نظم شبِ قدر : محمد حسین آزاد

آپ محمد حسین آزاد کی نظم “شبِ قدر” پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

نظم شبِ قدر

محمد حسین آزاد

نظمِ آزاد: اس کے سرِ ورق پر لکھا ہے کہ “نظمِ آزاد جو حُسن و عشق کی قید سے آزادر ہے “نظم آزاد” پہلی بار 1899ء میں شائع ہوئی۔ اس مجموعہ میں وہ لیکچر جو 15 اگست کو نظم اور کلامِ موزوں کے باب میں خیالات کے موضوع پر انجمن پنجاب کے جلسہ میں دیا گیا تھا، شامل ہے۔ دوسری بار یہ مجموعہ 1910ء میں آزاد بُک ڈپو لاہور سے شائع ہوا۔

عالم کے کاروبار میں دن بھر ہے تواے آفتاب صبح سے نکلا ہوا ہے تو
دن گرم ہو کی سرد سفر اس کا کام ہےہر چند شہسوار کو گردش مدام ہے
رخسار تابناک پہ  کلفت کی گرد ہےپر دیکھتا ہوں میں کہ تیرا رنگ زرد ہے

گردشِ مدام: مسلسل گردش تابناک: چمک دار کلفت: بے چینی، بے تابی، بے قراری

اور تو بھی ہے تھکا ہوا دن بھر کے کام میںاے آفتاب دہر بہت کم ہے شام میں
سو رہ  لحاف ابر میں  منھ کو لپیٹ کیدامن میں کوہسار کے  تا صبح لیٹ کے
کیسی زمیں  کہ گنبد چرخ بریں تمامروشن تھا تیرے نور سے روئے زمین تمام

کوہسار: پہاڑی علاقہ، سنگلاخ ابر: بادل چرخِ بریں: ساتویں آسمان

دنیا کا کاروبار تھا آئینہ ہو رہاعالم تھا تجھ سے نور کا گنجینہ ہو رہا
اور اس چمن کا رنگ بدلنا بہار ہےپر جانتا ہے تو فلک سبزہ زار ہے
دن بھاگا جاتا کہ گریزا گریز ہےرخصت ہو تو  کہ آتی شب مشک ریزہے

گنجینہ: خزانہ

سبزہ زار: ہرا بھرا جنگل، چراگاہ

مشک ریز: مشک بکھیرنے والی

گریزاں: بھانگنے والا

گریز: بھاگنے والا، (گریختن: بھاگنا)

اور دن کا حکم رات سے ہوگا بدل یہاںاب ہوگا شاہزادی شب کاعمل یہاں
عالم میں شاہ زادی مشکے نسب ہیں توآ  اے شب سیاہ کہ لیلاے شب ہے تو
قانون سلطنت تیرا آرام عام ہےتو اپنے انتظام  میں راحت نظام ہے

نسب: اصل

جو چاہے دیکھ لیوے زمیں آسمان میںچلتا ہے تیرا حکم اندھیرے جہان میں
لیتے سب اس کو آنکھوں پہ ہیں بلکہ جان پرفرما جو تیرا ہوتا ہے جاری جہان پر
گویا کہ مشک اُڑتی ہے عنبر بکھیرتیتو رنگِ حُکم ہے جو زمانے پر پھیرتی
 پوشاک پرنیان و حیریر ِ سیاہ کیمنہ پر ترے نقاب پڑی دودِ آہ کی
گویا کہ ہے نشاں کا پھریرا کُھلا ہوادامانِ حشر سے ترا دامن بندھا ہوا
اُڑتا ہے تیرا تختِ رواں آبنوس کاجلوہ عجب ہے تیرے شہانے جلوس کا

دودِ آہ: ٹھنڈی سانس

دود: آہ بھرنا، اطمینان کا سانس لینا، بے چین ہونا

پرنیان: ایک قسم کا پھول دار ریشم جو چین سے آتا ہے

پھریرا: جھنڈے کا کپڑا

آبنوس: ایک قسم کا درخت جس کی لکڑی نہایت سیاہ وزنی اور مضبوط ہوتی ہے نیز پانی میں ڈوب جاتی ہے۔

ہر گو ہر اُس میں ملکِ حبش کا خراج ہے۔اے رات سُنتا ہوں کہ ترے سر پہ تاج ہے
ایسا سیاہ ہے کہ نظر آتا کچھ نہیںہوں پوچھتا مگر کوئی بتلاتا کچھ نہیں
پر وہ دَمک ہے تجھ میں کہ جس میں کرن نہیںہر چند حُسن مہر میں کیا کیا پھبن نہیں

خراج: محصول، لگان، نذرانہ

مِہر: سورج

پھبن: آرائش و زیبائش، سجاوٹ

اور کھِلتے آسماں پر ستاروں کے باغ ہیںروشن تجھی سے روے زمیں پر چراغ ہیں
شبنم سے تیرا فیضِ کرم آشکار ہےبجلی ہنسی تو اُس کی تجھی سے بہار ہے
کھاتا فلک ہے تاروں بھری رات کی قسماے رات سلطنت کا تری دیکھ کر حشم
اور ہوں خیال کرتا زمین و آسمان پراس وقت میں جو غور ہوں کرتا جہاں پر
ہے وہ مثل کہ رات ہے یا حق کی ذات ہےہوں دیکھتا کہ چاروں طرف چھائی رات ہے
تو ہے کہ سائیں سائیں ہے کرتی کھڑی ہوئیخلقت خدا کی سوتی ہے غافل پڑی ہوئی
ماہی بزیر آب ہے طائر درخت پرسوتا گدا ہے خاک پہ اور شاہ تخت پر

ماہی: مچھلی

طائر: پرندہ

دامن پہ دشت کے کوئی سویا سفر میں ہےآرام کے بچھونے پہ یاں کوئی گھر میں ہے
اورسوگیا ہے راہزنِ نابکار بھیگھوڑے پہ ہے گا اونگتا جاتا سوار بھی
اور کاٹنا کٹھن ہے کہیں غم کی رات کاہے مست نیند میں کوئی دولھا برات کا

راہزن: لٹیرا، راہ مار، ڈاکو، جیب کترا

نابکار: بے مصرف، بے فائدہ، بے جا، بے سود

اور آپ مارے نیند کے جھوکے ہے لے رہازاہد مراقبہ کا ہے دم سب کو دے رہا
اور کوئی مست ہے کہ ہے یکدست اینڈتاانگڑائی لے کے ہے کوئی خوش مست اینڈتا
عورت ہے یا کہ مرد جواں ہے کہ پیر ہےالقصّہ ہے امیرکہ کوئی فقیرہے

اینڈنا: بیکاری میں پڑے پڑے کروٹیں بدلنا، اور وقت گزارنا، بدن کو تاننا، انگڑائیاں لینا

یکدست: ایک ہاتھ سے، جوں کا توں، ایک سا، ایک جیسا

القصہ: غرض یہ کہ، حاصلِ کلام، مختصرا یہ کہ، لب لباب

سب آگئے ہیں نیند کی اس دام لپیٹ میںبچّہ کہ ماں کی گود میں ہے بلکہ پیٹ میں
دریا بھی اب تو چلنے سے شاید ہو تھم گیاسونے کو مہر بھی ہے بہ خوابِ عدم گیا
اور اتنی روشنائی کہاں سے بہم کروںاے رات تیری وصف کہاں تک رقم کروں

دام: جال

مِہر: خورشید

بہم کرنا: جمع کرنا، حاصل کرنا، مہیا کرنا

بیٹھا تھا جس کا سکّہ زمیں آسمان پروہ آفتاب تھا جو چمکتا جہان پر
رکھ کر کِرن کا تاج نکلتا تھا شرق سےکھولے ہوئے شفق کا نشاں زرق برق سے
سکّہ ہے اب ستاروں پہ اور تیرا نام ہےاس کے عمل کو توڑنا تیرا ہی کام ہے
چاندنی تھا اُس کا حکم تو سونا عمل ہے ترامحنت ثمر تھا اُس کا تو راحت ہے پھل ترا
اور پاؤں تک سروں کے پسینے بہا رہےمزدور تھے جو دن کو مصیبت اُٹھا رہے
جب چار پیسے شام کو لے گھر میں آئے ہیںسو سو طرح کے بار دلوں پہ اُٹھائے ہیں

ثمر: پھل

تیرے عمل میں پاؤں  ہیں سوتے پسار کےاے شب تمام دن کی مصیبت سے ہارکے
آوارہ تابشام ہیں شامت زدہ بہتدن بھر کے ہیں مسافرِ محنت زدہ بہت
رستے میں بوجھ تک نہیں رکھا اُتار کےآئے ہیں کوہ و دشت کی منزل کو مار کے

پسارنا: پھیلانا

شامت زدہ: خستہ حال، خراب حال، پریشان حال، مصیبت زدہ

منزل مارنا: مسافت طے کرنا، مہم طے کرنا، مشکل حل کرنا

اِس وقت اُن بچاروں نے آرام پایا ہےڈالا جو تو نے دامنِ رحمت کا سایہ ہے
دولت کے آسمان پہ بدرِ منیر ہیںاکثر امیر ہیں کہ یہاں بے نظیر ہیں
دن ہو کہ رات عیش کا بازارگرم ہےاُن کو خداکی یاد نہ بندوں کی شرم ہے

بے نظیر:بے جوڑ، بے بدل، بے مثال، بے مانند

بدرِ منیر: روشن چاند

کچھ رات کو گذارکے رقص و سرودمیںیاروں کے ساتھ اوّلِ شب کھیل کود میں
گویا کہ ہیں بچھونوں کے پیوند ہو رہےاب بند میں ہیں نیند کے یوں بند ہورہے
رکھتے ہوائے عیش سے دل باغ باغ ہیںاکثر امیر ہیں کہ شگفتہ دماغ ہیں

شگفتہ: خوش، خنداں ، نفیس، مفرح

اور شب کو جاکے دیکھئے تو شب برات ہےہے روز دہ باہرکہ نو روز مات ہے
پل بھر کی نیند کو ہیں ترستے تمام شبپر اَب نمک کا آنکھوں میں کرتی ہے کام شب
کانٹوں پہ لوٹ لوٹ کے کاٹیں گے رات کودیکھیں گے خواب میں بھی نہ لطفِ حیات کو

دہ: دس

نو روز: خوشی کا دن، سال کا پہلا دن

مات: بے رونق، بے رنگ

پر اس معاملہ میں وہ ان کا رقیب ہےاور برخلاف ان کے اِک آفت نصیب ہے
اور حق حلال کرکے گھر آتا ہے شام کودن بھر تو جاں کو توڑ کے کرتا ہے کام کو
کھایاہے اور مست پڑا ہے تنور پراب اپنے نانِ خشک کو پانی میں چور کر

رقیب: ہم چشم، ہم سر، بیری

چور کرنا: چھوٹے ٹکڑوں میں توڑنا

آئے جو حشر بھی تو چلے جوں نہ کان پرمردوں سے شرط باندھی ہے کمّل کو تان کر
یہ سب جہان کے لیے غفلت کا جام ہےلیکن نہ جاننا کہ جوآرامِ عام ہے
جو دن سے زیادہ رات کو مصروف کار ہیںبندے خداکے ایسے بھی یاں بیشمار ہیں

جام: شراب پینے کا ظرف، پیالہ

آتا ہے فصل پر کبھی جاتا ہے باب پرعالِم کو دیکھو محو ہے بیٹھا کتاب پر
ہو جیسے کوئی ڈھونڈتا سونے کو خاک میںلفظوں میں غور ہے کبھی مضمونِ پاک میں
کرتا ہے ردّ و قدح بہت جھوٹ موٹ کےلیکن کبھی مقاصدِ اصلی سے چھوٹ کے

ردوقدح: حجت کرنا

قدح:طعن و تشنیع، برا بھلا ، نکتہ چینی

دکھلاتا زور طبع ہے یعنی نئے نئےدیتا ہے لفظ لفظ کو معنی نئے نئے
کرلیتا دل ہی دل میں حساب و کتاب ہےپھر آپ ہی کچھ سوال ہے آپ ہی جواب ہے
بیٹھے ہیں امتحان کے دینے کی فکر میںہیں مدرسہ کے طالب علم اَور ذکر میں

زورِ طبع: مضمون آفرینی کی قوّت یااستعداد

کرتے کبھی مطالعہ ہیں اور طور سےکرتے کبھی سوال ہیں آپس میں دورسے
جس طرح پیٹھ جاتے ہیں کیڑے کتاب میںاس غور سے جُھکے ہوئے ہیں پیچ و تاب میں
کل کامیاب کون ہو ناکام کون ہوپر دیکھئے کہ لائق ِ انعام کون ہو

دور: سبق کو بار بار دہرانا

پیچ و تاب: بے چینی، بے قراری

پیٹھ جانا: داخل ہونا، پیوست ہونا، سرایت کرنا

کل اپنی اپنی جان ہے اور امتحان ہےپڑھ لو جو کُچھ کہ پڑھنا ہے شب درمیان ہے
آدھی ڈھلی ہے پروہ ابھی ہے دُکان میںاور وہ جو لکھ پتی ہے مہاجن جہان میں
بیٹھا ہے آگے سب بَہی کھاتا لیے ہوئےگنتی میں دام دام کے ہے دم دئے ہوئے

بہی کھاتا: کتابِ حساب، پرانا حساب کتاب، اکاؤنٹ بک

پرسوئے کیاکہ بِد نہیں ملتی چھدام کیہے سارے لین دین کی میزاں تمام کی
اس وقت چور بھی ہے کہیں اپنی تاڑ میںاے رات تیرے پردہ دامن کی آڑ میں
دیتا کہیں نقب ہے کہیں چھت کو پھاڑتادیوار کُد جاتا ہے اور چُول اُکھاڑتا

چول: وہ چھید جس میں کواڑ پھرتا ہے

ہے چُپکے چُپکے دیکھ رہا کھول کھول کراسباب سب اندھیرے میں گھر کا ٹٹول کر
پر میرے دل میں آتا یہ رہ رہ کے دھیان ہےوہ تو یہاں نچوڑ رہا اُس کی جان ہے
ہوتی ہے مفت دزد شقی کے نصیب کییعنی کہ عمر بھر کی کمائی غریب کی

اسباب: سامان

دُزد: راہزن

شقی: بدبخت

حق ہے کہ تو ہی دیتا ہے اور توہی لیتا ہےپروردگار کون بھلاکس کو دیتاہے
ہے غافل اُس کے وارسے یہ نابکار بھیلیکن ہے اُس کی گھات میں اک چوکیدار بھی
سو دن تو چور کے ہیں پر اک دن ہے ساہ کاجب صبر پڑگیا کسی بیکس کی آہ کا

نابکار: نکٹو، بےکار

ساہ: ایماندار

بیٹھا ہے دور بین لیے اپنی گھات میںاور صاحبِ نجوم اسی کالی رات میں
اور مِٹ رہا ہے چاند گہن کے حساب پرایک آنکھ آسمان پہ ہے اک کتاب پر
پر اَب تو فکر ہے یہی دن بھر تمام راتکٹتی ہے اُس کی تار ے ہی گِن کر تمام رات
لیکن جو ہووے جلد مرتّب تو عید ہےاک جنتری بناؤں کہ سالِ جدیدہے
شاعر بجاے خواب ہے پُر پیچ و تاب میںعالم ہے سوتا بسترِ راحت پہ خواب میں
دولت کی آرزو ہے نہ اقبال کی ہوساُس کو نہ ملک کی ہے نہ ہے مال کی ہوس

اقبال: جاہ و مرتبہ، طالع مندی

اور سر پہ آدھی رات اِدھر آدھی اُدھرہے اپنے ذوق شوق میں بیٹھا جُھکائے سر
کرتا یہی خدا سے دعا بار بار ہےپھیلائے ہاتھ صورتِ امیدوار ہے
 ہے تجھ سے التجا تو یہی التجا مجھےیارب نہیں ہے دولت و زر کی دعا مجھے
وہ بات دے زباں پہ کہ دل میں اثر کرےمیرے سخن کو خلق میں تو کارگر کرے
اس وقت گھر میں بیٹھا جلائے چراغ ہےاور کوئی شاعر ایسا بھی روشن دماغ ہے
اُڑتا مگر ہے کھولے ہوئے پر خیال کےڈوبا ہوا ہے سر کو گریباں میں ڈال کے
یُوں لاتا آسماں سے ہے مضموں اُتار کرجس طرح باز لائے کبوتر کو مار کر
پھر ہے زمیں کی تہ میں اُترجاتا غور سےلڑجاتا ذہن ہے جو کبھی اور طور سے
لاتا ہے صاف گوہر ِ مضموں نکال کےاورواں کے ذرّہ ذرّہ کو سب دیکھ بھال کے

گوہر: موتی

نکتا جو ایک بھی کوئی اُس آن مِل گیایوں خوش ہے جیسے تختِ سلیمان مِل گیا
کرتا ہے اُس کو نظم پھر ایسے قرینے پرجس طرح کوئی نقش بٹھائے نگینے پر
اور اس اندھیری رات میں شاعر جو چورہےپھرتا ٹٹولتا ہوا مانند کور ہے

کور: بے بصر،نابینا

مضموں اُڑ ا رہا کسی شعر و غزل کےہےلاتا مگر کچھ ایسا لفافہ بدل کے ہے
سننے سے جس کے آنکھوں میں سرسوں سی پھول جائےدیکھے جو خود بھی صاحبِ مضموں تو بھول جائے
اے رات یہ جو تونے سرِ شام آن کرسجادہ سیاہ بچھایاہے تان کر

سجادہ: مصلیٰ، مسندِ ارشاد

اس پر وہ حق پرست کہ یادِ خدامیں ہےبیٹھا خدا کی یاد میں خوف و رجا میں ہے
اُس کو اُسی کی ذات سے ہے لگی ہوئیاور دل میں ہے فقط یہ تگ و دو لگی ہوئی
کیوں کر یہ شعلہ شمعِ تعلق سے چھوٹ کےہووصل نور پاک میں پھر ٹوٹ پھوٹ کے

تگ و دو: سخت محنت

دریا میں چل رہا کہیں اس دم جہاز ہےاہلِ جہاز جن کا خداکارساز ہے
بیٹھے اُسی کی آس پہ ہیں دل دھرے ہوئےسینوں میں لاکھ حسرت و ارماں بھرے ہوئے
بادِ مراد دیتی ہوائے مراد ہےطوفان کا خطر مگر اُس سے زیادہ ہے
اس واسطے نظر ہے کبھی بادبان پرحسرت سے دیکھتے ہیں کبھی آسمان پر
یہ سب کے سب ہیں بیٹھے ہواکی امید میںاور ناخدا ہے بیٹھا خدا کی امید میں
ماں کو جو اپنے بچے سے اُلفت کمال ہےاس دم بھی دیکھو اُس کو اُسی کا خیال ہے
ہر چند کام کاج میں ہے گھر کے تھک رہیپر اُس کو ہاتھ سے ہے برابر تھپک رہی
سوتی پڑی خدا کی خدائی تمام ہےوہ اپنی میٹھی نیند کو کرتی حرام ہے
کہتی ہے یہ کہ مجھ کو پڑے یا نہ کل پڑےایسا نہ ہو کہ چونک کے بچّہ اُچھل پڑے
کل: سکون، چین
ماں کو تو سوتے جاگتے اس کا ہی دھیان ہےکروٹ نہیں بدلتی کہ ننھی سی جان ہے
پرجاے حیف حال اُسی جاں بلب کا ہےسب کہہ رہے ہیں جس کو کہ مہمان شب کا ہے
دن بھر دوا غذا میں رہا غیر حال ہےلیکن ہے اب یہ حال کہ ہِلنا محال ہے
بتّی چراغ ِ عمر کی ہے جِھلملارہیاور بیکسی سرہانے ہے آنسو بہارہی
اے رات مجھ کو دھیان یہی بار بار ہےاس کی تو زندگی کوئی دم کاشمار ہے
کون اُس کا ساتھ دیویگا ہو صبح جب تلکروئیگاکوئی شام کے مردے کوکب تلک
آزاد خوب لطف دیا تیری بات نےپرلی اب آسمان پہ کروٹ ہے رات نے
سب اپنے اپنے کام میں ہیں دل دئے ہوئےتو ایسا کیوں ہے ساغرِ غفلت پئے ہوئے
کوئی گھڑی تو ہوش و خرد سے بھی کام لےوقتِ سحر قریب ہے اللہ کا نام لے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks