مغربی ہندی اور اس کی بولیاں
مغربی ہندی کوئی خاص بولی نہیں بلکہ دہلی اور اس کے اطراف میں بولی جانے والی بولیوں کا مجموعہ ہے۔
جارج ابراہم گریرسن نے ان بولیوں کو مغربی ہندی کا نام دیااورمشرق کی تین بولیوں کے لیے مشرقی ہندی کی اصطلاح وضع کیا، انہوں نے ہی سب سے پہلے مشرقی اور مغربی ہندی میں فرق کیا ہے۔
یہ شورسینی اپ بھرنش کی سچّی جانشین ہے۔
امیر خسرو نے اپنی مثنوی “نہ سپہر” میں دہلی اور اس کے نواح کی بولیوں کو زبانِ “دہلی و پیرامنش” کے نام سے یاد کیا ہے۔
امیر خسرو نے اپنی مثنوی “نہ سپہر” (1318)کے تیسرے سپہر میں اپنے عہد کے ہندوستان کی گیارہ زبانوں کے نام گنانے کے بعد دہلی اور اس کے نواح کی بولیوں کو زبانِ “دہلی و پیرامنش” کے نام سے یاد کیا ہے۔ اس کو ہندی، ہندوی، دہلوی بھی کہاہے۔
مثنوی نہ سپہر امیر خسرو مترجم: محمد رفیق عابد
مغربی ہندی کے حدود تقریباً وہی ہیں جو مدھیہ دیش کے ہیں۔ یہ مغرب میں سرہند سے لے کر مشرق میں الہ آباد تک، شمال میں ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب میں وندھیاچل اور بندیل کھنڈ تک بولی جاتی ہے۔ اس کے شمال مغرب میں پنجابی زبان ہے اور جنوب مشرق میں مراٹھی اور مشرقی ہندی شمال میں یہ پہاڑی بولیاں (جونسری، گڑھوالی اور کمایونی) سے گھری ہوئی ہے۔ یہ ہندوستان کی پانچ ریاستوں : ہریانہ، دہلی، اترپردیش، اتراکھنڈ اورمدھیہ پردیش میں پھیلی ہوئی ہے۔
اندرونی زبان کی شاخ میں صرف مغربی ہندی ایک ایسی زبان ہے جسے ہم خالص اندرونی زبان کہہ سکتے ہیں۔
مسعود حسین خاں اس کو “خالص اندرونی زبان” قرار دیتے ہیں، ان کے بقول “اگر پنجابی، راجستھانی اور گجراتی کی ملواں حیثیت پر نظر رکھیں تو اندرونی گروہ کی نمائندہ زبان محض مغربی ہندی ہے۔”
مغربی ہندی کا یہ نام مدھیہ دیش کی زبان کوگریرسن نے دیا ہے جس نے سب سے پہلے مشرقی اور مغربی ہندی میں فرق کیا ہے۔
مغربی ہندی مدھیہ دیش کی زبان ہونے کی وجہ سے ہند آریائی زبان کی بہترین نمائندہ ہے، کیوں کہ اسی علاقہ میں سنسکرت شورسینی پراکرت اور شورسینی اپ بھرنش پروان چڑھتی ہیں جن کی سچّی جانشین اس علاقے کی جدید بولیاں کھڑی بولی (ہندوستانی) برج بھاشا، ہریانی، بندیلی اور قنوجی ہیں جس کے مجموعے کو گریرسن مغربی ہندی کا جدیدنام دیتا ہے۔
مغربی ہندی کا تعلق براہِ راست شورسینی اَپ بھرنش سےہے۔ہر عہد میں اس علاقہ کی زبان کا مرکز متھرا رہا ہےجو قدیم ہندی تمدّن کا اہم مرکز تھا۔
اس میں صحیح معنوں میں صرف ایک زمانہ فعل کے لیے اور صرف ایک حالت اسماء کے لیے پائی جاتی ہے۔ اسماء اور افعال کی دیگر تمام حالتیں حروف، فعلِ امدادی اور سابقوں، لاحقوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔
گریرسن نے مغربی ہندی کی پانچ بولیاں گنائی ہیں جن کے نام حسب ذیل ہیں:
کھڑی بولی یا ہندستانی، ہریانوی، جاٹو یا بانگڑو،برج بھاشا،قنوّجی، بندیلی
شورسینی اپ بھرنش اپنے آخری دورمیں نمایاں شکلیں اختیار کرلیتی ہے۔
پہلی شکل میں افعال و اسما کا اختتام عام طور سے (آ) پر ہوتا ہے جس میں کھڑی بولی اور ہریانوی آتے ہے جیسے میرا بڑا بیٹا دلی گیا
دوسری شکل میں (اُو) شکل ملتی ہے، جو گریرسن اور شیرانی کے خیال میں پنجابی سے لی گئی ہے۔ جو برج بھاشا، قنوّجی اور بندیلی میں پائی جاتی ہے۔جیسے میروبڑو بیٹو دلّی گیو۔
پنڈت چندردھرشرماگلیریانھیں کھڑی بولی کے مقابلے میں “پڑی بولی” کا نام دیتے ہیں۔
مغربی ہندی کے حدود تقریباً وہی ہیں جو مدھیہ دیش کے ہیں۔ یہ مغرب میں سرہند سے لے کر مشرق میں الہ آباد تک، شمال میں ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب میں وندھیاچل اور بندیل کھنڈ تک بولی جاتی ہے۔ اس کے شمال مغرب میں پنجابی زبان ہے اور جنوب مشرق میں مراٹھی اور مشرقی ہندی شمال میں یہ پہاڑی بولیاں (جونسری، گڑھوالی اور کمایونی) سے گھری ہوئی ہے۔
اندرونی زبان کی شاخ میں صرف مغربی ہندی ایک ایسی زبان ہے جسے ہم خالص اندرونی زبان کہہ سکتے ہیں۔
کھڑی بولی یا ہندوستانی
یہ مغربی ہندی کی وہ بولی جو مغربی روہیل کھنڈ ، دو آبہ کے شمالی حصہ اور پنجاب کے ضلع انبالہ میں بولی جاتی ہے، یہ دہلی کے شمال مشرق کی بولی ہے،اس کا علاقہ مغربی اتر پردیش کاعلاقہ ہے جسے بالائی دو آبہ کہتے ہیں،دریائے جمنا پار کرتے ہی کھڑی بولی کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔
گریرسن اسے ہندوستانی کہہ کر پکارتا ہے۔ اس میں اور ادبی ہندوستانی (اردو) میں ماں بیٹی کا تعلق ہے۔
ہندوستانی کے بارے میں گریرسن اور لائل دونوں کی رائے یہی ہے کہ بولی ہندوستانی کا ڈول اور کینڈا دیگر بولیوں کی بہ نسبت برج کے زیادہ قریب ہے۔اسے دہلوی، کھڑی بولی یا ہندوستانی کسی بھی نام سے یاد کیا جائےاس کا علاقہ اور اس کی قدامت متعین کی جاسکتی ہے۔ہندوستانی اور پنجابی کے درمیان دریائےگھگھر کو خطِ فاصل قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہندوستانی بولی کے حدودِ اربعہ کی تفصیل یوں ہے:
کھڑی بولی یا ہندوستانی مغربی ہندی کے شمال مغربی علاقہ کی بولی ہے ۔ اس کے مغرب میں پنجابی یا دلّی اور کرنا ل کی آدھی راجستھانی مِلی ہوئی بانگڑو یا جاٹو زبان ہے۔ اس کے شمال میں پہاڑی بولیاں ہیں جن کا راجستھانی سے گہرا رشتہ ہے۔ جنوب اور مشرق میں یہ برج بھاشا سے گھری ہوئی ہے۔ چنانچہ گریرسن نے اسے برج بھاشا کا ایساروپ مانا ہے جو پنجابی میں بتدریج ضم ہوتا چلا گیا ہے۔ کھڑی بولی کا خاص علاقہ مغربی یوپی میں دریائے گنگا کے مشرق اور مغرب کا علاقہ ہے۔ گنگا کے مشرق میں یہ مراد آباد، بجنور اور رام پور کے اضلاع، نیز مغربی روہیل کھنڈ کی بولی ہے۔ گنگا کی دوسری جانب یعنی مغرب میں یہ میرٹھ، مظفر نگر اور سہارن پور کے اضلاع میں بولی جاتی ہے۔ شمال میں اتراکھنڈکے مرکزی شہر دہرہ دون اور اس کے میدانی علاقوں کی زبان بھی کھڑی بولی ہی ہے۔
کھڑی بولی کے اوصاف
ہر زبان اور ہر بولی کی طرح کھڑی بولی کی بھی چند خصوصیات ہیں، جو حسب ذیل ہیں :۔
کھڑی بولی کی سب سے بڑی خصوصیت معکوسی الفاظ ’’ ڈ ‘‘کاکثرت سے استعمال ہے۔ جیسے گڈی (گاڑی)۔
مشدّد الفاظ کا بکثرت استعمال۔جیسے بدّل (بادل) ندّی (ندی) چدّر (چادر) جگّہ(جگہ)۔
درمیانی ‘‘ ہ‘‘ کا گرا دینا ۔جیسے نئیں (نہیں)۔
نفسی آوازوں کو حذف کردینا ۔جیسے وو (وہ) کاں (کہاں)۔
مصوتوں کو انفیانےیعنی ’’ں‘‘کے زیادہ کرنے کا رواج ۔جیسے فاطماں (فاطمہ) کہناں (کہنا) کونچ در کونچ (کوچ در کوچ)۔
’’ ڑ ‘‘ اور ’’ ڑھ ‘‘پر”ڈ “اور” ڈھ “کو ترجیح دینا ۔جیسے گڈی (گاڑی) پڈھنا (پڑھنا)۔ یہ خصوصیت دکنی اردو میں بھی پائی جاتی ہے۔
ساکن کو متحرک کرنے کا رجحان، جو آج تک عوام میں باقی ہے۔ مثلاً وَقَت (وقت) شَکَل(شکل) زَخَم(زخم) وغیرہ۔
’’ اں ‘‘ لگا کر جمع بنانے کا رجحان۔ جیسے دناں، کھیتاں وغیرہ۔
’’ نے ‘‘ کا بے محل استعمال۔ جیسے راشد نے اس نے دیکھ لیا (راشد نے اس کو دیکھ لیا)۔
دکنی اردو کی طرح ’’ یو ‘‘ کا استعمال۔ اسی طرح دکنی کا او (وہ) کھڑی بولی میں ‘‘ اوہ‘‘ کی شکل میں مستعمل ہے۔
کھڑی بولی میں بھی دکنی کی طرح تیرا، میرا، کی تجھ ، مجھ کا استعمال ملتا ہے۔
دکنی ہی کی طرح کھڑی بولی میں بھی ’’ مارو ہوں‘‘ (مارتا ہوں) ’’ مارے ہے‘‘ ( مارتاہے) وغیرہ افعال کییہ صورت ملتی ہے۔
دکنی اردو کی طرح ’’ یو ‘‘ کا استعمال۔ اسی طرح دکنی کا او (وہ) کھڑی بولی میں ‘‘ اوہ‘‘ کی شکل میں مستعمل ہے۔
ہریانوی، بانگڑو و جاٹو
دہلی کے شمال مغربی اضلاع کرنا، رہتک، حصار وغیرہ کی بولی ان تینوں ناموں سے پکاری جاتی ہے۔ لیکن اس کا ہریانوی نام زیادہ موزوں ہے۔ ہریانوی پنجابی سے بہت متاثر ہے جو اس کے شمال میں بولی جاتی ہے، اس کے شمال مشرق میں کھڑی بولی کا چلن ہے اور جنوب مغرب میں راجستھانی رائج ہے۔
گریرسن موجودہ ہریانی کو کھڑی بولی ہی کی ایک شکل مانتا ہے جس میں راجستھانی اور پنجابی بولیوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ حالاں کہ آگے چل کر پنجابی کے سلسلے میں لکھتا ہے کہ پنجابی ایک مخلوط زبان ہے۔جو پرانی لہندا اور دو آبہ کی زبان کے اختلاط سے قدیم زمانے میں بنی ہوگی۔ میر عبدالواسع ہانسوی کے غرائب اللغات ہندی کی تصنیف کے بعد ہم کہہسکتےہیں کہ ہانسی کے نواح کی ہریانی بولی معیاری مانی جانے لگی تھی، جو جمنا پار کی میرٹھ ضلع کی کھڑی بولی (ہندوستانی ) سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی تھی لیکن خان آرزو تصحیح غریب اللغات ہندی میں میر عبدالواسع سے اختلاف کرتے ہوئےہریانوی کے بجائے سند ہمیشہ برج بھاشا سے (گوالیری “افصح السنہء ہند”) سے لیتے ہیں۔ “زبانِ اہلِ اردو” یا “زبان اردوئے شاہی” یا “بزبانِ اردو” (اقتباسات خان آرزو کے ہیں) کو بھی وہ بہت معیاری نہیں مانتے۔
برج بھاشا
یہ دہلی کے جنوب مشرقی علاقے میں ارتقا پذیر ہونے والی بولی ہے جو مغربی ہندی کی سب سے نمائندہ بولی یا استعارہ میں اس کی سب سےعزیز بیٹی برج بھاشاہے۔یہ کھڑی بولی کے مقابلہ میں شورسینی اپ بھرنش اور پراکرت کی سچی جانشین ہے۔ اس کا مرکز برج (متھرا) کا علاقہ ہے۔ جو سنسکرت زبان کا گہوارہ رہا ہے۔
کرشن بھکتی کا تمام تر ادبی سرمایہ جو شاعری پر مشتمل ہے برج بھاشا میں ہی پایا جاتاہے اور سور داس، جنھیں ہندی شاعری کا “سورج” کہا گیا ہے، برج بھاشا کے ہی شاعر تھے۔
برج بھاشا کا علاقہ متھرا جنوب میں آگرہ، فیروزہ آباد، بھرت پور، دھول پور، گوالیار، نیز جے پور کے مشرقی حصوں میں رائج ہے، شمال میں یہ گڑگاؤں کے مشرقی حصوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ متھراکے شمال مشرق مین ایٹہ، علی گڑھ، بلندشہر، مین پوری، بدایوں اور بریلی کے اضلاع میں رائج ہے۔ جے پور کے قریب کی برج بھاشا پر راجستھانی کا اثر ہے۔ گڑ گاؤں کے پاس کی برج بھاشامیواتی (راجستھانی کی ایک بولی)سے متاثر ہے اور بلند شہر میں بولی جانے برج بھاشا کھڑی بولی سے گھل مل جاتی ہے۔
قنوجی
مغربی ہندی کی ااس بولی کا نام شہر قنوّج کے نام پر ہے جو ضلع فرّخ آباد میں ہے۔ رامائن تک میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
موجودہ دور میں قنوجی ایٹہ، فرخ آباد اور شاہجہاں پور کے اضلاع میں بولی جاتی ہے، لیکن یہ اٹاوہ، کانپور اور ہرددوئی تک پھیلی ہوئی ہے، اور شاہجہاں پور کے شمال میں پیلی بھیت تک اس کا چلن ہے۔ کانپور کی قنوجی پر بھیلی ، ہردوئی کی قنوجی پر اودھی اور پیلی بھیت کی قنوجی پر برج بھاشا کا اثر نمایا ں ہے۔
قنوجی کے مشرق اور شمال مشرق میں اودھی، جنوب میں بندیلی اور اس کے مغرب اور شمال مغرب میں برج بھاشا کا چلن ہے۔
قنوجی میں ادب کا فقدان ہے ، ادبی حیثیت سے یہ برج کی وجہ سے پیچھے رہ گئی ہے۔ برج بھاشا اور قنوجی میں گہرا لسانیاتی رشتہ پایا جاتا ہےان دونوں کی قواعد میں بھی فرق بہت کم ہے۔ گریرسن کو اسے علیحدہ بولی کی حیثیت دینے میں پس و پیش ہے، لیکن اس میں برج سے یہ فرق ہے کہ برج میں “اُ”کا رواج ہےتوقنوجی میں “اَو” کا۔ پرشوتم داس ٹنڈن کو پیش کیے ہوئے ہندی ارمغاں راج رشی ابھینندن گرنتھ میں ایک مضمون نگار نے ثابت کیا کہ قنوجی برج سے علاوہ بولی ہے۔ برج اور قنوّجی دونوں میں حروف صحیح پر ختم ہونے والے الفاط کے آخر میں (ا) بڑھا دیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی گھر، قنوّجیگھرااورگھروا۔دوسری ہمسایہ بولیوں کی طرح قنوّجی میں بھی حرفِعلّت کے درمیان کی ہ گِرجاتی ہے۔ جیسے کہی ہوگی بجائے “کئی او”
بندیلی یا بندیل کھنڈی
یہ بندیل کھنڈی بولی ہے اور اس کے بولنے والے بندیلے کہلاتے ہیں۔جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے بندیل کھنڈ میں باندا، ہمیرپورجالون اور جھانسی کے اضلاع اور سنٹرل انڈیا کی اکثر سابق ریاستیں شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش کے بعض شمالی اضلاع بھی بندیل کھنڈمیں آتے ہیں۔ بندیل کھنڈ کے علاوہ اس کا چلن شمال میں آگرہ، مین پوری اور ایٹہ تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس کے مشرق میں بگھیلی، شمال اور شمال مغرب میں قنوجی اور برج بھاشا کا چلن ہے تو جنوب مغرب میں راجستھانی کا۔جنوب میں اس کے حدود مراٹھی سے ملتے ہیں۔ اس میں ادب کا وقیع سرمایہ ملتا ہے۔اس میں ہندی کی رزمیہ نظم آلھاکھنڈیا آلھا اودل کے قصے مشہورہیں ۔ ان کے علاوہ ہندی ادب کے نورتن شاعر اور تنقید نگار کیشو داس اور پداکر کا تعلق بھی اسی بولی سے ہے۔
Pingback: NTA UGC NET Urdu Complete Syllabus Urdu Literature
بہت عمدہ
[email protected]