Kulliyat-e-Wali ki Radeef Be ki ibtedai 5 Ghazalen

کلیاتِ ولی

ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

پہلی غزل

یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا کوئی ردیف ہے اور قافیہ؛ جہاں تاب، سیماب، آب، خواب، سیہ قاب، اور بے تاب ہے جب کے حرفِ روی "ب” ہے۔

ترے جلوے سوں اے ماہِ جہاں تاب

ہوا دل سر بسر دریاے سیماب

نثر: اے ماہِ جہاں تاب ترے جلوے سے دل سر بسر دریائے سیماب ہوا

ترے مکھ کے سُرج کوں دیکھ جیوں برف

ہوئے ہیں عاشقاں سر تا قدم آب

نثر: ترے مکھ کے سورج کو دیکھ برف کے مانند عاشقاں سرتا قدم آب ہوئے ہیں

رکھوں جس خواب میں تجھ لب اپُر لب

مجھے شکر سوں شیریں توہے وو خواب

نثر: جس خواب میں تیرے لب پر لب رکھوں تو وہ خواب ہے جو مجھے شکر جیسا شیریں لگے۔

تری نیناں وہ قاتل ہیں کہ جن پاس

وہ ابر کی ہیں وہ تیغ سیہ قاب

نثر: تیری آنکھیں وہ قاتل ہیں جس کے پاس ابر کی تیغ سیہ قاب ہے۔

ولیؔ تجھ سوز میں اے آتشیں خو

سراپا ہے بہ رنگ شعلہ بے تاب

***

دوسری غزل

یہ غزل نو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "آفتاب” ہے اور قافیہ؛ سر، اخگر، پر، مسطر، بھیتر، کر، خاکستر، اختر اور کمتر ہے جب کے حرفِ روی "ر” ہے۔

کیوں ہوسکے جہاں میں تراہم سر آفتاب

تجھ حسن کی اگن کا ہے یک اخگر آفتاب

نثر: آفتاب جہاں میں کیوں ترا ہم سر (مقابل) ہوسکے; آفتاب تو تیرے حسن کی اگن (اگنی) کا ایک اخگر (انگارہ)ہے

دیکھا جو تجھ کوں آپ سوں روشن جگت منیں

شرموں لیا نقاب زریں مکھ پر آفتاب

نثر: تجھ کو جگت میں آپ (خود) سے روشن دیکھا؛ آفتاب شرم سے زریں مکھ پر نقاب لے لیا

آیا ہے نقل لینے ترے مکھ کتاب  کی

تار خطوط سیتی بنا مسطر آفتاب

گرمی سوں بے قرار ہو نکلیا سنے کوں کھول

تجھ عشق کا پیا ہے مگر ساغر آفتاب

ہندو سُرجکوں دور سوں نت پوجتے ولے

ہندوے زلف کی ہے بغل بھیتر آفتاب

جن نے ترے جمال پہ کیتا(کیا)ہے یک نظر

دیکھا نئیں وہ پھر کے نظر بھر کر آفتاب

نثر: جس نے ترے جمال پر یک نظر کیا ہے /دیکھا ہے؛ وہ پھر کے آفتاب کو نہیں نظر بھر کر دیکھا

پوجا کوں تجھ درسکی ہو جوگی فلک اُپر

نکلیا ہے پہن جامہ ءخاکستر آفتاب

تجھ مکھ کے آفتاب اُپر گر کرے نگاہ

پنہاں ہو ہر نظر ستی جیوں اختر آفتاب

نثر: گر آفتاب تیرے چہرے پر نگاہ ڈالے؛ آفتاب اختر(ستارہ) کے مثل ہر نظر سے پنہاں ہو

جگ میں ولیؔ سو کس کوں برابر کہے ترے

ذرّےسوں ہے نزیک ترے کمتر آفتاب

نثر: سو ولی جگ میں کس کو ترے برابرکہے، ترے نزدیک آفتاب ذرّےسے کمتر ہے۔ 

تیسری غزل

یہ غزل سات اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی ردیف نہیں ہے اور اس کا قافیہ؛ نقاب، آفتاب، انتخاب، تاب، آب، گلاب، خواب اور حجاب ہے جب کے حرفِ روی "ب” ہے۔

ترے مکھ پر اے نازنیں یو نقاب

جھلکتا ہے جیوں مطلع آفتاب

نثر: اے نازنیں ترے مکھ پر نقاب نکلنے والے سورج کی طرح جھلکتا ہے۔

ادا فہم کے دل کی تسخیر کوں

ترا قد ہے جیوں مصرع انتخاب

بجا ہے ترے حسن کی تاب سوں

تری زلف کھاتی ہے گر پیچ و تاب

نثر: اگرتیرے حسن کی تاب سے تیری زلف پیچ وتاب کھاتی ہے تو بجا ہے

نظر کرکے تجھ مکھ کی صافی اُپر

ہوئی شرم سوں آرسی غرق آب

ترے عکس پڑنے سوں اے گل بدن

عجب نئیں اگر آب ہووے گلاب

ترے وصل میں اس قدر ہے نشاط

کہ مخمل کوں آئے ہے راحت سوں خواب

کریں بخت میرے اگر ٹک مدد

ولیؔ اس سجن سوں ملوں بے حجاب

***

چوتھی غزل

یہ غزل دو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "عجب” ہے اور قافیہ؛ چھب، عجب، شب جب کے حرفِ روی "ب” ہے، اس کے بعد قطعہ ہے جس کا ردیف بھی "عجب” ہے اور قافیہ طلب، لب، طرب، ادب، لب، لقب، غضب، رطب اور سب ہے۔

جب سوں وہ نازنیں کی میں دیکھا ہوں چھب عجب

دل میں مرے خیال ہیں تب سوں عجب عجب

جاتا ہے دن تمام اسی مکھ کی یاد میں

ہوتا ہے فکرزلف میں احوال شب عجب

 

قطعہ

بے تاب ہوکے مثل گدایاں نزیک جا

بے باک ہوکے تب یو کیا میں طلب عجب

دونین سوں ترے ہے دو بادام کا سوال

سن یو سوال دل میں رہا پستہ لب عجب

بولیا مری نگاہ کی قیمت ہے دو جہاں

جس دیکھنے سوں دل میں ترے ہے طرب عجب

اس دولت عظیم کوں یوں مفت مانگنا

لگتی ہے بات مجکوں تری بے ادب عجب

کیتا میں اس سوال میں دو جا بھی اک سوال

کر بہرہ مند لب سوں کہ تیرے ہیں لب عجب

یک بار اس سوال میں سن یہ دو جا سوال

دل میں رہا اپس کے دو شیریں لقب عجب

اوّل تو شوخ آکے غضب میں غصہ کیا

سر تا قدم وہ ناز اٹھا یو غضب  عجب

جیو میں اپس کی ہمت عالی پہ کر نظر

شیریں لباں سوں اپنے چکھایا رطب عجب

اس شعر کی یہ طرح نکالا ہے جب ولیؔ

یو اختراع سن کے رہے دل میں سب عجب

***

پانچویں غزل

یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "سوں کیا مطلب” ہے اور قافیہ؛ گلشن، پیراہن، درپن، معدن، گلشن، اور مسکن جب کے حرفِ روی "ن” ہے

ملیا وہ گل بدن جس کوں اسے گلشن سوں کیا مطلب

جو پایا وصل یوسف اس کوں پیراہن سوں کیا مطلب

مجھے اسباب خود بینی سوں دائم عکس ہے دل میں

کیا جو ترک زینت کوں اسے درپن سوں کیا مطلب

سخن صاحب سخن کے سن کے ملنے کی ہوس مت کر

جواہر جب ہوئے حاصل تو پھر معدن سوں کیا مطلب

عزیزاں باغ میں جانا نپٹ دشوار ہے مجھ کوں

گلی گل رو کی پایا ہوں مجھے گلشن سوں کیا مطلب

ولیؔ جنّت منیں رہنا نہیں درکار عاشق کوں

جو طالب لامکاں کا ہے اسے مسکن سوں کیا مطلب

*****

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!