افسانہ (01) اندھے

پیش خدمت ہے  کرشن چندرکے مجموعہ “ہم وحشی ہیں” میں شامل پہلا افسانہ “اندھے”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

اندھے

چوک بمبئی کے اندر کوچہ پیر جہازی میں صرف دو گھر ہندوؤں کے تھے۔ ایک سہ منزلہ مکان، گلی میں سب سے اونچا اور خوش حال مکان لالہ بانشی رام کھتری کا تھا یہ پنجابی کھتری نہ تھے۔ یوپی کے کھتری تھے، اور ہر وقت ہندستانی میں بات کرتے تھے۔ اس لئے سب پنجابیوں کو ان سے نفرت تھی۔ سالوں کی زبان کیا کترنی کی طرح چلتی تھی۔ ان کے گھر کی عورتیں ناچ گانے کی بڑی شوقین تھیں۔ ریڈیو ہر وقت چلتا رہتا۔ پشپا گھر کی سب سے چھوٹی لڑکی سولہ سترہ برس کی ہو گی اور اکثر سہ منزلہ عمارت کی چھت پر کھڑی ہو کر مجھے الکانے کے لئے ناچ کیا کرتی۔ میں اپنے مکان کی چھت پر سے اور وہ اپنے مکان کی چھت سے ایک دوسرے سے عشق کیا کرتے۔ مگر میں مسلمان تھا اور وہ ہندو، میں چمار تھا اور وہ کھتری اور وہ بھی یو پی کے۔ پھر پشپا تو کیا گھر کی دوسری عورتیں بھی کبھی گلی میں اکیلی نہ دکھائی دیتیں۔ وہ لوگ بانشی باغ سیر کو بھی جاتے تو موٹر میں بیٹھ کر۔ یہاں ہمارے گھروں کی عورتوں کو بازار سے سودا سلف بھی لانا پڑتا۔ پردہ سنبھالنا تک مشکل تھا۔ ایسی صورت میں ہر شریف مسلمان محلے والے کو لالہ بانشی رام کھتری کے گھرانے سے چڑ تھی اور یوں بھی تو یہ لوگ بہت کمینے تھے۔ مسلمانوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اور ایمان کی بات تو یہ ہے کہ کون کافر ایسا ہے جو مسلمانوں سے دھوکا نہ کرتا ہو۔ یہ تو ان لوگوں کے خمیر میں ہے۔ ہندو مسلمان کا سا دل نہیں رکھتا۔ جس طرح مسلمان صاف اور کھری بات سب کے سامنے کہہ دیتا ہے۔ ہندو تو بس زبان کا میٹھا ہے۔ اندر سے بس بھرا ہے جس نے ہندو بچے  پر اعتبار کیا وہ مرا۔

دوسرا گھر رام نرائن برہمن کا ہے۔ یہ گھر بالکل ہمارے گھر کے سامنے ہے۔ رام نرائن کی ماں ایک لڑاکا عورت ہے۔ محلے بھر کی عورتیں ایک طرف اور وہ ایک طرف زبانی گالی گلوچ میں کوئی اس سے بازی نہیں لے جا سکتا۔ ایسے کڑوے کرخت لہجے میں بات کرتی ہے کہ آدمی کا جی جل کے کباب ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چمارنیں طعنے تشنیع، گالی گلوچ میں بے حد ہوشیار ہیں مگر رام نرائن کی ماں کے آگے وہ بھی ہات جوڑتی ہیں۔ سارا محلے اس سے ناراض تھا۔ رام نرائن خود بے حد شریف برہمن تھا۔ گائے کی طرح سست رفتار اور بھولا بھولا سا۔ ہر وقت اپنے دھرم دان میں مگن تھا۔ ہر ایک سے ہنس کر بات کرتا۔ میں نے کبھی اس کے منہ سے گالی نہیں سنی۔ کوئی کڑوا بول نہیں سنا۔ محلے بھر میں کسی سے لڑائی نہیں لیتا۔ ایسا آدمی بھی کس کام کا۔ یعنی کسی بات پر لڑے گا ہی نہیں۔ اب جب دوسرا آدمی اس قدر میٹھا ہو تو ہم کس طرح اس سے جھگڑیں۔ اس سے جھگڑنے کو بہت جی چاہتا تھا۔ مگر ہمیشہ طرح دے جاتا۔ مجھے تو ایسے آدمیوں سے سخت کد ہے۔ اب بھئی ایک ہی محلے میں رہتے ہیں۔ کبھی تو برتن ساتھ ساتھ رکھے ہوئے کھڑکھڑا اٹھتے ہیں اور ایک تم ہو کہ کبھی بولتے ہی نہیں۔ رام نرائن کو جب دیکھو بھیگی بلی بنا ہوا ہے سر جھکائے گلی سے باہر آ رہا ہے۔ گھر کے اندر جا رہا ہے۔ کسی نے بلایا۔ جھٹ بتیسی نکال کے ہاتھ جوڑ دیئے۔بڑا ہی بزدل براہمن تھا مال خور۔

 رام نرائن کے تین بچے تھے۔ تینوں اسکول میں پڑھتے تھے۔ چوتھا لڑکا کوئی ایک سال کا ہوگا۔ اسے اکثر میں نے رام نرائن کی بیوی کے تھنوں سے لٹکتے ہوے اس کے گھر کے دروازے پر دیکھتا تھا۔ یہ ہندو عورتیں کس قدر بےحیا ہوتی ہیں۔ نہ پردہ ، نہ شرم ،  نہ لاج سب کے سامنے چھاتی کھول کے دودھ پلانے لگتی ہیں۔ اپنے بچوں کو ، اور یہ بچے بھی کیا چسر چسر دودھ پیتے ہیں۔ اور جب فساد شروع ہوا۔ تو شروع شروع میں یہاں صلح کمیٹی بنی۔ اس میں رام نرائن اور لالہ بانشی رام کھتری بھی شریک تھے۔ہم لوگ اس جھنجھٹ میں نہیں تھے۔ مسلمان کی طرف سے ہم نے مسجد کے ملا جی اور لکڑیوں کے ٹال کے مالک فتح محمد کو بھیج دیا تھا۔ دراصل ہمارا جی اس صلح کمیٹی میں نہ تھا۔ کوئی چھیڑ چھاڑ ہو، مار پیٹ ہو، دھول دھپا ہو، تو اس میں مزا ہے۔ یہ کیا اندر ہی اندر تو بغض بھرا ہے اور اوپر سے صلح کمیٹیاں بنا رہے ہیں۔ ہم نے سوچا چلو انہیں صلح کمیٹیاں بنانے دویہ  چلنے چلانے کی چیزیں نہیں ہیں، لالہ بانشی رام کھتری بہت پریشان معلوم ہوتے تھے اور اس سلسلے میں بہت دوڑ دھوپ کر رہے تھے۔ چوہدری فتح محمد نے ان سے صاف کہہ دیا کہ اگر وہ ٹھیک ڈھنگ سے رہے تو کوئی مسلمان ان پر ہات نہیں اٹھائےگا۔ ہاں اگر انہوں نے زیادہ چیں چپٹ کی اور فوں فاں سے کام لیا تو ان کی جان و مال کی خیر نہیں۔ لالہ بانشی رام بھری مجلس میں ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہو گئے بولے ہم تو پچاس برس سے آپ کے ہمسائے ہیں۔ ہمارے دادا ملکھن رام آنریری مجسٹریٹ بھی یہیں رہتے تھے۔ یہ سن کر بڑھا پیراں بخش بولا۔ ان کی بات رہنے دو۔ ایک ہی حرامی تھا، تمہارا دادا ملکھن رام آنریری مجسٹریٹ میرے بیٹے کو چھ ماہ قید اس نے سنائی تھی۔ اور کیا ذرا سی بات تھی۔ میرے بیٹے نے اس کی دکان سے دس روپے اٹھا لئے تھے۔ ابھی بڑھا پیراں بخش کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا کہ لوگوں نے بیچ بچاؤ کر کے اسے چپ کرا دیا۔ لالہ بانشی رام بہت خفیف ہوئے۔ مگر انہوں نے چپ رہنے ہی میں مصلحت سمجھی اور اگر لالہ بولتا بھی تو بری طرح پٹتا۔ کئی مسلمان جوان ایسے تھے جو وہ ذرا بھی ایسا ویسا کلمہ منہ سے نکالتا اس کی کھال وہیں ادھیڑ کے رکھ دیتے۔ خیر یہ صلح کمیٹی تھی۔ کتنے دن رہتی ختم ہو گئی۔

