نظم صبحِ امید : محمد حسین آزاد

آپ محمد حسین آزاد کی نظم “صبحِ امید” پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

نظم صبحِ امید

محمد حسین آزاد

بسترِ خواب سے میں لے کے اُٹھا انگڑائیجب کیا صبح نے روشن فلکِ مینائی
ذرّہ ذرّہ میں نظر آیا رخِ جان جہاںآنکھ مل کر جو نظر کی سوئے میدانِ جہاں
تھا کھلا آنکھوں کے آگے چمنِ قدرتِ رازکام کرتی تھی جہاں تک نگہِ دور ِانداز
جس پہ ہے فرشِ زمیں گلشنِ گردوں کی شکوہسبز و شاداب تمام ایک طرف دامنِ کوہ
جن میں ہیں جلوہ نما دل کی مرادوں کے ثمربرگ برگ اُس کا ہے آئینہ لیے پیشِ نظر
جن سے نکلیں گے ثمرہائے تمنا یکسرآرزوں سے کھُلے گلِ رعنا یکسر
رکھتا تھا طولِ امل سے بھی سوا راہ درازقُلّہ کوہ کہ تھا چرخِ بریں سے ہمراز
 اور مسافت بھی کسی نے نہیں پائی اُس کیتھی تو ظاہر میں بہت سخت چڑھائی اُس کی
دم اُکھڑتے نہ تھے اور سپنے قوی ہوتے تھےاُس پہ چڑھنے سے مگر تنگ نہ جی ہوتے تھے
کوئی دیتا تھا مگر ایسا سہارا دل کوگرچہ تھا پاؤں اُٹھانے کا نہ یارا دل کو
دل یہ کہتا تھا کہ ہمّت میں ہے مقدور بہتعقل ہر چند یہ کہتی تھی کہ ہے دُور بہت
ساز عشرت کوئی در پردہ بجاتا تھا وہاںجشنِ شاہانہ کا سامان نظر آتا تھا واں
جیسے ذرّے سوئے خورشید اُڑے جاتے تھےدل اُس آواز پہ اس طرح کھچے جاتے تھے
جیسے بلبل سوئے گُل کبک سوئے ماہ چلااس طرف میرا دلِ زار بھی یوں آہ چلا
الغرض منزلِ مقصود پہ جا پہنچا میںکاہ کی طرح سوئے کاہ ربا پہنچا میں
گلِ خود رو نے عجب جلوہ دکھایا ہے وہاںدیکھا اک باغ کہ قدرت نے لگایا ہے وہاں
رنگِ گل اس پہ دکھاتے ہیں تماشا اندازمخملِ سبز سے ہے سبزہ تر پا انداز
نہریں بن بن کے دکھاتا ہے عجب سرشاریبر سرِ کوہ جو پانی کا ہے چشمہ جاری
سانپ سیماب کا ہو جیسے کہ بل مار رہاسر ہے اس طرح بدامانِ جبل مار رہا
اُس پہ  اک رشک پری ہاتھ میں پھولوں کی چھڑیسنگ مرمر کی لب آب جو اک سل ہے پڑی
بیٹھی اک پاؤں کو پانی میں لٹکائے ہوئےرنگ رخ کو گلِ گلزار سے چمکائے ہوئے
پھول برساتی ہے پہلو میں کھڑی بادِ شمالاُس پہ ہے چترکی جا سایہ فگن سبز نہال
فرش گلہائے بہاری کا بچھاتے ہیں کھڑےنوجوانانِ چمن بزم سجاتے ہیں کھڑے
 ہے بجائے دُرِ الماس وہ پھولوں سے بھریسر پہ جو اُس کے دھری ہے کلہ تاجوری
کہ ہراک آنکھ کو رنگ اپنا دکھاتا ہے الگاس کے ہر پھول میں لیکن یہ تماشا ہے الگ
ہر دماغ اُس سے نئے ڈھب کا مزہ لیتا ہےاُس سے ہر شخص شمیم اپنی جُدا لیتا ہے
شمع ساں چاروں طرف ایک ہے جلوہ اُس کارُخ جو ہے آئینہ روئے تمنّا اُس کا
آگے اِک ساغرِ غفلت لیے تاثیر کھڑیایک طرف عقل ہے ایک سمت کو تدبیر کھڑی
