آپ الطاف حسین حالی کی نظم “مناجاتِ بیوہ” پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔ کچھ مشکل الفاظ کے معانی نظم کے نیچے درج ہیں آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں۔
نظم مناجاتِ بیوہ
الطاف حسین حالی
مناجاتِ بیوہ مولانا نے مثنوی “ھَادِمُ اللَّذَّاتُ”کے نام سے سب سے پہلی مرتبہ 1884ء میں شائع کی تھی، دس سے زیادہ زبانوں میں اب تک اِس کے ترجمے ہوچکے ہیں، موجودہ کتاب اُس نسخہ سے نقل کی گئی ہے جسے خود مولانا نے بہت کچھ ترمیم و تنسیخ کے بعد 1888ء میں تیسری دفعہ شائع کیا تھا۔ یہ عبارت ربیع الآخر 1356 مطابق جولائی 1937والی “حالی بک ڈپو پانی پت” کی ایڈیشن سے ماخوذ ہے جو 12 حصہ پر مشتمل ہے۔
(1)
اے سب سے اوّل اور آخر | جہاں تہاں حاضر اور ناظر |
اے سب داناؤں سے دانا | سارے تواناؤں سے توانا |
اے بالا، ہر بالاتر سے | چاند سے، سورج سے، امبر سے |
اے سمجھے بوجھے بن سوجھے | جانے پہچانے بن بوجھے |
سب سے انوکھے سب سے نرالے | آنکھ سے اوجھل دل کے اجالے |
اے اندھوں کی آنکھ کے تارے | اے لنگڑے لولوں کے سہارے |
ناتیوں سے چھوٹوں کے ناتی | ساتھیوں سے بچھڑوں کے ساتھی |
ناؤجہاں کی ، کھینے والے | دُکھ میں تسلّی دینے والے |
جب، اب، تب، تجھ سا نہیں کوئی | تجھ سے ہیں سب، تجھ سا نہیں کوئی |
جُوت ہے تیری جَل اور تھَل میں | باس ہے تیر ی پھول اور پھل میں |
ہر دل میں تیرا بسیرا | تو پاس ، اور گھر دو ر ہے تیرا |
راہ تیری دشوار اور سکڑی | نام ترا رہ گیر کی لکڑی |
تو ہے ٹھکانا مسکینوں کا | تو ہے سہارا غمگینوں کا |
تو ہے اکیلوں کا رکھوالا | تو ہے اندھیرے گھر کا اُجالا |
لاگو اچھّے اور برے کا | خواہاں کھوٹے اور کھرے کا |
بید، نرا سے بیماروں کا | گاہک مندے بازاروں کا |
سوچ میں دل بہلانے والا | بپتا میں یاد آنے والا |
الفاظ و معانی
امبر: آکاش، آسمان
ناتی: رشتہ دار
جوت:روشنی
باس: بو،مہک، نگہت
لاگو: پرسانِ حال
(2)
اے بے وارث گھروں کے وارث | بے بازوبے پروں کے وارث |
بے آسوں کی آس ہے تو ہی | جاگتے سوتے پاس ہے تو ہی |
بس والے ہیں یا بے بس ہیں | تو نہیں جن کا وہ بیکس ہیں |
ساتھی جن کا دھیان ہے تیرا | دسرائت کی وہاں نہیں پروا |
دل میں ہے جن کے تیری بڑائی | گنتے ہیں وہ پربت کو رائی |
بیکس کا غم خوار ہے تو ہی | بُری بنی کا یار ہے تو ہی |
دُکھیا، دُکھی، یتیم اور بیوا | تیرے ہی ہاتھ ان سب کا ہے کھیوا |
تو ہی ڈبوئے، توہی ترائے | تو ہی یہ بیڑے پار لنگھائے |
تو ہی مرض دے، توہی دوا دے | تو ہی دوا دارو میں شفا دے |
تو ہی پلائے زہر کے پیالے | تو ہی پھرامرت زہر میں ڈالے |
تو ہی دلوں میں آگ لگائے | تو ہی دلوں کی لگی بجھائے |
چمکارے چمکار کے مارے | مارے مار کے پھر چمکارے |
پیار کا تیرے پوچھنا کیا ہے | مار میں بھی اک تیرے مزا ہے |
بس: زور، اختیار، رسوخ
بیکس:محتاج، غریب
لنگھانا: پار اُتارنا
لگی بجھانا: آرزو یا خواہش پوری کرنا
(3)
اے رحمت اور ہیبت والے | شفقت اور دباغت والے |
اے اٹکل اور دھیان سے باہر | جان سے اور پہچان سے باہر |
عقل سے کوئی پا نہیں سکتا | بھید ترے حکموں میں ہیں کیا کیا |
ایک کو تو نے شاد کیا ہے | ایک کے دل کو داغ دیاہے |
اس سے نہ تیرا پیار کچھ ایسا | اس سے نہ تو بیزار کچھ ایسا |
ہر دم تیری آن نئی ہے | جب دیکھو تب شان نئی ہے |
یہاں پچھوا ہے وہاں پروا ہے | گھر گھر تیرا حکم نیا ہے |
پھول کہیں کملائے ہوئے ہیں | اور کہیں پھل آئے ہوئے ہیں |
کھیتی ایک کی ہے لہراتی | ایک کا ہر دم خون سکھاتی |
ایک پڑے ہیں دھن کو ڈبوئے | ایک ہیں گھوڑے بیچ کے سوئے |
ایک نے جب سے ہوش سنبھالا | رنج سے اُس کو پڑا نہ پالا |
ایک نے اس جنجال میں آکر | چین نہ دیکھا آنکھ اُٹھا کر |
مینہ کہیں دولت کا ہے برستا | ہے کوئی پانی تک کو ترستا |
ایک کو مرنے تک نہیں دیتے | ایک اُکتا گیا لیتے لیتے |
