افسانہ (05) پیرن کا خلاصہ

سعادت حسن منٹو کا افسانہ : پیرن کا خلاصہ

افسانہ “پیرن” سعادت حسن منٹو کا افسانوی مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل پانچواں افسانہ ہے، جو 28جولائی 1950ءکو لکھا گیا۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ” یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں بے حد مفلس تھا۔ بمبئی میں نوروپے ماہوار کی ایک کھولی میں رہتا تھا جس میں پانی کا نل تھا نہ بجلی۔ “۔

اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے” اور میرا ایک نہایت دلچسپ مشغلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب کون مجھے بیکار رکھنے کا موجب ہو گا ۔”۔

نچوڑ

سعادت حسن منٹو نے اس افسانے کوایک کردار “پیرن”کے نام سے معنون کیا ہے اس کا دوست برج موہن رہتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھاتی ہے لیکن روابط بڑھاتے ہی برج موہن کا نقصان ہوجاتاہے اس کی ملازمت ہاتھ سے چلی جاتی ہے اور رابطہ ختم کرتے ہی ملازمت مل جاتی ہےجس کی وجہ سے وہ اس کو منحوس سمجھتا ہے، اور بار بار اس کو جانچتا ہےاخیرمیں جب اس سے ملنے سے ملازمت ختم ہونے کے بجائے ترقی ملتی ہے تو برج موہن کی دلچسپی اس سے ختم ہو جاتی ہے۔

خلاصہ

منٹو صاحب نے اس افسانے کے آغاز میں اپنی صورت حال اور جائے قیام سے متعارف کرایا ہےکہ انتہائی بدحالی میں بمبئی میں نوروپے کی ماہوارکی کھولی میں رہتے تھے، پھر بمبئی کی چالی یعنی بلڈنگ میں رہنے والوں کے بارے میں بتایاہے ، عوامی  غسل خانہ میں نہاتے ہوئے افسانہ کااہم کردار برج موہن کو سامنے لایاہے ، جو پارسی لڑکی پیرن سے ملنے ہر اتوار کو باندرہ جاتاتھا اور وہاں جانے کے لیے آٹھ آنے کیرایہ منٹو صاحب سے لیتاتھا۔

قریباًتین سال سے ان کا معاشقہ چل رہا تھاوہ ملتا، کراس پزل حل کرکے دیتا کئی بار وہ انعام بھی وصول کرچکی تھی، برج موہن کے پاس الگ الگ لباس میں پیرن کی سیکڑوں تصویریں تھیں وہ ادنی شکل وصورت کی لڑکی تھی ۔

وہ اس اتوار کو مل کرآنے کے بعد بتایا کہ معاملہ ختم ہوگیا آج پیرن سے بے ٹوک بات ہوگئی میں نے اس سے کہاکہ تم سے ملتے ہی میری ملازمت چلی جاتی ہےلیکن پیرن نے جواب دیا  کہ تم نکھٹوہو تم الگ ہوکر تودیکھو میں بھی دیکھتی ہوں تم کو کام کیسے ملتا ہے۔برج موہن نے کہا کہ کل نانوبھائی سے ملتے ہی کام مل جائے گااور ہوابھی یہی کہ نانوبھائی نے ڈھائی سو ماہوار پر ملازمت پر رکھ لیا، وہ چاہتا تھا کہ پیرن کو جاکر بتائے لیکن اس کو خطرہ تھا کہ اس کی ملازمت چلی جائے گی۔

یہاں کام کرتے ہوئے اپنی آرام و آسائش کے سامان جمع کرلیاتبھی پیرن کے بلاوا کا خط آیا، خط دیکھتے ہیں برج موہن نے منٹو صاحب سے کہا اب ملازمت تو گئی ملتے ہی نانو بھائی نوکری سے نکال دیں گے منٹو نے کہا تو اس سے ملنے مت جاؤاس نے کہا کہ اب تو چھ ماہ سے اوپر ہوگئے ہیں ، ملازمت سے بھی تھک گیا ہوں اور وہ بلائی ہے تو جانا ہی پڑے گا۔

برج موہن مل کرآیا اور اگلے دن ملازمت سے ہٹائے جانے کے بجائےنانو بھائی کا اسٹڈیو ہی سیل ہوگیا تھا، اب وہ بے کار تھا، جمع پونجی ختم ہونے کے بعد پرانا سلسلہ ہی شروع ہواکہ منٹو صاحب سے کیرایہ کے لیے آٹھ آنے مانگ کر باندرہ جانے لگا۔

ایک دن منٹو کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اس کے بجائے کسی اور کو چاہتی ہے اس میں جو کمی ہے وہ اس سے پوراکرتی ہے، اوررہا اس کا یہ ملنا تو وہ اس کی نحوست کاامتحان لے رہ تھا وہ سوچا تھا کہ اس بار ملازمت ملنے کے بعد پیرن سے مل کر واپسی پر خود استعفا دیدے گااور کہے گا کہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ وہ اس کو ملازمت سے بے دخل کردیں گے چنانچہ ایک اتوار کو برج موہن باندرہ سے واپس آکرکہا کہ لوبھائی معاملہ ختم ہوگیا، اب کچھ دنوں میں ہی کام مل جائے گاسوچا ہوں کہ سیٹھ نیاز علی سے ملوں انہوں نے نئے فلم کا اعلان کیاہے اگلے روز ملاتو ایک پکچر کا کنٹریکٹ تنخواہ دو سوروپے ماہوار پرمل گیا۔

پھر پانچ ماہ بعد پیرن کا خط آیااس میں اتوار کو ملنے کا لکھا تھا، منٹو نے کہا کہ ملنے جاؤگے تو اس نے یہ گانا گنگنایا

“مت بھول مسافر تجھے جانا ہی پڑے گا”

منٹو نے جانے سے منع بھی کیالیکن وہ گیا اور اس نے پیرن سے کہا کہ یہ بارہویں بار ہے کہ تم سے ملنے کی وجہ سے ملازمت ختم ہوجائےگی تم پر زرتشت کی رحمت ہو!

اگلے روز برج موہن استعفیٰ لکھ کر دفتر روانہ ہوا اور واپسی پر افسردہ تھا ، کوئی بات نہیں کی تو منٹو نے پوچھا اس نےجواب دیاکہ کچھ بھی نہیں ہوا سارا قصہ ہی ختم ہوگیا استعفیٰ دینے پر ملازمت ختم کرنے کے بجائے تنخواہ دو سو روپے سے تین سو روپے کر دی گئی ۔

اس طرح پیرن سے برج کی دلچسپی ختم ہوگئی اس نے منٹو سے ایک روز کہا “پیرن کی نحوست ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی ختم ہوگئی—— اور میرا ایک نہایت دلچسپ مشغلہ بھی ختم ہوگیا۔ اب کون مجھے بیکار رکھنے کا موجب ہو گا ۔”

افسانہ کے کردار

منٹو صاحب

برج موہن

پیرن(پارسی لڑکی)

نانو بھائی (فلم ڈائرکٹر)

سیٹھ نیاز علی (فلم ڈائرکٹر)

اہم نکات

بمبئی میں نوروپے ماہوار کی ایک کھولی میں رہتا تھا جس میں پانی کا نل تھا نہ بجلی۔

ہر اتوار کو برج موہن مجھ سے آٹھ آنے ٹرین کے کرائے کے لئے لیتا۔

سیٹھ نانو بھائی نے اسے ڈھائی سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا ہے ۔

سیٹھ نانو بھائی پر ٹانچ آ گئی ہے —— اسٹڈیوسیل ہو گیا ہے۔

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا: (لفظاً) ہاتھ کے کنگن کو دیکھنے کے لیے آئینے کی ضرورت نہیں ہوتی، مراد: جو بات ظاہر ہو اس کے دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے، جو چیز آنکھوں کے سامنے ہو اس کو کیا بیان کرنا

سیٹھ نیاز علی نے دوسو روپے ماہوار پر ایک پکچر کا کنٹریکٹ کیا۔

“جانا ہی پڑے گا—— ” پھر اس نے یہ فلمی گیت گانا شروع کر دیا۔

       “مت بھول مسافر تجھے جانا ہی پڑے گا !”

     میں نے سیٹھ نیاز علی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تو اس نے مسکرا کر مجھے ایک آفیشل خط دیا۔ اس میں یہ لکھا تھا۔ کہ میری تنخواہ پچھلے مہینے سے دوسو کے بجائے تین سو روپے ماہوار کر دی گئی ہے!”

اہم اقتباس

ایک نہایت ہی غلیظ کوٹھڑی تھی جس کی چھت پر سے ہزار ہا کھٹمل میرے اوپر گرا کرتے تھے۔ چوہوں کی بھی کافی بہتات تھی——اتنے بڑے چوہے میں نے پھر کبھی نہیں دیکھے۔ بلّیاں ان سے ڈرتی تھیں ۔

چا لی یعنی بلڈنگ میں صرف ایک غسل خانہ تھا جس کے دروازے کی کنڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ صبح سویرے چالی کی عورتیں پانی بھرنے کے لئے اس غسل خانے میں جمع ہوجاتی تھیں ۔ یہودی، مرہٹی ، گجراتی ، کرسچین——بھانت بھانت کی عورتیں

اس نے کئی نئے کپڑے بنوا لئے تھے۔ ایک درجن رومال بھی خرید لئے تھے ۔ اب وہ تمام چیزیں اس کے پاس تھیں جو ایک کنوارے آدمی کے آرام و آسائش کے لئے ضرو ری ہوتی ہیں۔

تم نہیں جانتے ان لڑکیوں کو۔ میں خوب پہچانتا ہوں انہیں——  جس سے وہ محبت کرتی ہے اس میں جو کمی ہے، مجھ سے مل کر پوری کر لیتی ہے۔”

” اس کی نحوست کا “—— میں اس کا امتحان لے رہا ہوں۔ اس کی نحوست کا امتحان ——  یہ نحوست اپنے امتحان میں پوری اتری ہے ۔ میں نے جب بھی اس سے ملنا شروع کیا، مجھے اپنے کام سے جواب ملا —— اب میری ایک خواہش ہے کہ اس کے منحوس اثر کو چکمہ دے جاؤں۔”

ٹھنڈا گوشت میں شامل افسانے

خلاصہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks