نظم برکھا رت : الطاف حسین حالی

آپ الطاف حسین حالی کی نظم "برکھا رت” پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔ کچھ مشکل الفاظ کے معانی نظم کے نیچے درج ہیں آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

نظم برکھا رت

الطاف حسین حالی

اس نظم میں حالی نے بڑے دلچسپ انداز میں شروع میں گرمی کی شدت دکھائی ہے۔ "بن میں آگ لگنا”، "لومڑیوں کا زبان نکالنا”، "ہرنوں کا کالاہونا” اور "زمین سے شعلوں کا نکلنا” یہ سب گرمی کی شدّت کو ظاہر کررہے ہیں۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ لوگوں کی زبانیں العطش العطش کرتے کرتے سوکھ رہی تھیں کہ آسمان پر بادلوں کے دل کے دل آنے لگے۔ بادلوں کے آتے ہی دھوپ نے اپنا بستر تہہ کر دیااور تھوڑی دیر میں جل تھل بھرگئے۔

سردی کا پیام لانے والیگرمی کی تپش بجھانے والی
عارف کے لیے کتاب عرفاںقدرت کے عجائبات کی کاں
وہ مور و ملخ کی زندگانیوہ شاخ و درخت کی جوانی
وہ کون خدا کی شان برساتوہ سارے برس کی جان برسات
وہ سیکڑوں التجاؤں کے بعدآئی ہے بہت دعاؤں کے بعد
سب تھے کوئی دن کے ورنہ مہماںوہ آئی تو آئی جان میں جاں
اور دھوپ میں تپ رہے تھے کہسارگرمی سے تڑپ رہے تھے جان دار
اور کھول رہا تھا آب دریابھوبل سے سوا تھا ریگ صحرا
اور آگ سی لگ رہی تھی بنتھی لوٹ سی پڑرہی چمن میں
اور ہانپ رہے تھے چارپائےسانڈے تھے بلوں میں منہ چھپائے
اور لو سے ہرن ہوئے تھے کالےتھیں لومڑیاں زباں نکالے
ہرنوں کو نہ تھی قطار کی سدھچیتوں کو نہ تھی شکار کی سدھ
گھڑیال تھے رود بار میں سستتھے شیر پڑے کچھار میں سست
بیلوں نے دیا تھا ڈال کندھاڈھوروں کا ہوا تھا حال پتلا
اور دودھ نہ تھا گئو کے تھن میںبھینسوں کے لہو نہ تھا بدن میں
تھا پیاس کا ان پہ تازیانہگھوڑوں کا چھٹا تھا گھاس دانہ
اور انس نکل رہا تھا سب کاگرمی کا لگا ہوا تھا بھبکا
اٹھتا تھا بگولے پر بگولاطوفان تھے آندھیوں کے برپا
شعلے تھے زمین سے نکلتےآرے تھے بدن پہ لو کے چلتے
تھا آگ کا نام مفت بد نامتھی آگ کا دے رہی ہوا کام
سب دھوپ کے ہاتھ سے تھے بے کلرستوں میں سوار اور پیدل
ملتی تھی کہیں جو روکھ کی چھاؤںگھوڑوں کے نہ آگے اٹھتے تھے پاؤں
پانی کی جگہ برستی تھی خاکتھی سب کی نگاہ سوئے افلاک
وہ بادِ سموم سے سوا تھیپنکھے سے نکلتی جو ہوا تھی
لگتی تھی ہوا سے آگ دونیبجھتی نہ تھی آتش درونی
جانداروں پہ دھوپ کی تھی دستکسات آٹھ بجے سے دن چھپے تک
آتی تھی نظر نہ شکل انسانٹٹی میں تھا دن گنواتا کوئی
بیٹھے تھے وہ ہات پر دھرے ہاتچلتی تھی دکان جن کی دن رات
یا پیاؤ پہ یا سبیل پر تھاخلقت کا ہجوم کچھ اگر تھا
سلطان کا اک کنواں تھا آبادتھا شہر میں قحط آدمی زاد
میلہ تھا وہیں جہاں تھا پانیپانی سے تھی سب کی زندگانی
 فالودے پہ رال تھی ٹپکتیتھیں برف پہ نیتیں لپکتی
پاتے تھے دل و جگر طراوتپھل پھول کی دیکھ کر طراوت
بھر آتا تھا سن کے منھ میں پانیکنجڑوں کی وہ بولیاں سہانی
گرمی سے نہ تھا کچھ ان میں باقیتھے جو خفقانی اور مراقی
آٹھ آٹھ پہر نہ تھی غذا کچھکھانے کا نہ تھا انھیں مزا کچھ
رہتے تھے فقط ٹھنڈائیوں پربن کھائے کئی کئی دن اکثر
مر پیٹ کے صبح تھے پکڑتےشب کٹتی تھی ایڑیاں رگڑتے
تھا العطش العطش زباں پراور صبح سے شام تک برابر
کملائے ہوئے تھے پھول سے گالبچوں کا ہوا تھا حال بے حال
تھے پانی کو دیکھ کرتے "مم مم”آنکھوں میں تھا ان کا پیاس سے دم
ہونٹوں پہ تھے پھیرتے زباں کوہر بار پکارتے تھے ماں کو
پھرچھوڑتے تھے نہ منھ لگا کرپانی دیا گر  کسی نے لاکر
تھا حال بڑوں کا ان سے بدتربچّے ہی نہ پیاس سے تھے مضطر
پانی سے نہ تھی کسی کو سیریتخصیص تھی کچھ نہ میری تیری
پر رات سے ہے سماں ہی کچھ اورکل شام تلک تو تھے یہ طور
پچھوا سے خدائی پھر رہی ہےپُروا کی دہائی پھر رہی ہے
اک شور ہے آسماں پہ برپابرسات کا بج رہا ہے ڈنکا
اور پیچھے ہیں دل کے دل ہوا کےہے ابر کی فوج آگے آگے
گورے ہیں کہیں کہیں ہیں کالےہیں رنگ رنگ کے رسالے
ایک آتی ہے فوج ایک جاتیہے چرخ پہ چھاؤنی سی چھاتی
ہمراہ ہیں لاکھوں توپ خانےجاتے ہیں مہم پہ کوئی جانے
چھاتی ہے زمین کی دہلتیتوپوں کی ہےجب کہ باڑ چلتی
گرمی کا ڈبو دیا ہے بیڑامینھ کا ہے زمین پر دڑیڑا
آنکھوں میں ہے روشنی سی آتیبجلی ہے کبھی جو کوند جاتی
جنت کی ہوائیں آ رہی ہیںگھنگھور گھٹائیں چھا رہی ہیں
قدرت ہے نظر خدا کی آتیکوسوں ہے جدھر نگاہ جاتی
اور دھوپ نے تہ کیا ہے بسترسورج نے نقاب لی ہے منھ پر
کھیتوں کو ملا ہے سبز خلعتباغوں نے کیا ہے غسلِ صحت
اٹکل سے ہیں راہ چلتے رہواربٹیا ہے نہ ہے سڑک نمودار
عالم ہے تمام لاجوردیہے سنگ و شجر کی ایک وردی
ہے گونج رہا تمام جنگلپھولوں سے پٹے ہوئے ہیں جل تھل
اور مور چنگھاڑتے ہیں ہرسوکرتے ہیں پپیہے پیہو پیہو
گویا کہ ہے دل میں بیٹھی جاتیکوئل کی ہے کوک جی لبھاتی
سنسار کو سر پہ ہیں اٹھاتےمینڈک جو ہیں بولنے پہ آتے
پانی میں مگر، کچھار میں شیرسب خوانِ کرم سے حق کے ہیں سیر
قلانچ ہیں اپنی کھال میں مستزردار ہیں اپنے مال میں مست
کلمے ہیں خوشی کے ہرزباں پرابر آیا ہے گھر کے آسماں پر
یا ربِّ لنا و لا علینامسجد میں ہے وِرد اہلِ تقویٰ
کرپا ہوئی تیری میگھ راجامندر میں ہے ہر کوئی یہ کہتا
گاتے ہیں بھجن کبیر پنتھیکرتے ہیں گُرو گُرو گرنتھی
ہے دیس میں کوئی گنگناتاجاتا ہے کوئی ملار گاتا
اور بانسریاں بجاتے پھرتےبھنگی ہیں نشے میں گاتے پھرتے
چھیڑا ہے کسی نے ہیر رانجھاسرون کوئی گا رہا ہے بیٹھا
ڈھکنے ہیں دیوں پر ڈھکتے پھرتےرکھشک جو بڑے ہیں جین مت کے
تاجل نہ بجھے کوئی پتنگاکرتے ہیں وہ یوں جیوں کی رکھیا
انسان سے لے کے تا جماداتہیں شکر گذار تیرے برسات
سب دیکھ رہے تھے راہ تیریدنیا میں بہت تھی چاہ تیری
راحت ملتی ہے بعدِ کلفتتجھ سے ہے کھُلا یہ رازِ قدرت
پیشانی ء دہر پر ہے لکھاشکر یہ فیض ِ عام تیرا
کھیتی کو کیا نہال تو نےگلشن کو دیا جمال تو نے
کوئل کو الاپنا سکھایاطاؤس کو ناچنا بتایا
آپے سے ہے اپنے گذرا جاتاجب مور ہے ناچنے پہ آتا
ایسی کوئی تونے کوک دی کلکوئل کو نہیں قرار اک پل
کیا پڑھ دیا آکے تونے افسوںشب بھر میں ہوا سماں دگر گوں
اٹھے تو سماں ہے ماہ کا ساسوئے تو اساڑھ کا عمل تھا
کشمیر میں پہنچے جو ہوا دنلاہور میں شب ہوئی تھی لیکن
اک رات میں کچھ سے کردیا کچھامرت سا ہوا بھر دیا کچھ
اور بن تری راہ تک رہے تھےدریا تجھ بن سسک رہے تھے
اور تجھ سے بنوں کو لگ گئی شاندریاؤں میں تو نے ڈال دی جان
ملتی نہیں آج تھاہ ان کیجن جھیلوں میں کل تھی خاک اڑتی
جو دانے تھے خاک میں پریشانسب آگے چڑھائے تو نے پروان
آگے ترے اس نے سب اگل دیدولت جو زمین میں تھی مخفی
وہاں سبزہ گل ہیں جلوہ گسترپڑتے تھے ڈلاؤ جس زمیں پر
باتیں ہیں وہ آسماں سے کرتےجن پودوں کو کل تھے ڈھور چرتے
وہاں سیکڑوں اب پڑے ہیں جھولےجن باغوں میں اڑتے تھے بگولے
ہے بیر بہٹیوں سے گلنارتھے ریت کے جس زمیں پہ انبار
جھولے ہیں کہ سو بسو پڑے ہیںکھم باغوں میں جا بجا گڑے ہیں
جن کے ہیں یہ کھیل کود کے دنکچھ لڑکیاں بالیاں ہیں کم سن
اور جھول رہی ہیں باری باریہیں پھول رہی خوشی سے ساری
جنگل کو ہیں سر پہ وہ اٹھاتیجب گیت ہیں سارے مل کے گاتی
اک گرنے سے خوف کھا رہی ہےاک  سب کو کھڑی جھلا رہی ہے
اور دوسری پینگ ہے چڑھاتیہے ان میں کوئی ملار گاتی
کہتی ہے کوئی بدیسی ڈھولاگاتی ہے کبھی کوئی ہنڈولا
سب ہنستی ہیں قہقہے لگا کراک جھولے سے وہ گری ہے جاکر
تیراکوں کے دل بڑھے ہوئے ہیںندی نالے چڑھے ہوئے ہیں
اور تیر کے پہنچا پار کوئیگھڑ ناؤ پہ ہے سوار کوئی
مرغابیاں تیرتی ہیں پھرتیبگلوں کی ہیں ڈاریں آکے گرتی
دن بھر میں ہیں بیڑے جاکے لگتےچکلے ہیں یہ پاٹ ندیوں کے
موجوں کی ہیں صورتیں ڈرانیزوروں پہ چڑھا ہوا ہے پانی
موجوں کے تھپڑے کھا رہی ہیںناویں ہیں کہ ڈگمگا رہی ہیں
بیڑے کا خدا ہی ہے نگہبانملاحوں کے اڑ رہے ہیں اوسان
مچھلی کو بھی جان کا خطر ہےمنجدھار کی رو بھی زور پر ہے
بچھڑا ہوا صحبتِ وطن سےبیزار اک اپنی جان و تن سے
چلنے کا نہیں ہے جس کو یاراغربت کی صعوبتوں کا مارا
اک باغ میں ہے پڑا لبِ جوغم خوار ہے کوئی اور نہ دل جو
آپے کی خبر ہے اور نہ گھر کیہیں دھیان میں کلفتیں سفر کی
اور رنگ سا کچھ ہوا کا بدلاابر اتنے میں اک طرف سے اٹھا
اور پڑنے لگی پھوار کم کمبرق آ کے لگی تڑپنے پیہم
تھے جتنے سفر کے رنج بھولےآنے جو لگے ہوا کے جھوکے
یاد آئے مزے کبھی کبھی کےسامان ملے جو دل لگی کے
وہ آنسوؤں کی جھڑی کا عالمدیکھے کوئی اس گھڑی کا عالم
اور جوش میں کبھی یہ گاناوہ آپ ہی آپ گنگنانا
گھٹیو نہ کبھی تری روانیاے چشمہ آبِ زندگانی
بستی ہے اسی طرف ہماریجاتی ہے جدھر تیری سواری
دیتا ہوں میں بیچ میں خدا کوپائے جو کہیں مری سبھا کو
پھر دیجیو یہ پیام میرااول کہیو سلام میرا
فرقت میں تمہاری آئی برکھاقسمت میں یہی تھا اپنی لکھا
مرغابیاں تیری ہیں باہمآتا ہے تمہارا دھیان جس دم
تالاب میں تیرتے تھے جاکرہم تم یونہیں صبح و شام اکثر
صحبت کے مزے ہیں یاد آتےجب سبزہ گل ہیں لہلہاتے
پھرتے تھے ہوا میں کھاتے دن راتہم تم یونہیں ہات میں دئیے ہات
میں تم کو ادھر ادھر ہوں تکتاجب پیڑ سے آم ہے ٹپکتا
دیتا ہوں دعائیں بیکسی کوآخر نہیں پاتا جب کسی کو
جی اپنا ہے ایسی رت سے بیزاررُت آم کی آئے اور نہ ہوں یار
چنگاری سی ہے بدن پہ پڑتیتم بن جو ہے بوند تن پہ پڑتی
پر دل میں ہے آگ سے سلگتیہے سرد ہوا بدن کو لگتی
جب جی میں بھری دیس کی یادپردیس میں سچ ہے کیا ہو جی شاد
فریاد یہ دردناک اس کینشتر کی طرح تھی دل میں چبھتی
پکڑا دل سن کے اس کی آوازتھا سوز میں کچھ ملا ہوا ساز
روڑا ہے کہاں کا یہ مسافرحیرت رہی دیر تک کہ آخر
نکلا وہ ہمارا دوست حالیؔپھر غور سے اک نظر جو ڈالی

الفاظ و معانی

ملخ: ٹڈی

کہسار: سلسلہ پہاڑ، پہاڑی وادیاں

بھوبل، بھوبھل: گرم ریت،راکھ

سانڈے: گوہ کی قسم کا جانور

رودبار: بڑی جھیل، بڑا دریا

ڈھور: بھیڑ بکری، گائے بیل، گائے بھینس، مویشی

بھبکا: لپٹ، شعلہ

انس: ہمت، سکت

بے کل: بے قرار، بے چین، بے تاب، بے آرام

روکھ: درخت

سموم: زہریلی

ٹٹی: خس کا چھپر، بانس یا سرکنڈوں کا چھوٹوا چھپر

پیاؤ: پینے کی جگہ

سبیل: وہ جگہ جہاں پانی وغیرہ پلایا جائے

طراوت: تری، تازگی، سرسبزی، رطوبت

کنجڑا: سبزی فروش

خفقانی: مجنوں، پاگل

مِراقی: سودائی، ضبطی، دیوانہ

ٹھنڈائی: گرمی دور کرنے والی دوا

مرپیٹ کے: بڑی محنت و مشقت سے، بمشکل تمام

العَطَش: ہائے پیاس

مضطر: پریشان

طور: کیفیت

دوہائی پھرنا: ڈھنڈورا پٹنا

رسالہ: دستہ

دڑیڑا: زور کا مینہ، سخت حملہ

بٹیا: پگڈنڈی، چھوٹا راستہ

لاجوردی: نیلے رنگ کا

قلانچ: مفلس، چھلانگ، جست

ہیر رانجھا ایک مشہور پنجابی لوک کہانی ہے۔

نہال کرنا: سرسبز و شاداب کرنا، سیراب کرنا

افسوں: منتر، سحر

ڈلاؤ: کوڑا کرکٹ

جلوہ گُستر: جلوہ گر ہونا، نمودار ہونا، نظر آنا

لبِ جو: ندی کا کنارہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!