نظم نشاطِ امید : الطاف حسین حالی

آپ الطاف حسین حالی کی نظم "نشاطِ امید” پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔ کچھ مشکل الفاظ کے معانی نظم کے نیچے درج ہیں آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

نظم نشاطِ امید

الطاف حسین حالی

اے مری دل سوز میری کارسازاے مری امید میری جاں نواز
درد و مصیبت میں مری تکیہ گاہمیری سپر اور مرے دل کی پناہ
کوہ میں اور دشت میں میری رفیقعیش میں اور رنج میں میری شفیق
تھامنے والی دل ناکام کیکاٹنے والی غم ایام کی
تیرے دلاسے سے ملا ہم کو سکھدل پہ پڑا آن کے جب کوئی دکھ
تو نے اٹھایا نہ کبھی سر سے ہاتھتو نے نہ چھوڑا کبھی غربت میں ساتھ
کھول دیے تو نے قناعت کے گنججی کو ہو کبھی اگر عسرت کا رنج
تجھ سے ہے بیمار کو جینے کی آستجھ سے ہے محتاج کا دل بے ہراس
عاشق مہجور کا ایماں ہے توخاطر رنجور کا درماں ہے تو
چاہ میں یوسف کی دل آرا تھی تونوح کی کشتی کا سہارا تھی تو
پانڈو کے بھی ساتھ پھری بن میں تورام کے ہمراہ چڑھی رن میں تو
تھام لیا جب کبھی گھبرایا دلتو نے سدا قیس کا بہلایا دل
پر ترے فقروں پہ رہا خوش مدامہو گیا فرہاد کا قصہ تمام
ہیر تھی فرقت میں بھی گویا کہ پاستو نے ہی رانجھے کی یہ بندھوائی آس
مشکلیں آساں نظر آتی ہیں سبہوتی ہے تو پشت پہ ہمت کی جب
سات سمندر سے گزرنا ہے باتہات میں جب آ کے لیا تو نے ہات
کہتا ہے وہ یہ ہے عرب اور عجمساتھ ملا جس کو ترا دو قدم
سامنے ہے تیرے گیا اور پراگگھوڑے کی لی اپنے جہاں تو نے باگ
گنبد گردوں نظر آتا ہے پستعزم کو جب دیتی ہے تو میل جست
سمجھے کہ مٹھی میں ہے سارا جہاںتو نے دیا آ کے ابھارا جہاں
بندے کو اللہ سے دے تو ملاذرے کو خورشید میں دے کھپا
دین کی تو اصل ہے دنیا کی جڑدونوں جہاں کی ہے بندھی تجھ سے لڑ
تو نہ ہو تو جائیں نہ نیکی کے پاسنیکیوں کی تجھ سے ہے قائم اساس
تو نہ ہو تو حق کی پرستش نہ ہودین کی تجھ بن کہیں پرسش نہ ہو
تو نے لگائے ہیں یہ سب پھول پھلخشک تھا بن تیرے درخت عمل
گاہ دکھاتی ہے شراب طہوردل کو لبھاتی ہے کبھی بن کے حور
روز نرالا ہے تماشا ترانام ہے سدرہ کبھی طوبیٰ ترا
جلوے ہیں سب تیرے یہ بے قال و قیلکوثر و تسنیم ہے یا سلسبیل
ہے کہیں فردوس کہیں ہے سورگروپ ہیں ہر پنتھ میں تیرے الگ
ایک نہ چھوٹی تو نہ چھوٹی امیدچھوٹ گئے سارے قریب اور بعید
تیرے ہی صدقے سے ملا تاج و تختتیرے ہی دم سے کٹے جو دن تھے سخت
تو نہ ہو تو کام ہوں دنیا کے بندخاکیوں کی تجھ سے ہے ہمت بلند
تو نہ ہو تو ہو ابھی برہم جہاںتجھ سے ہی آباد ہے کون و مکاں
ہے کوئی اکسیر کو کرتا تلاشکوئی پڑتا پھرتا ہے بہر معاش
ایک کو دل دار کی ہے لو لگیاک تمنا میں ہے اولاد کی
دھوم سے اولاد کی شادی رچائےایک کو ہے دھن جو کچھ ہاتھ آئے
کل کی ہے یہ فکر کہ کھائیں گے کیاایک کو کچھ آج اگر مل گیا
جس میں ہو ان کے لیے انجام نیکقوم کی بہبود کا بھوکا ہے ایک
جس نے کیا دل سے جگر تک ہے شقایک کو ہے تشنگیٔ قرب حق
لاکھ اگر دل ہیں تو لاکھ آرزوجو ہے غرض اس کی نئی جستجو
گل کوئی ہونے نہیں پاتا چراغتجھ سے ہیں دل سب کے مگر باغ باغ
کہتی ہے جب تو کہ اب آئی مرادسب یہ سمجھتے ہیں کہ پائی مراد
تو نے دیے ہیں اسے کیا کیا فروغوعدہ ترا راست ہو یا ہو دروغ
رکھتی ہے ہر ایک کو خورسند تووعدے وفا کرتی ہے گو چند تو
تو نے کہاں سیکھی ہے یہ آج کلبھاتی ہے سب کو تری لیت و لعل
بزم عزا کو طرب آگیں کرےتلخ کو تو چاہے تو شیریں کرے
رکھے غنی اس کو رہے جس کے پاسآنے نہ دے رنج کو مفلس کے پاس
سیکڑوں کرتی ہے اتار اور چڑھاؤیاس کا پاتی ہے جو تو کچھ لگاؤ
ٹوٹنے دیتی نہیں طالب کی آسآنے نہیں دیتی دلوں پر ہراس
خوش ہیں توقع پہ وہ زر بفت کیجن کو میسر نہ ہو کملی پھٹی
بیٹھے پکاتے ہیں خیالی پلاؤچٹنی سے روٹی کا ہے جن کی بناؤ
گھوڑا جو سبزہ ہو تو نیلا ہو طوقپاؤں میں جوتی نہیں پر ہے یہ ذوق
دیکھتے ہیں جھونپڑے محلوں کے خوابفیض کے کھولے ہیں جہاں تو نے باب
دل میں نہیں چھوڑتے صبر و شکیبتیرے کرشمے ہیں غضب دل فریب
پھونک دیا کان میں کیا جانے کیاتجھ سے مہوس نے جو شوریٰ لیا
لگ گیا گھن نخل برومند کودل سے بھلایا زن و فرزند کو
ایسی کچھ اکسیر کی ہے لو لگیکھانے سے پینے سے ہوا سرد جی
دھن ہے یہی رات دن اور صبح شامدین کی ہے فکر نہ دنیا سے کام
شہہ کو سمجھتا ہے اک ادنیٰ گدادھونکنی ہے بیٹھ کے جب دھونکنا
پوچھتا یاروں سے ہے سونے کا بھاؤپیسے کو جب تاؤ پہ دیتا ہے تاؤ
رہ گئی اک آنچ کی باقی کسرکہتا ہے جب ہنستے ہیں سب دیکھ کر
تو نے دیا عقل پہ پردہ سا ڈالہے اسی دھند میں وہ آسودہ حال
کوئی خوشی اس کو نہ پہنچے کبھیتول کر گر دیکھیے اس کی خوشی
جن کے پیروں میں تھا کبھی تاج و تختپھرتے ہیں محتاج کئی تیرہ بخت
ملتی ہے مشکل سے انہیں نان جوآج جو برتن ہیں تو کل گھر گِرو
ساری خدائی میں ہے لے دے کے آستیرے سوا خاک نہیں ان کے پاس
صاحب عالم انہیں کہیے اگرپھولے سماتے نہیں اس آس پر
جھوٹے کو ہو تخت نہ یارب نصیبکھاتے ہیں اس آس پہ قسمیں عجیب
آتی ہے حسرت کی گھٹا جھوم جھومہوتا ہے نومیدیوں کا جب ہجوم
حوصلہ کا لگتا ہے جی چھوٹنےلگتی ہے ہمت کی کمر ٹوٹنے
عرصۂ عالم نظر آتا ہے تنگہوتی ہے بے صبری و طاقت میں جنگ
پھاڑ کے یا کپڑے نکل جائیےجی میں یہ آتا ہے کہ سم کھائیے
یاس ڈراتی ہے چھلاوے کی طرحبیٹھنے لگتا ہے دل آوے کی طرح
اڑتا ہے خاکہ کبھی تدبیر کاہوتا ہے شکوہ کبھی تقدیر کا
ہوتی ہے قسمت کی ہنسائی کبھیٹھنتی ہے گردوں سے لڑائی کبھی
کرتی ہے ان مشکلوں کو تو ہی حلجاتا ہے قابو سے آخر دل نکل
رخت سفر یاس نے باندھا وہیںکان میں پہنچی تری آہٹ جو ہیں
ہو گئی کافور سب افسردگیساتھ گئی یاس کے پژمردگی
چھوڑیو حالیؔ کا نہ ساتھ اے امیدتجھ میں چھپا راحت جاں کا ہے بھید

الفاظ و معانی

سپر: ڈھال، آڑ، محافظ

تکیہ گاہ: سہارے کی جگہ

عُسرت: تنگ دستی، تہی دستی
گنج: خزانہ
ہراس: خوف، دہشت، ناامیدی

رنجور: غمگین، حزیں
درماں:  علاج، دوا دارو

مہجور: فراق زدہ، فرقت زدہ

دل آرا: دل ربا

رن: جدال و قتال

جست: کود، چھلانگ
گردوں: فلک، آسماں

ابھارا دینا: حوصلہ دینا، جوش دلانا

پرسش: پوچھ ، باز پرس

پنتھ: مذہب،راستہ

خاکی: انسان

تشنگی: آرزو، چاہ، تمنّا
شق: پھاڑنا

خورسند: شاد، بہت خوش، مسرور

لیت و لعل: حیلہ ، ٹال مٹول، بہانہ

عزا: ماتم

طرب آگیں: خوشی سے پر
آگیں: لاحقہ، لت پت، مالا مال، بھرا ہوا، پر

زربفت: سونے اور ریشم کے تاروں سے بنا ہوا کپڑا

شکیب: تحمل

مَہَوِّس: لالچی، کیمیاگر

نخل: درخت ، کھجورکا درخت
برومند: پھل دار، بار آور

تاؤ دینا؛ آنچ دینا

تیرہ بخت: بدبخت

عرصہ: میدان
عرصہ عالم : روئے زمین

آوے: کمھار کی بھٹی
چھلاوا: دغاباز ، چھل دینے والا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!