کامیابی کی دکھاتی ہے وہ تصویر جدادیتی ہر دل پر ہے وہ نور سے تنویر جدا
پڑ رہی دل پہ نظر ہے جوہر اک سواس کیرکھتی ہے ایسا اثر نرگسِ جادو اُس کی
تڑپ اُٹھتا ہے ہر اک دل کہ پُکارا ہے مجھےہے ہر اک شخص سمجھتا کہ اشارہ ہے مجھے
اپنے دامانِ تمنّا کو ہیں پھیلائے ہوئےاُس کے دربار میں ہیں شاہ گدا آئے ہوئے
بوے اُمید ہے ہر اک کو سُنگھاتی جاتیدمبدم ہے جو نسیمِ سحر آتی جاتی
اور طلسمات کا عالم نظر آیا  مجھ کودل نے دربار یہ جس وقت دکھایا مجھ کو
پر جو تہ بات کی تھی فہم میں وہ آئی نہدیر تک دِل رہا تصویر تہِ آئینہ
شجرِ چتر پہ لیکن جو نظر کی میں نےغور کی رازِ نہفتہ میں بہت سی میں نے
دونوں پَر کھولے ہوئے ہے بہ ہوائے اقبالدیکھتا کیا ہوں کہ بیٹھا ہے ہمائے اقبال
آؤ آزاد تمہاری جگہ تھی خالیدیکھتے ہی مجھے یوں بولا بصدخوشحالی
اپنی وارستگئِ دل میں ہو تم شاد بہتآؤ تم قید تعلق سے ہو آزاد بہت
لاؤ کیا آرزوئے دل ہے کہ دیویں تم کوآؤ یہاں سایہ اقبال میں لیویں تم کو
یعنی شاہزادیِ امید کا دربار ہے یہآؤ اس سایہ میں تم ابر گُہر بار ہے یہ
دل سے بے ساختہ یہ مطلعِ موزوں نکلااُس کے نغمہ سے جو یہ رازِ پُر افسوں نِکلا
اور مثل ہے کہ بامید ہے قائم دنیاآ کہ آبادترے دم سے ہے دائم د نیا
لہلہاتے ہیں تری یاد میں کیا کیاگلشنآکہ ہے تیری ہوا میں دل شیدا گُلشن
کون سا پھول ہے جس پر کہ نہیں رنگ ترادل کے گلشن پہ ہے چھایا ہوا نیرنگ ترا
کون انساں ہے خوشی سمجھے نہ جو غم تیراکون سا دل ہے کہ جس پر نہ چلے دم تیرا
کون سا گل ہے لگی جس کو ہوا تیری نہیںکون سا باغ ہے جس میں کہ صبا تیری نہیں
کون سا کوچہ ہے جس میں کہ نہیں راہ تریکون سا دل ہے کہ جس دل میں نہیں چاہ تری
دیکھا جس ملک میں واں سکّہ ترا چلتا ہےتار برقی سے سوا حُکم تراچلتا ہے
غیب نے رنگ سیہ جس پہ ہے پھیرا بالکلعہد آئندہ کا میداں ہے اندھیرا بالکل
اُسی میدان میں ہیں پھرتے ترے نخچیر سدااُس میں چلتے تری تدبیر کے ہیں تیر سدا
خاک میں تیری نظر آتے ہیں گلزارِ مرادذرہ ذرہ سے ترے اُگتے ہیں اشجار ِ مراد
اور ہوا باغ  میں ہے خاک اُڑاتی پھرتیجب ہے کھیتوں میں خزاں آگ لگاتی پھرتی
چاہ بے آب تو ٹوٹے ہوئے دو لاب پڑےچشمے خشک اور چمن ہوتے ہیں بے آب پڑے
باغباں خاک پہ حیران و پریشاں بیٹھاپیر دہقاں ہے کہیں بے سرو ساماں بیٹھا
نہ مددگار کوئی اور نہ غمخوار کوئیہوتااس وقت مصیبت میں نہیں یار کوئی
جلوہ گر باغِ مراد اس کو دکھا جاتی ہےہاں مگر تو کہ جب اُس وقت میں آجاتی ہے
پھلے پھولے اُسے اشجار دکھاتی ہے کبھیابرِ ترسامنے آنکھوں کے لے آتی ہے کبھی
کرکے خرمن کبھی انبار لگادیتی ہےکبھی کھیتوں کو ہراکرکے دکھادیتی ہے
باغ سبز ایسا غرض اپنا دکھاتی ہے اُسےدم بدم تازہ فسوں آکے سُناتی ہے اُسے
اُٹھ کھڑا ہوتا ہے یک بار کمر باندھ کے وہتھا جو مایوس پڑا سینہ و سر باندھ کے وہ
کرتا لبریز مرادوں سے ہے سینہ اپنادھوپیں کھاتا ہے بہاتا ہے پسینا اپنا
تیری ہی آس پہ ہوتا ہے گذارا اُس کاہر مصیبت میں غرض تو ہے سہارا اُس کا
مشغلہ جن کا سیاحت ہے سفر اندیشہاہل ہمّت جو ہیں مردانِ تجارت پیشہ
اور چلے جاتے ہیں دن رات کمر باندھے ہوئےکوہ و صحرا میں ہیں وہ زاد سفر باندھے ہوئے
اُٹھ گیا اِن کے نصیبوں سے زمانے کا مزانہ تو پانی کاہے آرام نہ کھانے کا مزا
ایک جو کھوں ہے اگر پاس تو ڈر ہیں لاکھوںہر قدم پر بسرِ راہ خطر ہیں لاکھوں
صدمہ یادِ وطن کرتا ہے غمناک کبھیخلشِ خار سے ہے دامنِ دل چاک کبھی
اور کسی طرح سے کٹنا نہیں رستہ اُن کادل تو ہے سنگِ مصیبت سے شکستہ اُن کا
سمتِ مقصود پہ ہے تارِ نظر باندھ رہیہر قدم تُو ہے مگر اُن کی کمر بندھ رہی
کرسیاں جاہ و مراتب کی سجاتی ہے کہیںحسن انجام منافع کا دکھاتی ہے کہیں
اور خزانے کہیں پُرمال دکھاتی ہے انہیںسامنے جلوہ اقبال دکھاتی ہے اُنہیں
آبِ رفتہ کو ہے پھر جوے چمن میں لاتیکامیابی سے کبھی پھر ہے وطن میں لاتی
اور ترا شوق لیے جاتا ہے دوڑائے ہوئےطائرِ دل پر پرواز ہی پھیلائے ہوئے
تیغِ خونبار کہیں اور کہیں خنجر خونریزگرم ہوتا سر میداں ہے جو بازارِ ستیز
عرصہ جنگ میں ہوتی ہے قیامت برپاہوتی حملوں سے دلیروں کے ہے آفت برپا
بلکہ ہیں گنبدِ نیلی کے دھوئیں اُڑ جاتےنعرہ توپ سے شیروں کے ہیں منہ مڑجاتے
سامنے موت کی تصویر نظر آتی ہےکہیں خنجر کہیں شمشیر نظر آتی ہے
ہاتھ میں ہے لیے اک شیشہ جادو آتیپر وہیں معرکہ جنگ میں ہے تو آتی
بلکہ پیمانہ دل خون سے بھر دیتی ہےایسا مست جامِ جرات اُنہیں کردیتی ہے
سیرِ فانوس خیالی ہے دکھاتا گویاکہ سرور آنکھوں پہ عینک ہے لگاتا گویا
ہے پھر اُس کام کا دیتی انہیں انجام دکھادیتی ہے چشم تصوّر میں ہر اک کام دکھا
زیب سر دیکھتے ہیں تاجِ سپہ سالاریکہ رخِ فتح کبھی دیکھتے ہیں گُلناری
پیشِ لشکر ہے بہ سرداری لشکر لاتیفتح یابی سے کبھی پھیر کے ہے گھرلاتی
فخر و اعزاز کی کرسی پہ بٹھاتی ہے اُنہیںشہرتِ عام کے دربار میں لاتی ہے اُنہیں
شرق سے غرب تک اک دھوم مچادیتی ہےنام پر فتح کے نقارے بجا دیتی ہے
فتحیابوں کے ہے سر پہ اُسے جلوہ دیتیپرچمِ فتح کبھی لاکے ہے لہرادیتی
اُن کو اس طرح سے شہرت میں علم دیکھتے ہیںنام اک اک کے نشانوں پہ رقم دیکھتے ہیں
وہ ستارے سے چمکتے ہی نظر آئیں گےسیکڑوں دورِ فلک سر پہ گذر جائیں گے
