افسانہ (11) غم نداری بز بخر کا خلاصہ

غم نداری بز بخر

افسانہ “غم نداری بز بخر” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل گیارہواں افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے “ان دنوں دودھ کی تکلیف تھی۔ کئی ڈیری فارموں کی اآزمائش کی،اہیروں کا امتحان لیا، کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے “اس دن وہ گڈریہ نظر آیا اور نہ وہ بکری۔ اور نہ میں نے سراغ لگانے کی کوشش کی۔ لیکن دیوی جی اس کے بچوں کو یاد کر کے کبھی کبھی آنسو بہا لیتی ہیں۔

نچوڑ

اس افسانے میں پریم چند نے فارسی کے ایک کہاوت “غم نداری بز بخر” بمعنی (غم نہ ہو تو بکری خرید لو) کو کہانی کا روپ دیا ہےاور ثابت کیا ہے کہ کیسے بکری بذات خود ایک غم کی باعث ہے۔

خلاصہ

اس افسانے میں خالص دودھ کے لئے پریشان کن گھرانے کی بڑی دلچپ کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس افسانے کا راوی جو اپنے گھر کے لئے خالص دودھ کی تلاش میں ہروقت سرگرداں رہتا لیکن اس کے نصیب میں خالص دودھ کی خوشی میسر نہ تھی۔ کئی دن کی چیخ چیخ کے بعد اپنے دوست سے مشورہ کیا کہ بھائی ہم دونوں مل کر ایک گائے خرید لیتے ہے تاکہ ہمیں خالص گائے کا دودھ نصیب ہو جائے۔ دوست نے اس مشورہ پرلبیک کہا۔ معاملہ یہ طئے ہوا کہ راوی کے دوست کے گھر گائے رہیں گی اوراس کے گوبر سے وہ جو چاہے کریں بس راوی کے گھر دودھ پہنچا دیا جائے۔ اور اس گائے کا خرچہ،لاگت، دودھ دونوں میں ساجھا ہوگا۔ ایک ہفتے تک وہ آرام سے دودھ پیتے اور اسماعیل میرٹھی کی نظم پڑھتے جاتے۔

  جس نے ہماری گائے بنائیرب کا شکر ادا کر بھائی
لطف حیات چکھایا اُس نےتازه دودھ پلایا  اس  نے
اس کے کرم نے بخشی سیریدودھ میں بھیگی روٹی میری
   کیسی بھولی بھالی صورتخدا کی رحمت کی ہے مورت

لیکن رفتہ رفتہ یہاں سے بھی شکایتیں آنی شروع ہوگئی۔ لیکن اب الزام تراشی کریں بھی تو کس پر؟ بہرحال تیسرے مہینے چڈھا صاحب(جن کے ساتھ مل کرراوی نے گائے خریدی تھی)ان کا تبادلہ ہوا اوراسی بات کو غنیمت جان کرگائے بیچ دی۔ اور پھرایک بکری پالنے کا ارادہ کیا 25 روپیوں میں پنڈت جی کے مشورے سے ایک بکری خریدی گئی۔ اوربکری نے ڈھائی سیر دودھ بھی دیا جس کو دیکھ کرراوی کا دل بھی سیر ہوگیا۔ لیکن ایک ہفتے بعد جب دودھ کی مقدار کم ہونے لگی تو پنڈت سے مشورہ ہوا انہوں نے بتایا کہ یہ گاوں کی بکری ہے جو سارا دن باغ میں گھوما کرتی تھی۔ یہاں بندھے بندھے دودھ کم ہوجائے تو تعجب کی بات نہیں ہے۔ اور شہر میں اس کو چرانے ،گھمانے کا انتظام ممکن نہیں تھا اسی لئے مضافات میں گھرلیا گیا ۔ جہاں کھلا صحن بھی تھا۔ لیکن اس کے باوجود دودھ کی مقدار سیربھرہی رہا لیکن یہ سونچ کر خوش ہوجایا کرتے کہ مقدار کم صحیح لیکن ہے تو خالص۔

اب ایک نیا مسلئہ اس کو چرانے کا تھا ۔ غلام نے تو اس کام کو کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اب وہ خود کڑک سردی میں بھی اس کو خود چرایا کرتے تھے۔

اب بکری کو چرانے میں کئی ایک دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ۔ کبھی بکری کسی کے کھیت میں گھس کر فصل کھالیتی تو ساری ڈانٹ راوی کو سننی پڑتی۔اور کبھی بکری کے لئے پتیاں توڑتے ہوئے خود درخت سے زمین پر گر پڑتے، تو کبھی پتیاں چراکر چور کی طرح درخت کے مالک سے چھپ چھپ کر پھرا کرتے۔ اب بکری اوراس کی آوازان کوچڑیل اورمنحوس معلوم ہونے لگیں۔ آخر راوی نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اس کو کسی خصاب کو دینا پڑے تو دیے دوں گا۔ کیونکہ انہیں بس کسی بھی طرح اس بکری سے چھٹکارا چاہئے تھا ۔ آخر میں راوی نےایک گڈریے کو یہ بکری دے دی۔ اور کہا کہ ہر ماہ ایک روپیہ دوں گا لیکن یہ بکری میرے سامنے نہ آئے ۔ اس طرح گڈریہ بکری لے گیا۔ کچھ ماہ بعد گڑیے کے ساتھ بکری اپنےدونوں بچوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی ۔اورراوی کی بیوی نے اس کو چوکر کھلایا اور وہ بالکل ایسے ملی جیسے اس کی کسی سہیلی سے ایک عرصے بعد مل رہی ہو۔ اور راوی نے گڈریے سے کہا کہ اس بکری کو دوبارہ یہاں نہ لانا اورپھروہ نہ خود آیا نہ بکری آئی ۔ بس دیوی جی اس کو یاد کر کے کبھی کبھی آنسو بہا لیا کرتی تھی ۔

افسانے کے کردار

افسانے کا راوی جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے

دیوی جی

پنڈت جی

گڈریہ

اہم نکات

اس افسانے میں اسماعیل میرٹھی کی نظم شامل ہے

افسانہ غم نداری بز بخر

بکری کو 25 روپیوں میں خریدا تھا۔

بکری گڈریے کو ماہانہ ایک روپیے کے عوض دی گئی تھی۔

بکری پچھائیں نسل کی تھی۔

بکریاں پالنے کے لئے کتے کا دماغ چاہیے

اہم اقتباسات

اس لیے تجویز ہوئی کہ گائے انہیں کے گھر رہے ۔ اس کے عوض انھیں گو بر پر بلاشرکت غیرے اختیار ہے ۔ وہ اسے کامل آزادی سے تھاپیں  ، اپلے بنائیں ، گھر لیپیں ، پڑوسیوں کو دیں یا اسے کسی طبی مصرف میں لائیں ،منمقر کو اس میں کسی قسم کا اعتراض، احتجاج یا قیل وقال نہ ہوگا اور منمقر بہ صحت ہوش وحواس و بہ اصابت عقل اقرار کرتا ہے کہ وہ گوبر پر کبھی دستِ تصرُّف دراز نہ کرے گا اور نہ کسی کو تصرُّف کے لیے آمادہ کرے گا۔

ہمارے دیوتاؤں اور نبیوں کا نہایت معزز طبقہ گلہ بانی کیا کرتا تھا۔ کرشن جی گائیں چراتے تھے ۔کون کہہ سکتا ہے کہ اس گلے میں بکریاں نہ رہی ہوں گی ۔ حضرت عیسی اور حضرت محمد ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) دونوں ہی بھیٹر یں  چراتے تھے۔

انسان روایات کا غلام ہے ۔ جو بزرگوں نے نہیں کیا اسے وہ کیسے کرے۔ نئے راستے پر چلنے کے لیے جس عزم اور پختہ یقین کی ضرورت ہے وہ ہر ایک میں تو ہوتا نہیں ۔ دھوبی آپ کے غلیظ کپڑے دھولے گا لیکن آپ کے دروازے پر  جھاڑو لگانے میں اپنی ہتک سمجھتا ہے۔ جرائم پیشہ اقوام کے فرد بازار سے قیمتاً کوئی چیز خریدنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

’’غریبوں کا نقصان بھی کرتے ہو اوپر سے رعب جماتی ہو۔ اس کا نام انصاف ہے؟‘‘ دیوی جی نے انداز تفاخر سے جواب دیا: ’’میرا احسان تو نہ مانو گے کہ شیطان کو کتنی آسانی سے دفع کر دیا، لگے الٹے ڈانٹنے۔ گنواروں کو راہ پر لانے کا سختی کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ۔ شرافت یا فیاضی ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔اسے یہ لوگ کمزوری سمجھتے ہیں اور کمزور کوکون نہیں دبانا چاہتا۔؟‘‘

آہ وہ جاں گسل لمحہ جب میں اس کے برابر ایک گز کے فاصلے سے نکالا ۔ایک ایک قدم تلوار کی دھار پر تھا کہ شیطانی آواز کان میں آئی: ”کون ہے رے؟

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks