افسانہ (12) مفت کرم داشتن کا خلاصہ

افسانہ “مفت کرم داشتن” پریم چند کا افسانوی مجموعہ واردات میں شامل بارہواں افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ” ان دنوں حسن اتفاق سے حاکم ضلع ایک صاحب ذوق بزرگ تھے جنھوں نے تاریخ اور قدیم سکہ جات میں اچھی تفتیش کی ہے۔ “

اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے ” مگر اس وقت بھی مجھے یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ نہ ہوا کہ میں صاحب کے پاس گیا ہی نہیں ۔ جو کچھ ہوا خود بخو دہوا ۔ مفت کا احسان چھوڑ نا طبیعت نے گوارا نہ کیا۔”

نچوڑ

 اس افسانے میں راوی یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے زمانے میں حاکم ضلع ایک صاحب بزرگ تھے ، ایک بار ان سے راوی کی ادبی ملاقات ہوئی، لیکن اس کا چرچہ پورے شہر میں ہوگیا کہ حاکم سے راوی کے بہت ہی قرابت اور اچھے تعلقات ہیں، لوگ روای سے سفارش کی درخواست کرتے مگر وہ کچھ نہیں کرتا ایک مرتبہ راوی کا بچپن کا ہم جماعت بلدیو اپنے بیٹے کی سفارش کے لیے آتا ہے جو کہ ڈاکے کے جرم میں گرفتار تھا، راوی بلدیو سے تو کہہ دیتا کہ وہ سفارش کردے گا مگر وہ کچھ نہیں کرتا، اس کے باوجود بلدیو کا بیٹارہا ہو جاتا ہے اور ایک ہفتے بعد بلدیو اپنے بیٹے کے ساتھ ایک بڑے سے گٹھر می انواع و اقسام کی دیہاتی سوغاتیں لاتا ہے، اور راوی یہ مفت کا احسان قبول کرلیتا ہے کیوں کہ اس کاچھوڑنا طبیعت کو گوارا نہیں ، اور کہانی سے پریم چند فارسی کہاوت “مفت کرم داشتن” کو واضح کیا ہے۔

خلاصہ

پریم چند نے اس افسانے کوفارسی کے کہاوت “مفت کرم داشتن”سے معنون کیا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی کام اپنی غرض سے کرنے اور دوسرے پر اس کی غرض ظاہر کرکے احسان جتانے کے موقع پر مستعمل یعنی خواہ مخواہ احسان جتانا۔

افسانے میں صاحب بزرگ حاکم ِ ضلع نے راوی کو رقعہ بھیج کراپنے بنگلے پر بلایا، راوی نے اپنے دوستوں سے مشورہ لیا توانہوں نے جانے سے منع کیا لیکن راوی تہذیب کے خلاف سمجھ کر حاکمِ ضلع کی طرف چلا گیا، اور وہ اس ملاقات کو مخفی رکھنا چاہتا لیکن یہ خبر پھیل گئی جس سے راوی کی عزت و وقارمیں قدرے اضافہ ہوا اور بات یہاں تک مشہور ہوچکی تھی  کہ حاکمِ ضلع راوی سے پوچھے بغیر کوئی تجویز یا رپورٹ نہیں لکھتے۔

راوی کی شہرت سن کرلوگ اس کے پاس سفارشیں لے کرآتے لیکن وہ صرف ایک جملے میں جواب دیتا۔ “مجھ سے کوئی مطلب نہیں۔” اوراس سے سب کو ٹال جاتا، لیکن ایک مرتبہ اس کا بچپن کا دوست بلدیو جو راوی سے صحت میں اچھا اور پڑھائی میں کچا تھا، اس سے ملنے آیا ، دونوں میں رام رام (سلام) ہوئی، خیر وعافیتک ےبعد بلدیو نے دردناک انداز سے کہا:”زندگی کے دن پورے کررہے ہیں اور کیا۔ دراصل بلدیو کے بڑے لڑکے کو داروغہ نے ڈاکہ کے مسئلہ میں گرفتار کر لیا تھا، بلدیو چاہتا تھا کہ راوی حاکم ضلع کے پاس اس کی سفارش کرکے اس کے بیٹے کو بچالے، اس کے لیے بلدیو منت سماجت کرنے لگا اور راوی کو اس بات پر راضی کرلیاکہ وہ دوسرے دن حاکم ِ ضلع کے پاس جاکر سفارش ضرور کرے گا، راوی نے حامی تو بھر لی مگر وہ حاکم کے پاس نہیں گیا۔کیوں کہ اس کا ماننا تھا کہ بڑے لوگ ان جھوٹے جھمیلوں میں نہیں پڑھتے اور اس کی حاکم سے وہ تعلقات بھی نہیں تھے جو لوگوں نے مشہور کر دیا تھا۔