 پہلے تو کوئی نہیں بولا پر جب بہار میں مسلمانوں میں آفت آن پڑی تو ہمارا خون بھی کھولنے لگا۔ یہ سالے اوپر چڑھے جا رہے ہیں۔ ارے ابھی کل کی بات ہے کہ ہم سارے ہندوستان کے بادشاہ تھے اور یہ دال کھانے والے کافر ہماری جوتیوں تلے لوٹتے تھے اور آج ان کی یہ ہمت ہو گئی۔ چنانچہ میں نے اور رشید بھائی نے اورپھجےموچی نے اور گلے پہلوان نے اور گلی کے دو سرے آٹھ دس جوان جوان چھوکروں نے فیصلے کر لیا کہ یہاں ہندوؤں کو اس کا مزا چکھا کے رہیں گے۔ مسجد کے ملا نے خلاف توقع اس کے لئے ہمیں برا بھلا کہا۔ پر ہم یوں تو چپ رہے مگر اندر ہی اندر اپنی اسکیم کی یونہی تیاری کرتے رہے۔ دو چار دنوں میں ہم نے اپنے گھروں کی عورتوں کو بھاٹی گیٹ بھیج دیا۔ کیونکہ چوک ٹی کا کوچہ پیر جہازی لاکھ مسلمانوں کا محلہ سہی۔ پھر بھی شاہ عالمی کا دروازہ یہاں سے بہت قریب ہے اور شاہ عالمی کے دروازے میں ہندوؤں کا بڑا زور تھا۔ کسی وقت بھی یہاں حملہ ہو سکتا تھا۔ ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھاٹی گیٹ بھیج کر بے فکر ہو جائیں۔ چنانچہ ہم لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے تھوڑے دنوں کے بعد ہی فساد شروع ہو گیا۔ شروع ہندوؤں نے کیا۔ کرشنا گلی میں۔ رام گلی میں۔ کرشن نگر میں۔ سنت نگر میں۔ شاہ عالمیں میں؟؟ جہاں ہاں لاہور میں ہندوؤں کا زور تھا۔ وہاں اکے دکے مسلمان مارے جانے لگے۔ اب ہم لوگ کہاں تک چپ رہتے۔ مسلمان غریب ہو۔ بے وقوف ہو۔ نکما ہو۔ مگر وہ بزدل نہیں ہے۔ ایک دفعہ اللہ کا نام لے کر جو لاہور کا مسلمان اٹھا تو دو روز ہی میں ہندؤوں اور سکھوں کو اپنی نانی یاد آگئی۔ اکبری دروازے سے بھاٹی گیٹ تک اور شاہ عالمی سے شاہی محلے تک ہر جگہ نعرہ تکبیر سنائی دینے لگا۔ سب بنئے،  لالے، کھتری، برہمن اپنی ماں کی گود میں دبک کر بیٹھ گئے۔

کوچہ پیر جہازی کے نوجوان مسلمان بھی کہاں چپ بیٹھنے والے تھے۔ پہلے تو ہم نے لالہ بانشی رام کھتری کے مکان کے اندر گھس جانے کی کوشش کی۔ مگر اس بد معاش ہندو نے بڑا پکا انتظام کر رکھا تھا۔ لوہے کا دروازہ اس نے حال ہی میں لگایا اور مکان کے عقب میں ہندوؤں کا محلہ تھا۔ سربن کا محلہ جہاں کئی مسلمانوں کی جانیں جا چکی تھیں اس لئے ہم لوگ عقب سے حملہ نہ کر سکتے تھے اور سامنے لوہے کا دروازہ تھا۔ دو تین بار ہلہ بول کے ہم لوگ چپ ہوگئے۔ آخر تنگ آ کے ہم نے اس کے گھر کو آگ لگا دی۔ اب کیا کیا جائے۔ اس کے گھر میں کئی نادر اور قیمتی اشیاء تھیں اور سنا ہے کہ بہت زیور اور اناج بھی تھا۔ پر ہمیں کچھ نہ ملا۔ مکان ایسے جلا جیسے سوکھی لکڑی چولہے میں چٹخ چٹخ کر جلتی ہے۔ شعلے دور دور تک دکھائی دے رہے تھے لالہ بانشی رام نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کی بڑی کوشش کی۔ مگر بچارا کامیاب نہ ہوا۔ بہت بہت منتیں خوشامدیں اس نے کیں۔ مگر ہم لوگ ہنسا کیئے۔ بس مجھے ایک پشپا کے مرنے کا افسوس ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو میں اسے مرنے سے بچا لیتا۔ وہ مکان کے اندر اندر آگ میں جل کے مرگئی اور میں کچھ نہ کر سکا۔ کرتا بھی کیا اس وقت لوگ کہتے۔ مسلمان ہو کے ہندو کی طرف داری کرتا ہے۔ اس خیال سے چپ ہوگیا۔ مرتے وقت نجانے اس کی کیا حالت تھی۔ تیسری منزل سے اوپر کی چھت کی طرف تو اس نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ پریشانی کے عالم میں بھاگ رہی تھی۔ لالہ بانشی رام کی بیوی کے سارے کپڑے جل رہے تھے اور اس نے تیسری چھت سے نیچے چھلانگ لگا دی تھی۔ خیر جلتی آگ سے کون بچ سکتا ہے۔

جب لالہ بانشی رام کا مکان جل رہا تھا تو کسی نے دیکھا کہ ہندوؤں کا دوسرا گھر اسی طرح محفوظ و مامون ہے سب لوگ رام نرائن برہمن کے گھر کی طرف دیکھنے گے۔ جو اس وقت سب کے سامنے مجسم سوال تھا۔ پھر ہم سب لوگ اس گھر کی طرف بڑھے۔ یہاں معمولی سا کواڑ تھا۔ چٹخنی اندر سے لگی تھی۔ دروازہ کھٹ کھٹانے پر بھی جب کسی نے جواب نہ دیا۔ تو رشید بھائی نے اور گلے پہلوان نے شانوں سے ٹکریں لگا کر دروازے کو توڑ دیا۔ اندر سامنے ہی رام نرائن برہمن ہاتھ جوڑے کھڑا تھا بے چارہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔

رشید نے پوچھا۔” دروازہ کیوں نہیں کھولا ، سور۔”

جی ۔جی ۔ میں سو رہا تھا۔

مجھے بڑی ہنسی آئی۔ مگر میں نے ضبط کیا۔

گلے پہلوان نے کہا ۔ ”اب یہاں کھڑا کھڑا کیا کر رہا ہے۔ چل باہر چل۔”

” باہر جا کے کیا کروں گا۔“

” باہر تو نکل۔ یہاں کھڑا کھڑا کیا جواب دیتا ہے۔”

گلے پہلوان نے اس کی گدی پر ہاتھ رکھا اور اسے ایک دھکا جو دیا۔ تو سیدھا چوکھٹ سے باہر وہ چوکھٹ سے باہر گر رہا تھا کہ پھجے نے اس کی پیٹھ میں چاقو مارا اور وہ بھی وہیں ڈھیر ہو گئی۔ اپنے بیٹے کی تڑپتی ہوئی لاش پر گر گئی۔اس کے بعد رام نرائن کی بیوی کی باری آئی۔ اس نے زیادہ مزاحمت نہ کی چار بچوں کی ماں تھی اور بدصورت۔کوئی اسے مسلمان بنانے کے لئے بھی تیار نہ تھا۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کا سب سے چھوٹا لڑکا جو ایک سال کا تھا اب تک پنگوڑے میں پرا سو رہا تھا۔ نہایت اطمینان سے جیسے کچھ ہوا نہ تھا۔ ہم سب لوگ پنگوڑے کی طرف گئے۔ بچہ سو رہا تھا۔ رشید نے چھرا نکالا۔ یکا یک میرے ہاتھ نےاسے روک دیا۔

”کیوں“ رشید نے کہا “سانپ کا بچہ ہے”

” جانے دو۔” میں نے کہا ۔ ”بڑا ہو گا مار ڈالیں گے۔“

”نہیں“۔ پھجے نے ذرا نرمی سے کہا۔

“نہیں۔” میں نے سختی سے کہا۔ چھوڑ دو اسے۔ دراصل مجھے اپنا ننھا یعقوب یاد آ گیا تھا۔ اس کی عمر بھی اس وقت ایک سال کی تھی۔ بچے کو چھوڑ کر ہم لوگ گھر کا سازو سامان دیکھنے لگے ڈیڑھ دو ہزار کے زیور ملے اور آٹھ سو روپیہ نقد یہ ہم لوگوں نے آپس میں بانٹ لئے۔ کپڑوں کے صندوق میں بچوں کے کپڑے تھے جو ابھی اسکول سے واپس نہ آئےتھے۔ رام نرائن کی ماں کی شادی کے جوڑے جو اس نے اب تک سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ پھر خود رام نرائن کی بیوی کے جہیز کے کپڑے تھے۔ یہ بھی ہم لوگوں نے بانٹ لئے۔ میرے حصے میں چھ ریشمی ساڑھیاں آئیں ، اور دوسرے سوتی کپڑے۔ گہنوں میں میں نے اپنی بیوی کے کانوں کے لئے آویزے پسند کئے۔ اور ماتھے کا جھومر۔ اور ایک چاندی کا گلاس ۔ مال غنیمت سمیٹ کر ہم لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ باہر فرش خون سے لال تھا اور گوبھی کے گلے سڑے ٹکڑوں اور ناکارہ چمڑے کے تراشوں اور کیلے کے چھلکوں کے بیچ میں نالی کے پاس رام نرائن اور اس کی ماں اور اس کی بیوی کی لاشیں پڑی تھیں۔ سامنے لالہ بانشی رام کھتری کا مکان جل رہا تھا اور لوہے کے دروازے کے سامنے اس کی بیوی کی لاش پڑی تھی جس نے تیسری منزل سے چھلانگ لگائی تھی۔ سب گھر خاموش تھے۔ سب دکانیں بند تھیں۔ گلیاں سنسان تھیں اور بازار ویران۔ کہیں کہیں لیگ کے جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ ہم لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر مختلف گلیوں میں بٹ کر اپنی اپنی جگہوں کی راہ لی۔ گلامتی گیٹ چلا گیا۔ پھجا اکبری منڈی چلا گیا۔ میں اور رشید بھائی گیٹ کی طرف روانہ ہوئے جہاں داتا کے دربار کے عقب میں ہم نے اپنے بیوی بچوں کو رکھ چھوڑا تھا۔ چچا نورا ہی کے گھر میں۔

داتا کے دربار کے قریب مسلمانوں کا ایک بڑا ہجوم تھا اور اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کرشن نگر کے ہندوؤں کی مہاسبھائی ٹولی نے داتا کے دربار کی جانب عقب سے حملہ کیا اور آتے ہی آگ لگا دی۔ ہم لوگ بھاگے بھاگے اپنے گھر کی طرف دوڑے راستے میں چچا نورا بھی سر پیٹتے ہوئے ملے۔ بولے۔ ولئے بیٹا۔ گجب ہو گیا۔

“کیا ہوا چچا۔” میں نے گھبرا کر کہا۔

ہندوؤں نے ہمارے گھر کو آگ لگا دی۔ تیری چچی جل کے مر گئیں ہائے ہائے۔”

“اور میری بیوی” میں نے گھبرا کے پوچھا۔

“کافروں نے اسے جان سے مار ڈالا۔”

 گھر راکھ کا ڈھیر تھا۔ ابھی آگ پوری طرح سے بجھی نہ تھی۔ دروازے پر میری بیوی کی لاش تھی۔ اس کا سر کسی نے کچل دیا تھا۔ میرا بڑا بیٹا داؤد سات برس کا داؤد۔ چاند سا ہمارا بیٹا داؤد اس کے قریب مردہ پڑا تھا۔ اس کی گردن میں ایک گہراشگاف تھا۔

میں اپنے بچوں کے لئے کپڑے لایا تھا۔ اپنی بیوی کے لئے ماتھے کا جھومر اور بنارسی ساڑھیاں۔ میرے اللہ یہ کیا غضب ہے۔

میں نے چچا سے پوچھا اور میرا یعقوب تو سلامت ہے۔ کہہ دو چچا وہ تو سلامت ہے۔

چچا نورا بولے۔ اسے کافروں نے پہلے تو چھوڑ دیا تھا۔ پھر کسی نے کہا۔ یہ تو سانپ کا بچہ ہے۔ اس لئے انہوں نے اس پر بھی پٹرول چھڑک دیا وہ ہے تمہارا یعقوب۔

کونے میں چند جلی ہوئی ہڈیاں اور خاکستر سر۔ چھوٹا سا۔ ننھا سا خاکستر سر! تم کیا سب مر گئے تھے چچا؟

محلے میں کوئی مرد نہیں تھا۔ نورا نے کہا۔ ہم لوگ سب لوٹ مار کے لئے گئے ہوئے تھے۔ کسے معلوم تھا بزدل ہماری غیر حاضری میں حملہ کریں گے اور وہ بھی یوں۔ نہتی عورتوں پر۔

میں نے ساڑھیاں اور زیور اور چاندی کا گلاس اپنی بیوی کی لاش کے سامنے رکھا اور اس سے کہا۔ مجھے تیری قسم ہے عائشہ اگر میں نے تیرے خون کا بدلہ نہ لیا ہو تو اپنے باپ کی نہیں کسی سور کی اولاد ہوں۔ اتنا کہہ کر میں نے چھرے کو ہاتھ میں پکڑا اور گلی کے باہر چلا گیا۔ رشید میرے ساتھ ہو لیا۔

اب کہاں جا رہے ہو پولیس آ رہی ہے۔ چچا چلایا۔

پولیس کی ماں کی اور پولیس کی بہن کی۔ میں اس وقت سیدھا شاہ عالمی جا رہاہوں۔ کسی میں ہمت ہے تو مجھے روک لے۔ اللہ اکبر!

ہم وحشی ہیں میں شامل افسانے

خلاصہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks