پیش خدمت ہے پریم چند کے مجموعہ “واردات” میں شامل دسواں افسانہ “انصاف کی پولیس”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
انصاف کی پولیس
منشی پریم چند
(1)
سیٹھ نا نک چند نے آج پھر وہی لفافہ پایا اور وہی تحریر دیکھی تو ان کا چہرہ زرد ہو گیا۔ خط کھولتے ہی ہاتھ اور دل کانپنے لگے۔ خط میں کیا لکھا ہے ساتھیوں نے قیافے سے معلوم کر لیا تھا۔اس لفافہ اور اسی تحریر کے کئی خط یکے بعد دیگرے انہیں مل چکے تھے۔اس خط کا بھی وہی مضمون ہوگا ، اس میں مطلق شبہ نہ تھا۔ وہ خط کو کانپتے ہاتھوں میں لیے آسمان کی طرف تا کنے لگے گویا اس میں اپنا نوشتہ تقدیر پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں ۔ وہ دل کے مضبوط آدمی تھے۔مردوں سے بھی اپنی رقم وصول کر لیتے تھے۔ رحم یا رعایت یا دوسری کمزوریاں انہیں چھو بھی نہیں گئی تھیں ورنہ مہاجن ہی کیسے بنتے ۔ وہ ہر پورن ماشی کوستیہ نارائن کی کتھا سنتے تھے۔ پچھلے پندرہ سال میں اس معمول میں ایک ناغہ بھی نہ ہوا تھا۔ منگل یا کسی خاص دن مہابیر جی کولڈو چڑھاتے تھے، روزانہ جمنا میں اشنان کرتے اور شیو جی کو جل چڑھاتے تھے ۔ مہینے میں دو بار برہمنوں کو بھوجن بھی کراتے تھے اور جب سے گھی کے کاروبار میں نفع کثیر ہونے لگا تھا، ایک دھرم شالہ بنوانے کی فکر میں تھے۔ زمین طے کر لی تھی اور کسی اچھی مہورت کے منتظر تھے۔انہوں نے خوب حساب کر کے دیکھ لیا تھا اس کار خیر میں ان کی جیب سے ایک کوڑی بھی نہ خرچ ہوگی ۔ زمین ایک بیوہ کی تھی جس پر انہوں نے پہلے اپنی گاۓ بھینسوں کے لیے ایک مختصر سا چھپر ڈال لیا تھا اور جب بیوہ ایک نابالغ لڑکا چھوڑ کر مرگئی تو وقف زمین اس کے قبضے میں آ گئی۔ لڑکا اپنے ننھیال میں تھا اور ننھیال والوں کو توفیق نہ تھی ، نہ اتنی فرصت کہ سیٹھ جی سے مقدمہ بازی کرتے ۔معمار سب ان کے اسامی تھی اور مزدوری کر کے سودا کرنا چاہتے تھے۔ اینٹ والا بھی ان سے کئی سال پہلے قرض لے گیا تھا اور اصل کی دو چند رقم ادا کر چکنے کے بعد بھی اس پر ان کے ہزاروں روپے نکلتے تھے، اس لیے یہ مرحلہ بھی طے تھا۔ صرف سیمنٹ اور چونے والے بیوپاری کے پھنسنے کا انتظار تھا۔ وہ دس بیس ہزار کی دستاویز لکھالے، بس دھرم شالہ تیار ہے۔ ہر ایک کامیاب آدمی کی طرح دیوتاؤں پران کا پکا اعتقاد تھا جن کی دعا اور برکت سے انہیں کسی کاروبار میں گھاٹا نہیں ہوا ، مگر جب سے یہ خطوط ملنے لگے تھے انہیں ایک وہم آمیز تشویش پیدا ہو گئی تھی ۔ رات کو ان کےدروازے پر محض ایک چوکیدار رہتا ہے ۔ اگر دس پانچ مسلح آدمی آجائیں تو وہ اکیلا کیا کرسکتا ہے۔ شاید انہیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہو۔ ہم سایوں میں ایسا کوئی نظر نہ آتا تھا جو خطرے کے وقت کام آئے۔ حالاں کہ سب ہی ان کے اسامی تھے یا رہ چکے تھے لیکن یہ فرقہ احسان فراموشوں کا ہے۔ جس کے دروازے پر ضرورت کے وقت ناک اور پیشانی رگڑتا ہے، اسی کے در پے آزار ہو جا تا ہے ۔ احسان ماننا تو دور رہا الٹا بدخواہ ہو جا تا ہے ۔ انہوں نے سوچا اگر رات کو دس پانچ آدمی آ جائیں تو واقعی بڑی مشکل کا سامنا ہو۔ بے شک دروازہ مضبوط ہے اور اسے توڑنا آسان نہیں ۔ جوڑیاں بھی جرمن ساخت کی ہیں جن پر کوئی حربہ اثر نہیں کر سکتا اور دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ ان پر کوئی کیا کھا کے چڑھے گا۔ نقب تو امرمحال ہے۔ بیرونی دیوار خالص پتھر کی ہے۔ ایک ایک پتھر دس دس من کا ہے ۔
اس خیال سے انہیں قدرے تشفی ہوئی ۔ اپنی رائفل نکال کر انہوں نے اس کا خوب معائنہ کیا۔موقع پڑنے پر اس سے بھی دس پانچ آدمیوں کومنٹوں میں بھون سکتے ہیں ۔ پھر بھی ان پر ایک دہشت سی طاری ہو گئی ۔ کون جانے یہ چوکیدار بھی ان ہی میں مل گیا ہو۔ خدمت گار بھی تھوڑے سے لالچ سے آستین کے سانپ ہو سکتے ہیں۔
آخر کئی منٹ کے روحانی انتشار کے بعد انہوں نے خط کھولا اور ان کا چہرہ زرد ہو گیا۔ آنکھیں پھیل گئیں ۔سانس تیز چلنے لگی ۔ فوراً دروازہ بند کر دیا اور خط لیے اندرآ کر کیسر سے بولے: ’’ دیکھتی ہو آج پھر وہی خط آیا۔ آج تو تاریخ بھی مقرر کر دی۔ پرسوں ان کا دھاوا ہوگا ۔لکھا ہے اگر اپنی جان عزیز ہے تو پچیس ہزار روپے نقد رامیشور کے مندر کے سامنے درخت کے نیچے آٹھ بجے رات کو رکھ دو ۔ یہ سب سمجھتے ہوں گے کہ ان گیدڑ بھبکیوں سے میں ڈر جاؤں گا۔‘‘
کیسر پڑھنا نہ جانتی تھی ۔ پھر بھی اس نے ان کے ہاتھ سے خط لے لیا اور اس پر ایک نظر ڈال کر بولی :’’ میں تو سوچتی ہوں مہینے دو مہینے کے لیے یہاں سے کہیں چلے چلیں ، کاشی ، پریاگ، ہردوار کہیں بھی ۔ تیرتھ کا تیرتھ ہو جاۓ گا اور ذرا چین بھی نصیب ہوگا ۔ مجھے تو مارے خوف کے رات کو نیند نہیں آتی ۔‘‘
سیٹھ جی دلیرانہ انداز سے بولے: ’’اس طرح ایک ایک دھمکی میں بھاگنے لگوں تو مہاجنی کر چکا۔ یہ سب میرے ہی اسامی ہیں جن کی جائیدادیں میں نے نیلام کرائی ہیں ۔ رائفل کی ایک آواز جہاں کی ، ہرن ہو جائیں گے۔ پولیس کو بھی اطلاع کیے دیتا ہوں ۔ میں نے ابھی تک پولیس کو خبر نہیں دی وہ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا دیں گے اور دو چار ہزار روپے میری حفاظت کے بہانے سے وصول کر لیں گے ۔ اور حفاظت جیسی وہ کریں گئے وہ میں جانتا ہوں۔اب اطلاع دے دوں گا۔ دو چارسوروپیوں کا منہ نہ دیکھوں گا۔اپنی طرف سے ہوشیار رہنا اچھا ہے ۔“
کیسر دو ہرے بدن کی عورت تھی نخل بے ثمر جو پت جھڑ میں بھی ہری ہری پتیوں سے لدا رہتا ہے ۔ اولاد کی ناکام آرزو میں زندگی کا بڑا حصہ گزار چکنے کے بعد اب اس پر ہمیشہ ایک پر خوف مایوسی طاری رہتی تھی ۔ معلوم نہیں کب آنکھیں بند ہو جائیں ، پھر یہ زرومال کس کے ہاتھ لگے گا ۔ سب سے زیادہ خوف اسے بیماری کا تھا۔ اسے وہ موت کا پیش خیمہ سمجھتی تھی اور اس جامہ ہستی کو اس وقت تک اتارنا نہ چاہتی تھی جب تک ایک تاربھی باقی رہے، بال بچے ہوتے تو وہ خوشی سے مرتی اور موت کو بلاتی، لیکن اب تو اس کی زندگی ہی اس کا خاتمہ تھا،پھر کیوں نہ وہ زیادہ سے زیادہ زندہ رہے ۔ اب تک تو صرف بیماری کا خوف تھا۔ اسے وہ دواؤں اور دعاؤں سے دور کرتی رہتی تھی اور گویا ایشور پر اپنی بے نیازی کا اظہار کرنے کے لیے ہمیشہ بنی ٹھنی رہتی تھی لیکن جب سے یہ خطوط آنے لگے تھے اس کا خوف بھوت کی طرح اس کے سر پر سوار رہتا تھا۔ منت آمیز لہجے میں بولی:’’ پولیس کو اطلاع کر نے سے کچھ نہ ہوگا۔ میری بات مانو ، یہاں سے بھاگ چلو ۔میری بات کیوں نہیں مانتے ۔ کیا کرنے پر تلے ہوئے ہو ۔ چور کوئی گھر کو تو اٹھا نہ لے جائے گا۔”
سیٹھ جی نے کیسر کی بدحواسی پر ترس کھا کر کہا: “تم ناحق اتنا ڈرتی ہوکیسر ۔ پولیس کو جب ضابطے کے ساتھ اطلاع دی جاۓ گی تو اس کا فرض ہو جائے گا کہ ہماری حفاظت کرے۔ہم پانچ ہزار سالانہ ٹیکس دیتے ہیں ۔ اگر پولیس نے سماعت نہ کی تو میں لاٹ صاحب سے کہوں گا جب سرکار ہم سے ٹیکس لیتی ہے تو ہماری جان و مال کی حفاظت کرنا اس کا قانونی فرض ہے ۔“
سیاسیات کا یہ مسئلہ کیسر کی سمجھ میں کیا آتا وہ کسی طرح اس خوف سے نجات پانا چاہتی تھی جواس کے دل میں سانپ کی طرح بیٹھا پھنکار رہا تھا۔ پولیس کا اسے اب تک جو تجربہ تھا اس سے دل کو تقویت نہ ہوتی تھی ۔ بولی:’’پولیس والے واردات کے وقت تو نظر نہیں آتے ۔ جب واردات ہو جاتی ہے تب البتہ شان جتانے کے لیے آ پہنچتے ہیں ۔مثل مشہور ہے کہ پولیس اور دھنش طوفان ختم ہو جانے کے بعد دکھائی دیتی ہے۔”
سیٹھ جی نے پولیس کی حمایت کی:” پولیس والے تو سرکار کا راج چلا رہے ہیں تم کیا جانو۔”
کیسر نے بھی اس لہجے میں جواب دیا:’’ اور میں کہتی ہوں کہ اگر واردات کل ہونے والی ہے تو پولیس کو خبر دینے سے آج ہو جائے گی ۔لوٹ کے مال میں ان کا ساجھا ہوتا ہے ۔”
’’جانتا ہوں ۔ دیکھ چکا ہوں اور روز دیکھتا ہوں لیکن کیا سرکار کو پانچ ہزار ٹیکس نہیں دیتے۔ اس پر داروغہ جی کو برابر پاپڑ و اچار وغیرہ پہنچا تا رہتا ہوں۔ ابھی جاڑوں میں سپرنٹنڈنٹ صاحب شکار کھیلنے آئے تھے تو میں نے کتنی رسد پہنچائی تھی۔ایک کنسترگھی اور ایک بوری شکرتو ایک ہی دن بھیجی تھی۔ یہ سب کھانا پلانا کس دن کام آئے گا۔ ہاں یہ مانتا ہوں کہ آدمی کو بالکل دوسروں کے بھروسے نہ بیٹھے رہنا چاہیے۔ اپنے قوت بازو سے بھی کام لینا چاہیے ۔ میرا نشانہ تو بے خطا ہوتا ہی ہے آؤ تمھیں بھی بندوق چلا نا سکھا دوں ‘‘ ۔یہ ایک مضحکہ خیز تجویز تھی۔
کیسر ہنس کر بولی: ’ہاں اور کیا ۔اب آج میں بندوق چلا نا سیکھوں گی ۔تم کو جب دیکھو ہنسی ہی سوجھتی ہے ‘‘۔
سیٹھ جی نے کہا:’اس میں ہنسی کی کیا بات ہے ۔ آج کل تو عورتیں فوج میں بھرتی ہورہی ہیں۔ سپاہیوں کی طرح عورتیں بھی قواعد کرتی ہیں ، بندوق چلاتی ہیں ۔”
کیسر نے اعتراض کیا: ’ولایت کی عورتیں چلاتی ہوں گی ۔ یہاں کی عورتیں کیا چلائیں گی ۔ ہاں انگل بھر کی زبان چاہے چلا لیں ۔”
سیٹھ جی نے اس فاسد خیال کی تصحیح کی ’’اب یہاں کی عورتیں بھی چلاتی ہیں ۔ زمانہ بدل رہا ہے ۔ ہم تم دونوں بندوق لے کر کھڑے ہو جائیں گے تو پچاس آدمی بھی اندر گھنے کی ہمت نہ کرسکیں گے ۔ عورت کے ہاتھ میں بندوق توپ سے بھی زیادہ قاتل ہو جاتی ہے ۔‘‘
کیسر نے آخری فیصلہ کیا : نا بابا! میں تو چور کی آواز سنتے ہی چکر کھا کر گر پڑوں گی ۔”
اس وقت چوکیدار نے آ کر کہا: ’داروغہ جی نے کئی کانسٹبل بھیجے ہیں وہ آپ کو بلا رہے ہیں ۔‘‘
(2)
سیٹھ جی باہر آئے تو کانسٹبلوں نے انہیں ادب سے سلام کیا اوران میں سے ایک نے کہا:’’ ہمیں داروغہ جی نے آپ کے پاس یہ دریافت کرنے کو بھیجا ہے کہ آپ کے پاس دھمکی کی چٹھیاں تو نہیں آ رہی ہیں ۔ آج کل باہر سے ڈاکو اس علاقے میں آگئے ہیں اور لوٹ مار کی کئی وارداتیں ہوچکی ہیں ۔”
سیٹھ جی نے کانسٹبلوں کو کرسیوں پر بٹھاتے ہوئے کہا:’داروغہ جی کو کیسے معلوم ہو گیا۔ میرے پاس تو ایسے کئی خط آ چکے ہیں۔ایک آج بھی آیا ہے۔ میں خودداروغہ جی کو اطلاع دینے آرہا تھا۔
ہیڈ کانسٹبل نے جواب دیا ”حضور یہ نہ پوچھیں کہ داروغہ کو کیسے معلوم ہو گیا۔ علاقے کے سب سے بڑے سیٹھ کے پاس ایسے خط آئیں اور پولیس کو خبر نہ ہو۔ بھلا کوئی بات ہے، حکام کی برابرتا کید ہوتی رہتی ہے کہ سیٹھ جی کو شکایت کا کوئی موقع نہ دیا جائے۔ حضور پانچ ہزار روپے سالانہ ٹیکس ادا کر تے ہیں ہمارے ہوتے مجال ہے کہ آپ کا بال بھی بیکا ہو جائے۔ آج داروغہ جی بڑی دیر تک اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہے ۔ یہ ڈاکو اتنے دلیر اور تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ تھانے سے باہر ان سے مقابلہ کرنا دشوار ہے ۔ داروغہ جی نے سوچا تھا گارڈمنگا لیں گے۔ مگر ڈاکو کہیں ایک جگہ تو رہتے نہیں ۔ آج یہاں ہیں تو کل یہاں سے دوسوکوس پر پہنچ گئے ۔ گارڈ منگا کر ہی کیا کر سکتے تھے۔ رعایا کی تو ہمیں فکر نہیں ۔ کس کے پاس اتنا مال اسباب رکھا ہے کہ ڈاکوؤں کا اندیشہ ہو ۔اور اگر کسی کے پاس دو چار سو روپے نکل ہی آئے تو اس کے لیے پولیس ڈاکوؤں کے پیچھے اپنی جان ہتھیلی پر لیے نہ پھرے گی ۔ ڈاکوؤں پر کوئی ذمہ داری نہیں وہ تو بے دریغ گولی چلاتے ہیں اور اکثر چھپ کر ۔ ہمارے لیے تو ہزار بندشیں اور قیدیں ہیں۔ کوئی بات بگڑ جائے تو الٹی اپنی جان آفت میں پھنس جائے۔ اس لیے داروغہ جی نے ہمیں یہ پیغام دے کر آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ کو جس مال و اسباب کے بارے میں خطرہ ہو اسے لا کر تھانے کے خزانے میں جمع کر دیجیے۔آپ کو رسید دے دی جائے گی ، آپ کا قفل لگا دیا جائے گا۔ صندوق پر آپ اپنی مہر لگا دیجیے گا۔ جب یہ ہنگامہ ٹھنڈا ہو جائے تو آپ اپنی چیزیں واپس لے لیجے گا۔ اس کے لیے سرکار آپ سے کسی قسم کی فیس نہیں لینا چاہتی محض آپ کی حفاظت کے خیال سے یہ تجویز کی گئی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ کے دفتر سے اس قسم کا کوئی حکم آیا ہے کہ جو لوگ ایک ہزار یا اس سے زیادہ ٹیکس دیتے ہوں ان کی حفاظت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جائے ورنہ سخت جواب طلب کیا جائے گا۔ ورنہ آپ جانتے ہیں پولیس اتنا بڑا جوکھم کیوں اپنے سر لیتی ۔ اس سے آپ کو بھی بے فکری ہو جائے گی اور ہم بھی ذمہ داری سے بچ جائیں گے ۔ ورنہ خدانخواستہ کوئی واردات ہو جائے تو حضور کا جو نقصان ہو تو ہو ہی ، ہمارے اوپر بھی جواب دہی آ جاۓ ۔ یہ ڈاکو اتنے ظالم ہیں کہ محض مال واسباب لے کر ہی جان نہیں چھوڑتے بلکہ خون بھی کر ڈالتے ہیں ۔اس لیے داروغہ جی نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ آپ آج ہی خطرے والی چیزیں لے کر تھانے میں تشریف لے آئیں اور انہیں خزانے میں داخل کر کے رسید لے لیں ۔ مزید اطمینان کے لیے آپ چاہیں تو اپنا ایک آدمی بھی وہاں تعینات کر سکتے ہیں حضور کے پاس موٹر تو ہے ہی ۔ ہم چار آدمی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ راستے میں کوئی خطرہ نہیں۔ تحقیقی خبر ملی ہے کہ ڈاکوؤں کا غول اس علاقے میں آ گیا ہے ۔ بیس آدمی ہیں اور سب کے سب مسلح و سادھو بنے ہوۓ ہیں ۔ دو پنجابیوں کے بھیس میں ہیں اور الوان اور دھمے بیچتے پھرتے ہیں ۔ان دونوں کے ساتھ دو بہنگی بردار بھی ہیں ۔ دو ڈاکو بلوچیوں کے بھیس میں چھریاں اور تالےبیچتے ہیں اور کہاں تک گناؤں ہمارے یہاں تو ان کا پورا حلیہ آ گیا ہے ۔”
خطرے میں انسان کا دل کمزور ہو جا تا ہے اور ایسی باتوں کا بھی یقین کر لیتا ہے جو شاید ہوش وحواس کی حالت میں وہ نہ کرتا۔ یہاں تو شہبے کا موقع ہی نہ تھا ۔ممکن ہے اس میں داروغہ جی کی کوئی غرض شامل ہو اور وہ اس خدمت کا کچھ صلہ بھی چاہتے ہوں ۔اس کے لیے سیٹھ جی تیار تھے کہ اگر دو چار سو روپے دینے پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ ایسے واقعے تو زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں ۔ موجودہ حالت میں اس سے بہتر کوئی انتظام خیال میں نہیں آ تا تھا ، بلکہ اسے امداد غیب سمجھنا چا ہیے ۔ انہیں کانسٹبلوں کو کچھ دے دلا کر ساری چیزیں نکلوا لیں گے۔ دوسروں کا کیا بھروسا، کہیں ڈاکوؤں سے مل جائیں تو غضب ہی ہو جائے۔ راستے ہی میں گھیر لیے جائیں ۔بیس کے مقابلے میں چار آ دمی کر ہی کیا سکتے ہیں اور کون جانے کہ ڈاکوؤں کے پاس کار نہ ہوگی ۔ پھر بھی اس انداز سے بولے گو یا داروغہ جی نے ان پر کوئی خاص عنایت نہیں کی ہے:’’ یہ تو ان کا فرض ہی تھا۔ میں اس عنایت کے لیے داروغہ جی کا تہ دل سے مشکور ہوں ۔مگر میں نے یہاں ایسا انتظام کر لیا تھا کہ اگر ڈاکو یہاں آتے تو ان کے دانت کھٹے کر دیے جاتے ۔ سارا محلہ مقابلے کے لیے تیار تھا۔ سب ہی سے تو اپنا یارانہ ہے مگر داروغہ جی کی تجویز مجھے پسند ہے، اس سے وہ بھی اپنی ذمے داری سے بری ہو جاتے ہیں اور میرے سر سے بھی فکر کا بوجھ اتر جا تا ہے جیسا آپ نے خود کہا، لیکن اندر سے چیزوں کو نکال نکال کر باہر لانا اور کار میں رکھنا میرے بوتے کی بات نہیں ۔ آپ کی دعا سے آدمی تو کافی ہیں مگر کس کی نیت کیسی ہے یہ کون جانتا ہے ۔ آپ لوگ کچھ مدد کریں تو کام آسان ہو جائے ( مسکرا کر ) آپ کی محنت رائگاں نہ جائے گی ۔”
کیسر نے اس تجویز کو لبیک کہا۔ کانسٹبلوں نے بھی اپنی خدمات خوشی سے پیش کیں ۔ ہیڈ کانسٹبل نے کہا: “ہم حضور کے تابع دار ہیں ۔ اس میں مدد کی کون سی بات ہے۔ تنخواہ سرکار سے ضرور پاتے ہیں مگر دیتے تو حضور ہی ہیں ۔ آپ ضرور بتاتے جائیے ۔ ہم لوگ آن کی آن میں سارا سامان نکال کر رکھ دیں گے ۔”
کیسر نے خوش ہوکر کہا:” بھگوان نے مددکردی نہیں تو میں بہت گھبرا رہی تھی۔ جان نکلی جاتی تھی “ سیٹھ جی نے ہمہ دانی کے انداز سے کہا:’’ اسی کو کہتے ہیں سرکار کا انتظام ! اس مستعدی کی بدولت سرکاری راج تھما ہوا ہے ۔ میں تو سوچتا ہوں کوئی قیمتی چیز یہاں نہ چھوڑی جائے تا کہ وہ آئیں تو اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں ۔”
کیسر نے جھک کر کہا:” کنجی ان سبھوں کے سامنے پھینک دینا کہ جو چیز چاہونکال لے جاؤ۔‘‘ دو کانسٹبلوں نے اندر جا کر صندوقچے اور پٹارے نکالنے شروع کیے۔ایک باہر سامان کار پر لاد رہا تھا اور ہیڈ کانسٹبل نوٹ بک پر ہر ایک چیز کا اندراج کر رہا تھا۔ زیورات ، اشرفیاں ، نوٹ، بیش قیمت کپڑے، شال دوشالے، نقرئی ظروف سب کار میں رکھ دیے گئے ۔ معمولی فرنیچر ، برتن،فرش فروش اور غلہ وغیرہ کے سوا گھر میں اور کچھ نہ بچا اور یہ چیزیں ڈاکوؤں کے لیے بے مصرف ہیں ۔کیسر کا سنگاردان سیٹھ جی خود لائے اور ہیڈ کانسٹبل کو دے کو بولے ”بھئی اسے بڑی حفاظت سے رکھنا۔ ‘‘
ہیڈ کانسٹبل نے سنگاردان لے کر کہا ’’میرے لیے ہر ایک تنکا اتناہی بیش قیمت ہے ۔ سیٹھ جی کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوا۔ کہا:’ اس فہرست کی ایک نقل مجھے بھی دے دیجیے ہیڈ کانسٹبل نے کہا: وہ آپ کو تھانے میں باضابطہ دی جائے گی ۔‘‘
”کیوں نہ یہیں دے دیجئے؟‘‘
” یہاں لکھنے میں دیر ہوگی اور پھر جب تک داروغہ جی کے دستخط نہ ہوں اس رسید کی وقعت ہی کیا ؟ مگر آپ کے دل میں یہ شبہ کیوں پیدا ہوا؟‘‘
سیٹھ جی نے نادم ہو کر کہا:” شبہ نہیں تھی ۔ میں نے سمجھا ایک رسید میرے پاس بھی ہوتی تو اچھا تھا ۔”
ہیڈ کانسٹبل نے بے رخی سے کہا ” اگر آپ کے دل میں کسی قسم کا شبہ ہوتو آپ چیزیں اپنے گھر ہی میں رکھیں ۔ ہم یہاں بھی آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں ۔مگر ہاں! اس حالت میں ذمہ داری آپ کی رہے گی ۔
سیٹھ جی اور نادم ہوئے: ’نہیں نہیں صاحب ! شبہے کی بات نہیں تھی ۔ یوں ہی ایک خیال آ گیا۔ آپ کہتے ہیں رسید تھانے میں مل جائے گی ، میں بھی مانتا ہوں۔
کار پر سارا سامان رکھ دیا گیا۔ محلے کے سیکڑوں آدمی تماشا دیکھ رہے تھے ۔ کار بہت بڑی تھی۔مگر بالکل بھر گئی ۔ پانچ آدمیوں کے لیے بڑی مشکل سے جگہ نکلی ۔ سیٹھ جی تو پیچھے والی جگہ پر بیٹھے ۔ باقی چاروں آدی اگلی سیٹ پر سمٹ کر بیٹھ گئے۔ کیسر دروازے پر اس انداز سے کھڑی تھی گویا اس کی لڑکی رخصت ہورہی ہو۔
(۳)
پانچ میل کا سفر تھا ۔ قصبے سے باہر نکلتے ہی پہاڑوں کی خاموش اور اودی بلندیاں نظر آئیں، جن کے دامن میں ہرا بھرا سبزہ زار تھا اور اس میدان کے بیچ سے سرخ بجری کی سڑک سیندور بھری مانگ کی طرح نکل گئی تھی ۔ ایک میل جانے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل نے سیٹھ جی سے پوچھا: “یہ کہاں تک صحیح ہے کہ پچیس سال پہلے آپ یہاں بالکل خالی ہاتھ آئے تھے؟‘‘ نا نک چند تفاخر کے انداز سے بولے ’’بالکل صحیح ہے خاں صاحب! میرے پاس کل تین روپے تھے۔لٹیا ڈور کندھے پر تھی اور چھڑی ہاتھ میں ۔ بس بھگوان کا بھروسا تھا۔ بالکل تقدیر کا کھیل ہے ۔اور بھگوان کی مرضی چاہیے ۔ آدمی کے بنتے بگڑتے دیر نہیں لگتی۔“ ” میں نے سنا ہے آپ دوسرے سیٹھ ساہو کاروں کی طرح بخیل نہیں ہیں ‘‘
”میرا اصول ہے کہ اصلی بچت وہی ہے جو آرام سے زندگی بسر کرنے کے بعد بچ رہے ۔ جب بہت تھوڑی دولت تھی تب بھی میرا یہی اصول تھا۔‘‘
’’ آخریہ دولت آپ کو ملی کہاں سے؟‘‘
’’ آڑھت ، لین دین ، رہن ، بیع سب ہی کچھ تو ہے خاں صاحب ! یہ سمجھ لیجے کہ صبح سے آدھی رات تک سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی ۔صرف کھانا کھانے اندر جا تا ہوں ۔”
’’ آپ بجا فرماتے ہیں ۔ محنت کے بغیر کسی کام میں کامیابی نہیں ہوتی ۔ آپ کو اپنے ہاتھ سے بھی بہت سا کام کر نا پڑتا ہوگا۔”
کچھ نہیں صاحب ، نوکر چا کر سب کچھ کر لیتے ہیں ۔ میں بیٹھا نگرانی کرتا ہوں ۔”
’’ آپ نے کئی لاکھ پیدا کیے ہوں گے ۔”
’’ دوسوا دو لاکھ کی جائیداد ہے خاں صاحب! بیس ہزار کا تو مکان ہی کھڑا ہے۔ آج بیچوں تو پچاس ہزار سے کم نہ ملے ۔“
“لیکن اصل سرمایہ ہی آپ کے تین روپے تھے؟‘‘ سرمایہ تو آدمی کی ساکھ ہے خاں صاحب! آج چاہوں تو کہیں سے لاکھوں کا مال منگا سکتا ہوں “
’’ آپ کی زندگی واقعی ہمارے لیے نمونہ ہے ۔”
“آپ لوگوں کی دعا سے اب تک تو آرام سے کٹ گئی ہے ۔آگے بھگوان جانے ۔‘‘
’’اب تو اور بھی آرام سے کٹے گی کیوں کہ آپ کی ساکھ بہت بڑھ گئی ہے ۔”
’’اس میں کیا شک ہے خاں صاحب! اپنی ساکھ تو بنانے سے بنتی ہے۔ یہ مال و اسباب اور جائیداد آپ کے لیے فضول ہے ۔ آپ اپنی ساکھ سے اپنا روز گار کر سکتے ہیں۔”
بہت اچھی طرح خاں صاحب! یہ سب تو مایا جال ہے جس میں پھنس جانے کے بعد پھر نجات نہیں ملتی ۔ مرکر ہی گلا چھوڑتا ہے ۔ اب دھرم شالا بنوانے کا ارادہ ہے۔سامان کر لیا ہے ۔ کوئی اچھی مہورت دیکھ کر ہاتھ لگا دینا ہے۔ ایک لڑکا بھی گود لینا چاہتا ہوں ، بس پھر بھگوان کا بھجن کروں گا۔‘‘
’’ آپ کے کوئی اولاد ہوئی ہی نہیں؟‘‘
“تقدیر میں نہ تھی خاں صاحب! اور کیا کہوں ۔ جن کے گھر میں بھونی بھانگ نہیں ان کے ہاں تو گھاس پھوس کی طرح بچے نکلتے آتے ہیں۔ جنہیں بھگوان نے کھانے کو دیا ہے وہ اولاد کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے ہیں ۔”
’’ آپ بالکل ٹھیک فرماتے ہیں ، سیٹھ جی! آپ کی باتیں بڑی پرمغز ہوتی ہیں ۔ اگر ہم آپ کو اس مایا جال سے چھڑا دیں تو یقیناً آپ ہمارے احسان مند ہوں گے ۔ سیٹھ جی ہنسے اور بولے ” بھگوان کے سوا اس مایا جال سے کون چھڑا سکتا ہے خاں صاحب!‘‘
ہیڈ کانسٹبل نے سنجیدہ چہرہ بنا کر کہا: ’’ بھگوان کیوں چھڑانے لگے ۔ آپ خود کیوں نہیں چھوٹ جاتے ۔جس دولت سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں اسے کیوں نہ غریبوں میں تقسیم کر دیجیے ۔ بے فائدہ سینے پر بوجھ لادنے سے کیا مطلب؟‘‘
بھلا ایسا نہیں ہوسکتا ہے خاں صاحب ! مایا جال کہیں ٹوٹ سکتا ہے؟‘‘
“میں تو توڑنے کو تیار ہوں اسی وقت ‘‘
اسی دولت کے لیے آدمی اپنا خون پسینا ایک کر دیتا ہے ۔خاں صاحب! دغا ،فریب ، بے ایمانی اور ظلم سب کچھ اس کے لیے کرتا ہے۔ بغیراپناضمیر بیچے دولت نہیں ملتی ۔ ایسی بیش قیمت چیز کون چھوڑ سکتا ہے ۔”
” لیکن آپ نے فرمایا ہے کہ صرف آپ کے اقبال کا ظہور ہے ۔ آپ نے کوئی خاص محنت نہیں کی۔”
“نگرانی میں کچھ کم محنت ہے خان صاحب!”
“آپ دن بھر دھوپ میں ٹھیلہ کھینچنا پسند کریں گے یا گدی پر بیٹھے نگرانی کرنا۔”
“مگر سب آدمی سب ہی کام تو نہیں کر سکتے۔”
“آخر یہ روپیا آپ کے پاس آیا کہاں سے؟ آپ نے کسی اسامی کو سوروپے قرض دیے، یقیناً اس سے کچھ نہ کچھ سود لیا ہی ہوگا۔ کبھی کبھی تو سو کے دوسو، تین سو، چارسو تک وصول کیے ہوں گے ۔ آپ کے روپے نے تو بچے دیے نہیں ۔ اسامی کی محنت کے روپے آپ کے ہاتھ لگے۔ بسا اوقات دو چارسوروپے قرض دے کر آپ نے پورے خاندان کو اپنا غلام بنالیا ہوگا اوران کی شبانہ روز کی مشقت کی کمائی آپ کے ہاتھ لگی ہوگی ۔”
سیٹھ جی نے حیرت کی نگاہ سے خاں صاحب کی طرف دیکھا۔ یہ تو کوئی بڑا عجیب آدمی ہے۔ خواہ مخواہ بحث کر رہا ہے۔ مانا میں نے دوسروں کی محنت سے ہی دولت پیدا کی تو پھر؟ جوسب کرتے ہیں وہی میں نے کیا۔ کوئی نئی بات نہیں کی ۔ بولے:’’ اس طرح تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے سب ہی دولت مند مفت خور ہیں ۔”
خاں صاحب نے اس کی تائید کی ’’ بے شک، میں بڑے زور سے یہ دعوا کرتا ہوں ، یہاں تک کہ سب ہی سلطنتیں اس ذیل میں آجاتی ہیں ۔ فرق یہی ہے کہ آپ اسامیوں سے روپے وصول کر کے جمع رکھ چھوڑتے ہیں۔ جب کہ سرکار اس سے ملک کا انتظام کرتی ہے ۔ عدالتیں اور پولیس قائم کرتی ہے کہ آپ اور آپ کے بھائی بہ اطمینان ان غربا کا خون چوس سکیں اگر کوئی غریب سرکشی کرے اور آپ کا منہ اپنی رگ سے ہٹا دینا چاہے تو سرکار کی پولیس اور عدالت اور فوج آپ کی مدد کرے۔ دراصل آپ نے سود یا نفع یا مال گذاری کی شکل میں جو کچھ بھی پایا ہے وہ غریبوں کی کمائی ہے جو آپ نے ان سے جبراً چھین لیا ہے اور جو آپ ہی کے لفظوں میں آپ کے پاس بیکار پڑی ہوئی ہے۔ آپ کو مسروقہ مال گھر میں رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ ان چیزوں کو پولیس کے حوالے کر کے گھر کی راہ لیجیے ۔ ہم سرکاری پولیس کے سپاہی نہیں ، انصاف کی پولیس کے سپاہی ہیں ۔ ہم نے متواتر خطوط سے آپ کو آگاہ کیا۔ یہاں تک کہا کہ آپ ہمیں صرف پچیس ہزار روپے دے دیجیے لیکن آپ سرکاری امداد کے زعم میں بیٹھے رہے ۔ مجبوراً ہمیں یہ چال چلنی پڑی۔”
سیٹھ جی کا خون خشک ہو گیا لیکن نہیں یہ پولیس والے مجھے ڈرا رہے ہیں اور اب میری بزدلانہ بدحواسی کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ بولے:’’ خاں صاحب! آپ بڑے دل لگی باز ہیں لیکن سچ مچ ڈاکوؤں نے یہ چال چلی ہوتی تو اس وقت میں دھوکے میں آ چکا ہوتا “
’’ تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ڈاکوؤں نے سچ مچ آپ کے ساتھ یہ چال چلی ہے اور آپ دھوکے میں آ گئے ہیں۔ اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ۔”
گاڑی رک گئی ۔سیٹھ جی ڈھکیل کر نیچے گرا دیے گئے اور دروازہ بند کر لیا گیا۔ موٹر آہستہ آہستہ چلی ۔سیٹھ ہی چلاتے ہوۓ موٹر کے پیچھے دوڑے۔
” حضور سرکار ، بھائیو! بالکل تباہ ہو جاؤں گا۔ رحم کیجیے۔ میں خوشی سے آپ کو پچیس ہزار دے دوں گا ۔ آپ نے کہا ہے آپ انصاف کی پولیس ہیں یہ بے انصافی نہ کیجیے۔‘‘
خاں صاحب نے دروازے سے سر نکال کر کہا:’’ کاش! یہ پچیس ہزار آپ نے پہلے دے دیے ہوتے ۔اب تو میعادگزرگئی۔اپنے کو کتنے خطرے میں ڈال کر ہم نے یہ دولت پائی ہے، اس کا خیال کیجیے۔ آپ کو ذرا بھی شبہہ ہو جاتا تو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوتیں اور بے بھاؤ کی پڑ رہی ہوتی ۔ اب آپ آرام سے تشریف لے جایئے۔ یہ دو تین روپے ہیں جو آپ ساتھ لے کر یہاں آۓ تھے۔ اب جا کر پھر دولت جمع کیجیے۔ دس پانچ برس میں ہم پھر آپ کو مایا جال سے نکال لیں گے ۔”
موٹر تیز ہوگئی اور سیٹھ جی چیختے رہ گئے ۔
’’دوڑو، دوڑو ڈاکو مجھے لوٹے لیے جارہے ہیں ۔”
لیکن وہ ساری فریاد فریاد صحرا تھی۔
*****
Pingback: انصاف کی پولیس کا خلاصہ Urdu Literature