راوی اس واقعہ کو بھول چکا تھا، اس واقعہ کے آٹھویں دن بلدیو اور اس کا بیٹا جو رہا ہوچکا تھا، ڈھیر ساری دیہاتی سوغاتوں کے ساتھ حاضر ہوئے لڑکا آکے راوی کے قدموں میں گر پڑا، اور راوی کا شکریہ ادا کرنے لگا بلدیو اور اس کا بیٹا دونوں راوی کا مشکور تھےانہوں نے سوغا  ت پیش کیے لیکن راوی برابر کہتا رہا کہ “کوئی ضرورت نہیں”، “کوئی ضرورت نہیں”، مگر راوی کو یہ بات تسلیم کرنے کا حوصلہ نہ ہوا کہ وہ حاکم ضلع کے پاس نہیں گیا تھا جو کچھ ہوا خود بخود ہواکیوں کہ مفت کا احسان چھوڑنا طبیعت کو گوارا نہ ہوا، اور اپنی سکوت سے ثابت کردیا”مفت کرم داشتن”۔

افسانے کے کردار

راوی

حاکمِ ضلع

بلدیو

بلدیو کا بڑا لڑکا

اہم نکات

حاکم ضلع ایک صاحب ذوق بزرگ تھے جنھوں نے تاریخ اور قدیم سکہ جات میں اچھی تفتیش کی ہے۔

راوی حاکمِ ضلع کا غائبانہ مداح تھا لیکن ان کی افسری مزید تعلقات میں مانع تھی۔

حاکم ضلع نے خود راوی کے نام ایک رقعہ بھیجا کہ وہ راوی سے ملنا چاہتا ہے

راوی تین پیسے کی چوبیس بیڑیاں پی کر دل خوش کر لیتاہے

راوی نے حاکمِ ضلع سے ملاقات کو ذرا اہمیت نہ دی

یہ مشہور ہوا کہ حاکمِ وقت راوی سے صلاح لیے بغیر کوئی تجویز یا رپورٹ نہیں لکھتے۔

بلدیو کے بڑے لڑکے کو داروغہ نے ایک ڈاکہ کے جھوٹے مقدمے میں پھانس  لیا تھا اور وہ ایک ہفتے سے حراست میں تھا۔  

راوی اور بلدیو کی ملاقات کے آٹھویں  دن بلد یوسنگھ اپنے پہلوان بیٹے کے ساتھ ایک بڑا سا گٹھر  اٹھالایا جس میں انواع واقسام کی دیہاتی سوغاتیں بندھی ہوئی تھیں ۔

اہم اقتباسات

جب بھی سنتا ہوں کسی افسر کو کسی رفاہ عام کے جلسے کا صدر بنایا گیا یا کوئی اسکول یا شفاخانہ یا بدھوا آشرم کسی گورنر کے نام سے منسوب ہوا تو برادران وطن کی غلامانہ ذہنیت پر گھنٹوں افسوس کرتا ہوں

ان احمق ہندستانیوں کو بھی یہ سمجھ نہ آئے  گی کہ دفتر کے باہروہ بھی ویسے ہی انسان ہیں جیسے ہم یا آپ ۔ شاید یہ لوگ اپنی بیوی سے بھی افسری جتاتے ہوں گے ۔ انہیں اپنا عہدہ بھی نہیں بھولتا۔

یہ ہندستان ہے جہاں ہر ایک رئیس کے دربار میں شاعروں کا ایک انبوہ قصیدہ خوانی کے لیے جمع رہتا تھا۔اوراب بھی تاجپوشی کے موقع پر ہمارے اہل قلم بن بلائے رئیسوں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔ قصیدہ پیش کرتے ہیں۔ انعام پاتے ہیں

جب تم میں اس قدرلڑکپن اور تنگ مزاجی ہے تو پھر وہ تو ضلع کا بادشاہ ہے، اگر اسے غرور بھی ہوتو جائز ہے ۔ کمزوری کہو، جہالت کہو،خر دماغی کہو لیکن پھر بھی جائز ہے

تم اپنے گھر میں پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اپنی بے نوائی میں مگن رہ کر زندگی بسر کر سکتے ہو لیکن کوئی بھی خود دار شخص یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ اس کی خستہ حالی دوسروں کے لیے مایہ تفریح ہو۔

تم میرے گر و  ہو بھائی ۔ سچ کہتا ہوں مجھ جیسے گدھے کو پڑھانا تمہارا ہی کام تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ مولوی صاحب سے سبق پڑھ کر اپنی جگہ پر آیا نہیں کہ بالکل صاف ، کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔ تم تو تب بھی بڑے ذہین تھے ۔”

عمر بھر بال بچوں کے لیے مر مٹے ۔ کوئی پوچھتا ہے تمہاری کیا حالت ہے؟ اگر آج کندھا ڈال دوں تو کوئی ایک لوٹا پانی کو نہ پو چھے ۔ اس لیے خوب کھا تا ہوں اور سب سے زیادہ کام کرتا ہوں ۔

آدمی وہ کہلاتا ہے جس سے ضرورت مندوں کا کام نکلے۔ وہ کیا آدمی ہے جو کسی کی کچھ سنے ہی نہیں۔ یہی کہے مجھ سے کچھ مطلب نہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks