہ ہو:۔

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن

رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن

تشنگی تھی مگر

تشنگی میں بھی سرشار تھے

پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے

منتظر مرد و زن

مستیاں ختم، مد ہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن

رات کے جگمگاتے دہکتے بدن

ن م راشد کی نظم "حسن کوزہ گر” کے کچھ مصرعے اور انکی تقطیع دیکھیے:۔

بحر متقارب (فعولن)ہے۔

جہاں زاد نیچے گلی میں ترے در کے آگے

جہاں زا (فعولن) د نیچے (فعولن) گلی میں (فعولن) ترے در (فعولن) کے آگے (فعولن)

تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی

تو تیری (فعولن) نگاہوں (فعولن) میں وہ تا (فعولن) ب ناکی (فعولن)

یہ وہ دور تھا جس میں مَیں نے

یہ وہ دو (فعولن) ر تھا جس (فعولن) میں میں نے (فعولن)

پلٹ کر نہ دیکھا

پلٹ کر (فعولن) نہ دیکھا (فعولن)

مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہارِ فن کے سہارے

مری ہی (فعولن) چ مایہ (فعولن) معیشت (فعولن) کے اظہا (فعولن) ر فن کے (فعولن) سہارے (فعولن)

تُو چاہے تو مَیں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب

تو چاہے (فعولن) تو میں پھر (فعولن) پلٹ جا (فعولن) ؤں ان اپ (فعولن) نے مہجو (فعولن) ر کوزوں (فعولن) کی جانب (فعولن)

نثری نظم

نثری نظم چھوٹی بڑی نثر سطروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں نہ تو ردیف اور قافیے کی پابندی ہوتی ہے اور نہ ہی وزن کی۔

اس کو "نظمِ منثور” اور "نثرِلطیف” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ بھی انگریزی ادب سے اردو میں در آئی ہے۔ اس کو انگریزی میں Prose Poemکے نام سے یاد کرتے ہیں۔یہ تمام عروضی پابندیوں سے آزاد اور ہر طرح کے شعری آہنگ سے بالکل بیگانہ صنف ہے۔

یہ تجربہ اردو میں سب سے پہلے نومبر 1929ء میں نیرنگ خیال کے مدیر حکیم محمد یوسف حسن نے "پنکھڑیاں” کے نام سے ایک مجموعہ شائع کرکے کیا تھا۔ اس کے بعد 1930ء میں حسن لطیفی نے اپنی تحریروں کو "افکارِ پریشاں” کے نام سے پیش کیا۔

مخدوم محی الدین کی نظم”اندھیرا” اس قبیل سے ہے:۔

رات کے ہاتھ میں اک کاسۂ دریوزہ گری

یہ چمکتے ہوئے تارے یہ دمکتا ہوا چاند

بھیک کے نور میں مانگے کے اجالے میں مگن

یہی ملبوس عروسی ہے یہی ان کا کفن

اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوئے جسموں کی کراہ

وہ عزازیل کے کتوں کی کمیں گاہ

”وہ تہذیب کے زخم”

تمت بالخیر

آپ یہاں تک پہنچے یعنی بہت کچھ سیکھ لیے تو اب دوسروں کو بھی سیکھنے کا موقع دیں، اس کے لیے یہ مضمون آپ شئیر کر دیں۔

ویڈیو دیکھنے کے لیے کلک کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!