اردو کی ابتدا کے بارے میں مختلف نظریات
(محمد حسین آزاد، محمود شیرانی، نصیرالدین ہاشمی، مسعود حسین خاں، سید سلیمان ندوی، شوکت سبزواری)
اب یہ متیقن ہے کہ اردو ایک ہندآریائی زبان ہے، اس کے ماخذ سے متعلق مختلف ماہرین نے الگ الگ رائے دی ہے۔ پہلے ان ماہرین کا مختصر خاکہ دیکھ لیں۔
جائے مطبع | سن طباعت | کتاب | نظریہ | پیدائش و وفات | نظریہ کار |
1880 | آب حیات | برج بھاشا | 1830-1910 | محمد حسین آزاد | |
لاہور | 1928 | پنجاب میں اردو | پنجاب | 1880-1946 | محمود شیرانی |
1923 | دکن میں اردو | دکن | 1895-1964 | نصیر الدین ہاشمی | |
دہلی | 1948 | مقدمہ تاریخ زبان اردو | نواحِ دہلی/ کھڑی بولی | اٹھائیس جنوری 1919 سولہ اکتوبر 2010 | مسعود حسین خاں |
اعظم گڑھ | 1939 | نقوش سلیمانی | سندھ | 1884-1953 | سید سلیمان ندوی |
دہلی | 1960 | داستان زبان اردو | کھڑی بولی | 1905-1973 | شوکت سبزواری |
تاریخ پیدائش کے لحاظ سے ان ماہرین کی ترتیب
1919محمد حسین آزاد1830، محمود شیرانی1880،سلیمان ندوی1884، نصیرالدین1895، شوکت سبزواری1905، مسعود حسین خان
تاریخ وفات کے لحاظ سے ان ماہرین کی ترتیب
2010محمد حسین آزاد1910، محمود شیرانی1946،سلیمان ندوی1953، نصیرالدین ہاشمی 1964، شوکت سبزواری1974، مسعود حسین خاں
آئیے اب ان نظریات پر نظر ڈالتے ہیں
محمد حسین آزاد کا نظریہ : برج بھاشا
اردو کی ابتدا کے بارے میں محمد حسین آزاؔد (1832ء تا 1910ء) نے آب حیات میں جو بات کہی ہے اس کا بھی ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں
“اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے۔”
اردوکے برج سے ماخوذ ہونے کا نظریہ سب سے پہلے ہند آریائی لسانیات کے ایک بڑے ماہر روڈولفہیورنلے نے پیش کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں
“اردو مقابلۃً حال کی پیداوار ہے۔ دہلی کے نواح میں، جو مسلم اقتدار کا مرکز تھا اردو بارہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئی۔ یہ علاقہ برج، مارواڑی، پنجابی کے لیے سنگم کی حیثیت رکھتاہے۔ مقامی باشندوں اور مسلمان سپاہیوں کے اختلاط و ارتباط سے ایک ملی جلی زبان وجود میں آئی جو صرفی، نحوی اصول کی حدتک برج ہے، اگرچہ اس میں پنجابی اور مارواڑی کی آمیزش بھی ہے۔ اس کے کچھ الفاظ دیسی ہندی ہیں اور کچھ بدیسی یعنی فارسی و عربی۔”
محمد حسین آزاد اور ہیورے کے علاوہ کئی اور مصنفین بھی اردو کو برج کے ساتھ منسوب کرنے میں پیش پیش رہے ہیں، مثلاً آزاؔد سے قبل میر امّن، سر سیداحمد خاں اور امام بخش صہبائی، اور آزاد کے بعد سیّد شمس اللہ قادری کے نام خاص طور پر لیے جاسکتے ہیں۔
اردو کے برج بھاشا سے نکلنے کی تنقید اور تردید محمود شیرانی نے “پنجاب میں اردو” (لاہور، 1928)میں، پروفیسر مسعود حسین خاں نے “مقدمہ تاریخ زبانِ اردو” (دہلی، 1948ء) میں اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نے داستانِ زبانِ اردو (دہلی ، 1923ء) میں نہایت کھل کر کی ہے۔ ان محققین نے برج بھاشا اور اردو کےتقابلی مطالعے اور لسانی تجزیے سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ ان دونوں زبانوں میں ماں بیٹی کا رشتہ نہیں بلکہ بہنوں کا رشتہ ہے۔ پروفیسر مسعود حسین خاں نے یہ بالکل درست فرمایا ہے کہ آزاد نے محض “روایتاً” برج کو اردو کا ماخذ بتایا ہے۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ آزاؔد ماہر السنہ نہیں تھے۔ وہ نواح ِ دہلی کی بولیوں کے نازک اختلافات سے بھی واقف نہیں تھے، اسی لیے انھوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں نہ تو کوئی دلیل پیش کی اور نہ ہی لسانی حقائق و شواہد سے بحث کی۔
مسعود حسین خاں نے کہا کہ “آزاد نے محض “روایتاً” برج کو اردو کا ماخذ بتایا ہے، کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ آزاد ماہر السنہ نہیں تھے۔” ۔
محمود شیرانی : پنجاب
حافظ محمود خاں شیرانی نے اس نظریے کو اپنی تصنیف پنجاب میں اردو (لاہور، 1928) میں بڑے مفصّل اور مدلّل انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
“اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کےساتھ دہلی جاتی ہے، اور چوں کہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔”
نصیرالدین ہاشمی : دکن
دکن میں اردو کے مصنف نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں
“بعض علماء اردو کی پیدائش علاقہ سندھ کو بیان کرتے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مالابار کا علاقہ بھی کھڑی بولی اردوکی پیدائش کا خطّہ کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ فتح سندھ سے بہت عرصہ
پیشتر اس علاقے میں عرب آباد تھے۔”
مسعود حسین خاں: (نواحِ دہلی)
شہر دہلی چار بولیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ بولیاں ہیں، ہریانی کھڑی بولی، برج بھاشا اور میواتی۔ ہریانی، دہلی کے شمال مغرب میں بولی جاتی ہے۔ دراصل یہ شہر جمنا کے مغرب میں ہریانی سے گھرا ہوا ہے۔ جمنا اور دہلی کے شمال مشرق میں کھڑی بولی کا چلن ہے۔ دہلی کے جنوب مشرق میں کچھ دور چل کر برج بھاشا مل جاتی ہے اور دہلی کے جنوب مغربی حصّے میں راجستھانی کی ایک بولی میواتی بولی جاتی ہے۔بہ قول پروفیسر مسعود حسین خاں اردو کے ارتقا میں اِن تمام بولیوں کے اثرات مختلف زمانوں میں پڑتے رہے ہیں۔ہریانی نے قدیم اردو کی تشکیل میں حصّہ لیا، کھڑی بولی نے جدید اردو کا ڈول تیّار کیا، برج بھاشا نے اردو کا معیاری لب ولہجہ متعین کرنے میں مدد دی اور میواتی نے قدیم اردو پر اپنے اثرات چھوڑے۔ اس ضمن میں مقدمہ تاریخ زبانِ اردو کے ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
“قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیراثر ہوئی ہے۔ اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں، اور جب پندرہویں صدی میں آگرہ دارالسلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھگتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام مقبول ہوجاتی ہے تو سلاطینِ دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعے درست ہوتی ہے۔”
“قدیم اردو جمنا پور کی ہریانی بولی سے قریب تر تھی۔ جدید اردو اپنی صرف و نحو کے اعتبار سے مرادآباد اور بجنور کے اضلاع کی بولی سے قریب تر ہے۔ برج بھاشا نے بعد کو اردو کا معیاری لب و لہجہ متعیّن کرنے میں ضرور مدد دی ہے۔ اِس سلسلے میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر لودھی کے عہد سے لے کر شاہ جہاں کے زمانے تک آگرہ ہندوستان کا پایہ تخت رہا ہے۔”
“جدید اردو کا معیاری لہجہ برج بھاشا کا تتبّع کرتا ہے۔”
یہ کس قول ہے؟
محمد حسین آزاد محمود شیرانی محیالدین قادری زور مسعود حسین خاں
جواب: مسعود حسین خاں
“قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست ہریانی کے زیراثر ہوئی ہے۔ اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑتے ہیں، اور جب پندرہویں صدی میں آگرہ دارالسلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھگتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام مقبول ہوجاتی ہے تو سلاطینِ دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعے درست ہوتی ہے۔”
یہ عبارت کس کتاب سے ماخوذ ہے؟
آب حیات
پنجاب میں اردو
ہندوستانی لسانیات
مقدمہ تاریخ زبان اردو
جواب: مقدمہ تاریخِ زبان اردو
“راجپوتوں کی دلّی، ڈلّی یا اپ بھرنشادبیات کی “ڈھلّی” ہریانے کے علاقے میں تھی جس سے کھڑی
بولی کی بہ نسبت میواتی زیادہ قریب تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد کو مغلوں کے عہد میں برج بھاشا اور کھڑی بولی کے اثرات اس پر غالب آجاتے ہیں۔”
پروفیسر مسعود حسین خاں نے جس بنیادی نظریے کی تشکیل کی ہے وہ یہ ہے کہ نواحِ دہلی کی یہ بولیاں اردو کا “اصل منبع اور سر چشمہ” ہیں، اور “حضرتِ دہلی” اس کا صحیح “مولد و منشا”۔ لیکن اردو کی ابتدا اس وقت تک ممکن نہ ہوسکی جب تک کہ شہاب الدینمحمّد غوری (وفات 1206ء) نے 1193ء میں دہلی کو فتح کرکرکے اسے اپنا پایہ تخت نہیں بنا لیا۔
سید سلیمان ندوی: (سندھ)
سید سلیمان ندوی (1884-1953ء) اپنی تصنیف نقوش سلیمانی (اعظم گڑھ ، 1929ء) میں اُردو کی جائے پیدائش سندھ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
“مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں، اس لیے قرینِ قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اُردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰوادیِ سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔”
ڈاکٹر شوکت سبزواری : (کھڑی بولی)
ڈاکٹر شوکت سبزواری (1895-1964ء) نے اپنی تصنیف داستانِزبانِ اردو (دہلی ، 1923ء) میں اردو کے آغاز و ارتقاسے متعلق اپنا ایک الگ نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق اردو کھڑی بولی سے ترقی پاکربنی ہے جو دہلی اور میرٹھ کے نواح میں گیارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔وہ لکھتے ہیں:
“اردو ہندوستانی سے ترقی پاکر بنی جو دہلی ، میرٹھ اور اس کے نواح میں بولی جاتی تھی۔ جب مسلمان فاتحانہ شان سے دہلی میں داخل ہوئے تو ہندوستانی ، دہلی کے بازاروں میں بول چال کی حیثیت سے رائج تھی ۔امیرخسروؔ، ابوالفضل، شیخ بہاءالدینباجن نے اسے دہلوی کہا۔ ہندو اہل علم عام طورسے برج ، بندیلی ، قنوجی وغیرہ بولیوں سے امتیاز کے لیے جو اس وقت”پڑی ” کہلاتی تھیں،کھڑی کے نام سے یادکرتے ہیں ۔ جب یہ زبان ترقی پاکر آگے بڑھی، مسلمانوں کی سرپرستی میں پروان چڑھی۔ ملک کے گوشے گوشے میں پہنچی، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تو ہندستانیکہلائی۔زبان بنیادی طورسے وہی رہی جو آج ہے اس کے نام ایک سے زیادہ تجویز ہوئے۔”
وہ مزید لکھتے ہیں: “ہندوستانی کے مولد کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ سب متفقہ طور سے اسے دہلی، اور میرٹھ کی زبان بتاتے ہیں، اردو اسکی ادبی شکل ہے اس زبان کو یہ نام بعد میں دیا گیا جب مسلمانوں کی سرپرستی میں بول چال کی زبان سے ترقی کرکے اس نے ادب و شعر کی زبان کا درجہ پایا۔”
“اردو کھڑی بولی سے ترقی پاکر بنی جس کی بابت عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ دہلی اور میرٹھ کے نواح میں بولی جاتی تھی۔”
ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹر سہیل بخاری اور ان کے تتبّع میں پروفیسر گیان چند جین کھڑی بولی کو
اردو کی اصل قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
“اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے ۔ کھڑی بولی دہلی اور مغربی یوپی کی بولی ہے۔ کس کی مجال نہیں کہ یہ کہہ سکے کہ یہ پنجاب کی زبان پنجابی کی اولاد ہے۔ اگر کھڑی بولی پنجابی سے نہیں نکلی تو اردو بھی پنجابی سے نہیں نکلی۔”
وہ مزید لکھتے ہیں: “میں شوکت سبزواری اور سہیل بخاری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ لسانیاتی نقطہ نظر سے اردو، ہندی، کھڑی بولی ایک ہیں۔ اردو کھڑی بولی کا وہ روپ ہے جس میں عربی فارسی الفاظ کسی قدر زیادہ اور تت سم سنسکرت الفاظ تقریبا نہیں کے برابر ہوتے ہیں لیکن اس خصوصیت کے باعث اردو کھڑی بولی سے علیحدہ زبان نہیں ہوجاتی۔”
حسین شیر پر سوار ہوکرسلیمان و نصیر کی شان و شوکت والے ورود مسعود پر استقبال کو گئے۔
Pingback: NTA UGC NET Urdu Complete Syllabus Urdu Literature
Pingback: جھار کھنڈ پبلک سرویس کمیشن (اردو) مکمل نصاب - Urdu Exams