افسانہ “امرتسر آزادی کے بعد” کرشن چندرکے افسانوی مجموعہ “ہم وحشی ہیں” میں شامل چوتھا افسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ” پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ پاکستان آزاد ہوا۔ پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان بھرمیں جشن آزادی منایا جا رہا تھا۔ “۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے” کیونکہ انسان کبھی نہیں مرتا، وہ درندہ نہیں ہے۔ وہ نیکی کی روح ہے، خدائی کا حاصل ہے۔ کائنات کا غرور ہے۔” ۔
نچوڑ
کرشن چندر نے اس افسانے میں تقسیم ہند کے بعد امرتسر کے لوگوں کی حالت کو بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو کل تک بھائی بھائی ماں بیٹے تھے اور آج ایک دوسرے کی جان کا دشمن بن بیٹھے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان اور ہندوستان سے آنے والی دو ٹرینوں کے مسافروں کی عکاسی کی گئی ہے۔
خلاصہ
افسانہ نگار نے آزادی کے جشن سے افسانہ کا آغاز کیا ہے اور ساتھ ہی بیان کیا ہے کہ امرتسرمیں فرقہ وارانہ فسانہ برپاہواکیوں کہ یہ تقسیم پنجاب کے عوام کے خلاف تھا۔پنجاب کے عوام پر ہوئے ظلم کی نشان دہی کی ہے۔اس کے بعد امرتسر کی آزادی کو بیان کیا ہے۔
15 اگست 1947ء کو امرتسر آزاد ہوا۔ پڑوس میں لاہور جل رہا تھا مگر امرتسر آزاد تھا اور وہاں کہ سبھی مذہب والے آزادی منانے میں مگن تھے تبھی شام کو اسٹیشن پر آزاد ہندوستان اور پاکستان سے دو اسپیشل گاڑیاں آئیں۔دونوں ٹرینوں میں مکمل سات ہزار افرادمیں سے صرف دو ہزار زندہ تھے یہ دیکھ کر ہندو اور سکھ طیش میں آکر مسلمانوں کی گاڑی پر دھاوا بول دئیے اور آدھے سے زیادہ آدمی مار ڈالے۔تب جاکر ملٹری نے حالات پر قابو پائی۔
یہاں سے مسلمان بوڑھی، اس کے پوتےکے پانی کے لیے تڑپنے کا واقعہ ہے جس کے لیے ایک اکالی رضاکار نے مسلمانوں کے رستے ہوئے خون پیش کیا پھر ایک ہندوپانی کا گلاس لے کر آیااور اس کے بدلے میں پچاس روپے کا مطالبہ کیا لیکن بوڑھی کے پاس نہ ہونے کی وجہ کسی دوسرے مسلمان نے سو روپیے میں خریدلیا اور خود پی گیا اور بوتل پھینک دیا تو یہ معصوم بچہ اس بوتل اور فرش پر گرے پانی کو چاٹا۔
اس کے آگے افسانہ نگارآزادی کی رات اور اس کے بعد کا واقعہ بیان کیا ہے کہ گھرجلائے جانے لگے، ہندو، سکھ اور مسلمان میں مقابلہ چلتا رہا لیکن جلد ہی آس پاس کی ریاست کے لوگ ہندوؤں اور سکھوں کی مدد کے لیے آگئے پھر تو سب سے زیادہ مسلمانوں کے گھر جلائے گئے، یہاں تک کہ مسلمان ہزاروں کے جھنڈ میں ہوکر اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنا شروع کیے لیکن اس کے بعد قتل عام ہونے لگا۔اور ملٹری نے قابو پاکر ہندو اور مسلمان کو دو مختلف کیمپوں میں بند کرپناہ گزیں بنادیا۔ہندو شرنارتھی کہلاتے تھے اور مسلمان پناہ گزین مہاجرین۔ دونوں مصیبت میں تھے لیکن نام کی وجہ سے اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے۔
اس کے آگے افسانہ نگار آزادی کی رات ہندوشرنارتھیوں کے ایک کیمپ کا واقعہ بیان کیا ہے جس میں شدید بخار میں لرزتی ہوئی ایک ماں اپنے بیمار بیٹے کے سامنے دم توڑ رہی تھی۔مغربی پنجاب سے ان کے خاندان کے پندرہ اشخاص چلے تھے لیکن اب صرف دو افراد بچے تھے، پھر ماں بھی مرگئی اور بیٹا اس کو اپنی ماں کہنے تک کو تیار نہیں تھااور لحاف لے کر خود کو ڈھانپ لیا۔
اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کے گھرلوٹنے میں ہر ایک کی شراکت کو افسانہ نگار نے بتایا ہے ، اس کے لیے خود اپنا گائے کاواقعہ نقل کیا ہےاور اس کے دوست سردار سندرسنگھ نے اپنے موٹر گاڑی کے اٹھ جانے کا واقعہ بیان کیا ہے۔
افسانہ نگار اپنے دوست کے پاس سے اٹھ کرگھر کے لیے روانہ ہوتا ہے لوگوں کو گھر لوٹتے ہوئے دیکھتا ہےاسی دوران ایک دودھ بیچنے والے کے ہاتھ میں کتاب دیکھتا ہے جو وہ صرف ایندھن کے لیے اٹھا لیا تھا۔
اس کے آگے راوی کی زینب کی ماں سے ملاقات اور اس کی روداد بیان کی گئی ہے۔
افسانہ کے کردار
بوڑھی،پوتا، سکھ، ہندو، بوڑھی ماں، بیٹا
راوی
سردار سندر سنگھ (راوی کا دوست)
سردار سویرا سنگھ (غدر پارٹی کے لیڈر)
زینب کی ماں
اہم نکات
ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے آج تک پنجابی پناہ گزینوں کے لئے بیس کروڑ روپے صرف کئے ہیں یعنی فی کس بیس روپے۔
پاکستان اسپیشل پر اردو کے موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا، ’’قتل کرنا پاکستان سے سیکھو‘‘ ہندوستان اسپیشل میں لکھا تھا ہندی میں ’’بدلہ لینا ہندوستان سے سیکھو‘‘
یہ لوگ مغربی پنجاب سے آئے پندرہ آدمیوں کا خاندان تھا۔ پاکستان سے ہندوستان آتے صرف دو افراد رہ گئے تھے ۔ جب یہ پندرہ افراد کا قافلہ گھر سے چلا تھا تو ان کے پاس بستر تھے۔ سامان خورد و نوش تھا، کپڑوں سے بھرے ہوئے ٹرنک تھے، روپیوں کی پوٹلیاں تھیں اور عورتوں کے جسموں پر زیور تھے۔ لڑکے کے پاس ایک بائیسکل تھی اور یہ سب پندرہ آدمی تھے۔ گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے دس آدمی رہ گئے۔ پہلے روپیہ گیا، پھر زیور، پھر عورتوں کے جسم۔ لاہور آتے آتے چھ آدمی رہ گئے۔ کپڑوں کے ٹرنک گئے اور بستر بھی۔ اور لڑکے کو اپنی بائیسکل کے چھن جانے کا بڑا افسوس تھا۔ اور جب مغلپورہ سے آگے بڑھے تو صرف دو رہ گئے۔
اہم اقتباس
صدیوں پہلے مطلق العنانی کا دور دورہ تھا اور کسی نے عوام سے کبھی نہ پوچھا تھا پھر انگریزوں نے اپنے سامراج کی بنیاد ڈالی اور انہوں نے پنجاب سے سپاہی اور گھوڑے اپنی فوج میں بھرتی کئے اور اس کے عوض پنجاب کو نہریں، پنشنیں عطا فرمائیں
پنجاب کے تین مذہب تھے، لیکن اس کا دل ایک تھا۔ لباس ایک تھا، اس کی زبان ایک تھی، اس کے گیت ایک تھے۔ اس کے کھیت ایک تھے۔اس کے کھیتوں کی رومانی فضا اور اس کے کسانوں کے پنچائتی ولولے ایک تھے۔
عورتوں کی عصمتیں برباد ہوتی ہیں یا محفوظ رہتی ہیں۔ بچوں کے گلے پر چھری پھیری جاتی ہے یا ان پر مہربان ہونٹوں کے بوسے ثبت ہوتے ہیں۔
اس شہر کی کہانی جہاں جلیان والا باغ ہے۔ جہاں شمالی ہند کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ جہاں سکھوں کا سب سے بڑا مقدس گرد وارہ ہے۔ جہاں کی قومی تحریکوں میں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔
بچے نے کہا، ’’دادی اماں پانی‘‘
دادی چپ رہی۔ بچہ چیخا، ’’دادی اماں پانی‘‘
دادی نے کہا، ’’بیٹا پاکستان آئے گا تو پانی ملے گا؟‘‘
بچے نے کہا، ’’دادی اماں کیا ہندوستان میں پانی نہیں ہے؟‘‘
دادی نے کہا، ’’بیٹا اب ہمارے دیس میں پانی نہیں ہے‘‘
کل کا بھائی آج دشمن ہو گیا تھا اور کل جس کو ہم نے بہن کہا تھا آج وہ ہمارے لئے طوائف سے بھی بدتر تھی اور کل جو ماں تھی آج بیٹے نے اس کو ڈائن سمجھ کر اس کے گلے پر چھری پھیر دی تھی۔
پانی ہندوستان میں تھا اور پانی پاکستان میں بھی تھا۔ لیکن پانی کہیں نہیں تھا کیونکہ آنکھوں کا پانی مر گیا تھا اور یہ دونوں ملک نفرت کے صحرا بن گئے تھے اور ان کی تپتی ہوئی ریت پر چلتے ہوئے کارواں بادِ سموم کی بربادیوں کے شکار ہو گئے تھے۔ پانی تھا مگر سراب تھا۔
یہ اسلحہ جات برطانوی اور امریکی کمپنیوں کے بنائے ہوئے تھے اور آج آزادی کی رات ہندوستانیوں کے دل چھید رہے تھے۔ لڑے جاؤ بہادرو، مرے جاؤ بہادرو، ہم اسلحہ جات تیار کریں گے تم لوگ لڑو گے شاباش بہادرو، دیکھنا کہیں ہمارے گولہ بارود کے کارخانوں کا منافع کم نہ ہو جائے۔
’’وہ میری ماں نہیں تھی۔ یہ لحاف میرا ہے۔ یہ لحاف میرا ہے۔ میں یہ لحاف نہیں دوں گا۔ یہ لحاف میرا ہے۔ ‘‘وہ زور زور سے چیخنے لگا۔ ’’’وہ میری ماں نہیں تھی۔ یہ لحاف میرا ہے۔ میں اسے کسی کو نہ دوں گا۔ یہ لحاف میں ساتھ لایا ہوں، نہیں دوں گا، نہیں۔۔۔ایک لحاف، ایک ماں، ایک مردہ انسانیت
بدمعاشی و بربادی اس حد تک پھیل گئی ہے کہ ہمارے اچھے اچھے قومی کارکن بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں کام کرنے والے طبقے کا ایک جزو خود اس لوٹ مار قتل و غارت گری میں شریک ہے۔ اس روکو اگر اسی وقت روکا نہ گیا تو دونوں جماعتیں فسطائی ہو جائیں گی۔ یہی کوئی دو چار سال ہی ہیں۔
بڑی اچھی کتابیں تھیں۔ سب چولہے میں گئیں۔ ارسطو، سقراط، افلاطون، روسو، شیکسپیئر، سب چولہے میں گئے۔
کیا کہا تم نے، چوٹ۔ ارے بیٹا یہ چوٹ بہت گہری ہے۔ یہ گھاؤ دل کے اندر ہی بہت گہر اگھاؤ ہے۔ تم لوگ اس سے کیسے پنپ سکو گے؟ تمہیں خدا کیسے معاف کرے گا؟‘‘
’’تو جانتا ہے یہ امرتسر کا شہر ہے۔ یہ میرا شہر ہے۔ اس مقدس گوردوارے کو میں روز سلام کرتی تھی۔ جیسے اپنی مسجد کو روز سلام کرتی ہوں، میری گلی میں ہندو مسلمان سکھ بھی بستے ہیں اور کئی پشتوں سے ہم لوگ یہاں بستے چلے آئے ہیں اور ہم ہمیشہ ہمیشہ محبت سے اور پیار سے اور صلح سے رہے اور کبھی کچھ نہیں ہوا۔ ‘‘
ہم انسان ہیں۔ ہم اس ساری کائنات میں تخلیق کے علم بردار ہیں اور کوئی تخلیق کو مار نہیں سکتا۔ کوئی اس کی عصمت دری نہیں کر سکتا۔ کوئی اسے لوٹ نہیں سکتا کیونکہ ہم تخلیق ہیں اور تم تخریب ہو۔ تم وحشی ہو، تم درندے ہو، تم مر جاؤ گے لیکن ہم نہیں مریں گے کیونکہ انسان کبھی نہیں مرتا، وہ درندہ نہیں ہے۔ وہ نیکی کی روح ہے، خدائی کا حاصل ہے۔ کائنات کا غرور ہے۔