کلیاتِ ولی
ردیف ی کے ابتدائی پانچ غزلیں
پہلی غزل
یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی ردیف نہیں ہے اور قافیہ؛ تابی، آبی، تابی، خوابی، سیرابی، اور مہتابی ہے جب کے حرفِ روی “ی” ہے۔
منگا کے پی کوں لکھوں میں اپس کی بے تابی
لیا نین کی سفیدی سوں کاغذ آبی
نثر: طلب کرکے پی (معشوق)کو اپنے اندر کی بے تابی لکھوں؛ نین کی سفیدی سے کاغذ نے آبی (نمی) لیا
لکھا پلک کے قلم سوں میں اے کماں ابرو
جگر کے خون سوں تجھ تیغ کی سیہ تابی
نثر:اے کماں ابرو ! (معشوق) میں نے پلک کے قلم سےجگر کے خون سے تیرے تیغ کی سیہ تابی (کالے نشان ، رنگ) لکھا
ہوا ہے جب سوں وہ نورنظرانکھا سوں جدا
نہیں نظر میں مری تب سوں غیر بے خوابی
نثر: جب سے وہ نورِ نظر آنکھ سے جدا ہوا ہے؛تب سے بے خوابی کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں ہے۔
نگہ کے جھاڑ کا پھل تو ہے اے بہار کرم
ترے جمال کے گلشن میں نت ہے سیرابی
نثر: اے بہار کرم تو نگاہ کے جھاڑ کا پھل ہے؛ ترے جمال کے گلشن میں نت (سدا) سیرابی ہے
ولیؔ خیال میں اس مہ کوں جو کوئی کہ رکھے
تو خواب میں نہ دسے اس کوں غیر مہتابی
نثر: ولی اس مہ کو جو کوئی کہ خیال میں رکھے، تو اس کو غیرمہتابی نہ دسے
دوسری غزل
یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف “ستی بمعنی سے” ہے اور قافیہ؛ کمر، نظر، شکر، کمر، تر، اور گہر ہے جب کے حرفِ روی “ر” ہے۔
آیا وو شوخ باندھ کے خنجر کمرستی
عالم کوں قتل عام کیا اک نظرستی
نثر: وو شوخ کمر سے خنجر باندھ کے آیا؛ ایک نظر سے عالم کو قتل عام کیا
طاقت رہے نہ بات کی پھر انفعال سوں
تشبیہ تجھ لباں کوں اگر دوں شکرستی
نثر: اگر تیرے لب کو شکر سے تشبیہ دو تو پھر انفعال سے بات کی طاقت نہ رہے۔
غم نے لیا ہے تب سوں مجھے پیچ و تاب میں
باندھا ہے جب سوں جیو کوں اس مو کمرستی
نثر: جب سے جیو (دل) کواس مو کمر(پتلی کمر) سے باندھا ہے تب سے غم نے مجھے پیچ و تاب میں لیا ہے
غم کے چمن کوں باد خزاں کا نہیں ہے خوف
پہنچا ہے اس کوں آب مری چشم ترستی
نثر: غم کے چمن کو بادِ خزاں کا خوف نہیں اس لیے کہ اس کو میری چشم تر سے آب پہنچا ہے
یک بار جا کے دیکھ ولیؔ اس دسَن کے تئیں
لکھتا ہوں جس کے وصف کوں آب گہرستی
***
تیسری غزل
یہ غزل سات اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف “دوستی” ہے اور قافیہ؛ خیال، خال، زلال، حال، وبال، فال، نہال اور کمال ہے جب کے حرفِ روی “ل” ہے۔
اس سوں رکھتا ہوں خیال دوستی
جس کے چہرے پر ہے خال دوستی
خشک لب وہ کیوں رہے عالم منیں
جس کوں حاصل ہے زلال دوستی
شمع بزم اہل معنی کیوں نہ ہوئے
جس اُپر روشن ہے حال دوستی
اس سخن سوں آشنا ہے درد مند
دردِ دوری ہے وبال دوستی
اے سجن تجھ مکھ کے مصحف میں مجھے
دیکھنا برجا ہے فال دوستی
فیض سوں تجھ قد کے اے رنگیں بہار
تازہ و تر ہے نہال دوستی
اے ولیؔ ہر آن کر مشقِ وفا
ہے وفاداری کمال دوستی
زُلال: سرد و شریں پانی
چوتھی غزل
یہ غزل نو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف “کر نہیں گنتے” ہے اور قافیہ؛ شامل، عاقل، کامل، مشکل، بسمل، بابل، دل، قاتل، سلاسل اور کامل ہے جب کے حرفِ روی “ل” ہے۔
جو کئی ہر رنگ میں اپنے کو شامل کر نہیں گنتے
ہمن سب عاقلاں میں اس کوں عاقل کر نہیں گنتے
مدرس مدرسے میں گر نہ بولے درس درشن کا
تو اس کوں عاشقاں استاد کامل کر نہیں گنتے
خیالِ خام کوں جو کئی کہ دھووےصفحہء دل سوں
تصوف کے مطالب کوں وہ مشکل کر نہیں گنتے
جو بسمل نئیں ہوا تیری نین کی تیغ سوں بسمل
شہیداں جگ کے اُس بسمل کوں بسمل کرنہیں گنتے
پرت کے پنتھ میں جو کُئی سفر کرتے ہیں رات ہور دن
وہ دنیاکوں بغیر از چاہ بابل کر نہیں گنتے
نہیں جس دل میں پی کی یاد کی گرمی کی بے تابی
تو ویسے دل کوں سارے دلبراں دل کر نہیں گنتے
رہے محروم تیری زلف کے مہرے سوں وہ دائم
جو کُئی تیری نینکوں زہر قاتل کر نہیں گنتے
نہ پاوے وہ دنیا میں لذت دیوانگی ہرگز
جو تجھ زلفاں کے حلقے کوں سلاسل کر نہیں گنتے
بغیر از معرفت سب بات میں گر کُئی اچھے کامل
ولیؔ سب اہل عرفاں اس کو ں کامل کر نہیں گنتے
پانچویں غزل
یہ غزل نو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا ردیف “کر نہیں گنتے” ہے اور قافیہ؛ ناداں، سخن داں، مسلماں، گریباں، انساں اور ایماں ہے جب کے حرفِ روی “ں” ہے۔
بزرگاں کَن جو کُئی آپس کوں ناداں کر نہیں گنتے
سخن کے آشنا اُنکوں سخن داں کرنہیں گنتے
طریقہ عشق بازاں کا عجب نادر طریقہ ہے
جو کُئی عاشق نہیں اُسکوں مسلماں کر نہیں گنتے
گریباں جو ہوا نئیں چاک بے تابی کے ہاتھوں سوں
گلے کا دام ہے اس کوں گریباں کر نہیں گنتے
عجب کچھ بوجھ رکھتے ہیں سرآمد بزم معنی کے
تواضع نئیں ہے جس میں اس کوں انساں کر نہیں گنتے
ولیؔ راہ محبت میں وفاداری مقدم ہے
وفا نئیں جس میں اس کوں اہل ایماں کر نہیں گنتے
*****