حال غرض دنیا کا یہی ہے | غم پہلے، اور بعد خوشی ہے |
رنج کا ہے دنیا کے گِلاکیا | تحفہ یہی لے دے کے ہے یہاں کا |
یہاں نہیں بنتی رنج سہے بن | رنج نہیں سب ایک سے لیکن |
ایک سے یہاں رنج ایک ہے بالا | ایک سے ہے درد ایک نرالا |
گھاؤ ہے گو، ناسور کی صورت | پر اسے کیا ناسور سے نسبت |
تپ وہی دق کی شکل ہے لیکن | دق نہیں رہتی جان لیے بن |
دق ہو وہ یا ناسور ہو، کچھ ہو | دے نہ خواب اُمید کسی کو |
روز کا غم کیوں کر سہے کوئی | آس نہ جب باقی رہے کوئی |
تو ہی کر انصاف اے میرے مولا | کون ہے جو بے آس ہے جیتا |
گو کہ بہت بندے ہیں پر ارماں | کم ہیں مگر مایوس ہیں جو یہاں |
خواہ دکھی ہے، خواہ سُکھی ہے | جو ہے اک اُمید اُس کو بندھی |
کھیتیاں جن کی کھڑی ہیں سوکھی | آس وہ باندھے بیٹھے ہیں مینہ کی |
گھاٹا جن کی اساڑھی میں ہے | ساونی کی امید انہیں ہے |
ڈوب چکی ہے جن کی آگیتی | دیتی ہے ڈھارس اُن کو پچھیتی |
ایک ہے اس امید پہ جیتا | اب ہوئی بیٹی، اب ہوا بیٹا |
ایک کو جو اولاد ملی ہے | اس کو امنگ اب شادیوں کی ہے |
رنج ہے یا قسمت میں خوشی ہے | کچھ ہے مگر اک آس بندھی ہے |
غم نہیں ان کو گو غمگیں ہیں | جو دل ناامید نہیں ہیں |
کال میں کچھ سختی نہیں ایسی | کال میں ہے جب آس سمیں کی |
سہل ہے موجوں سے چھٹکارا | جب کہ نظر آتا ہے کِنارا |
پر نہیں اٹھ سکتی وہ مصیبت | آئے گی جس کے بعد نہ راحت |
شاد ہو اس رہ گیر کا کیا دل | مرکے کٹے گی جس کی منزل |
اُن اُجڑوں کو کل پڑے کیوں کر | گھر نہ بسے گا جن کا جنم بھر |
اُن بچھڑوں کا کیا ہے ٹھکانا | جن کو نہ ملنے دے گا زمانا |
اَب یہ بلا ٹلتی نہیں ٹالی | مجھ پہ ہے جو تقدیر نے ڈالی |
آئیں بہت دنیا میں بَہاریں | عیش کی گھر گھر پڑیں پُکاریں |
پڑے بہت باغوں میں جھولے | ڈھاک بہت جنگل میں پھولے |
گئیں اور آئیں چاندنی چاندنی راتیں | برسیں کھلیں بہت برساتیں |
پر نہ کھِلی، ہرگز نہ کھِلے گی | وہ جو کلی مُرجھائی تھی دل کی |
آس ہی کا یہاں نام ہے دنیا | جب نہ رہی یہی تو رہا کیا |
ایسے بدیسی کا نہیں غم کچھ | جس کو نہ ہوملنے کی قسم کچھ |
رونا اُن بن باسیوں کا ہے | دیس نکالا جن کو ملا ہے |
حکم سے تیرے پر نہیں چارا | کڑوی میٹھی سب ہے گوارا |
زور ہے کیا پنّے کا ہوا پر | چاہے جدھر جائے اُڑاکر |
تنکا اک اور سات سمندر | جائے کہاں موجوں سے نکل کر |
قسمت ہی میں جب تھی جدائی | پھر ٹلتی کس طرح یہ آئی |
آج کی بگڑی ہو، تو بنے بھی | ازل کی بگڑی خاک بنے گی |
تو جو چاہے، وہ نہیں ٹلتا | بندے کا یہاں بس نہیں چلتا |
مارے، اور نہ دے تورونے | تھپکے اور نہ دے تو سونے |
ٹھیرے بَن آتی ہے، نہ بھاگے | تیری زبردستی کے آگے |
تجھ سے کہیں گر بھاگنا چاہیں | بند ہیں چاروں کھونٹ کی راہیں |
تو مارے اور خواہ نوازے | پڑی ہوں میں تیرے دروازے |
تجھی کو اپنا جانتی ہوں میں | تجھ سے نہیں تو کس سے کہوں میں |
ماں ہی سدا بچّے کو مارے | اور بچّہ ماں ماں ہی پکارے |
الفاظ و معانی
دباغت: زور، رعب، دباؤ
ناسور: ناقابل علاج زخم
آگیتی: پہلے بوئی ہوئی فصل
پچھیتی: بعد میں بوئی ہوئی فصل
ڈھاک: درخت کا نام
(4)
اے مرے زور اور قدرت والے | حِکمت اور حکومت والے |
میں لونڈی تری دُکھیاری | دروازے کے تیرے بھکاری |
موت کی خواہاں ،جان کی دشمن | جان پہ اپنی آپ اجیرن |
اپنے پرائے کی دھتکاری | میکے اور سسرال پہ بھاری |
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں | دنیا سے بیزار چلی ہوں |
دل پر میرے داغ ہیں جتنے | منھ میں بول نہیں ہیں اتنے |
دکھ دل کا کچھ کہہ نہیں سکتی | اِ س کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتی |
تجھ پر ہے روشن سب دکھ دل کا | تجھ سے حقیقت اپنی کہوں کیا |
بیاہ کے، دم پائی تھی نہ لینے | لینے کے یاں پڑ گئے دینے |
خوشی میں بھی سکھ پاس نہ آیا | غم کے سوا کچھ راس نہ آیا |
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے | ایک ہنسی نے گل یہ کِھلائے |
چین سے رہنے دیا نہ جی کو | کر دیا ملیا میٹ خوشی کو |
رُو نہیں سکتی ، تنگ ہوں یہاں تک | اور رُوؤں تو رُوؤں کہاں تک |
ہنس ہنس، دل بہلاؤں کیوں کر | اوسوں پیاس بجھاؤں کیوں کر |
ایک کا کچھ جینا نہیں ہوتا | ایک، نہ ہنستابھلا، نہ روتا |
لیٹئے گر ، سونے کے بہانے | پائنتی کَل ہے، اور نہ سرہانے |
جاگئے، تو بھی ، بن نہیں پڑتی | جاگنے کی آخر کوئی حد بھی |
اَب کَل ہم کو پڑے گئی مرکر | گور ہے سونی سیج سے بہتر |
بات سے نفرت ، کام سے وحشت | ٹوٹی آس، اور بجھی طبیعت |
آبادی، جنگل کا نمونا | دنیاسونی، اور گھر سونا |
دن ہیں بھیانک رات ڈراؤنی | یوں گزری یہ ساری جوانی |
بہنیں، اور بہنلیاں میری | ساتھ کی تھی جو کھیلیاں میری |
مل نہ سکیں جی کھول کے مجھ سے | خوش نہ ہوئیں ہنس بول کے مجھ سے |
جب آئیں رو دھوکے گئیں وہ | جب گئیں بے کَل ہوکے گئیں وہ |
کوئی نہیں دل کا بہلاوا | آ نہیں چکتا میرا بلاوا |
آٹھ پہر کا ہے یہ جَلاپا | کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا |
تھک گئی میں دکھ سہتے سہتے | تھم گئے آنسو بہتے بہتے |
آگ کھلی دل کی نہ کسی پر | گھل گئی جان اندر ہی اندر |
دیکھ کے چپ جانا نہ کسی نے | جان کو پھونکا دل کی لگی نے |
دبی تھی بھوبل میں چنگاری | لی نہ کسی نے خبر ہماری |
قوم میں وہ خوشیاں بیاہوں کی | شہر میں وہ دھومیں ساہوں کی |
تہواروں کا آئے دن آنا | اور سب کا تہوار منانا |
وہ چیت اور پھاگن کی ہوائیں | وہ ساون بھادوں کی گھٹائیں |
وہ گرمی کی چاندنی راتیں | وہ ارمان بھری برساتیں |
کس سے کہوں کس طور سے کاٹیں | خیر، کٹیں جس طور سے کاٹیں |
چاؤ کے اور خوشیوں کے سمیں سب | آتے ہیں خوش، کل جان کو ہو جب |
رنج میں ہیں سامان خوشی کے | اور جلانے والے جی کے |
گھر برکھا، اور پیا بدیسی | آئیو برکھا، کہیں نہ ایسی |
دن یہ جوانی کے، کٹے ایسے | باغ میں پنچھی قید ہو جیسے |
رُت گئی ساری سر ٹکراتے | اڑ نہ سکے، پر ہوتے ساتے |
کسی نے ہوگی کچھ کل پائی ہوگی کسی نے کچھ کل پائی | مجھے تو شادی راس نہ آئی |
آس بندھی لیکن نہ ملا کچھ | پھول آیا اور پھل نہ لگا کچھ |
رہ گیا دے کر چاند دکھائی | چاند ہوا، پر عید نہ آئی |
رُت بدلی، پر ہوئی نہ برکھا | بادل گرجا اور نہ برسا |
پھل کی خاطر برچھی کھائی | پھل نہ ملا، اور جان گنوائی |
ریت میں ذرّے دیکھ چمکتے | دوڑ پڑی میں جھیل سمجھ کے |
چاروں کھونٹ نظر دوڑائی | پر پانی کی بوند نہ پائی |
الفاظ و معانی
دکھیاری:دکھی ، آفت زدہ
(5)
اے دین اور دنیا کے مالک | راجا اور پرجا کے مالک |
بے پر اور پر دار کے والی | اے سارے سنسار کے والی |
پورب، پچھم، دکھن، اتر | بخشش تیری عام ہے گھر گھر |
پیاؤ لگی ہے سب کے لیے یہاں | خواہ ہوں ہندو، خواہ مسلماں |
ہو نہ اگر قسمت نے کمی کی | کی نہیں بندی تو نے کسی کی |
چیونٹا، کیڑا، مچھر، بُھنگا | کچھوا، مینڈک، سیپ اور گھونگا |
سارے پنچھی اور پکھیرو | مور، پپیہا، سارس، پیرو |
بھیڑ اور بکری، شیر اور چیتے | تیرے جِلائے ہیں جیتے |
کُھلاہے سب پر در رحمت کا سب پہ کھلا ہے در رحمت کا | برس رہا ہے مینھ نعمت کا |
خاک سے تونے بیج اگائے | پھر پودے پروان چڑھائے |
سیپ کو بخشی تو نے دولت | اور بخشا مکّھی کو امرت |
لکڑی میں پھل تو نے لگائے | اور کوڑی پر پھول کھلائے |
ہیرا بخشا کان کو تونے | مشک دیا حیوان کو تو نے |
جگنو کو بجلی کی چمک دی | ذرے کو کندن کی دمک دی |
دین سے تیری اے مرےمولیٰ | سب ہیں نہال ادنیٰ اور اعلیٰ |
عام ہے سب پر تیری رحمت | ہیں محروم مگر بدقسمت |
پیڑ ہوں چھوٹے یا کہ بڑے یہاں | فیض ہوا کا سب پہ ہے یکساں |
جلتے ہیں جو ہیں جلنے والے | پھلتے ہیں جو ہیں پھلنے والے |
جب اپنی ہی زمیں ہو کَلّر | پھر الزام نہیں کچھ مینہ پر |
سب کو ترے انعام تھے شامل | میں ہی نہ تھی انعام کے قابل |
گر کچھ آتا بانٹ میں میری | سب کچھ تھا سرکار میں تیری |
تھی نہ کمی کچھ تیرے گھر میں | نون کو ترسی میں سانبھر میں |
راجا کے گھر پلی ہوں بھوکی | سدا برت سے چلی ہوں بھوکی |
پہروں سوچتی ہوں یہ جی میں | آئی تھی کیوں میں اس نگری میں |
ہونے سے میرے فائدہ کیا تھا | کس لیے پیدا مجھ کو کیا تھا |
آن کے آخر میں نے لیا کیا | مجھ کو مری قسمت نے دیا کیا |
نین دیے اور کچھ نہ دکھایا | دانت دیے اور کچھ نہ چکھایا |
جندڑی دی اور خوشی نہ بخشی | دل بخشا دل لگی نہ بخشی |
رہی اکیلی بھری سبھا میں | پیاسی رہی بھری گنگا میں |
چین سے جاگی اور نہ سوئی | میں نہ ہنسی جی بھر کے نہ روئی |
آکے خوشی سی چیز نہ پائی | جیسی آئی ویسی نہ آئی |
کھایا تو کچھ مزا نہ آیا | سوئی تو کچھ چین نہ پایا |
پھول ہمیشہ آنکھ میں کھٹکے | اور پھل سداگلے میں اٹکے |
ہو نہ سکی کچھ دل سے عبادت | اور نہ جمی کاموں پہ طبیعت |
کام سنوارا کوئی نہ یہاں کا | اور نہ کیا دھندا کوئی وہاں کا |
کام آیا یہاں کوئی نہ میرے | اور نہ میں کام آئی کسی کے |
قسمت نے جب سے منہ موڑا | آدمیوں کا ہوگیا توڑا |
باپ اور بھائی، چچا ، بھتیجے | سب رکھتی ہوں تیرے کرم سے |
پر نہیں پاتی ایک بھی ایسا | جس کو ہو میری جان کی پروا |
ناتیوں میں شفقت نہیں پاتی | اپنوں میں اپنایت نہیں پاتی |
گھر ہے یہ اک حیرت کا نمونا | سو گھر والے، اور گھر سونا |
جس نے خدا کا خوف کیا کچھ | آکے کبھی یہاں پوچھ لیا کچھ |
سو یہ خوشی کا دل کی ہے سودا | زور کسی پر اب نہیں اپنا |
اس میں شکایت کیا پرائی | اپنی ہی قسمت کی ہے برائی |
چین گر اپنی بانٹ میں آتا | کیوں تو عورت ذات بناتا |
کیوں پڑتے ہم غیر کے پالے | کیوں ہوتے اوروں کے حوالے |
آٹھ پہر کیوں دکھ یہ اٹھاتے | جیتے ہی جی کیوں ہم مرجاتے |
دکھ میں نہیں یہاں کوئی کسی کا | باپ نہ ماں، بھائی نہ بھتیجا |
سچ یہ کسی سائیں کی صدا تھی | سکھ سمپت کا ہر کوئی ساتھی |
الفاظ و معانی
جندڑی: جان کی تصغیر
(6)
تیرے سوا اے رحم کے بانی | کون سنے یہ رام کہانی |
ایک کہانی ہو تو کہوں میں | ایک مصیبت ہو تو سہوں میں |
حال نہ ہو دشمن کا ایسا | میرا نازک حال ہے جیسا |
کوئی نہیں لاگو ، اب میرا | باپ نہ بھائی، ساس نہ سسرا |
آنکھ میں ایک اک کی ہوں کھٹکتی | پر اپنے بس مَر نہیں سکتی |
ماں اور باپ، عزیز اور پیارے | بے کل ہیں جینے سے ہمارے |
روکے پلک نم کرنہیں سکتی | ہنس کے غلط غم کر نہیں سکتی |
روئیے تو سب روتے ہیں گھر کے | رونے نہیں دیتے جی بھر کے |
ہنسئیےتو ہنسنا عیب ہے ہم کو | کیوں کہ الٰہی کاٹئے غم کو |
گر سسرال میں جاتی ہوں میں | نحس قدم کہلاتی ہوں میں |
میکے میں جس وقت ہوں آتی | رو رو کر ہوں سب کو رلاتی |
جب سے یہ دن قسمت نے دکھائے | تکتے ہیں جو ہیں اپنے پرائے |
میرا سدا ہنسنا اور رونا | بیٹھنا، اٹھنا، جاگنا، سونا |
سوچ میں میرے سارا گھر ہے | میرے چلن پر سب کی نظر ہے |
آپ کو ہوں ہر وقت مٹاتی | پہنتی اچھا میں ہوں نہ کھاتی |
جانتی ہوں، نازک ہے زمانا | بات ہے اک یہاں عیب لگانا |
موتی کی سی آب ہے عزت | جاکے نہیں آتی پھر حرمت |
مہندی میں نے لگانی چھوڑی | پٹی میں نے جمانی چھوڑی |
کپڑے مہینوں میں ہوں بدلتی | عطر نہیں میں بھول کے ملتی |
سرمہ نہیں آنکھوں میں لگاتی | بال نہیں برسوں گندھواتی |
دو دو چاند نہیں سر دھوتی | اٹھواڑوں کنگھی نہیں ہوتی |
کان میں پتّے ہاتھ میں کنگن | پہن چکی سب، جب تھی سہاگن |
پہنچیوں کا ارمان نہیں اب | چوڑیوں کا کچھ دھیان نہیں اب |
اڑ گئیں سب دل کی وہ ترنگیں | چاؤ رہے باقی، نہ اُمنگیں |
آپ کو یہاں تک میں نے مٹایا | پر دنیا کو صبر نہ آیا |
وہم نے ہے ایک ایک کو گھیرا | جب دیکھو تب ذکر ہے میرا |
کھینچ چکا ہے میرا مقدّر | داغ بدی کا میری جبین پر |
مل جاوں گر خاک میں بھی میں | بچ نہ سکوں طعنوں سے کبھی میں |
سچ اگلے لوگوں نے کہا ہے | بد اچّھا، بدنام برا ہے |
