Kulliyat-e-Wali ki Radeef Alif ki ibtedai 5 Ghazalen

کلیاتِ ولی

ردیف الف کے ابتدائی پانچ غزلیں Kulliyat-E-Wali Ki Radeef Alif Ki Ibtedai 5 Ghazalen

پہلی غزل

یہ غزل سات اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "کا” ہے اور قافیہ؛ زباں، بیاں، جاں، گماں، دہاں، کماں، رواں اور جاں ہے جب کے حرفِ روی "ں” ہے۔

کیتا ہوں ترے نانوں کو میں ورد زباں کا

کیتا ہوں ترے شکر کو عنوان بیاں کا

جس گرد اُپر پانوں رکھیں تیرے رسولاں

اُس گرد کوں میں کحل کروں دیدۂ جاں کا

مجھ صدق طرف عدل سوں اے اہلِ حیا دیکھ

تجھ علم کے چہرے پہ نئیں رنگ گماں کا

ہر ذرۂ عالم میں ہے خورشید حقیقی

یوں بوجھ کے بلبل ہوں ہر اک غنچہ دہاں کا

کیا سہم ہے آفات قیامت ستی اُس کوں

کھایا ہے جو کُئی تیر تجھ ابرو کی کماں کا

جاری ہوئے آنجھو مرے یو سبزۂ خط دیکھ

اے خضر قدم! سیر کر اس آبِ رواں کا

کہتا ہے ولی دل ستی یوں مصرع رنگیں

ہے یاد تری مجھ کوں سبب راحتِ جاں کا 

٭٭٭٭٭

الفاظ و معانی

کیتا: کیا               

نانوں: ناموں

                    پانوں: پاؤں

                      کحل: سرمہ

                       دیدہ: آنکھ

سوں: سے

            نئیں: نہیں

                       بوجھ: سمجھ                       

غنچہ : پھول کی کلی

                دہاں: کھِلنا

ستی : سے

              کُئی: کوئی

                           آنجھو: آنسو

خضرِ قدم: (استعارہ)

وو: وہ               

  شبستاں: آرام گاہ

               اشک: آنسو

                      دامان: دامن، کنارہ

دوسری غزل

یہ غزل سولہ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "میں آ” ہے اور قافیہ؛ حیران، سامان، گلستان، شبستاں، دامان، پریشان، دیوان، گریبان، ریحاں، انسان، رندان، بیابان، سلیمان، نخدان، نمکدان، کان، اوراحسان ہے جب کے حرفِ روی "ں” ہے۔

