وسطی ہندآریائی
سابقہ معلومات کا اعاد
ہندآریا ئی کے ارتقا کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے:۔
ہزار سال کا وقفہ (ویدک اور کلاسکل سنسکرت) | ۔1500ق م تا 500ق م | عہدِقدیم |
پندرہ سو سال کا وقفہ(پالی، پراکرت، اپ بھرنش) | ۔500 ق م تا 1000ء | وسطی ہندآریائی |
جدید بولیاں (مغربی، مشرقی وغیرہ) | ۔1000ء تاحال | جدید ہند آریائی |
یہی عام لسانیات از گیان چند جین اور اردو کی لسانی تشکیل میں مذکور ہے۔
مسعود حسین خاں کے مطابق:۔
ہزار سال کا وقفہ (ویدک و کلاسکل سنسکرت اور پالی) | ۔1500ق م تا 500ق م | ہندآریائی کا عہد ِقدیم |
گیارہ سو سال کا وقفہ(پراکرت) | ۔500 ق م تا600ء | وسطی ہندآریائی |
اپ بھرنش | ۔600ء تا1000ء | جدید ہند آریائی |
ان دونوں کے موازنہ سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ماہرین اور مسعود حسین خاں کی رائے میں چند اختلاف ہے۔
پہلا : دیگر ماہرین اور مسعود حسین خان دورمیں متفق ہیں لیکن مسعود حسین خاں بولی میں اختلاف کرتے ہیں ماہرین قدیم عہد میں صرف ویدک اور کلاسکل سنسکرت کو شمار کرتے ہیں لیکن مسعود حسین خاں پالی کو بھی اس دور میں شمار کرتے ہیں۔
ہندآریائی کا عہدِ جدید: 600 عیسوی تا 1000عیسوی(اپ بھرنش)
تعارف
سنسکرت کے زوال کے بعد 500 ق م سے پراکرتوں کا ظہور ہوتا ہے یہ دراصل ایک ایسی زبان تھی جو سنسکرت زبان میں تبدیلی کے نتیجے میں فطری طورپر ظہور پذیر ہوئی تھی۔
مسعود حسین خان لکھتے ہیں:۔
“اس عہد میں بھی ہندآریائی زبان کے ارتقا کی دو نمایاں شکلیں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف تو عوام کی بولیاں بُدھ اور جَین متوں کا سہارا لے کر تیزی کے ساتھ ادب پراکرتوں کی شکلیں اختیار کر رہی تھیں۔ ” (مقدمہ تاریخ زبان اردو، خان۔ مسعود حسین۔ ص: 18)
سنسکرت اعلی طبقے کی زبان بن چکی تھی۔ اسے دیوبانی کا درجہ بھی حاصل تھا۔ چنانچہ عوام میں پراکرت روز بروز مقبول ہوتی چلی گئی۔مسعود حسین کہتے ہیں “اس کے زوال کا سب سے بڑا سبب وہ مذہبی انقلاب تھا جو مہاویر سوامی (متوفّیٰ 468 ق م) اور مہاتما گوتم بدھ (متوفی 486 ق م) کی کوششوں سے ہندوستان میں نمودار ہوادونوں نے اپنے دھرموں کا پرچار اپنے یہاں کی مقامی بولیوں میں کیا۔ عوام نے اس کا استقبال کیا۔ اس طرح مذہب کا سہارا لے کر صوبائی بولیاں چمک اٹھیں اور سنسکرت سے ٹکرّ لینے لگیں۔ “
آگے وہ لکھتے ہیں:”سنسکرت کے پہلو بہ پہلو پراکرتوں کا بھی ارتقا ہوتا رہا۔ “
سنسکرت زبان میں تبدیلی رونما ہوئیں جن کے نتیجے میں پراکرتوں کا ظہور عمل میں آیا۔ ان لسانی تبدیلیوں کے پس منظر میں اردو زبان کے ارتقا کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ہندآریائی کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے وسطی ہندآریائی دور کہتے ہیں۔ یہ دور 500 ق م تا 1000 سنہ عیسوی یعنی پندرہ سوسال تک قائم رہتا ہے۔
اب ہم وسطی ہندآریائی کے تین ادوار پالی، پراکرت اور اپ بھرنش کے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں گے:۔
آگے وہ لکھتے ہیں:”سنسکرت کے پہلو بہ پہلو پراکرتوں کا بھی ارتقا ہوتا رہا۔ “
پالی دور 500 ق م تا مولود مسیح (500 سال)
پراکرت دور مولود مسیح تا 500 عیسوی (500 سال)
اپ بھرنش دور500 عیسوی تا 1000 عیسوی (500سال)
گریرسن اور دوسرے مستشرقین کے لیے یہ عام ہے کہ تینوں کو ملا کر پراکرت کہہ دیتے ہیں۔ پالی کو پہلی پراکرت، پراکرت کو دوسری پراکرت اور اپ بھرنش کو تیسری پراکرت۔
مسعود حسین خاں کے بقول:۔
“موجودہ تحقیقات کی بنا پر پہلی اور دوسری پراکرت میں خطِ فاصل قائم کرنا دشوار ہے۔ دوسری پراکرت کے ابتدائی حالات کے متعلق یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا البتہ پالی ہی کے اندر ہمیں اس پراکرت کی شکل دکھائی دیتی ہے۔”۔
آگے لکھتے ہیں:۔
۔”مشرقی ہندوستان میں 600ء ق م کے لگ بھگ دوسری پراکرت کا عہد شروع ہوجاتا ہے”۔
پالی دور
پالی وسطیٰ ہند آریائی کا پہلا دور ہے، جو تقریباً پانچ سو سال پر محیط ہے، جو سن 500 ق م سے شروع ہوکر سن مولود عیسوی پر ختم ہوتا ہے۔ کبھی سن 600 بھی لکھا ہو تو وہی درست ہے۔ جیسا کہ مسعود حسین خاں نے کہا ہے کہ زبان اچانک تبدیل نہیں ہوجاتی ہے اس میں لگ بھگ سو سال کا میعاد لگ جاتا ہے۔
پراکرت کے قدیم ترین نمونے گوتم بدھ اورجین کے مذہبی کتابوں اور اشوک (250 ق م) کی لاٹوں پر کندہ کئےہوئے ملتے ہیں۔ ماہرین ِ لسانیات انھیں پہلی پراکرت کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔ اسی پہلی پراکرت کی ادبی شکل کو “پالی ” کہتے ہیں۔
مسعود حسین کے مطابق:۔
“اور پہلی پراکرت صرف اس زبان کو کہیں گے جس کا ادب روپ پالی ہے۔”
پہلی پراکرت میں پالی اور اشوکی پراکرت دونوں شکلیں شامل ہیں۔
مسعود حسین نے لکھا ہے:”پراکرت کے سب سے قدیم نمونے بدھ اور جینیوں کی مذہبی کتابوں یا پھر اشوک (250ق م) کی لاٹوں پر کندہ کیے ہوئے ملتے ہیں۔”
وسطی ہند آریائی کے پہلے دور میں دو زبانیں ملتی ہیں:۔
پہلی بولی : پالی
دوسری : اشوکی پراکرت
مہاتما بدھ کے اپدیش پالی میں ملتے ہیں جس سے کم از کم یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ پانچویں صدی ق م کے قریب مگدھ میں سنسکرت کا اثر ختم ہوچکا تھا۔
اشوک کا بیٹا مہندراجین سے پالی کتب لنکا لے گیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان میں اصل کتابیں تو رہیں لیکن ان کی تفسیر و تشریحات نہیں ملتی تھیں۔ انھیں پانچویں صدی عیسوی میں بدھ گھوش وہاں سے لایا۔ اسے کے بعد ہندوستان پالی زبان کو بھلابیٹھا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ایک انگریزجیمس پرنسپ نے اس زبان کو پڑھا اور مستشرقین کے فیض ہی سے ہم از سر نو پالی سے واقف ہوئے۔اس زبان کو پالی نام بھی انھیں کا دیا ہوا ہے۔ لنکا میں اسے ماگدھی کہتے ہیں۔ہم چونکہ ماگدھی ایک پراکرت کے لیے مخصوص کر چکے ہیں اس لیے بودھی زبان کو پالی کہنا ہی مناسب ہے۔
پالی کی وجہ تسمیہ
اس لفظ کا قدیم ترین استعمال چوتھی صدی عیسوی میں لنکا میں لکھی’ سیپ ہنس’میں ہے۔ وہاں یہ ‘مہاتما بدھ کے قول ‘ کے معنی میں آتا ہے۔
مسعود حسین نے لکھا ہے:” لفظ پالی سنسکرت کے “پنکتی” سے نکلتا ہے۔ (اسی سے اردو کا پانتی، پتّی اور پٹی ہے) پنڈت ہر اودھ کی تحقیق کے مطابق پالی بُدھ دھرم شاستر کی سطر کو کہتے ہیں۔
پالی سنسکرت لفظ پنکتی (سطر) سے ماخوذ ہے۔
یہ لفظ پلّی، گاؤں کی بھاشا ہے۔ یہ سنسکرت کے مقابلے میں دیہاتی زبان ہے۔
بودھ عالم ‘کوسامبی’ کے نزدیک یہ پالنے والی (محافظ ) کے معنی میں ہے۔
ڈاکٹر سنتی کمار چٹرجی کی رائے میں یہ مدھیہ دیش کی زبان تھی۔اس طرف ایک جگہ مسعود حسین اشارہ کرتے ہیں:”پالی جسے ماگدھی بھاشا کے نام سے بھی پکارا گیا ہے مگدھ دیس (جنوبی بہار ) سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی۔ یہ بہار کی قدیم بولی کی بہ نسبت مدھیہ دیش کی قدیم بولی سے زیادہ قریب دکھائی دیتی ہے۔”
پالی کی چند خصوصیات
اس میں سنسکرت کی دس آوازیں نہیں ہوتیں۔
دو نئے مصوتے خفیف اے اور خفیف اُو شامل ہوگئے ہیں۔
سنسکرت لفظوں کے مصمتوں کو مشدد کرنے کا رجحان کافی ہے۔
تدبھو الفاظ زیادہ ہیں۔
اشوک پراکرت
اس کو شِلالیکھی پراکرت بھی کہتے ہیں۔
اشوک کے لاٹ تعداد میں بیس سے زیادہ ہیں۔ اور 250 ق م اور 262 ق م کے بیچ کی ہیں۔
اس میں جنس تین ہیں لیکن تثنیہ بالکل غائب ۔
پراکرت دور
پراکرت دورمسیحی سن سے 500ء تک پر محیط ہے۔
بقول مسعود حسین خاں:”مشرقی ہندوستان میں 600 ق م کے لگ بھگ دوسری پراکرت کا عہد شروع ہوجاتا ہے۔
پراکرت کی وجہ تسمیہ
سنسکرتی تہذیب کو پرکرتی کہتے ہیں۔فطرت کو سنسکرت مہذب زبان تھی پراکرتیں فطری یعنی غیر مرصع، عوامی۔
عہد پراکرت کے قدیم قواعد نویس وُرروچی نے چار پراکرتوں ، مہاراشٹری، پیشاچی، ماگدھی اور شورسینی کا ذکر کیا ہے۔ ہیم چندر نے تین اور نام دیئے ہیں آرش(اردھ ماگدھی)، چویکا پیشاچی (پیشاچی) اور اپ بھرنش(بعد کی زبانیں)۔
مستند پراکرتیں
پراکرت کے مختلف ماہرین نے الگ الگ تعداد بیان کی ہے، لیکن ان میں سے مستند پراکرت یہ ہیں۔
شورسینی، مہاراشٹری، اردھ ماگدھی، ماگدھی، پیشاچی
شورسینی: یہ مدھیہ دیس کی پراکرت ہے اس کا مرکز شورسین (دوآبہ کا وسطی حصہ:متھرا ) کا علاقہ تھا۔اس کی دوبولیاں آبھیریراہیری اور اونتی کا ذکر ملتا ہے۔ اونتی ا ُجیّن کے پاس کی شورسینی تھی۔ اعلیٰ طبقہ میں سنسکرت کے بعد اسی پراکرت کا رواج تھا، اس پر سنسکرت کا گہرا اثر تھااور پہلی سن ِ عیسوی سے قبل ہی اس نے مسلّم ادبی زبان کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔
مہاراشٹری: ادبی حیثیت سے پراکرتوں میں سب زیادہ اس کو عروج حاصل تھا، یہ قواعد نگاروں کی محبوب بولی ہے وہ ساری پراکرتوں میں سب سے پہلے مہاراشٹری کے قواعد درج کرتے ہیں۔اس عہد کا بیشتر شعری ادب اسی پراکرت میں ملتا ہے۔
ژوال بلاک نے مراٹھی کو اسی سے ماخوذ کیا ہے ، لیکن من موہن گھوش اور سکمارسین، مہاراشٹرکے معنی بڑا ملک، لے کر اسے پورے ملک کی زبان مانتے ہیں۔منموہن گھوش کی رائے ہے کہ یہ شورسینی کی بعد کی شاخ ہے جو شمال سے دکن چلی گئی۔لہذا ڈاکٹر چٹرجی نے ڈاکٹر من موہن گھوش کا حوالہ دیتے ہوئے مہاراشٹری پراکرت کی علیٰحدہ حیثیت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
سوتیامبرجینیوں نے اس میں اپنی مذہبی کتب لکھیں۔ان کی زبان کو جین مہاراشٹری کہا جاتا ہےبالکل اسی طرح جیسے دگامبرجینیوں کی جین شورسینی ہے مہاراشٹری میں کچھ بودھ گرنتھ بھی ملتے ہیں۔
صوتی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض نے اس کو مصنوعی زبان قرار دیا۔
اردھ ماگدھی: لغوی معنی آدھی ماگدھی۔یہ شورسینی اور ماگدھی کے بیچ کی ہے۔ اس کا مقام کوشل یعنی اودھ اور مشرقی یوپی تھا۔ یہ تمام پراکرتوں میں سب سے قدیم ہے۔
نمونہ: 1) اشوکی پراکرتوں کی تہہ میں ، (2) سوتیامبرجینیوں کے 45 گرنتھ ہیں۔
جین اپنی اردھ ماگدھی کو آرش (بہ رائے ساکن)کہتے ہیں۔
گریرسن کا خیال ہے کہ ارد ماگدھی شورسینی اور ماگدھی کے بیچ ایک عبوری شکل ہے ۔
خصوصیات
ش اور معکوسی ش کی جگہ س ملتا ہے۔
دنتی بندشیے معکوسی ہوگئے ہیں
کہیں کہیں چ کی جگہ ت ہوگیا ہے مثلا چکتسا کی جگہ “تےِاچّھا”
بین المصّوتین ماحول میں بعض مصمتے ی میں بدل جاتے ہیں۔
ماگدھی: یہ پورے مشرقی ہندوستان کی بولی تھی ۔ اس کا مرکز مگدھ(دال ساکن) یعنی جنوبی بہار تھا۔آریہ اس پراکرت کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور ایک غیر مہذّب اور ناشستہ زبان سمجھتے تھے۔ عہد پراکرت کے قدیم قواعد نویس ورروچی اسے شورسینی سے نکلی ہوئی مانتا ہے۔ لنکا میں پالی کو بھی ماگدھی کہا جاتا ہےلیکن اس کا ماگدھی پراکرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بارے میں مسعود حسین خاں لکھتے ہیں:۔
“یہ امر تحقیق شدہ ہے کہ پالی کا یہ نام (ماگدھی) سب سے پہلے سیلون کے بدھوں میں پڑا، جو ہندوستانی زبانوں کے باریک اختلافات سے ناواقف تھے۔”
ماگدھی کی پانچ بولیاں
باہ لوکی، شاکاری، ڈھکی، شابری، چانڈالی
صوتی خصوصیات
س اور معکوسی ش نہیں ہے ان دونوں کی جگہ ش ہی ہے۔
ر بدل کر ل ہوجاتا ہے۔ مثلاً راجا سے لاجا
پیشاچی: سنسکرت میں پشاچ بھوت کو کہتے ہیں ۔ گوونڈی اور راج شیکھر نے اسے بھوت بھاشا بھی کہا ہے۔پشاچ کے معنی مردم خور، یا ‘کچا گوشت کھانے والا بھی بتائے گئے ہیں۔ گریرسن لکھتا ہے کہ پشاچی عام معنی میں پراکرت نہیں ۔ یہ سنسکرت کی ہم عصرایک قدیم بولی ہے۔ یہ سنسکرت کی دختر نہیں خواہر ہے۔
پشاچی ہی سے دردی زبانیں بنیں۔
ہارنلے اسے دراوڑوں کی پراکرت کہتا ہےجو کسی طرح صحیح نہیں۔ ور روچی اسے سنسکرت پر مبنی مانتا ہے۔ پرشوتم دیو اسے سنسکرت اور شورسینی کا مسخ روپ قرار دیتا ہے۔ کچھ بھی ہو یہ ظاہر ہے کہ یہ بہت حقیر سمجھی جاتی تھی۔
اس میں کہنا ڈھیہ نے برہت کتھا جیسی عظیم کتاب لکھی اب وہ گم ہوگئیہےلیکن اس کے ایک جز کے سنسکرت تراجم کتھا سرت ساگر اور برہت کتھا منجری وغیرہ ملتے ہیں۔کتھا سرت ساگر الف لیلہ کی طرح ایک ضخیم کتاب ہے۔
ہیم چندر نے پشاچی کے علاوہ “چولکا پیشاچی” کا بھی ذکر کیا ہے جوایک مختلف بولی ہوسکتی ہے۔ مارکنڈے نے پیشاچی کے تین روپ کیکئی، پانچال اور شورسینی درج کیے ہیں۔ماضی میٰن کیکئی پنجاب کے علاقے کو پانچال روہیل کھنڈاورقنّوج کے علاقے کو اور شورسین برج کےعلاقے کو کہتے تھے۔
صوتی خصوصیات
بین المصوتیں مصیتی بندشیے غیر مصیتی ہوجاتے ہیں
ل اور ر میں کہیں کہیں ادل بدل ہے۔
معکوسی ش کی جگہ کہیں ش تو کہیں س ہے۔
نئے پراکرت کے علاوہ اور کسی پراکرت میں تثنیہ کا صیغہ نہیں ملتا ۔ الفاظ عموماً مصمتوں پر ختم نہیں ہوتے۔ ن کی جگہ معکوسی ن مستعمل ہے۔ بعض پراکرتوں میں غیرہند آریائی آوازیں ز۔ ع۔ پائی جاتی ہیں۔
اپ بھرنش
یہ دور500 ء سے 1000ء تک پر محیط ہے۔
اس عہد کو مسعود حسین خاں نے ہندآریائی کا عہدِ جدید کہاہےاور انھوں نے اس دور کو600ء سے 1000ء تک متعین کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔
” لسانیات کا یہ ایک اٹل اصول ہے کہ بول چال کی زبان جتنی تیزی سے بدلتی ہے ادب کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ چنانچہ جب پراکرتوں نے ادبی شکل اختیار کرنا شروع کی تو وہ عوام کی ڈگر سے پرے جاپڑیں اور عوام کی زبان کا دھارا آگے بڑھتا رہا۔ اسی بول چال کی زبانوں کو اس عہد کے قواعد نویسوں نے “اَپ بھرنش” (بگڑی زبان) کہا ہے۔”
اس کے معنی بھرشٹ یا مسخ شدہ کے ہیں ۔
اپ بھرنش سب سے پہلے شمال مغرب کی زبان میں ظاہر ہوتی ہے۔ کیتھ نے اپ بھرنش کو بنیادی طور سے اہیروں اور گوجروں سے متعلق کیا ہے۔ ڈاکٹر رام بلاس شرما نے بھاشا اور سماج میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اپ بھرنش شمال مغرب کی زبان ہے لیکن اس کی قواعد پورب کی ہے۔
ڈاکٹر رام بلاس شرما نے اپنی ہندی کتاب بھاشا اور سماج میں دعویٰ کیا ہے کہ اپ بھرنش بول چال کی زبان نہیں تھیں بلکہ مصنوعی زبانیں تھیں۔
مسعود حسین نے لکھا ہے:”شروع شروع میں لفظ اپ بھرنش کسی خاص زبان کے لیے استعمال نہ ہوتا تھا۔ پڑھے لکھے لوگ اَن پڑھوں کی زبان کو اَپ بھرشن” یا “اَپ بھاشا” کہا کرتے تھے۔ پتن جلی نے اپنی “مہابھاشیہ” میں اس لفظ کا ذکر ان معنوں میں کیا ہے۔”
زبان کے معنی میں اس کا پہلا استعمال بھامہ کے کاویہ النکار اور چنڈے کے پراکرت لکشٹم میں چھٹی صدی عیسوی میں ملتا ہے۔
ایک خاص زبان کے معنی میں سب سے پہلے ہیم ؔچند نے لفظ اَپ بھرنش استعمال کیا ہے۔(مقدمہ تاریخ زبان اردو)
اپ بھرنشی الفاظ پہلی بار بھرت کے ناٹیہ شاستر (300) میں ملتے ہیں۔
آٹھ سو عیسوی سے 1000ء تک دو آبہ کی شورسینی اپ بھرنش ایک طرح سے پورے شمالی ہندوستان کی ادبی زبان بن گئی تھی۔
اپ بھرنش کی تعداد کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ ذیل میں کچھ قدیم و جدید ماہرین کے خیال پیش کیے جاتے ہیں:۔
پراکرت کے بڑے عالم مارکنڈے نے اَپ بھرنش کی تین قسمیں بتائی ہیں:۔
ناگر اپ بھرنش: گجراتی اور راجستھانی کی قدیم بولیوں کی ادبی شکل
براچڈاَپ بھرنش: سندھ میں رائج
اُپ ناگر اپ بھرنش
نواری نے ذیل کی سات اپ بھرنشیں فرض کی ہیں۔
شورسینی، پیشاچی، براچڈ، کھس، مہاراشٹری، ارد ماگدھی، ماگدھی
مسعود حسین خاں نے کہا
شورسینی، ماگدھی، اردھ ماگدھی، مہاراشٹری، شمالی مغربی ہندوستان کی اپ بھرنش (ابھی تک تاریخی دھندلکے میں ہیں۔جس میں براچڈ، کیکئی اپ بھرنش آتے ہیں۔)
اپ بھرنش کی چند خصوصیات
اس کے ذخیرہ الفاظ میں تدبھو الفاظ سب سے زیادہ ہیں، اس کے بعد دیسی اور پھر تت سم ابتدا میں تو تت سم بہت ہی کم تھے۔ بعد کی اپ بھرنش میں تت سم بھی دخل پاگئے۔ کچھ فارسی اور ترکی الفاظ بھی مسخ ہوکرآگئے۔
لفظ کے آخری مصوتے کے اختصار کا رجحان بہت بڑھ گیا۔
سنسکرت میں اسم کی حالتوں اور تعداد کی وجہ سے 24 روپ بن جاتے تھے۔ پراکرت میں 12 رہ گئے اور اپ بھرنش میں محض چھ۔
جنس محض دو
ڈ کا استعمال بڑھ گیا۔ موجودہ ہندوستانی زبان اور شورسینی اپ بھرنش کی درمیانی منزل کو بعض اوقات “اوہٹ” بھی کہا گیا ہے ۔ پندرھویں صدی کے میتھلی شاعروِدّیا پتی نے کیرتی لتا لکھی اور اپنی زبان کو اپ بھرنش نہ کہہ کر اوہٹھ ہی کہا ہے۔
اپنی تیاری کا جائزہ لینے کے لیے کوئز کریں
Pingback: NTA UGC NET Urdu Complete Syllabus Urdu Literature
اللہ تعالی علم کے نور سے منور کرے