جینے سے گھبراگئی ہوں میں | اِس دم سے تنگ آگئی ہوں میں |
یوں نہ بری اس جان پہ بنتی | ماں مجھ کو اے کاش ! نہ جنتی |
رہتے ہم انجان بلا سے | دنیا مجھ سے میں دنیا سے |
اے بے آسروں کے رکھویّا | اے ڈوبے بیڑوں کے کھویّا |
کیجیو میری کشتی بانی | آ پہنچا ہے ڈُباؤ پانی |
اب تیرےگی تِرائی تیری | ڈوبی ناؤ، دھائی تیری |
(7)
اے امبر کے چمکتے تارو | اے گھر کے در اور دیوارو |
اے جانی پہچانی راتو | تنہائی کی ڈرانی راتو |
اے نیک اور بد کے دربانو | دیکھتی آنکھو! سنتے کانو |
ایک دن اس گندی دنیا سے | جانا ہے مالک کے آگے |
بوجھ ہیں وہاں سب تلنے والے | پترے سب کے ہیں کُھلنے والے |
جب وہاں پوچھ ہو میری تیری | تم سب دیجو، گواہی میری |
میں نیکی کا دم نہیں بھرتی | پاکی کا دعویٰ نہیں کرتی |
کیوں کہ خطا سے بچ سکتا ہے | جس نے کچّادودھ پیا ہے |
خواہ ولی ہو، خواہ رشی ہو | اس سے رہائی نہیں کسی کو |
گنوں اگر میں اپنی خطائیں | ہے یہ یقین، گنتی میں نہ آئیں |
پر یہ خداسے ڈر کے ہوں کہتی | منہ پہ یہ آئے بِن نہیں رہتی |
خواہ بری تھی، خواہ بھلی میں | بات سے اپنی نہیں ٹلی میں |
پڑی تھی جس بے دیدے کے پالے | ہوگئی تھی جس بیری کے حوالے |
نام پہ دھونی اُس کے رما کر | آن کو رکھا جان گنواکر |
ساتھ نہ قوم اور دیس کا چھوڑا | اور نہ خدا کے عہد کو توڑا |
آے اگر دنیا کو نہ باور | اب مجھے کچھ دنیا کا نہیں ڈر |
میرا نگہبان، اور رکھوالا | سب سے بڑا ہے جاننے والا |
(8)
اے ایمان کے رکھنے والے | اے نیت کے پرکھنے والے |
میں نہیں رکھتی کام کسی سے | چاہتی ہوں انصاف تجھی سے |
حکم پہ چلتی تیرے اگر میں | چین سے کرتی عمر بسر میں |
مانتی گر میں عقل کا کہنا | مجھ کو نہ پڑتا رنج یہ سہنا |
کچھ نہ عدالت کا تھا ڈراوا | اور نہ مذہب کا اٹکاوا |
ہے دستور یہی دنیا کا | آپ سے اچھا نام خدا کا |
لیکن ہٹ پیاروں کی یہی تھی | مرضی غم خواروں کی یہی تھی |
اپنے بڑوں کی رِیت نہ چھوٹے | قوم کی باندھی رسم نہ ٹوٹے |
ہو نہ کسی سے ہم کو ندامت | ناک رہے کنبے میں سلامت |
جان کسی کی جائے تو جائے | آن میں اپنی فرق نہ آئے |
دم پہ بنے جو، اس کو سہوں میں | لوٹتی انگاروں پہ رہوں میں |
درد نہ ہو دل کا کہیں ظاہر | چپکے ہی چپکے کام ہو آخر |
مرمٹوں اور کچھ منہ پہ نہ لاؤں | جل بجھوں اور اف کرنے نہ پاؤں |
گھٹ گھٹ کر ، دم اپنا گنوا دوں | جل جل کر آبے کو بجھا دوں |
تجھ پہ ہے روشن اے مرے مولا | وقت یہ کیسا مجھ پہ پڑا تھا |
بیڑا تھا منجدھار میں میرا | چار طرف چھایا تھا اندھیرا |
تھا ہ تھی پانی کی نہ کنارا | تیرے سوا تھا کچھ نہ سہارا |
شرم ادھر دنیا کی مجھے تھی | فکر ادھر عقبیٰ کی مجھے تھی |
روکنے تھے حملے مجھے دِل کے | تھا مجھے جینا خاک میں مل کے |
نفس سے تھی دن رات لڑائی | دور تھی نیکی ، پاس برائی |
جان تھی میری آن کی دشمن | آن تھی میری جان کی دشمن |
آن سنبھالے جان تھی جاتی | جان بچائے آن تھی جاتی |
طے کرنے تھے سات سمندر | حکم یہ تھا ہاں پاؤں نہ ہوتر |
کوئیلا چاروں کھونٹ تھا پھیلا | حکم یہ تھا پلّا نہ ہو میلا |
پیاس تھی ، لُو تھی، اور تھی کھرسا | اور دریا سے گذرنا پیاسا |
دھوپ کی تھی پالے پہ چڑھائی | آگ اور گندک کی تھی لڑائی |
درد اپنا کس سے کہوں کیا تھا | آکے پہاڑ اک مجھ پہ گرا تھا |
نفس سے ڈر تھا مجھ کو بدی کا | اس لیے ہر دم تھی یہ تمنّا |
مرجاؤں یا زندہ رہوں میں | تجھ سے مگر شرمندہ نہ ہوں میں |
جان بلا سے جائے تو جائے | پر کہیں دینی بات نہ آئے |
کی نہ کسی نے میری خوش کو | میں نے کیا نا خوش نہ کسی کو |
بات کسی کی میں نے نہ ٹالی | اپنے ہی دم پر سب کی بلا لی |
جان نہ سمجھا جان کو اپنی | دیا نہ جانے آن کو اپنی |
قول پہ اپنے جمی رہی میں | ہوئی نہ ڈانوا ڈول کبھی میں |
دل تھاما آبے کو سنبھالا | سانس تلک منہ سے نہ نکالا |
اور نہ اگر میں کرتی ایسا | کیوں کر کرتی اور کرتی کیا |
بن نہیں آتی دیس سے بھاگے | کچھ نہیں چلتی دیس کے آگے |
کہہ گئی سچ اک راجکماری | لاچاری پر بت سے بھاری |
(9)
اے اچھے اور برے کے بھیدی | کھوٹے کے اورکھرے کے بھیدی |
چھپی ڈھکی کے کھولنے والے | بری بھلی کے تولنے والے |
بھید دلوں کے جاننے والے | پاپ اور پن کے چھاننے والے |
عیب اور گن سب تجھ پہ ہیں روشن | پاپ اور پن سب تجھ پہ ہیں روشن |
عیب نہ اپنا تجھ کو جتانا | ہے دائی سے پیٹ چھپانا |
میں نہیں آخر پاک بدی سے | بنی ہوں پانی اور مٹی سے |
تو نے بنایا تھا مجھے جیسا | چاہیے تھا ہونا مجھے ویسا |
بس ہمیں جتنا تو نے دیا ہے | اس سے سوا قدرت ہمیں کیا ہے |
کان اور آنکھیں، ہاتھ اور بازو | جن جن پر تھا، یاں مجھے قابو |
سب کو بدی سے میں نے بچایا | سب کو خودی سے میں نے ہٹایا |
اُٹھتے بیٹھتے روکا سب کو | سوتے جاگتے ٹوکا سب کو |
ہاتھ کو ہلنے دیا نہ بے جا | پاؤں کو چلنے دیا نہ ٹیڑھا |
آنکھ کو ہلنے دیا نہ بیجا | پاؤں کو چلنے دیا نہ ٹیڑھا |
آنکھ کو اٹھنے دیا نہ اتنا | جس سے کہ پیدا ہو کوئی فتنا |
کان کو رکھا دور بلا سے | اوپری آوازوں کی ہوا سے |
روک کے یوں اور تھام کے آپا | میں نے کاٹا اپنا رنڈاپا |
ایک نہ سنبھلا میرا سنبھالا | تھا بےتاب جو اندر والا |
حال کروں میں دل کا بیاں کیا | حال ہے دل کا تجھ سے نہاں کیا |
دھوپ تھی تیز اور ریت تھی تپتی | مچھلی تھی ایک اس میں تڑپتی |
جان نہ مچھلی کی تھی نکلتی | اور نہ سر سے دھوپ تھی ٹلتی |
گو دم بھر اس دل کی لگی نے | ٹھنڈا پانی دیا نہ پینے |
تو ہے مگر اس بات کا دانا | میں نے کہا دل کا نہیں مانا |
زور تھا میرا دل پہ جہاں تک | میں نے سنبھالا دل کو وہاں تک |
تھامنا دل کا کام تھا میرا | اور تھامنا کام تھا تیرا |
پکڑے اگر تو دل کی خطاپر | میں راضی ہوں تیری رضا پر |
رکھ تکلیف میں، یا راحت میں | ڈال جہنم، یا جنّت میں |
اب نہ مجھے جنّت کی تمنّا | اور نہ خطرہ کچھ دوزخ کا |
آئے گی جنّت راس کب اس کو | جلنے میں جس کی عمر کٹی ہو |
ڈر دوزخ کا پھر اُسے کیا ہے | جس نے رنڈاپا جھیل لیا ہے |
پر تجھ سے اک عرض ہے میری | رد نہ ہو گر، درگاہ میں تیری |
جو قسمت نے مجھ کو دکھایا | خوش نا خوش سب میں نے اٹھایا |
مجھ ناچیز کی ہے کیا طاقت | جو منہ پر کچھ لاؤں شکایت |
عمر بہت سی کاٹ چکی ہوں | یہ دن بھی کٹ جائیں گے جوں توں |
اپنے لیے کچھ کہہ نہیں سکتی | پر یہ کہے بِن رہ نہیں سکتی |
میں ہی اکیلی نہیں ہوں دُکھیا | پڑی ہے لاکھوں پر یہی بپتا |
بس کے بہت یہاں اجڑ گئے گھر | بن کے ہزاروں بگڑ گئے گھر |
جلیں کروڑوں اِسی لپٹ میں | پدموں پھکیں اسی مرگھٹ میں |
بالیاں اک اک ذات کی لاکھوں | بیاہیاں اک اک رات کی لاکھوں |
ہوگئیں آخر اسی الم میں | کاٹ گئیں عمریں اسی غم میں |
سینکڑوں بے چاری مظلومیں | بھولی، نادانیں، معصومیں |
بیاہ سے انجان اور منگنی سے | بنے سے واقف اور نہ بنی سے |
ماؤں سے جو منہ دھلواتی تھیں | رو رو مانگ کے جو کھاتی تھیں |
تھپک تھپک تھے جن کو سلاتے | گھرک گھرک تھے جن کو کھلاتے |
جن کو نہ شادی کی تھی تمنا | اور نہ منگنی کا تھا تقاضا |
جن کو نہ آپے کی تھی خبر کچھ | اور نہ رنڈاپے کی تھی خبر کچھ |
بھلی سے واقف تھیں نہ بری سے | ہدا سے مطلب تھا نہ بَری سے |
رخصت ، چالے اور چوتھی کو | کھیل تماشا جانتی تھیں جو |
ہوش جنھیں تھا رات نہ دن کا | گڑیوں کا سا بیاہ تھا جن کا |
دو دو دن رہ رہ کے سہاگن | جنم جنم کو ہوئی بروگن |
دولہا نے جانا نہ دلہن کو | دلہن نے پہچانا نہ سجن کو |
دل، نہ طبیعت ، شوق نہ چاہت | مفت لگالی بیاہ کی تہمت |
شرط سے پہلے بازی ہاری | بیاہ ہوا اور رہی کنواری |
سیلانی جب باغ میں آئے | پھول ابھی تھے کھلنے نہ پائے |
پھول کھلے جس وقت چمن میں | جا سوئے سیلانی بن میں |
پیت نہ تھی جب پایا پیتم | جب ہوئی پیت گنوایا پیتم |
ہوش سے پہلے ہوئی میں بیوا | کب پہنچے گا پار یہ کھیوا |
خیر سے بچپن کا ہے رنڈاپا | دور پڑا ہے ابھی بڑھاپا |
عمر ہے منزل تک پہنچانی | کاٹنی ہے بھر پورجوانی |
شام کے مردے کا ہے یہ رونا | ساری رات نہیں اب سونا |
آئی نہیں دنیا میں الٰہی | ایسی کسی بیڑے پہ تباہی |
آئیں بلکتی، گئیں سسکتی | رہیں ترستی اور پھڑکتی |
کوئی نہیں جو غور کرے اب | نبض پہ ان کی ہاتھ دھرے اب |
دکھ اُن کا آئے اور پوچھے | روگ ان کا سمجھے اور بوجھے |
چوٹ نہ جن کے جی کو لگی ہو | وہ کیا جانیں دل کی لگی کو |
بے دردوں سے پڑا ہے پالا | تو ہی اب ان کا ہے رکھوالا |
اپنی بیتی ہے یہ کہانی | اب یہ دھان رہے بن پانی |
(10)
اے غمخوار ہر اک بیکس کے | حامی ہر عاجز بے بس کے |
ہے اپنے عاجز بندوں پر | پیار ترا، ماں باپ سے بڑھ کر |
جس نے لگی میں تجھ کو پکارا | سامنے تیرے ہاتھ پسارا |
پھرا نہ خالی اس چوکھٹ سے | گیا نہ پیاسا اس پنگھٹ سے |
کس کو زمانے نے ہے ستایا | تو نہیں جس کے آڑے آیا |
اُجڑے کھیڑے تو نے بسائے | ڈوبے بیڑے تو نے تِرائے |
مظلوموں کی داد کو پہنچا | قیدیوں کی فریادکو پہنچا |
بنجر ملک آباد کرائے | اور بردے آزاد کرائے |
عام تیری رحمت جب ٹھیری | دور ہے پھر رحمت سے تیری |
داد ہر اک مظلوم کی دے تو | اور سانڈوں کی خبر نہ لے تو |
عورت ذات کا تنہا جینا | ہر دم خون جگر کا پینا |
گھر بسنے کی آس نہ رہنی | ساری عمر جدائی سہنی |
ہے وہ بلا، جو سہی نہ جائے | بپتا ہے جو کہی نہ جائے |
قدر اس کی، یا تو پہچانے | یا جس پر گذری ہو وہ جانے |
(11)
اے خاوند! خداوندوں کے | مالک خاوند اور بندوں کے |
واسطہ اپنی خاوندی کا | صدقہ اپنی خداوندی کا |
تو یہ کسی کو داغ نہ دیجو | کسی کو بے وارث مت کیجو |
کیجیو جو کچھ تیری خوشی ہو | رانڈ مگر کیجو نہ کسی کو |
مسند، تکیہ، عزت، حرمت | نوکر، چاکر، دولت، حشمت |
چاندی، سونا، نقدی، غلّا | گہنا، پاتا، توم اور چَھلّا |
سائیں بن جو چیزہے گھر میں | خاک ہے سب عورت کی نظر میں |
دل کی خوشی اک آس پہ تھی سب | سو وہ ہزاروں کوس گئی اب |
پھول کچھ اب کانٹوں سے نہیں کم | جنّت بھی ہوتو ہے جہنّم |
باغ نظر میں اُس کی خِزاں | آنکھ میں تاریک اس کی جہاں ہے |
عیش ہے اس کے واسطے ماتم | عید ہے اس کے حق میں محرّم |
جس دکھیا پر پڑے یہ بپتا | کر اسے تو پیوند زمیں کا |
یا عورت کو پہلے بُلالے | یا دونو کو ساتھ اُٹھالے |
یا یہ ننادیں ریت جہاں کی | جس سے گئی پرتیت یہاں کی |
جس سے ہوئے دل سیکڑوں بسمل | جس نے ہزاروں کیے ہیں گھائل |
جس نے کلیجے آگ میں بھونے | جس نے بھرے گھر کردیے سونے |
خوف دِلوں سے کھودیے جس نے | شرم سے دیدے دھو دیے جس نے |
قوم کی جس بن آن ہے جاتی | دیس کی جس پر جان ہے جاتی |
جس نے کیے دل رحم سے خالی | ریت ہے جو دنیا سے نرالی |
قوم سے تو یہ ریت چُھڑا دے | بندیوں کی بیڑی یہ تڑا دے |
سہل اور مشکل تجھ کو ہے یکساں | ہم کو ہے مشکل تجھ کو ہے آساں |
رنج اور دکھ قبضے میں ہے تیرے | چین اور سکھ قبضے میں ہے تیرے |
ہلتے ہیں پتے تیرے ہلائے | کھلتے ہیں غنچے تیرے کھلائے |
مٹھی میں ہیں تیری ہوائیں | قابو میں ہیں تیرے گھٹائیں |
تجھ سے ہے دریاؤں کی روانی | تیرے بہائے بہتے ہیں پانی |
جھیل سمندر پربت رائی | کہنے میں ہے سب تیرے خدائی |
ناتہ، رشتہ، نسبت، شادی | سوگ، رنڈاپا، قید، آزادی |
قوم کی ریتیں، دیس کی رسمیں | کیا ہے وہ جو تیرے نہیں بس میں |
کام کوئی مشکل نہیں تجھ کو | ایک یہ کیا، گر تیری خوشی ہو |
سوت لگے پتھر سے نکلنے | ناؤ لگے ریتی میں چلنے |
(12)
اے عزت اور عظمت والے | رحمت اور عدالت والے |
دکھڑا تجھ سے یہ کہنا دل کا | اک بشریت کا ہے تقاضا |
دل پہ ہے جب برچھی کوئی چلتی | آہ، کلیجے سے ہے نکلتی |
جب کوئی دکھ یاد آجاتا ہے | جی بے ساختہ بھرآتا ہے |
ورنہ ہے اس دنیا میں دھرا کیا | خواب کا سا اک ہے یہ تماشا |
دکھ سے ہے یہاں کے گھبرانا کیا | سکھ پہ ہے یہاں کے اترانا کیا |
عیش کی یہاں مہلت ہے، نہ غم کی | سب یہ نمائش ہے کوئی دم کی |
آنی جانی چیز ہیں خوشیاں | چلتی پھرتی چھاؤں ہیں ارماں |
منگنی، بیاہ ، برات اور رخصت | میل ملاپ، سہاگ اور سنگت |
ہیں دو دن کے سب بہلاوے | آگے چل کرہیں چل کر ہیں پچھتاوے |
ریت کی سی دیوار ہے دنیا | اوچھے کا سا پیار ہے دنیا |
بجلی جیسی چمک ہے اس کی | پل دو پل کی جھمک ہے اسی |
پانی کا سا ہے یہ پچارا | جگنو کا سا ہے چمکارا |
آج ہے یہاں جنگل میں منگل | کل سنسان پڑا ہے جنگل |
آج ہے میلا ہر دم دونا | اور کل گاؤں پڑا ہے سونا |
آج ہے رہنے کی تیاری | اور کل ہے چلنے کی باری |
آج ہے پانا کل ہے کھونا | آج ہے ہنسنا کل ہے رونا |
کبھی ہے بادھا، کبھی ہے | کبھی جوار اور کبھی ہے بھاٹا |
ہار کبھی اور جیت کبھی ہے | اس نگری کی ریت یہی ہے |
ساتھ سہاگ اور سوگ ہے یاں کا | ناؤ کا سا سنجوگ ہے یاں کا |
خوشی میں غم یہاں ملا ہوا ہے | امرت میں بس گھلا ہوا ہے |
سیر کو جو اس باغ میں آئیں | دیکھ کے پھل کو ہاتھ لگائیں |
یہاں ہر پھل اندراین کا ہے | دیکھنے چکھنے میں برا ہے |
عیش جنہوں نے سدا اڑائے | وہ بھی ہیں آخر کو پچھتائے |
رہے ہیں گر کر چڑھے ہیں جو یہاں | گھٹے ہی آخر بڑھے ہیں جو یہاں |
جو بیاہے وہ ہیں پچھتاتے | بن بیاہے ہیں بیاہ مناتے |
اس پھل کا ہے یہی پریکھا | جو نہیں چکّھا وہی ہے میٹھا |
خوش نہ ہوں خوشیوں کے متوالے | ہیں یہ نشے سب اترنے والے |
غم کی گھٹا آتی ہے گرجتی | گھڑی میں یہاں گھڑیال ہے بجتی |
رہ گیروں کا بندھا ہے تانتا | ایک آتا ہے ایک ہے جاتا |
جو آئے ہیں، ان کو ہے جانا | جو گئے ان کو پھر نہیں آنا |
خواہ ہو رانڈ، اور خواہ سہاگن | موت ہے سب کی جان کی دشمن |
ایک ہے گو آج ایک سے بہتر | مرگئیں جب دونوہیں برابر |
اور کوئی گر انصاف سے دیکھے | مرکے اسے نسبت نہیں اس سے |
عیش گئی وہ چھوڑ کے یہاں کے | قید گئی یہ کاٹ کے یہاں سے |
اِس کو پڑی کل، اُس کی گئی کل | یہ گئی ہلکی، وہ گئی بوجھل |
اُس کا دل اس دنیا سے اُٹھانا | ہے ناخن سے گوشت چھٹانا |
جان یہ آساں دیتی ہے ایسی | بو ہے نکلتی پھول سے جیسی |
غم ہو غرض، یا عیش ہو، کچھ ہو | ہے ہمیں جانا چھوڑ کے سب کو |
تیرے سوا یاں اے مرے مولا | کوئی رہا ہے اور نہ رہے گا |
پڑی تھی سونی جب یہ نگریا | تیری ہی تھی یہاں کھڑی ایڑیا |
پھر یہ نگریا اُجڑ کے ساری | تیری ہی رہ جائے گی اٹاری |
تھا نہ کچھ آگے تیرے سوا یہاں | اور رہے گا کچھ نہ سدا یہاں |
یہاں کوئی دن دُکھ پایا تو کیا | اور کوئی دم سُکھ پایا تو کیا |
اب نہ مجھے کچھ رنج کی پروا | اور نہ آسائش کی تمنّا |
چاہتی ہوں اک تیری محبت | اور نہیں رکھتی کوئی حاجت |
گھونٹ اک ایسا مجھ کو پلا دے | تیرے سوا جو سب کو بھلا دے |
آئے کسی کا دھیان نہ جی میں | کوئی رہے ارمان نہ جی میں |
فکر ہو اچھی کی، نہ بری کی | تیرے سوا دھن ہو نہ کسی کی |
کوئی جگہ اس دل میں نہ پائے | یاد کوئی بھولے سے نہ آئے |
سینہ یہ تجھ سے بھرا ہو سارا | مِیت سمائے اس میں نہ پیارا |
دل نے بہت یہاں مجھ کو ستایا | موت کو برسوں مزا چکھایا |
خواب میں دیکھ اک سانگ نرالا | آگ میں جیتے جی مجھے ڈالا |
میر اور اپنا چین گنوایا | آپ جلا اور مجھ کو جلایا |
اٹھ نہیں سکتے مجھ سے اب اک دم | یہ دنیا کے ناشدنی غم |
دل میں لگن بس اپنی لگا دے | سارے غم اپنے غم میں کھپا دے |
غیر کے رشتے توڑ دے سارے | دل کے پھپولے پھوڑ دے سارے |
جب مجھے تنہا کیا ہے پیدا | تو مجھے بندھوا کر نہ کسی کا |
وہاں سے اکیلی آئی ہوں جیسی | ویسی ہی یہاں سے جاؤں اکیلی |
ساتھ کوئی غم لے کے نہ جاؤں | تیرے سوا کھودوں جسے پاؤں |
دل نہ پھرے دنیا میں بھٹکتا | کوئی رہے کانٹا نہ کھٹکتا |
جی سے نشاں پیاروں کا مٹادوں | پیار کے منہ کو آگ لگا دوں |
تو ہی ہو دل میں توہی زباں پر | مارکے جاؤں لات جہاں پر |
پاؤں تجھے ایک اک کو گنواکر |
خاک میں جاؤں سب کو ملا کر |
*****
Shukriya Bhai
نوازش