وو صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ

آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ

ناز دیتا نہیں گر رخصت گل گشت چمن

اے چمن‌‌ زار حیا دل کے گلستان میں آ

عیش ہے عیش کہ اس مہ کا خیال روشن

شمع روشن کیا مجھ دل کے شبستاں میں آ

یاد آتا ہے مجھے وو دو گل باغ وفا

اشک کرتے ہیں مکاں گوشۂ دامان میں آ

موج بے تابیٔ دل اشک میں ہوئی جلوہ نما

جب بسی زلف صنم طبع پریشان میں آ

نالہ و آہ کی تفصیل نہ پوچھو مجھ سوں

دفتر درد بسا عشق کے دیوان میں آ

پنجۂ عشق نے بیتاب کیا جب سوں مجھے

چاک دل تب سوں بسا چاک گریبان میں آ

دیکھ اے اہل نظر سبزۂ خط میں لب لعل

رنگ یاقوت چھپا ہے خط ریحاں میں آ

حسن تھا پردۂ تجرید میں سب سوں آزاد

طالب عشق ہوا صورت انسان میں آ

شیخ یہاں بات تری پیش نہ جاوے ہرگز

عقل کوں چھوڑ کے مت مجلس رندان میں آ

دردمنداں کو بجز درد نہیں صید مراد

اے شہ ملک جنوں غم کے بیابان میں آ

حاکم وقت ہے تجھ گھر میں رقیب بد خو

دیو مختار ہوا ملک سلیمان میں آ

چشمۂ آب بقا جگ میں کیا ہے حاصل

یوسف حسن ترے چاہ زنخدان میں آ

جگ کے خوباں کا نمک ہو کے نمک پروردہ

چھپ رہا آ کے ترے لب کے نمک دان میں آ

بس کہ مجھ حال سوںہمسر ہے پریشانی میں

درد کہتی ہے مرا زلف ترے کان میں آ

غم سوں تیرے ہے ترحم کا محل حال ولیؔ

ظلم کو چھوڑ سجن شیوۂ احسان میں آ

٭٭٭٭٭

 شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب جب سے میری حیران آنکھوں میں آکربساہے ، اپنی عقل اپنی سمجھ اپنا شعور سب کچھ عشق کےآگ سے جل کر برباد ہوچکا ہے اب تو یہ صورت حال ہے کہ ہر آن محبوب کا تصور اور اس کییاد ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے شاعر دراصل اس حقیقت کی وضاحت کررہا ہے جب محبوب کا حسن و جمال آنکھوں میں سماجاتا ہے اور اس کا دلکش دلربا پیکر ہمہ وقت نگاہوں میں گھومتا رہتاہے ۔اس وقت عقل خرد زائل ہو جاتی ہے .شعور اور ادراک کو زنگ لگ جاتا ہے ۔گویا عشق آگ میں عقل و شعور جل کر خاک ہوجاتے ہیں ۔

 

حسن تجرید کے پردے میں ہر خواہش سے آزاد تھا۔ اسے کسی طرح کی کوئی خواہش نہ تھی۔ گویا عریانیت کے پردے میں آزاد تھا۔ لیکن انسانی صورت میں آتے ہی اس میں عاشق کی طلب پیدا ہوگئی ہے۔

 

تیسری غزل

یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "میں آ” ہے اور قافیہ؛ چمن، انجمن، نین، سخن، چمن، اور من ہے جب کہ حرف روی "ن” ہے۔

اے گل عذار غنچہ دہن ٹک چمن میں آ

گل سر پہ رکھ کے شمع نمن انجمن میں آ

جیوں طفل اشک بھاگ نکو مجھ نظر ستی

اے نور چشم نور نمط مجھ نین میں آ

کب لگ اپس کے غنچۂمکھ کو رکھے گا بند

اے نو بہار باغ محبت سخن میں آ

تا گل کے رو سے رنگ اڑے اوس کی نمن

اےآفتابِ حسن ٹک یک تو چمن میں آ

تجھ عشق سوں کیا ولیؔ دل کوں بیت غم

سرعت ستی اے معنیِ بے گانہ من میں آ

 

نثر؛ ولیؔ تیرے عشق سے دل کوکیا غم بیتے، اے معنیِ بے گانہ سرعت سے من میں آ

٭٭٭٭٭

چوتھی غزل

یہ غزل چھ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "ہے سراپا” ہے اور قافیہ؛ اعجاز، ممتاز، انداز، ناز، اعجاز، آوازاور طناز ہے جب کہ حرف روی "ز” ہے۔

وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا

خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا

اے شوخ تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر

عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا2؎

جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکر عالی

تجھ قد کوں دیکھ بولے یو ناز ہے سراپا3؎

یوں ہو سکیں جگت کے دل بر ترے برابر

تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا4؎

گاہے اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر

جاں بخش مجھ کو تیرا آواز ہے سراپا5؎

مجھ پر ولیؔ ہمیشہ دل دار مہرباں ہے

ہر چند حسب ظاہر طناز ہے سراپا6؎

٭٭٭٭٭

 وہ نازنیں ادا میں سراپا اعجاز ہے؛ خوبی میں گل رخاں سے سراپا ممتاز ہے۔

وہ نازنیں، وہ نازوں سے بھرا خوبصورت محبوب بڑی سحر انگیز ادائیں رکھتا ہے، گویا سرسے پاؤں تک ایک معجزہ ہے اور خوب صورتی میں وہ تمام خوبصورت حسیناؤں میں بلند مرتبہ رکھتا ہے۔

2؎ اے شوخ تیری آنکھ میں نگاہ ڈال ڈال کر دیکھا؛سراپا عاشق کے مارنے کا انداز ہے۔

استعارتاً محبوب کو شوخ، شریرسے خطاب کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ اے شوخ محبوب میں نے تمہاری آنکھوں میں جھانک جھانک کر دیکھا ہے۔ ان میں مکمل طور پر عاشق کو قتل کرنے کا انداز ہے۔

3؎ جن کی فکر عالی جگ کے ادا شناساں ہے؛ تیرے قد کو دیکھ کر بولے یہ سراپا ناز ہے۔

4؎نثر: جگت کے دل بر ترے برابر کیوں ہوسکیں؛ توحسن اور ادا میں سراپا اعجاز ہے۔

5؎نثر: اے عیسوی دم گاہے (کبھی ) لطف سے ایک بات کر؛ مجھ کو جاں بخش تیرا آواز ہے سراپا

6؎نثر: ولیؔ مجھ پر دل دار ہمیشہ مہرباں ہے، کیسا ہی ظاہر کے اعتبار سے سراپا طناز (طنزسے مبالغہ)ہے

پانچویں غزل

یہ غزل چھ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف "ہے سراپا” ہے اور قافیہ؛ اعجاز، ممتاز، انداز، ناز، اعجاز، آوازاور طناز ہے جب کہ حرف روی "ز” ہے۔

کتاب الحسن کا یہ مکھ صفا ترا صفا دِستا

ترے ابرو کے دو مصرع سوں اس کا ابتدا دِستا

ترامکھ حسن کا دریا و موجاں چین پیشانی

اُپر ابرو کی کشتی کے یو تل جیوں ناخدا دِستا

ترے لب ہیں‌برنگحوضِ کوثر مخزنِ خوبی

یہ خال عنبریں تس پر بلال آسا کھڑا دِستا

اشاراتِ آنکھیاں سوں گرچہ ہوں بیمار میں لیکن

ترے لب اے مسیح وقت قانون شفا دستا

ہوا جو گوہر دل غرق بحر حسن، ہے نایاب

زبس دریائےحسنِ دلبراں بے انتہا دستا

بیاں اس کی نزاکت ہور لطافت کا لکھوں تاکے

سراپا محشر خوبی منیں ناز و ادا دستا

یو خط کا حاشیہ گرچہ ولی ہے مختصر لیکن

مطول کے معانی کا تمامی مدعا دستا

٭٭٭٭٭

تیسری اکائی

  

غزل کا فن اور ارتقا

اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری

ولی دکنی :حیات و خدمات

٭کلیات ولی

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی کی ابتدائی پانچ غزلیں

میر تقی میر: حیات و خدمات

٭انتخابِ کلامِ میر

٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں

مرزا اسد اللہ خاں غالب

٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ر کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ن کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

مومن خاں مومن

٭دیوانِ مومن

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

شاد عظیم آبادی

٭"کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

حسرت موہانی

٭"کلیاتِ حسرت”

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

 فانی بدایونی

٭ "کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی

٭ابتدائی دس غزلیں

 جگر مرادآبادی

٭ "آتشِ گل”

٭ابتدائی دس غزلیں

 اصغر گونڈوی

٭"نشاطِ روح”

٭ابتدائی دس غزلیں

 یگانہ چنگیزی

٭ "آیاتِ وجدانی”

٭ابتدائی دس غزلیں

 فراق گورکھپوری

٭ "گلِ نغمہ”

٭ ابتدائی دس غزلیں

مجروح سلطان پوری

 ٭"غزل”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 کلیم عاجز

٭"وہ جو شاعری کا سبب ہوا”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

شہر یار

٭ "اسمِ اعظم”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 عرفان صدیقی

 ٭"عشق نامہ”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!