اور چمک اٹھتے ہیں سینوں میں جو ہیں داغِ مراددیکھتی چشمِ تصوّر ہے یہ جب باغِ مراد
اہل جوہر ہیں دکھاتے ہوئے جوہر آتےسر بکف برسرِ میداں ہیں دلاور آتے
نعرہ اہلِ دغا تا بہ فلک جاتے ہیںجامِ دل خونِ شجاعت سے چھلک جاتے ہیں
اور ہوائیں بسرِ چرخِ کہن باندھے ہوئےآتے جانباز جو ہیں سر پہ کفن باندھے ہوئے
اور جو مرتے ہیں کہتے  ہیں کہ ہم جیتے ہیںآبِ شمشیر کو شربت کی طرح پیتے ہیں
اور جگر سینوں میں خوں ہوکے ہیں رہ رہ جاتےخوں دلیروں کے ہیں پانی کی طرح بہہ جاتے
کہ خریدار پہ گرتا ہے خریدار وہاںگرم ہوجاتا ہے یہ موت کا بازاروہاں
آسماں اور زمیں ہیں تہ و بالا ہوتےجان و تن موت کے منہ کا ہیں نوالا ہوتے
اور بہت تن بسر خاک ہیں پُر خوں ہوتےفتح یابی سے بہت چہرے ہیں گلگوں ہوتے
یوں ہی بہتے ہیں سدا خون کے چشمے تیرےاے امید ایسے ہزاروں ہیں کرشمے تیرے
اور بہت مدرسہ دہر میں ہیں طالب علمہیں کتب خانہ ہستی میں بہت صاحبِ علم
حسرتوں سے کیے لبریز ہیں سینے اپنےسوز محنت سے بہاتے ہیں پسینے اپنے
ذوق راحت ہے نہ ہے لطف جوانی کا خیالنہ تو کھانے کا ہے کُچھ فکر نہ پانی کا خیال
بلکہ پیوندِ ورق ہیں جُز اصلی کی طرحہوگئے وصل کتابوں میں ہیں وصلی کی طرح
ہاتھ اُٹھا بیٹھے اسی شغل میں بینائی سےپھرتے دن بھر ہیں کتابیں لیے سودائی سے
دن ہو یا رات انہیں محنت کے سوا کام نہیںتن کو راحت نہیں اور جان کو آرام نہیں
اور بَلا بارِ مشقّت کی اُٹھاتےہیں وہروز و شب خونِ جگر اپنا جو کھاتے ہیں وہ
لطفِ انجام سے ہے حُسن لیاقت دیتیاِن مصائب کی ہے توہی انہیں طاقت دیتی
دیتی ہے شاہدِ مقصود کو جلوے کیا کیادیدہ دل میں لگادیتی ہے سرمے کیا کیا
بادہ شوق سے ہے عیشِ مدامی دیتیاہل تصنیف کو ہے عمرِ دوامی دیتی
برگ وبار اُس میں مرادوں کے لگا دیتی ہےسطح کاغذ پہ تو اک باغ کھلادیتی ہے
اور دکھا دیتی ہے اس طرح سے شاداب ِ حیاتعوضِ آب ہے دیتی اُسے تو آبِ حیات
پتّے پتّے پہ سدا نقش رہے نام اُن کاشہرہ گلزارِ زمانہ میں رہے عام اُن کا
کہیں ام اے ہے بناتی کہیں بی اے کرتیکبھی تیار لیاقت کے ہے تمغے کرتی
خلعتِ بوقلموں لا کے پنھاتی ہے اُنہیںبر سرِ کرسئی دربار بٹھاتی ہے اُنہیں
اس فخرسے دامن ہے اُڑاتی اُن کےبزم کو جلوہ رنگین ہے دِکھاتی اُن کے
تازہ دم ہوتے ہیں سب کے دلِ مردہ اُن سےہوتے شاداب ہیں دلہاے فسردہ اُن سے
زہر کے گھونٹ ہیں شربت کی طرح پی جاتےکلفتِ محنت و آفت سے ہیں سب جی جاتے
دشتِ پُرخار میں ہے بے سرو ساماں جاتااک مسافر کہ ہے سرگشتہ و حیراں جاتا
اور نہ ہے ساتھ کوئی بوجھ بٹانے کے لیےنہ کوئی بدرقہ ہے راہ بتانے کے لیے
رہتی پھر جان کے بچنے کی نہیں آس اُسےاس مصیبت میں ستاتی ہے اگر پیاس اسے
بجھ کے رہ جاتا ہے دل مثلِ شرر سینے میںتپشِ راہ سے جلتا ہے جگر سینے میں
اور وہ اس لطف سے لہراتا ہوا جاتا ہےدفعۃً آبِ رواں دور نظر آتا ہے
اور خوشی سے تن بیدم میں ہے دم آجاتاکہ دلِ سوختہ ہے دیکھ کے لہراجاتا
جاتا ہے بے سرو پا دوڑتا بے تابی سےدل جو تھا لوٹ رہا سینہ میں بے آبی سے
کوسوں اک دم میں لیے جاتے ہیں دوڑائے ہوئےجامِ ہمّت جو اُسے تو نے ہیں پِلوائے ہوئے
اُتنا ہی آگے ہے پانی کو ہٹاتے جاتےزور ہمّت ہے مگر جتنا بڑھاتے جاتے
دلِ مایوس کو جب اُس کا یقیں آجائےیاس اُس وقت کی لیکن نہ خدا دکھلائے
بلکہ گردابِ فنا اے دلِ بیتاب ہے یہکہ جسے آب سمجھتا ہے نہیں آب ہے یہ
ہوں وہیں موت کے آثار عیاں آنکھوں میںیہ سمجھتے ہی اندھیرا ہو جہاں آنکھوں میں
صورتِ نقش قدم ہلنے کی طاقت نہ رہےدِل میں ہمّت نہ رہے جسم میں حالت نہ رہے
وہ بھی پر ضعف سے آکر رہے تھم سینے میںجان پانی میں ہوا ٹکی ہوئی دم سینے میں 
سرِ بالیں وہ مسافر کوئی لاتی ہے تواُس گھڑی اپنی کرامات دکھاتی ہے تو
ہاتھ میں پانی کی چھاگل ہے ہلاتا آتاحضرتِ خضر کی ہے شان دکھاتا آتا
ہوتا ہے قطرہ آبِ حیات اُس کے لیےاُس کے آجانے سے ہوتی ہے نجات اُس کے لیے 
ترک دنیا سے ہیں سرگرم ریاضت دن راتکرتے زاہد جو خدا کی ہیں عبادت دن رات
لطف ہر دم ہیں وہی پیش نظر آئے ہوئےذکر فردوس ہیں تو نے اُنہیں سنوائے ہوئے
بارعصیاں سے ہے بیچارہ گر انبار گناہرندِ آزاد جو ہر دم ہے گرفتارِ گناہ
تیری ہی چشم کرم پر ہے گذارا اُس کانہیں جُز رحمت حق کوئی سہارا اُس کا
وہ گنہگار تو غم سے ابھی مرکر رہ جاےتو نہ ہووے تو تڑپ کر دلِ مضطر رہ جاے
کارِ ارباب جہاں سے ہیں وہ بیزار سدارکھتے ہیں شعر وسخن سے جو سروکار سدا
دن کو جُز فکرِ مضامیں کبھی آرام نہیں ہے شبِ تار تو سونے سے اُنہیں کام نہیں
اور یہ بیٹھے دُرِ مضموں ہیں پرویا کرتےلوگ آرام سے ہیں رات کو سویا کرتے
یاکہ دیوانوں کی صورت ہیں بنائے بیٹھےیہ جوہر لطف سے ہیں ہاتھ اُٹھائے بیٹھے
مژدہ خلعت و انعام سُناتی ہے انہیںباغِ سبز اپنے تو ہر لحظہ دکھاتی ہے اُنہیں
ہاں غرض ہے تو فقط اتنی تری ذات سے ہےاُنہیں مطلب نہیں پر اور کسی بات سے ہے
یا کوئی نالہ موزوں کہ زباں سے نکلےکہ جو آہ اُن کے دلِ سوختہ جاں سے نکلے
اور جگر درد سے لبریز اثر ہووے سدااثرِ درد سے ناخن بہ جگر ہووے سدا
قول آزاد سے کرتی ہے انہیں یوں ارشادہووے اس پر بھی جو آشوب جہاں حد سے زیاد
خوردہ بیں ہیں تو سخنداں بھی یہیں ہوئیں گےکہ سخن فہم تہِ چرخِ بریں ہوئیں گے
آج دیکھا نہ کسی نے تو کبھی دیکھے گادادمِل جائیں گی جب اور کوئی دیکھے گا

مینا: ایک قسم کا نیلا پتھر، نیلا رنگ

شُکُوہ: شان و شوکت، دبدبہ،وقار
گردوں: آسمان برگ: پتّا
یکسر: بالکل، سارا، پورے کا پورا، تمام تر، کُل، شروع سے آخر تک
گلِ رعنا: ایک پھول جو اندر سے سُرخ اور باہر سے زرد ہوتا ہے اور دوا کے طور پر مستعمل ہے (مجازاً) حسین و جمیل، خوبرو، محبوب، معشوق

قُلّہ: پہاڑ کی چوٹی
چرخِ بریں: ساتویں آسمان
امل: آرزو

یارا: طاقت، توانائی، حوصلہ
ہر چند: بہتیرا
مقدور: طاقت، بوتا، بل

دلِ زار: خستہ، ناتواں دل
گلِ کبک کبک: چکور ، تیتر کی قسم کا ایک پرندہ جس کی چونچ اور پنجے سرخ اور گلے میں چوق ہوتا ہے (شعرأ اس کی رفتار سے معشوق کی چال کو تشبیہہ دیتے ہیں).
کاہ: سوکھی گھاس
کاہ ربا: گھاس کو کھینچنے والا) مذکر۔ ایک قسم کا زرد گوند جس کی یہ خاصیت ہے کہ اگر اسے کپڑے یا چمڑے پر رگڑ کر گھاس ے تنکے کے مقابل کریں تو مقناطیس کے مانند اس کو اُٹھا  لیتا ہے

ترپا: ٹانکا
سرشاری: مستی، بیخودی، نشہ

سیماب: آبِ سیم، بے تاب، بے قرار

چتر: رنگ برنگی
سایہ فگن:سایہ ڈالنے والا
نہال: درختِ نونشاندہ
تاجوری: سلطنت، خودمختاری، حکومت
الماس: ایک بیش قیمت پتھر جو سفید اور نہایت سخت ہوتا ہے۔ شیشے کو کاٹ دیتا ہے۔

شمیم: مہک، عطر، نکہت

سُواس: خوشبو، حسِ لطیف، خوشگوار احساس، سانس باہرچھوڑنا

نسیم: خنک اور آہستہ چلنے والی ہوا، نرم رو اور خوشبودار ہوا، ٹھنڈی ہوا، تازہ ہوا ہلکی اور لطیف ہوا

نہفتہ: پوشیدہ، مخفی

ہما: (ف)صفت۔ ایک مشہور پرند کا نام۔ جس کی نسبت خیال کیا جاتاہے کہ جس کے سرپر سے گزر جائے وہ بادشاہ ہوجاتا ہے۔ یہ جانور ہڈیاں کھاتا ہے۔ اور کسی کو نہیں ستاتا۔
اقبال: بختیاری ، خوش نصیبی ، سازگاری وقت و زمانہ ، ادبار کی ضد.جاہ و مرتبہ ، دنیاوی اقتدار. سعادت ، یمن ، برکت.
وارستگی: آزادی، وارستہ ہونا، فارغ البالی ہونا، بے پروائی

گہربار: موتی برسانے والا، رونا، آنکھوں سے آنسو بہانا،
فیّاض: سخی
پُر فُسوں: جادو بھرا/بھری ،سحر انگیز .

ہوا: آرزو
شیدا: عاشق، فریقتہ، فدائی، دل باختہ
نیرنگ: جادو گری، طلسم، سحر، فسوں

دم: قوّت ، توانائی ، زور ، سکت
نخچیر: شکار ، صید ، گرفتار ، ادھ موا ؛ (مجازاً) اسیر ، قیدی نیز زخمی ، گھائل
دولاب: رہٹ ، چرخ
جلوہ گر: رونق کا سبب، ظاہر، روشن، نمودار، نمایاں، رونق بخش، جلوہ فرما
فسوں: افسوں، جادو، سحر، دھوکا، فریب، مایا جال
سبز باغ دکھانا:جُھوٹے وعدے سے بہلانا پُھسلانا ، جُھوٹی اُمیدیں دلانا ، فریب دینا ، دھوکا دینا
جوکھوں: (جوکھم) قیمتی اشیا جیسے زر و جواہر ، روپیہ پیسہ وغیرہ جن کے چوری ہو جانے یا لٹ جانے کا خطرہ ہو
خلش: چبھن
تارِ نظر: نگاہ کا بار بار آنے جانے کا سلسلہ، لگا تار دیکھنے کا عمل
آب رفتہ: (آبپاشی) خاص میعاد تک کسی وسیع رقبے کی آبپاشی کے لیے ندی وغیرہ سے ذخیرہ کیا ہوا پانی
پرِ پرواز: وہ پر جو اُڑنے میں کام آئے
سِتیز: جنگ ، لڑائی جھگڑا ، نزاع ؛ مقابلہ
گُلناری: انار یا گلنار کی کلی کے شکل کا.سرخ یا قوت کی ایک قسم
علم : پرچم
سر بکف: ہتھیلی پر سر رکھے ہوئے ، جان دینے پر آمادہ ، مرنے پر تیار
گلگوں: گلاب کے رنگ کا، گلابی، سُرخ
وصلی: دو باہم جوڑے ہوئے کاغذوں کا ورق جسے مسالا لگاکر
اور خشک کرکے چکنا بنالیا جاتا ہے اور جس پر خوش نویس قطعہ یا رباعی وغیرہ کی مشق کرتے ہیں
سودائی: مجنوں، دیوانہ
بوقلموں: وہ نلکی جس میں شیشے کے رنْگین ٹکڑے پڑے ہوتے
اور نلکی کے پھرانے سے ہمیشہ نئی نئی مختلف رنْگین شکلیں نظر آتی ہیں ؛
شیشے کا سہ پہلو ٹکڑا جس کے پر پہلو سے فزح کے مختلف رنْگ نظر آتے ہیں عکس نما ، عکس نیز ، منشور
سرگشتہ: حیران، پریشان، سرگرداں،
راستے سے بھٹکا ہوا، رہ کا بھٹکا ہوا
بَدرَقہ: رہنما، راهبر، وہ شخص جو راستہ دکھاتا ہے
اور دوسروں کو مشورہ دینا

یاس: ناامیدی گرداب: پانی کا چکّر، بھنور، ورطہ، گھمّن گھیری
سربالیں: سرہانے
رند: شرابی، چرسی، مست
آشوب:جلن

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks