افسانہ (02) لال باغ

پیش خدمت ہے  کرشن چندرکے مجموعہ “ہم وحشی ہیں” میں شامل دوسرا افسانہ “لال باغ”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔

لال باغ

کملاکر کے جبڑے بڑے مضبوط تھے۔ اتنے مضبوط کہ رخسار کی ہڈی اور جبڑوں کے درمیان کے گوشت میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ اس کا رنگ گورا تھا۔ قد پست۔ جسم گٹھا ہوا۔ آنکھوں میں بلی کی سی چمک اور مکاری پائی جاتی تھی۔ کملا کر کی عمر پچاس کے قریب ہو گی۔ لیکن دیکھنے میں وہ تیس کے اوپر نہیں۔ تیس سے کچھ کم کا ہی معلوم ہوتا تھا۔ کملا کر لال باغ کا معروف دادا تھا۔ بچپن میں اس نے جیب کترنے کا فن سیکھا تھا۔ دو چار بار جیل جا کر وہ بمبئی کی سب سے بڑی صنعت کا ایک معزز رکن بن گیا تھا۔ یوں تو بمبئی ایک کاروباری شہر ہے۔ صنعتی مرکز ہے۔ یہاں ملیں، فیکٹریاں تجارتی گودام سب کچھ موجود ہیں۔ لیکن لوہا، کاٹن، تیل، کاغذ اور اناج کے کالے بیوپار سے بڑھ کر بھی جو صنعت یہاں کمال کو پہنچی ہوئی ہے وہ جرائم پیشہ لوگوں کا کاروبار ہے اس میں کروڑوں روپوں کا لین دین ہوتا ہے اور مالابار ہل سے لے کر مدنپورہ کی جھونپڑیوں تک اس کے بھگتان کرنے والے پھیلے ہوئے ہیں۔ کملا کر اس معزز صنعت کا ایک فرد تھا اور لال باغ میں دادا گیری کرتا تھا۔ دادا گیری آسان کام نہیں اور کرنے سے نہیں آتی۔ ہندوستان اور پاکستان کا گورنر جنرل بننا آسان ہے۔ لیکن لال باغ کا دادا بننا آساں نہیں۔ کملا کر نے یہ تاج پچاس برس کی کاوشوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ بچپن میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کارادر سے بمبئی آیا تھا۔ یہاں اس کے ماں باپ وکٹوریہ مل میں نوکر ہو گئے تھے اور وہ دن بھر گلیوں میں ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ ٹراموں پر بغیر ٹکٹ لئے سوار ہو تا، میوہ فروشوں سے الجھتا، بوٹ پالش کرنے والوں کو دھمکاتا، خوش پوش راہ گیروں سے بھیک مانگتا،  پان والوں کی دوکانوں سے بیڑا اڑاتا اور اس طرح کے کئی ایک نیک کام کرتا کہ جن سے غریبوں کے بچوں کا مستقبل تعمیر ہوتا رہتا ہے۔ پھر ایک مہربان نے ترس کھا کر اسے جیب کترنے کا فن سکھا دیا اور اپنی دانست میں اسے راہ راست پر ڈال دیا۔ یہ راستہ اسے تین چار بار جیل لے گیا۔ پہلی بار جب وہ ریفار میٹری اسکول گیا۔ تو اسے اپنا گاؤں یاد آیا۔ اسے چھوٹے چھوٹے مرغی کے چوزے یاد آئے جن سے وہ اپنے گھر کے آنگن میں کھیلا کرتا تھا۔ اسے وہ ندی کنارے جام کا پیر یاد آیا جہاں وہ حسین اور پری جمال گلہریوں کی اچھل کود سے محظوظ ہوا کرتا تھا۔ دوندے کی جھاڑیاں یاد آئیں، جو ندی کے کنارے اگ رہی تھیں اور جہاں اس نے ایک مرتبہ شاما کے گھونسلے میں تین نہایت نرم و نازک چتکبرے انڈوں کو دیکھا تھا۔ اس نے انڈے اپنی ہتھیلی میں اٹھا لئے اور دیر تک انہیں چھوتا رہا۔ پھر اس نے انڈے گھونسلے میں رکھ دیئے اور ایک خوبصورت تیتری کے پیچھے بھاگا۔ اس کے بھاگنے سے ایک خرگوش چوکنا ہو گیا اور اس کے سامنے سے لمبے لمبے کان کھڑے کئے تیر کی طرح بھاگا اور وہ وہیں کھڑا ہو کر ہنسنے لگا۔ تیتری فضا میں رنگ بھرتی جا رہی تھی۔ اس کے قہقہے گونج رہے تھے یکا یک خرگوش دور جا کر کھڑا ہو گیا۔ اور حیرت سے مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگا کہ یہ لڑکا کیوں ہنس رہا ہے۔ پہلی بار کملا کر کو یہ سب کچھ یاد آیا۔ دوسری بار وہ ریفارمیٹری میں نہیں جیل میں لایا گیا۔ اب اسے بمبئی کی گلیاں یاد آئیں۔ بمبئی کے بازار اور مون سون کی بارش جب گرم گرم ابلی ہوئی نمکین مونگ پھلیاں چائے کے ساتھ کھانے میں مزا آتا ہے اور اس کے بعد پانچ شیر والی بیڑی اسے فٹ بال کے میچ یاد آئےجو اس کے قریب ہی اینگلو انڈین کلب لال باغ میں ہوا کرتے تھے۔ کس قدر دلچسپی تھی اسے فٹ بال میں زندگی بھر اس نے کبھی فٹ بال نہیں کھیلا تھا۔ وہ فٹ بال کو ہاتھ لگانا چاہتا تھا۔ یہ گول گول پھکنا جو دھماکے سے ہوا میں اڑتا ہے اور زمین پر اچھل کر پھر فضا میں پرواز کرتا ہے۔ دھم دھم ادھر دهم دهم ادھر۔ کملا کر چاہتا ایک ایسی کک لگائے کہ فٹ بال اوپر فضا میں دور میلوں تک اوپر چلا جائے۔ حتی کہ کسی کو نظر بھی نہ آئے۔ اور سب لوگ اسے حیرت سے تکنے لگیں۔ لیکن ایسا کبھی نہ ہوا۔ وہ تو صرف فٹ بال دیکھنے والے تماشائیوں کی جیبیں کاٹ سکتا تھا اور بس جیب کترنے کے لئے تین جگہیں سب سے عمدہ ہیں۔ ایک تو کھیل کا میدان جہاں تماشائیوں کو کھیل میں اتنی دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ساری سدھ بدھ بھول جاتے ہیں۔ دوسری سیاسی جلسہ جہاں مقرر اپنی آتش بیانی سے لوگوں کے دلوں میں یعنی ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف اور ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف آگ لگا دیتا ہے۔ کملا کر بھی سیاسی جلسوں میں جاتا تھا۔ اسے میٹھی، سنبھلی ہوئی، متین تقریریں پسند نہ تھیں۔ ایسے موقعوں پر لوگ جمائیاں لینے لگتے تھے اور اپنی جیبوں سے خبردار ہو جاتے تھے۔ وہاں ایسی تقریر یں بہت کم ہوتی تھیں۔ یہی غنیمت تھا۔ نفرت کے جذبات لوگ بڑی خوشی سے قبول کرتے تھے۔ محبت، رواداری، آشتی، صلح، امن کے جذبات لوگوں کو پسند نہ آتے تھے۔ اس لئے اچھے تقریر کرنے والوں کو اس نے کبھی اس غلطی کا مرتکب نہ پایا تھا۔ وہ اکثر سیاسی جلسوں میں جانے سے پہلے تقریر کرنے والے کا نام پوچھ لیا کرتا تھا۔ جب بھگو مل بگوانی چرخے کی افادی حیثیت پر تقریر کرنے کے لئے آتے تو وہ سمجھ جاتا کہ اب اس جلسے میں کسی کی جیب کاٹنا مشکل ہو گا۔ جب باجپئی پھٹکار کر گرجدار آواز میں بمبئی کو سمیٹ کر مہارشٹر میں شامل کرنے کی دھمکی دیتے اور بمبئی کے غیر مرہٹہ لوگوں کو پھنکارتے تو کملا کر سمجھتا کہ آج دو چار جیبیں ضرور کاٹی جائیں گی۔ اس لئے وہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر کے سیاسی جلسوں میں شرکت کرتا تھا۔ ہاں ریلوے پلیٹ فارم پر وہ ضرور جاتا تھا۔ ہر روز دن میں دو تین بار۔ بالخصوص شام کے وقت جب لوگ گھروں کو لوٹتے، اسی جلدی، گبھراہٹ، بےچینی اور تابڑ توڑ گھر پہنچنے کی شدید خواہش میں جو اس مجمع میں ہوتی ہے اسے اپنا کام کرنے کا موقعہ مل ہی جاتا تھا۔ لیکن اب وہ اس پیشے سے کچھ بد دل سا ہو چلا تھا جس نے اسے دو بار جیل کی ہوا کھلائی تھی۔ اس لئے تیسری بار جب جیل میں آیا تو خوب چوکنا ہو کے، جیسے وہ کسی اسکول میں داخل ہو رہا ہو۔ اس نے دوسرے جرائم پیشہ قیدیوں سے راہ و رسم پیدا کی اور اب اسے معلوم ہوا کہ اب تک وہ بسم اللہ کے گنبدی ہی میں بند تھا۔ بمبئی میں تو ایک سے ایک اونچا کاروبار پڑا ہے۔ جس میں لاکھوں روپے کا روز ہیر پھیر ہوتا ہے۔ یہ جیب کترنا بھی کوئی کاروبار ہے۔ آدمی کام کرے تو لڑکیوں کے بیچنے، لانے، لوانے، بچوانے کا کام کرے۔ احمدآباد سے چرس، افیم، بھنگ کی در آمد کرے۔ شراب کی بھٹی لگائے، کلپان میں بیٹھ کر کوکین سازی کرے۔ پھر چور بازار کے سودے ہیں۔ قمار خانے ہیں۔ بڑے بڑے لوگوں کی کمزوریوں سے واقف ہو کر انہیں لوٹنے کے بہانے ہیں۔ یہاں یہ جیب کتر نا بھی کوئی کام ہے۔ پکڑے جاؤ تو پہلے تو لوگ پیٹتے ہیں۔ پھر پولیس پیٹتی ہے۔ پھر جیل کی چکی پیسنی ہے۔ تیسری بار تو کملا کر نے عہد کر لیا کہ اب وہ جیب کترنے کا دھندا نہیں کرے گا۔ تیسری بار جیل جانے کے بعد اس نے افیم اور چرس کی در آمد کا دھندا کیا اور اس میں اسے اور پولیس اور دوسرے لوگوں کو اتنا فائدہ ہوا کہ اس نے لال باغ کے دو چار بڑے بڑے سیٹھوں سے مل کر اپنی بھٹی رکھ لی اور بڑے پیمانے پر تجارت کرنے لگا۔ اس کے بعد وہ کبھی جیل نہیں گیا۔ دو ایک بار پولیس نے اسے تڑی پار ضرور کر دیا تھا۔ لیکن سیٹھوں نے مل ملا کے اسے واپس بلوا لیا۔ اب اس کی عمر پچاس برس کی ہو گئی تھی۔ اس کا اپنا جوا خانہ تھا۔ شراب کی بھٹی تھی۔ افیم کا کاروبار تھا۔ ایک قحبہ خانہ تھا۔ ایک اپنا گھر تھا۔ موٹر تھی، بیوی تھی، چار بچے تھے۔ اس نے اپنے گاؤں میں اپنا گھر اینٹوں کا بنوایا تھا اور وہاں زمین بھی مول لی تھی۔ لال باغ میں ہر کوئی اس کی عزت کرتا۔ وہ جدھر سے گزر تا لوگ اس کی تعظیم کے لئے اٹھ جاتے اور پھر جھک جاتے اور پھر وہ ان کے سامنے سے گزر جاتا۔

 آج بھی جب وہ کھانا کھا کے گھر سے نکلنے لگا تو کئی لوگ اس کی دید کے منتظر باہر کھڑے تھے، دست بستہ ۔ اس نے کھانا کھا کر اپنی بیوی ، اپنی چوتھی بیوی کے گال میں چٹکی لی اور تیزاب کی بوتل ہاتھ میں اٹھائے  گھر سے نکلا۔ دروازے پر اس کا چھوٹا لڑکا راؤ کھڑا تھا۔ اس نے راؤ سے کہا۔ دادر کے ناکے کی طرف مت جانا جدهر رنجیت فلم کمپنی کا اسٹوڈیو ہے ۔ اس علاقے کے مسلمان لڑکوں سے نہ کھیلا کرو۔ تجھے کتنی بار سمجھایا ہے۔ اب تو نہیں جائے گا۔ راؤ نے کان پکڑ کے کہا۔ اب کبھی نہیں جاؤں گا دادا۔ راؤ بھی اپنے باپ کو دادا ہی کہتا تھاکہ بچپن ہی سے وہ اپنے باپ کے متعلق ہر کس و ناکس سے یہی لفظ سنتا آیا تھا۔

 راؤ کو فرمائش کرنے کے بعد اور تیزاب کی بوتل لے کر دادا کملا کر آگے بڑھا۔ اس کے چہیتے نائب شنکر نے تیزاب کی بوتل اپنے ہاتھ میں تھام لی اور کملا کر اپنے گرگوں کے جِلَو میں لال باغ کے بڑے بازار میں آ گیا۔ یہاں کل رات سے بہت گڑ بڑ تھی۔ گو بمبئی میں ہندو مسلم فساد ایک سال سے جاری تھا۔ لیکن کل رات سے جھگڑا بہت بڑھ گیا تھا۔ کملا کر فساد ہو جانے سے بہت خوش تھا۔ کیونکہ جب امن ہو جرم کا کاروبار ذرا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ پولیس بھی زیادہ ہوشیار ہو جاتی ہے اور فساد میں کسی کو یہ ہوش نہیں ہو تا کہ کل کا راشن کہاں سے آئے گا۔ چرس اور افیون کے کھیپ کون پکڑ سکتا ہے۔ دادا کملاکر کا کاروبار فساد کی وجہ سے بہت اچھا چل رہا تھا۔ سیٹھ پہلے سے زیادہ مہربان ہو گئے تھے۔ ان کی حفاظت کے لئے اس نے ہزاروں روپے ہتھیا لئے تھے اور سینکڑوں نوجوان ہندو چھوکروں کا پیٹ بھرتا تھا۔ دوسری صورت میں یہ شریف لڑکے ملوں میں ذلیل مزدوری کرتے اور صبح و شام رگڑتے ہوئے۔ اب تو چین تھا اور اچھا کھانا تھا اور جیب میں اعلیٰ سگریٹ اور رات کو شراب اور لڑکیاں اور لوگوں کے دلوں میں وہ ڈر جیسے ہٹلر کے صاحبزادے چلے جا رہے ہوں۔ یہ فساد زندگی بھر رہے تو کیا برا ہے۔

شنکر نے کملا کر کے کان میں کہا۔ رات کو چار مسلے گرائے۔

 کملاکر نے اس کی پیٹھ ٹھونکی۔ شاباش۔ پھر رک کر کہا۔ ”کون کون ہیں۔ وہ ابھی ان کی لاش اٹھوائی نہیں۔ چلئے دکھاتا ہوں۔“

وکٹوریہ مل کے ادھر ایک تنگ گلی میں جہاں کارپوریشن کے بھنگی غلاظت جمع کر کے رکھتے ہیں۔ وہاں ایک لڑکے کی لاش پڑی تھی۔ نیم برہنہ کرتا پھٹا ہوا، آنتیں باہر نکلی ہوئیں۔ ہات میں تیل کی شیشی۔ شاید گھر سے ماں نے بازار بھیجا تھا کہ سالن میں کڑی لگانے کے لئے تیل لے آئے۔

کیسے پہچانا۔

شنکر نے اشارہ کر کے کہا۔

ختنے سے۔

شاباش! کملا کر نے کہا۔ یہ تیل کی شیشی لے لو۔ کسی غریب ہندو کے کام آ جائےگی۔

دو سرا موقعہ کون سا ہے۔ کملا کر نے پوچھا۔

وہ میرے علاقے میں ہے۔ بور کر نے آگے بڑھ کے اور اپنے استاد کو خوش کرنے کے لئے بتیسی نکالتے ہوئے کہا۔ بورکر کا ماتھا چھوٹا تھا۔ کان بڑے اور دانت باہر نکلے ہوئے۔ اس کی بانہیں سوکھی تھیں اور ہات بڑے بڑے اتنے بڑے کہ انہیں دیکھنے ہی سے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے وہ پریل کے جنوب میں کاردار اسٹوڈیو کے بہت آگے نکل گئے۔ جدھر ایک اکیلی سڑک ویرانے میں سے گزرتی ہوئی ڈاک یارڈ کی طرف جاتی تھی۔ یہاں ایک گڑھے میں ایک بڈھے کی لاش پڑی تھی۔ لاش سے معلوم ہوتا تھا جیسے یہ آدمی زندگی بھر زندہ نہ رہا ہو، ہونٹوں پر ماتھے پر آنکھوں کی پتلیوں میں، پیٹ پر، جسم کے ہر حصے میں اس مسلسل موت کے نشان تھے جو ہندوستان میں ایک غریب آدمی کے لئے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتے ہیں اور روز بروز بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ اس بڈھے کی زندگی ایک ایسی پرانی ہسٹری بوسیدہ کتاب تھی جس کے ہر صفحے پر بھوک، بے کاری،بیماری، قحط کی ہولناکیاں ثبت تھیں۔ یہ کتاب کیچڑ میں پڑی تھی۔ ایک گڑھے میں یہ زندگی جو ایک گڑھے میں شروع ہوئی اور ایک گڑھے میں ختم ہو گئی۔ یہ اکڑے اکڑے پاؤں جو ہمیشہ کیچڑ میں چلتے رہے۔ یہ ہونٹ جنہیں کبھی دو وقت کھانا نہیں ملا۔ یہ کان جنہوں نے کبھی اقبال کا نغمہ نہیں سنا۔ یہ آنکھیں جو سدا خوبصورتی سے آشنا رہیں۔ کیوں ایسی مسلسل موت کو لوگ زندگی کہتے ہیں۔

اور اب یہ لاش کملاکر کا انتظار کر رہی تھی۔

ارے یہ تو شیدو کی لاش ہے۔

شیدو بریلی کا رہنے والا تھا۔ بمبئی کے لال باغ میں تیس برس سے مونگ پھلی بیچتا تھا۔ اتنا پرانا تھا وہ کہ ٹرام والے اور مزدور اور دکاندار اور منشی لوگ اور گجراتی سیٹھوں کے منیم اور سودخور پٹھان بھی اسے جانتے تھے۔ وہ اتنا پرانا تھا جیسے بس کا اسٹینڈ یا وکٹوریہ مل کی گھڑی۔ یا ایرانی کا ریسٹوران۔ لال باغ اس کے بغیر نامکمل تھا۔ مونگ پھلی بھوننے تلنے اور اسے خوش اخلاقی  سے بیچنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی زندگی ہندوؤں کے ساتھ بسر ہوتی تھی۔ انہیں کے ساتھ اس نے اپنا لڑکپن اپنی جوانی اور اپنا بڑھاپا بسر کیا تھا۔ اس محلے میں اس کی شادی ہوئی تھی اور گجراتی سیٹھوں نے پانسو روپے سے اس کی مدد کی تھی۔ اس علاقے میں اس کے بیوی بچے بے خوف و خطر گھومتے تھے۔ وہ لال باغ کی تخلیق تھے۔ اس کے ماحول کا حصہ تھے۔ اس کی خوشیوں، غموں کے وارث وہ اسے چھوڑ کر کہا جا سکتے تھے۔ جب فساد شروع ہوا۔ تو بہتیرے مسلمانوں نے اس سے کہا کہ وہ لال باغ چھوڑ کر چلا جائے۔ لیکن شید نے ہنس کر ٹال دیا۔ میں اپنے بھائی ہندوؤں میں ہوں کوئی مجھے کیا کہے گا۔ ابھی دو روز ہوئے کملا کر نے بھی اس سے یہی کہا تھا۔ شیدو میاں ہم تو ان مسلمانوں کے خلاف ہیں جنہوں نے ہمارے دیس کے ٹکڑے ٹکڑ ےکر دیئے ہیں۔ تم تو اپنے آدمی ہو۔ تمہاراکوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔

 کملا کر آگے بڑھ گیا۔ اس نے بورکر سے کہا۔ ”ارے اسے کیوں مارا۔“

بور کر نے کہا۔ ”کیا کرتا۔ اپنے علاقے میں اب یہی باقی رہا تھا اور مجھے پچاس روپوں کی ضرورت تھی۔“

کملا کر نے جیب سے پچاس روپے نکال کر اسے دیئے۔ سیٹھ اگلے ہفتے سے پچاس کے پچیس کرنے والے ہیں۔ کیونکہ سیٹھ بولتے تھے…… اب مسلمانوں کو مارنے والے بہتیرے آدمی مل رہے ہیں۔ میں نے کہا سیٹھ لال باغ میں دو سرے آدمی نہیں آ سکتے اور میرے آدمی تو ایک مسلمان کے مارنے کے پچاس روپیہ لیں گے۔

پچاس روپے۔ شیدو کا گھر، شیدو کی بیوی، شیدو کے بچے،  پچاس روپے، پچاس روپے، بھنی ہوئی مونگ پھلی کا کرارا ذائقہ بارش کی پھوار، شیدو کی ملائم آواز۔ مونگ پھلی لے لو…. پچاس روپے۔ ایک چھوٹا سا دیا۔ ایک چھوٹا سا ٹمٹماتاہوا دیا۔چار آنے میں صبح و شام کا کھانا۔ اللہ کا شکر بچوں کے بھولے بھالے چہرے، بیوی کی نرم مہربان مسکراہٹ، پچاس روپے۔ رات کے گرم لحاف میں فرش پر خاموشی سے سو جانا۔ بچوں کے سانسوں کی مدھم آوازیں۔ ننھے کے ملائم ہات شیدو کی داڑھی سے کھیلتے ہوئےکھیلتے کھیلتے باپ کی آغوش میں سوجاتے ہوئے…… پچاس روپے …..

کملا کر کے دماغ کے اندر کی تہہ میں کہیں دور گہری تہہ میں ایک لمحہ کے لئے ایک چبھن سی پیدا ہوئی۔ اور پھر لمحے دوسرے میں مرگئی۔ وہ آگے بڑھ گیا۔ صورت سنگھ نے کہا ہسپتال کے پیچھے مزدوروں کے جھونپڑے میں ادھر۔

سرکاری ہسپتال کے پیچھے کھلی زمین تھی اور تاڑ کے پیڑ تھے اور بہت عرصے سے ایک مارواڑی سوداگر اسے بیچنا چاہتا تھا۔ لیکن اس زمین کی قیمت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی تھی اور وہ بےچارہ اس پریشانی میں تھا کہ اسے کب اور کیسے بیچے جب اس نے یہ زمین خریدی تھی اس نے دو روپے گز کے حساب سے لی تھی اور اب لوگ اس کے دس روپے گز دینے کے لئے تیار تھے۔ اس نے سوچا وہ اسے بیچ دے کہ دوسرے روز کسی دوسرے سوداگر نے گیارہ روپے گز کے حساب سے زمین خریدنے کی بولی دی۔ تیسرے روز بھاؤ بارہ روپیہ ہوگیا۔ بےچارہ مارواڑی بہت پریشان تھا کہ کیا کرے۔ متواتر چھ سال سے وہ اسے بیچنا چاہ رہا تھا اور اسی وجہ سے نہ بچ سکتا تھا کہ لوگ اس کے دام زیادہ ہی لگاتے چلے جا رہے تھے، اس اثناء میں یہاں بلوچ خانہ بدوشوں کا قافلہ آ کے آباد ہو گیا۔ کشمیری مسلمان آئے جو لکڑیوں کے گودام پر کام کرتے تھے، ڈاک یارڈ روڈ پر اور پھر سود خوار پٹھان جو اپنے میلے واسکوٹ میں روپے سینے سے لگائے سو روپے پر سو روپے سود لینے کے لئے مزدوروں اور کلرکوں اور بے کار فلمی ادبیوں کی تلاش میں گھومتے تھے۔ اس قطعے میں خیمے لگے تھے اور چھپر اور کئی جگہ تو صرف درخت کے تنے سے تاڑ کے پتوں کی چھت لگا دی گئی تھی کہ بارش میں بھیگنے سے بچ جائیں۔ فساد کے دوران میں یہ بستی آہستہ آہستہ خالی ہوتی گئی اور اب تو چند دنوں سے بالکل ہی خالی پڑی تھی۔ کملا کر نے پوچھا۔ دھورت سنگھ ، ارے وہاں تو اب کوئی نہیں رہتا۔

دھورت سنگھ نے کہا۔ وہاں تو کوئی نہیں تھا۔ یہ دو کشمیری مسلمان آئےتھے۔ میاں بیوی اپنے کسی رشتے دار کو پوچھتے ہوئے۔ مجھے لڑکوں نے بتایا میں نے کہا آؤ تمہیں ان سے ملا دوں۔ بس میں انہیں ادھر لے گیا اور وہیں انہیں ختم کر دیا۔….. چلئے ادھر تاڑ کے جھاڑ کی طرف…..

دونوں نوجوان تھے کپڑے میلے کچیلے، ہونٹوں پر حیرت اور ڈر اور ایک ایسا انجان بھولپن جیسے اپنی موت کا یقین نہ آتا ہو۔ جیسے ان کی زندگیاں کہہ رہی ہوں۔ ہمیں یہاں مرنا نہیں ہے۔ ہم تو ولر سے آئے ہیں۔ ہم شہد، زعفران اور سپید برف کے دیس سے آئے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں آج سیب کے پھول کھلے ہوئے ہیں اور مخملیں سبزے کا فرش ہے اور آڑوں کے سرخ پھولوں کے گچھے لٹک رہے ہیں۔ اور ناشپاتیوں کی شاخوں میں سبز چکنی چکنی پتیاں پھوٹ رہی ہیں اور جہلم کا شفاف پانی نیلے پتھروں سے پھسلتا ہوا گنگنا رہا ہے۔ ہمیں ہماری زندگیاں واپس دے دو۔ ہم یہاں نہیں رہیں گے۔ ہمارا دیش کشمیر ہے۔

لڑکی کی نازک گردن میں شہ رگ پر زخم تھا اور اس کے ماتھے پر کشمیر کی صبح رو رہی تھی اور اس کے ہونٹوں پر پرائے دیس کی اوس تھی اور اس کی نیلی آنکھوں کے جھرنے خاموش تھے اور اس کا ہات اپنے خاوند کے ہاتھ میں تھا اور کشمیر کا شہزادہ اپنے صدیوں کے چیتھڑوں میں لپٹا ہوا اپنی غربت اور نکبت اور یاس کے باوجود اس قتل گاہ کے خونیں تخت پر ایک عجب تمکنت سے سو رہا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ اپنی بیوی کے ہات میں تھا اور دوسرا اکڑا ہوا ہات ایک مجسم سوال بن کے فضا میں معلق تھا۔ اس کے جسم پر بہترے گھاؤ تھے۔ کیونکہ اس نے مدافعت کی کوشش کی تھی اور مرتے دم تک اپنی محبوبہ ، اپنی بیوی،  اپنی زندگی کی عزت کو بچانا چاہا تھا۔ ایک ناکام کوشش کے بعد کشمیر مر گیا تھا اور دھان کے کھیت سوکھ گئے تھے اور برف شرم سے اور خوف سے دھرتی میں سماگئی تھی اور وہ اکڑا ہوا ہات کہہ رہا تھا۔ ظالمو! تم نے مسلمانوں کو نہیں مارا ہے۔ تم نے انسان کو مارا ہے۔ تم نے ہندوستان کو مارا ہے۔ تم نے تاج محل فتح پوری سیکری اور شالا مار کو قتل کیا ہے۔ یہ اشوک کی لاش ہے۔ یہ اکبر کا کفن ہے۔

 یہ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا مردہ ہے۔ یہ مرد سیاست دان ہندو اور مسلمان یہ سائنتی جاگیر دار۔ یہ فریبی سرمایہ دار کس کے خون سے اور کس کی بربادی سے اپنی حکومتوں کی تعمیر کر رہے ہیں۔

کملا کر نے ہنس کر کہا۔ بڑے ٹھاٹ سے آئے تھے اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے کے لئے۔ معلوم نہیں تھا یہاں دادا کملاکر سے ملاقات ہو گی۔ کملاکر کے گر گے ہنسنےلگے۔

کچھ توقف کے بعد کملا کر نے جیب سے سو روپے کے نوٹ نکال کے دھورت سنگھ کو دیئے اور اس سے کہا۔ ان لاشوں کو ٹھکانے لگا دو۔

 شام کے اخبار ہند میں کملا کر نے پڑھا۔ آج بمبئی میں بالکل امن رہا۔ اگری پاڑہ۔ گول پیٹھا۔ ڈونگری۔ کالبا دیوی۔ بھنڈی بازار کہیں کوئی واردات نہیں ہوئی۔ صرف لال باغ میں چاقوزنی کی چار وارداتیں ہوئی ،باقی سب جگہ امن ہے۔

 کملا کر نے مسکرا کر اخبار کو تہہ کر کے پان والے کو دے دیا اور اس سے کہا۔ ایک بنڈل شیرمارکہ بیڑی کا دے دو اور یہ ہے تمہاری کو کین!

ٹھنڈا گوشت میں شامل افسانے

خلاصہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks